21 ویں صدی کی دوسری دہائی کے دس بڑے ناول

پچھلے دس برسوں میں اردو کے سب سے اہم ناول کون سے سامنے آئے؟

2010 سے 2019 تک کے دس برسوں میں متعدد ناول اردو دنیا میں منظر عام پر آئے جن میں سیاسی، سماجی، گھریلو، تاریخی اور ثقافتی مسائل سے متعلق موضوعات کو سمویا گیا ہے۔ ان ناولوں میں سے دس کی درجہ بندی میں مندرجہ ذیل احتیاطوں کو پیش نظر رکھا گیا ہے:

  • ناول سادہ بیانیہ انداز میں تین چار نسلوں کی روداد نہ ہو بلکہ میچور اور زندہ کردار ہوں۔
  • ناول کا پلاٹ قدرے گنجلک ہو کہ جس پر خود ناول نگار کی گرفت انسانی کردار کے احاطے میں قدرے ناکام ہو۔
  • تکنیک اور اسلوب و زبان کے حوالے سے یا کہانی کو پیش کرنے کے لیے کوئی نیا زاویہ اختیار کیا گیا ہو۔
  • بڑے بیانیوں کے زیر اثر کرداروں کے حقیقی اور حسیاتی معاملات و مسائل کو اجاگر کیا گیا ہو۔
  • چھوٹے بیانیوں کی شناخت کے حوالے سے موجود بے بسی کے کلچر پر بھی گرفت کی گئی ہو۔
  • کردار ناول نگار کے نظریۂ حیات سے بارہا بدکنے والے ہوں۔
  • کردار کسی بھی نسلی، گروہی، قومی، ثقافتی یا مذہبی حوالوں سے اپنی فکری اساس میں ان کی رد تشکیل کا رجحان رکھتے ہوں۔

نیچے دیے گئے ناولوں کی درجہ بندی کے لیے ان میں سے کسی ایک یا ایک سے زیادہ خصوصیات کی موجودگی کو ضروری سمجھا گیا ہے۔

10

درجہ بندی میں دسویں نمبر پر آنے والا ناول علی اکبر ناطق کا ’نولکھی کوٹھی‘ ہے۔ اس ناول کے سارے کردار روایتی اس لیے بھی ہیں کہ تقسیم پر لکھے جانے والے درجنوں ناولوں میں یہ ممکن نہیں تھا کہ تاریخی واقعات یا ان کی واقعیت کو تبدیل کیا جا سکتا تھا۔ تاہم اس ناول کا ایک انگریز کردار ولیم ہے جس نے اس ناول کو اردو کی تاریخ میں ایک خاص اہمیت عطا کر دی ہے۔

وہ یہ ہے کہ شاید ہی کوئی اردو ناول ہو جس میں ایک انگریز جو خود اپنی نولکھی کوٹھی کا مقیم ہے اور اپنے آپ کو ہندوستانی ثابت کرنے اور ہندوستانی سرزمین سے اپنی جڑت کی اہلیت کو دکھانے کے تقسیم سے قبل و مابعد جتن کرتا رہتا ہے، لیکن افسوس اس کی حب الوطنی کو ہندوستان اور پھر پاکستان میں ہمیشہ مشکوک ہی سمجھا گیا، حالانکہ وہ سرکاری افسر بھی تھا۔ یہاں تک کہ خود اس کے خاندان کے لوگ بھی اسے چھوڑ کر انگلستان چلے جاتے ہیں۔

ایک اجنبی دیس کے باشندے کی کسی دوسرے وطن کے ساتھ قلبی محبت اور لگاؤ دکھا کر ناطق نے اپنے ناول میں انسانی اقدار کے اس پہلو کو بڑی عمدگی سے نمایاں کیا ہے۔

ناطق کے ناول کا یہ کردار نولکھی کوٹھی کو ہمیشہ کے لیے زندہ رکھے گا۔

9

نویں نمبر پر آنے والے ناول کا عنوان ہے ’چار درویش اور ایک کچھوا‘ ہے جسے سید کاشف رضا نے تحریر کیا ہے۔ یہ ناول بنیادی طور پر مذہبی انتہا پسندی، اس کے عسکری نیٹ ورک، نظریاتی سہولت کاری اور طریقۂ  کار کے سخت خلاف اپنا محاذ بناتا ہے۔ ناول میں 70 کے بعد کی سیاسی صورتِ حال بیان کی گئی ہے۔

