زندگی کے دوسرے شعبوں کی طرح شعر و ادب کو بھی تغیرات زمانہ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ادب چونکہ زندگی سے اور معاشرے سے جڑا ہوتا ہے اس لیے یہ گردو پیش میں رونما ہونے والی تبدیلیوں کے اثرات بھی قبول کرتا ہے۔ بدلتا ہوا ماحول اور بدلتے ہوئے سماج سے ادب بھی تبدیل ہوتا ہے۔ کچھ اصناف اور روایات جو ماضی میں بہت مستحکم اور مقبول سمجھی جاتی تھیں آج تاریخ کا حصہ بن چکی ہیں۔ رباعی، سانیٹ، سہرا، تاریخ وفات لکھنے والے مٹ گئے اور ان کے ساتھ ہی یہ اصناف بھی دم توڑ گئیں۔
21ویں صدی کا دوسرا عشرہ شروع ہوا تو ہم ٹیکنالوجی کے انقلاب کی جانب بڑھ رہے تھے، موبائل فون کا استعمال تو شروع ہو چکا تھا لیکن ابھی بہت سے لوگ ان سے دور تھے۔ سوشل میڈیا بھی ابھی ابتدائی زمانے میں تھا اور ایپس کا زمانہ تو کسی کے خیال میں بھی نہیں تھا۔ ادب آج سے دس برس قبل اخبارات، کتابوں اور رسائل و جرائد کے ذریعے فروغ پاتا تھا۔ مشاعرے اور تنقیدی محافل بھی عروج پر تھیں۔ آج جب یہ عشرہ اختتام پذیر ہو رہا ہے تو ہمیں شعر و ادب میں بھی کئی تبدیلیاں دکھائی دے رہی ہیں۔ بہت سی اصناف اور روایات ایسی ہیں جو اس عشرے میں ختم ہو گئیں یا اختتام کی جانب بڑھتی دکھائی دے رہی ہیں۔ سال 2020 کے آغاز پر آئیے دیکھتے ہیں پچھلے دس برسوں کے دوران ادب کی کون سی دس اصناف اور سرگرمیاں ختم ہوئیں یا معدوم پڑ گئیں۔
1۔ انشائیہ نگاری
انشائیہ نگاری اردو ادب میں بہت مقبول اورمتنازع صنف کے طور پر جانی جاتی تھی۔ لاہور اورسرگودھا کے دبستان انشائیے کے حوالے سے 80 کی دہائی میں خوب برسرپیکار رہے۔ ڈاکٹر وزیرآغا اور ڈاکٹر انور سدید دبستان سرگودھا کی نمائندگی کرتے تھے اور دوسری جانب احمد ندیم قاسمی اور ڈاکٹرسلیم اختر دبستان لاہور کے نمائندہ تھے۔ یہ دونوں دبستان ایک دوسرے کے انشائیہ نگاروں کو تسلیم نہیں کرتے تھے لیکن اس کے باوجود دونوں جانب سے انشائیہ خوب لکھا جا رہا تھا۔
ایک طویل فہرست ایسی قلم کاروں کی ہے جو بطور انشائیہ نگار مقبول ہوئے۔ لیکن آج انشائیہ ماضی کا حصہ بن گیا ہے کہ اس کی جگہ کالم نگاری اور بلاگنگ رائج ہو گئی ہے۔
2۔ مکتوب نگاری
جدید ٹیکنالوجی نے سب سے زیادہ مکتوب نگاری کو متاثر کیا۔ اگرچہ خط لکھنے کی روایت گذشتہ عشرے میں ہی کمزور پڑ چکی تھی اس کے باوجود کچھ لوگوں نے اس روایت کو ابھی زندہ رکھا ہوا تھا۔ ڈاکیا روزانہ نہ سہی لیکن کبھی کبھار کوئی خط لے کر دروازوں پردستک ضرور دیتا تھا۔
