پاکستان کے وفاقی وزیر توانائی سردار اویس احمد خان لغاری نے کہا ہے کہ انڈپینڈنٹ پاور پروڈیوسرز (آئی پی پیز) کے ساتھ تمام مذاکرات آزاد، منصفانہ اور شفاف انداز میں کیے جا رہے ہیں اور معاہدوں کی شرائط کے مطابق فریقین کو مذاکرات سے علیحدگی، ثالثی کا سہارا لینے یا فرانزک آڈٹ کا انتخاب کرنے کا مکمل اختیار حاصل ہے۔
سرکاری خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس آف پاکستان (اے پی پی) کے مطابق وفاقی وزیر توانائی نے پیر کو بجلی کے شعبے میں اصلاحات اور مستقبل کے لائحہ عمل پر بین الاقوامی ترقیاتی شراکت داروں کے ساتھ تفصیلی اجلاس میں شرکت کی۔
اس موقعے پر انہوں نے ملکی معیشت کے لیے بجلی کے ٹیرف کو متوازن کرنے کی کوششوں کی اہمیت پر زور دیا۔
ان کا کہنا تھا کہ حکومت تمام ترقیاتی شراکت داروں کو شامل کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات کر رہی ہے اور اس مقصد کے لیے پالیسی سازی اور اس کے نفاذ کے عمل میں جامع حکمت عملی اپنائی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے مزید کہا کہ شفافیت کو یقینی بنانے کی بدولت حکومت نے انڈی کیٹیو جنریشن کیپیسٹی ایکسپینشن پلان (آئی جی سی ای پی) میں سے 17000 میگاواٹ میں سے تقریباً 7000 میگاواٹ بجلی کے منصوبے منسوخ کر دیے جس کے نتیجے میں مہنگی بجلی کے اخراجات میں نمایاں بچت ممکن ہوئی ہے۔
وفاقی وزیر نے اجلاس کے شرکا کو آگاہ کیا کہ پاور ڈویژن نے مؤثر اور منظم اصلاحات متعارف کرائیں جن کا مقصد بجلی کے نرخوں کو زیادہ مسابقتی اور صارفین کے لیے، خصوصاً صنعت کے لیے، سستا بنانا ہے۔
اویس لغاری نے پاور ڈویژن کی مختلف اصلاحات سے آگاہ کیا جن میں ٹیک اور پے سے ٹیک اینڈ پے سسٹم میں منتقلی، فرنس آئل سے چلنے والے بجلی گھروں کا خاتمہ اور درآمدی کوئلے پر چلنے والے پلانٹس کی مقامی کوئلے پر منتقلی شامل ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ بجلی کی پیداوار کا وسیع اور تفصیلی مطالعہ کیا جا رہا ہے جس سے یہ بات سامنے آئی ہے کہ ماضی میں ہم نے کم ترین لاگت کی پالیسی اختیار نہیں کی، لیکن اب یہ پالیسی کم ترین لاگت پر مبنی ہو گی۔
وزیر نے گردشی قرضے کے خاتمے کے حوالے سے بتایا کہ حکومت اگلے پانچ سے آٹھ سال میں اسے مکمل ختم کرنے کا واضح لائحہ عمل دینا چاہتی ہے۔
انہوں نے مزید کہا کہ بجلی کے محصولات کے خاتمے اور سبسڈی کے توازن کو یقینی بنانا بھی بجلی کے ٹیرف کی تنظیم نو کی ایک اور اہم پیش رفت ہے۔
انہوں نے یہ بھی بتایا کہ نیٹ میٹرنگ کے نظام پر نظرثانی زیر غور ہے کیوں کہ اس کی موجودہ پالیسی باقی صارفین پر 150 ارب روپے کا اضافی بوجھ ڈال رہی ہے۔