اس کا مرکزی کردار غرب اور سماجی پسماندگی سے تعلق ہونے کی وجہ سے اپنی توہین کو زیادہ عرصہ برداشت نہیں کر پاتا اور ایک روز اپنی اہانت اور عزت نفس کو مجروح ہوتا دیکھ کر ایک آدمی کو اشتعال میں قتل کر دیتا ہے۔ اس کا نام بالا ہے جو گھر سے بھاگ کر جلال پور شریف کے حافظ حکیم برکت اللہ کے پاس چلا جاتا ہے۔ وہیں اسے دہشت گردی کی تعلیم دی جاتی ہے اور ایک روز خود سانحۂ کارساز کراچی میں کام آ جاتا ہے۔

ناول میں چار درویشوں کی بپتا کے ساتھ ساتھ ایک پانچواں کردار کچھوا بھی شامل ہے جو کہانی میں ربط پیدا کرنے کے لیے ارشیمیدس کی سچائیوں کو گاہے بگاہے بیان کرتا رہتا ہے۔ انسانی کرداروں کے ساتھ کچھوے کی شمولیت نے اس ناول کو منفرد بنا دیا ہے۔

8

درجہ بندی میں آٹھویں نمبر پر آنے والا ناول ’جاگے ہیں خواب میں‘ ہے، جسے اختر رضا سلیمی نے تحریر کیا ہے۔ اس ناول کا ہیرو زمان ساتویں پشت میں جا کر سید احمد شہید کے مریدین میں شامل دو نوجوان مجاہدین سے بنتا ہے جو سید احمد کی شہادت کے بعد اس کا انتقام ایک سکھ سورما سے لیتے ہیں۔ یونیورسٹی میں فزکس کا طالب علم ہے لیکن اس کے ہاتھ پر بنی لکیریں وہی ہیں جو علاقے میں موجود ایک چٹان کندہ ہیں، وہ اس راز سے آگاہ ہونے کی بہت کوشش کرتا ہے۔ اسی چٹان سے بنے ایک غار میں جب وہ موجود ہوتا ہے تو زلزلے کے باعث وہیں دب جاتا ہے، زخمی حالت میں نکال کر جب اسے ہسپتال لایا جاتا ہے تو قدرے صحت یابی کے بعد وہ اپنے ارد گرد کی دنیا سے لاتعلق ہو کر اسے پہچاننے سے انکار کر دیتا ہے لیکن اب وہ خود جس شعوری دنیا سے آگاہ ہے اس کا تعلق یا تو اپنے جد امجد اور مجاہد نور خان سے ہے یا پھر سینکڑوں برس پہلے مہاراجہ اشوک کے دور سے ہے جس میں زمان ایک سرکاری افسر ہے اور اس کی ذمہ داری چٹان پر اشوک کا مقدس فرمان کندہ کرنے کی ہے۔ ناول کی کہانی میں ماضی سے حال یا حال سے ماضی کی طرف سفر کرنا اردو ناول میں کوئی نئی بات نہیں ہے لیکن مذکورہ ناول میں سلیمی نے اس اسلوب سے ایک اور کام لیا ہے یعنی ایک ہی کردار بیک وقت ماضی، حال اور مستقبل میں زندہ اور متحرک ہے۔ یہ تکنیک ایک مارکہ ہے۔

7

ساتویں نمبر پر آنے والا ایک ناول مشرف عالم ذوقی کا ’لے سانس بھی آہستہ‘ ہے۔ اس ناول میں ہمارے ایک مذہبی اور سماجی ٹیبو محرماتی جنسی تعلق کو موضوع بنایا گیا ہے جس کا ایک کردار نور محمد اپنی پیاری بیوی نادرہ کے انتقال کے بعد اس کی آخری خواہش کی تکمیل کے احترام میں اپنی ہر وقت رونے والی ذہنی معذور بیٹی کا دل و جان سے خیال رکھتا ہے۔

قصہ مختصر کہ انسیسٹ کی صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے لیکن اس میں باپ کی کسی جنسی ہوس کا دخل نہیں بلکہ اسے صورتِ حال کے سامنے بےبس دکھایا گیا ہے۔