اسی طرح عید کارڈ ابھی مکمل طور پر ختم نہیں ہوئے تھے۔ پھر موبائل فون کے ذریعے ایس ایم ایس، واٹس ایپ اور ای میل کو فروغ ملا تو خط کی ضرورت ہی ختم ہو گئی۔ سرکاری خط و کتابت اور چٹھی رسانی بھی واٹس اپ اور ای میل پر منتقل ہو گئی۔ خطوط نگاری بہت اہم صنف ادب تھی۔ اقبال، غالب، جوش سمیت مشاہیر کی زندگیوں کا بہت سا احوال ان کے خطوط کے ذریعے ہی سامنے آیا۔ مکتوب نگاری کے خاتمے سے مستقبل کے محققین کو جو مشکلات پیش آئیں گی ان کا سردست کسی کو ادراک ہی نہیں۔ نہ صرف یہ کہ مکتوب نگاری ختم ہوئی بلکہ شاعری اور گیتوں میں بھی خط کبوتر اورچٹھی کی جگہ واٹس ایپ اور مس کال کا ذکر ہونے لگا ہے۔
3۔ ادب کے سالانہ جائزے
ادب کے سالانہ جائزے کئی برسوں تک بہت مقبول اور ادب کا لازمی حصہ رہے، جائزہ نگاری کے حوالے سے دو ناقدین نے بہت شہرت حاصل کی۔ ڈاکٹرانور سدید اور ڈاکٹر سلیم اخترادب کی جائزہ نگاری میں معتبرسمجھے جاتے تھے۔ یہ دونوں الگ الگ داستانوں اور مکاتب فکر سے تعلق رکھتے تھے اور بہت محنت کے ساتھ سالانہ ادبی جائزے تحریر کرتے تھے۔ لوگ ان جائزوں کا انتظار کرتے اور ادیب شاعر ان میں اپنے نام تلاش کرتے تھے۔
ان کے علاوہ مختلف شہروں اورعلاقوں کے بھی الگ الگ جائزے منظرعام پر آتے تھے۔ سال بھر کی تخلیقات کتابوں اور سرگرمیوں کا یہ محاکمہ لکھنے والوں کو متحرک رکھتا تھا اور نئے لوگوں کا حوصلہ بڑھاتا تھا۔ علاقوں کے علاوہ مختلف اصناف اور زبانوں کے بھی الگ الگ جائزے تحریر کیے جانے لگے۔ پنجابی، سرائیکی، پشتو، سندھی اور بلوچی کے علاوہ نظم، غزل، افسانے اور انشائیے کے الگ الگ جائزے لکھنے والوں نے اس زمانے میں بہت پذیرائی حاصل کی۔ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ یہ جائزے مختصر اور محدود ہوتے چلے گئے۔ اب سال کے اختتام پربعض اخبارات مجموعی جائزوں میں اختصار کے ساتھ ایک آدھ صفحہ یا پیراگراف ادب کا بھی شامل کر دیتے ہیں اور ہم اسے بھی غنیمت سمجھتے ہیں۔
4۔ ماہیا نگاری
ماہیا پنجابی کی ایک صنف تھی جو اردو میں بھی رائج ہوئی اور بہت سے شاعروں نے اس میں طبع آزمائی کر کے اپنی پہچان کرائی۔ ان شعرا میں حیدر قریشی، بشیر سیفی، جمیل ملک، اعجاز چوہدری، امین خیال افضل چوہان، نصیر احمد ناصر، علی محمد فرشی کے نام قابل ذکر ہیں۔ اب بھی کچھ لوگ ماہیے کہہ رہے ہیں اوران میں بعض شاعر ایسے بھی ہیں جن کے اس صنف میں ایک سے زیادہ مجموعے شائع ہوئے لیکن بحثیت مجموعی اس صنف سخن کا تذکرہ اب ماضی کاحصہ بنتا جا رہا ہے۔
5۔ ہائیکو نگاری
ہائیکو 1980 کے لگ بھگ متعارف ہوئے اور ملتان سے تعلق رکھنے والے نامور شاعر اور دانشور ڈاکٹر محمد امین نے اسے بطور صنف اردو میں متعارف کرایا۔ ڈاکٹر امین سے پہلے اگرچہ حمایت علی شاعر ثلاثی کا تجربہ کر چکے تھے لیکن ہائیکو کو اس کے باوجود پذیرائی ملی۔ ملتان کراچی راولپنڈی ہائیکو کے مراکز قرار پائے اور محسن بھوپالی سمیت بہت سے نامور شعرا نے ہائیکو نگاری میں نام کمایا۔ حمدیہ، نعتیہ اور حسینی ہائیکو بھی کہے گئے اور ہائیکو کے مشاعرے بھی منعقد ہوئے۔