ایک کردار پروفیسر کی وساطت سے ذوقی نے بتایا ہے کہ انسانی سماج، تہذیب، اقدار اور زمانے کی تبدیلی کے باعث ہم آج جس جدید دور میں زندہ ہیں، اس کی مشینی زندگی کے مایوس کن اور بور ترین لمحوں میں انسان نت نئے تجربات سے گزرتا ہے جس میں محرمات کی جنسی خواہش بھی شامل ہے۔

رشتوں کی حرمت کے حوالے سے ناول کے آخر میں نور محمد اور اس کا بچپن کا دوست رحمٰن کاردار دونوں مذہب اور سماج کے معروف بیانیے کو توڑ کر اس بات پر صدقِ دل سے مطمئن ہو جاتے ہیں کہ باپ بیٹی کا مذکورہ جنسی تعلق اپنے مخصوص ارتقا میں کسی بھی نوع کے احساسِ جرم، احساسِ ندامت اور احساسِ گناہ کا باعث ہرگز نہیں ہے۔ ان دونوں مردوں کے لیے اب 18 برس کی عمر کو پہنچی ہوئی نگار کی بیٹی کی سماجی حیثیت نواسی یا پوتی جیسی ہے۔ یہی خصوصیت اس ناول کو ممتاز بناتی ہے۔

6

چھٹے نمبر پر آنے والا ناول آمنہ مفتی کا تحریر کردہ ’ پانی مر رہا ہے‘ ہے۔ اس ناول میں مذہب، تاریخ اور عمرانیات کے بڑے بیانیے یعنی انسان مخلوقات میں عظیم ترین ہے، کے مقابلے میں دریاؤں کے فطری بہاؤ میں اور ان کے کناروں پر آباد قدیم ترین مخلوقات جل پریوں سے لے کر بھوت پریت اور حشرات تک کی فطری زندگی کے حق کا مقدمہ پیش کیا ہے کہ جسے ان دریاؤں کے کنارے تاحد نگاہ پھیلی ہوئی آباد کاری کے منصوبوں نے خطرے سے دوچار کیا ہوا ہے۔

 

دریاؤں کے قدیم فطری راستوں کو جس طرح سیاسی اور معاشی مجبوریوں کے باعث انسانوں نے غیر فطری بہاؤ میں تبدیل کرکے رکھ دیا ہے، اس کے باعث غیر انسانی مخلوقات کو اپنی معدومی کا شدید خطرہ لاحق ہو گیا ہے۔ وہ چاہتی ہیں کہ کسی طرح بھیانک عالمی جنگ چھڑ جائے، انسان صفحہ ہستی سے مٹ جائے اور ایک مرتبہ پھر انسان کے مصنوعی جہان کی جگہ فطرت اپنا اجارہ قائم کرلے۔ اس ناول کے کردار عرفان، اسرار اور نازنین اسی جہاں کے بھید کو پانے کے لیے مصروف کار ہیں اور خود بھی اسی جہاں کا مختصر عرصے کے لیے حصہ بن جاتے ہیں۔ اس ناول کا پلاٹ ایسے اچھوتے کرداروں کی وجہ سے کافی گنجلک ہے، ذرا سی بے دھیانی قاری کو ناول کے تھیم سے بہت دور لے جا سکتی ہے، یہی اس ناول کی فنی خوبی ہے۔

5

پانچویں نمبر پر آنے والا انیس اشفاق کا ناول ’دکھیارے‘ ہے، جس میں لکھنو کے ثقافتی اور تمدنی باقیات سے جڑے بڑے بیانیے کو ایک نیم پاگل شخص کی سرگزشت میں بیان کیا گیا ہے۔ عظیم اور شاندار لکھنو جس نے شمالی ہندوستان کے تہذیبی شہر دلی کے مقابلے میں ریاست کے شیعہ تشخص کو ادب، مجالس، میلوں ٹھیلوں، بازاروں، چوراہوں، گھروں، محلات، کوچوں، مساجد اور امام بارگاہوں کے ذریعے ایک دیکھنے لائق ثقافت میں ڈھال دیا تھا اور اپنی جمالیاتی قدروں کو زمانے سے منوایا تھا۔ نوابی بندوبست کے خاتمے کے ساتھ ہی اس کا زوال شروع ہو جاتا ہے، غربت محلات سے لے کر امام باڑوں تک کی قیمت لگا دیتی ہے لیکن اس شہر کی باسیوں کی نہ غربت کم ہو پاتی ہے نہ زندگی پر اختیار۔ ناول میں مرکزی کردار بڑے بھائی کے ذریعے گذشتہ لکھنو کی ثقافتی اقدار کو لکھنو کے مجروح تمدنی ماحول میں جہاں ایک طرف ملول دل کے ساتھ تحفظ کی علامت کے طور پر پیش کیا گیا ہے، وہیں اس شہر کے اطراف میں پھیلتی انسانی آبادیوں میں مسلسل اور بے تحاشا اضافے کے باعث اس شہر کے سکڑتے سکڑتے اس کی عظمت رفتہ کا نوحہ بھی بیان کر دیا ہے۔ اس ناول کے فن میں خوبصورتی یہ ہے کہ مضافات میں پھیلتے شہر میں کوئی شکایت بھی نہیں ملتی۔