آج ہائیکو بھی ایک فراموش کی گئی صنف دکھائی دیتی ہے۔ ہائیکو نگاری اگرچہ جاری ہے لیکن اس کا مرکز اب صرف کراچی ہی دکھائی دیتا ہے اور اس کی بنیادی وجہ جاپانی قونصل خانہ ہے جو اس صنف کے فروغ میں معاونت کر رہا ہے۔ جاپانی قونصل خانے کے زیر اہتمام ہائیکو کے مشاعروں کا اہتمام ہوتا ہے اور ہائیکو پر تحقیقی کام بھی کروایا جاتا ہے۔ ان مشاعروں اور ہائیکو پر کم کرنے والوں کو معقول مشاہرہ بھی دیا جاتا ہے اور اب یہی ایک کشش اس صنف کو آگے بڑھا رہی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
6۔ پابند نظم
نظم نگاری اردو شاعری میں فی زمانہ خوب رائج ہے اور نظم گو شعرا کومختلف مشاعروں میں بھرپور پذیرائی بھی حاصل ہوتی ہے۔ گذشتہ عشرے کے مقابلے میں تبدیلی یہ آئی ہے کہ اب پابند نظمیں کہنے والے رخصت ہو چکے ہیں۔ پابند نظم میں مسدس، مثنوی یا ابیات کی صورت میں جو نظمیں کہی جاتی تھیں ان کی جگہ وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ نثری نظم اورنظم معریٰ مقبول ہوگئی۔ پابند نظم ختم ہوئی تو مرثیہ اور منقبت کہنے والے شعرا کی تعداد بھی خال خال رہ گئی۔ مرثیہ اور منقبت اگرچہ اب بھی کہی جاتی ہے لیکن تواتر کے ساتھ ان اصناف میں طبع آزمائی کرنے والے چند شاعر ہی باقی رہ گئے ہیں کہ اس کی جگہ سلام اور دیگر اصناف نے زیادہ مقبولیت حاصل کر لی ہے۔ اس طرح ہم کہہ سکتے ہیں کہ گذشتہ عشرہ پابند نظم کے زوال کاعشرہ بھی ثابت ہوا۔
7۔ غیر منقوط اصناف
غیر منقوط نظم یا نثرتحریر کرنا کوئی آسان کام نہیں۔ غیر منقوط تحریر سے مراد وہ تحریر ہے جس میں سب الفاظ ایسے استعمال کیے جاتے ہیں جن میں نقطہ نہیں آتا۔ اس کے لیے زبان و بیان پر مکمل گرفت انتہائی ضروری ہے۔ ماضی میں غیرمنقوط نثر اور شعر کہنے والی ایک سے زیادہ شخصیات موجود تھیں۔ ’ہادی عالم‘ اردو میں سیرتِ نبوی پر سب سے پہلی غیر منقوط کتاب ہے جو مولانا ولی رازی نے لکھی۔ صل علی محمد، صائم چشتی کی نعتیہ شاعری کی کتاب ہے جب کہ غیر منقوط ترجمہ قرآن ڈاکٹر محمد طاہر مصطفیٰ نے تحریر کیا اس کے علاوہ بہاولپور سے تابش الوری بھی غیر منقوط نعتیہ مجموعہ منظر عام پر لائے۔ آج اس عشرے کے اختتام پر ہمیں غیرمنقوط ادب تحریر کرنے والے اکا دکا قلم کارہی دکھائی دیتے ہیں وگرنہ عملی طور پر یہ اصناف ختم ہو گئی ہیں۔
8۔ کل پاکستان مشاعرے
ایک زمانہ تھا کہ آئے دن بڑے پیمانے پر مشاعرے ہوتے تھے جن میں ملک بھر سے شاعر آتے تھے اور ہزاروں لوگ انہیں سنا کرتے تھے۔ اب ایسے بڑے مشاعرے عنقا ہو گئے ہیں اور نہ ہی اتنے نامور شاعر موجود ہیں جو لوگوں کو کھینچ کر مشاعرہ گاہ تک لانے کی کشش رکھتے ہوں۔
راولپنڈی کے لیاقت باغ میں 2003/2004 میں ایک ایسا ہی مشاعرہ ہوا تھا جس میں منیر نیازی، احمد فراز، احمد ندیم قاسمی، ضیاء جالندھری، ظفر اقبال، انور شعور، امجد اسلام امجد، اور دیگر کئی اہم شاعروں نے شرکت کی تھی۔ ان سے میں سے پہلے چار تو اللہ کو پیارے ہو گئے، بقیہ عوام سے کٹ گئے۔