4

درجہ بندی میں چوتھا بڑا ناول صفدر زیدی کا ’بھاگ بھری‘ ہے۔ یہ میرے خیال میں ’خس و خاشاک زمانے‘ کے بعد دوسرا بڑا مابعد جدید ناول ہے۔ اس ناول میں اسلامی پاکستان اور ہندو بھارت کے درمیان پائی جانے والی روایتی دشمنی، بڑے ثقافتی اور مذہبی بیانیوں پر ضرب کاری لگائی گئی ہے۔ دونوں ممالک اپنے اپنے بیانیوں کی ثقافتی سیاست میں جس بات پر اتراتے ہیں۔ وہ ان دونوں ممالک کا ایٹم بم کی صلاحیت حاصل کر لینا ہے۔ کفر کے خلاف جہاد اور پاکستانی مسلمانوں کے خلاف مکتی کے جذبات سے سرشار دو مذہبی بنیادوں پر اکسائے ہوئے گروہ اپنی کوشش میں کامیاب رہتے ہیں اور دونوں ممالک کے ایٹم بم ایک دوسرے کی بربادی کی خبر نشر کرنے کے لیے فضا میں چھوڑ دیتے ہیں۔

دونوں ممالک کے شہروں کو بچانے کے لیے ایک سپرپاور اپنی ٹیکنالوجی کے ذریعے ان دونوں ممالک کے بموں کا رخ جن گلیشیئرز کی طرف موڑتی ہے، ان گلیشیئروں کی برف کے پگھلنے سے دونوں تہذیبوں کے تمام بڑے چھوٹے شہر سیلاب بلا خیز میں غرق ہو جاتے ہیں اور چند لوگ جو بچ جاتے ہیں، ان کی اولادیں تابکاری اثرات کے باعث عجیب الخلقت پیدا ہونے لگتی ہیں۔ عالمی بندوبست کے مطابق مشترکہ تہذیب کی عظیم وراثت تاج محل کی ایک ایک اینٹ اٹھا کر اسے انگلستان منتقل کر دیا جاتا ہے۔ محبت کی اس علامت کو انگلستان منتقل کرنے کا سبب یہ بیان کرنا بھی ہے متشدد مذہبی و ثقافتی بیانیوں کی حامل تہذیبیں اس قابل نہیں ہیں کہ وہ کسی محبت کی علامت پر اپنا اجارہ ظاہر کریں۔ یہ ایک سادہ بیانیہ ناول ہے لیکن اس کی اچھوتی اور منفرد کہانی اس ناول کو ممتاز مقام عطا کرتی ہے۔

3

تیسرے نمبر پر ایک اور اہم ترین ناول خالد جاوید کا تحریر کردہ ’موت کی کتاب‘ ہے جس میں ایک نارمل انسان کی پیدائش کے بعد اس پر سماجی اخلاقیات کے دباؤ، اس کے حرامی یا ولدیت کے مشکوک ہونے کے طعنے، والدین کے لڑائی جھگڑے اور پھر علیحدگی، اپنی اپنی خاص نوعیتوں میں ماں اور باپ کی تربیت اور عدم دلچسپی کے نتائج، جنسی محرومی کے نتیجے میں سنگین نفسیاتی خلفشار، داخلی سطح پر غصہ، نفرت اور انتقام کا پھیلتا ہوا ناسور اور خواہش اور حقیقت کے درمیان پائے جانے والی بے بسی شامل ہیں۔ یہ سب مل ملا کر اسے پاگل خانے تک پہنچانے کا پورا پورا بندوبست کر دیتے ہیں۔

یہ ساری کہانی شعبہ آثار قدیمہ کے ایک ماہر پروفیسر والٹر شیلر کے توسط سے بیان ہوتی ہے جو دو سو سال قدیم ایک پاگل خانے کے کھنڈرات سے مسودے کی صورت میں دریافت ہوتی ہے۔ اس  کا مقصد دو سو سال پہلے کی سماجی زندگی کے انفرادی اور اجتماعی پہلوؤں سے آگاہی قرار دیا گیا ہے۔ لیکن کہانی بتاتی ہے کہ دو سو سال گزر جانے کے باوجود آج بھی ایسے کردار مل جاتے ہیں جو ناول کے کردار کی طرح اپنے ماحول کے معروف سماجی بیانیوں کی بھینٹ چڑھ کر اپنی نارمل زندگی کی خواہش سے ہاتھ دھو بیٹھتے ہیں۔ بے بسی ایسی کہ ناول کا مرکزی کردار اپنے باپ کو قتل کرنے کی شدید ترین خواہش کے باوجود قتل نہیں کر پاتا، اسی طرح اپنی خودکشی سے شدید لگاؤ کے باوجود اسے عملی جامہ نہیں پہنا پاتا۔ ’موت کی کتاب‘ ایک طرح کی نیم دیوانگی کے عالم میں کی گئی خود کلامی ہے، جو حقیقت یا خواہش پر دسترس کے وسائل سے محرومی کے نتیجے میں جنسی اور دیگر ذہنی، نفسیاتی بیماریوں کا پیش خیمہ بن جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کبھی شیرنی سے مباشرت چاہتا ہے اور کبھی کسی شریف آدمی کے منہ میں پیشاب کرنا چاہتا ہے۔ کبھی دنیا بھر کی عورتوں کو پاؤں تلے کچل دینا چاہتا ہے۔ غرض اس کی متشدد ذہنی کیفیات اس کے اختیار میں نہیں رہتیں۔ کسی پاگل کی ہر لمحہ بدلتی نفسی کیفیات اور ان کی توجیحات کو پیش کرنا اردو ناول میں اس سے قبل ممکن نہیں ہو سکا تھا۔ یہی بات اس ناول کو بے مثال بناتی ہے۔

2

دوسرے نمبر پر آنے والا ناول مرزا اطہر بیگ کا ’حسن کی صورتحال‘ ہے۔ اس ناول میں پلاٹ کو مختلف عنوانات میں تقسیم کرکے ان کے درمیان مصنوعی ربط کو جان بوجھ کر ڈھیلا رکھا گیا ہے تاکہ ہر عنوان کی اپنی مصنوعی اکائی سے قاری بھٹکنے نہ پائے اور جب وہ دوسرے عنوان کی طرف بڑھے تو نئے سرے سے ایک اور منطقے میں ذہنی طور پر داخل ہو جائے۔ بیگ صاحب نے کوشش کی ہے کہ وہ تمام بیانیے کہ جن کے سماجی تعلقات ہمارے روزمرہ کی زبان کے عادی ہوتے ہیں، ان سب کو توڑ کر نئے مفاہیم کے ذریعے ہر منظر، صورت حال، چیز یا کسی بحث کے بارے میں اٹھنے والے سوالات کی خالی جگہوں کو پُر کر دیا جائے۔ یوں مصنوعی توازن جو ہماری روز مرہ کی زبان کے عین مطابق ہوتا ہے وہ اس کی ردِ تشکیل کرکے حیرت انگیز امکانات کو سامنے لے آتے ہیں، جن سے قاری ہرگز آگاہ نہیں ہوتا، چنانچہ لا لکھت کو وہ باسہولت لکھت میں لے آتے ہیں۔