اب اگر مشاعرے ہوتے بھی ہیں تو وہ کسی کانفرنس کے حاشیے پر منعقد ہوتے ہیں، یا قومی ٹیلی ویژن یا ریڈیو محرم یا چودہ اگست جیسے خاص موقعوں پر ان کا انعقاد کرواتے ہیں۔
ہاں یہ ضرور ہے کہ چھوٹے شہروں میں ضرور مشاعرے ہوتے ہیں جہاں لوگ جوش و خروش سے شرکت کرتے ہیں۔
9۔ ریڈیو، ٹی وی کے ادبی پروگرام
اس عشرے کے آغاز تک ریڈیواورٹیلی ویژن پرادبی پروگرام اورمشاعرے تواتر کے ساتھ نشراور ٹیلی کاسٹ کیے جاتے تھے ان ادبی پروگراموں میں قلم کاراپنی تخلیقات پیش کرتے تھے۔ مختلف موضوعات پرمذاکرے ہوتے تھے اورانٹرویوز بھی شامل کیے جاتے تھے۔ مشاعرے مختلف تہواروں اورقومی دنوں پرریڈیو، ٹی وی کے ہرسنٹر سے نشر اور ٹیلی کاسٹ ہوتے تھے، اور ان میں شرکت یقینی بنانے کے لیے شاعروں کی تگ و دو جاری رہتی تھی۔ پی ٹی وی کے مشاعروں میں شرکت بذات خود ’آرٹ‘ بن چکی تھی اور جیسے آج کل بعض چہرے ہر ادبی میلے میں دکھائی دیتے ہیں اسی طرح بعض شاعر بھی ہر مشاعرے میں ناگزیر سمجھے جاتے تھے۔ ادب جب زندگی کے دیگرشعبوں سے رخصت ہوا تو ریڈیو، ٹی وی نے بھی اسے غیر ضروری سمجھ لیا۔ ٹی وی اب صرف مزاحیہ مشاعروں تک محدود ہو گیا ہے اور ریڈیو پرتو اس کی ضرورت بھی محسوس نہیں کی جاتی۔
10۔ ادبی اخبارات اور ایڈیشن
گذشتہ عشرے کے دوران مختلف ادبی اخبارات اوراخبارات کے ادبی ایڈیشن تواتر کے ساتھ شائع ہوتے تھے اگرچہ یہ بحث عام تھی کہ یہ ایڈیشن ادب کوفروغ دے رہے ہیں یا ان کے ذریعے ادیبوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے لیکن اس کے باوجود ادبی اخبارات اورادبی ایڈیشن شعروادب کے فروغ میں اپنا کردارادا کر رہے تھے۔ اخبارات یہ ایڈیشن ہفتہ وار شائع کرتے تھے جن میں ادیبوں کے انٹرویوز، سروے، مضامین اور غزلیں شائع ہوتی تھیں۔
یہ رنگین اشاعتیں لوگوں کو اپنی جانب متوجہ کرتی تھیں اور ان کے ذریعے بعض ادیبوں کوبھی نمایاں ہونے کا موقع ملا۔ ادبی اخبارات کے مدیر وں اور ادبی ایڈیشنوں کے انچارج صاحبان کو ادبی حلقوں میں بہت اہمیت دی جاتی تھی اور وہ اپنی ایڈیٹری کے زور پر ملک بھر کے مشاعروں اور کانفرنسوں میں بھی شرکت کرتے تھے۔
پھر بعض اخبارات نے یہ ایڈیشن بلیک اینڈ وائٹ صفحات پرمنتقل کر دیے۔ اسی طرح جن اخبارات نے ادب کی رنگینی کو برقرار رکھا انہوں نے پورے صفحے کی بجائے اسے آدھے صفحے یا چوتھائی صفحے تک محدود کر دیا۔ ادبی اخبارات اورادبی ایڈیشن اب ماضی کاحصہ بن چکے ہیں۔ اکا دکا اخبار ات اب بھی ادبی ایڈیشن شائع کرتے ہیں ورنہ جس طرح یہ ایڈیشن ہر اخبار کا حصہ ہوتے تھے اورایک کی بجائے بعض اخبارات ادب کے لیے دو صفحات بھی مختص کردیتے تھے۔ وہ سلسلہ ختم ہوا کہ گویا اخبار کے قاری کو اب ادب کی ضرورت نہیں رہی۔