مثال کے طور پر ’اُچٹتے خوف کی داستان‘ میں ناول کا مرکزی کردار اپنی گاڑی پر آتے جاتے ہوئے مختلف مناظر دیکھتا ہے، ان تمام مناظر کی اپنے اپنے سیاق میں ایک حقیقی دنیا بھی ہے کہ جن تک رسائی حاصل کرنے کی بجائے کردار خود ان کی معنویت کی تشکیل اپنے خیال یا نقطہ نظر سے کرتا چلا جاتا ہے، یوں کردار حقیقت اور خیال کے درمیان آنے والی دوئی کو ایک اور امکانی حقیقت میں بدل دیتا ہے۔ اس طرح ’عظیم نجات دہندہ سے نجات‘ کے عنوان کے تحت پیش کی گئی صورت حال میں مختلف مذہبی، سیاسی اور قومی بیانیوں کی دھجیاں اڑائی گئی ہیں کہ کس طرح مخالف بیانیے ایک دوسرے کے خلاف عوامی بے خبری کا فائدہ اٹھاتے ہیں، جو محض بٹنے والی مٹھائی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ اس ناول میں ’گول میز کی کہانی‘ بھی موجود ہے کہ جس کا تاریخی سفر ایک چیز ہونے کے باوجود اپنے مالکان یا حاملین کے مذاق اور مزاج کی پوری دستاویز بھی رکھتا ہے۔ اسی طرح فلم اور تھیٹر کی صورت حال کو فلم اور تھیٹر کے اندر اور ان سے باہر کی صورت حال میں انسلاک اور تضاد کو بیک وقت قلم بند کیا گیا ہے۔ تکنیک اور کونٹینٹ کے حوالے سے سب سے منفرد ناول یہی ہے۔

1

2010 تا 2019 میں شائع ہونے والے ناولوں میں درجہ بندی کے اعتبار سے سب سے پہلا اور موثر ترین ناول مستنصر حسین تارڑ کا ناول ’خس و خشاک زمانے‘ ہے۔ یہ ناول فکری اور معنوی اعتبار سے پہلا باقاعدہ مابعد جدید ناول ہے۔ اردو کے اس پہلے مابعد جدید ناول میں جہاں نسلی، قومی، ثقافتی اور تمام بڑے بیانیوں کے سیاسی اور سماجی اطلاقات پر گرفت کر کے ان سے مایوسی اور علیحدگی کے تصور کو منظر عام پر لایا گیا ہے، وہاں ان بیانیوں کی فکری اشرافیہ کی ناروا اور متشدد ذہنیت کو بھی مد نظر رکھ کر ان سے پیدا شدہ مسائل کی نشاندہی کی گئی ہے۔ یہاں تک کہ ذات اور برادری کے وہ مقامی چھوٹے بیانیے کہ جن کی بابت خیال کیا جاتا ہے کہ وہ ہماری گروہی زندگی میں معاشی اور سیاسی تحفظ کا باعث بنتے ہیں، ایسے بیانیوں میں بھی ان کی کوئی نہ کوئی اشرافیہ ہوتی ہے جو اپنی مالی اور سیاسی حیثیت کے باعث اپنی ہی ذات اور برادری کے لوگوں سے فاصلہ رکھنے کے ان تمام رجحانات کی عکاس ہوتی ہے کہ جن کی بھیانک صورت گری ہمیں بڑے بیانیوں کی بڑی اشرافیہ میں نظر آتی ہے۔

 

اس کے ساتھ ساتھ ذات اور برادری کا یہی ’چوہدری پن‘ نئے زمانے کی ضروریات سے اپنے آپ کو ڈھالنے میں کامیاب نہیں ہو پاتا تو خود آہستہ آہستہ اپنی موت آپ مرتا جاتا ہے، اس کا سبب مستنصر نے پنجاب میں آباد ہونے والی غربت کی آخری لکیر سے بھی کہیں نیچے زندگی بسر کرنے والی کشمیری برادری کو قرار دیا ہے جو کہ اپنی غربت، پسماندگی، بے بسی اور سماجی سطح پر بری طرح سے منظر عام پر آنے والی نظر اندازی کو پس پشت ڈالتے ہوئے اپنی مسلسل محنت اور جد و جہد سے ادنیٰ درجے کے کاروباروں سے ترقی کرتے کرتے شہروں کے بڑی ملکیتوں والے کاروباری اور تاجر حضرات بن جاتے ہیں۔ اس ناول کی سب سے اہم بات یہ ہے کہ اس میں ناول کے اختتام تک آتے آتے انسانیت کے مستقبل کے لیے جو کردار بچ جاتے ہیں ان میں ایک لڑکی کی شباہت ہے جو نظر انداز شدہ اور سماجی اعتبار سے بے توقیر برادری ’سانسی‘ سے تعلق رکھتی ہے اور دوسرا کردار انعام کا ہے، جس کی ولدیت کی کوئی توثیق نہیں ہے یعنی نسلی، مذہبی اور ثقافتی حوالے سے جس کا کوئی پس منظر نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹاپ 10