عالمی ادارۂ صحت نے 2020 کو نرس اور مڈوائف کا سال قرار دیا ہے۔ اسی کی مناسبت سے انڈپینڈنٹ اردو نے ایک خصوصی سیریز تیار کی ہے۔ مندرجہ ذیل رپورٹ اسی لڑی کا پہلا حصہ ہے۔
جب ہم بیمار ہوتے ہیں تو فوراً کسی ہسپتال کا رخ کرتے ہیں۔ اگر علاج کے لیے ہمیں ہسپتال میں کچھ دن داخل ہونا ہو تو ہم وہ بھی سہہ لیتے ہیں اور پھر جب صحت یاب ہوتے ہیں تو خوشی خوشی ڈاکٹر کا شکریہ ادا کرتے وہاں سے چلے جاتے ہیں۔ لیکن اس سب میں ہم ان لوگوں کا شکر گزار ہونا بھول جاتے ہیں جہنوں نے بیماری میں ہمارا سب سے زیادہ خیال رکھا ہوتا ہے۔
یہاں بات ہو رہی ہے نرسوں کی۔ وہ خواتین اور مرد جو آپ کے پہلی مرتبہ ڈاکٹر کے پاس آنے، ہسپتال میں داخلے اور پھر صحت یاب ہو کر ڈسچارج ہونے تک آپ کا خیال رکھتے ہیں۔
وہ نہ صرف دن رات آپ کو وقت پر دوا دیتے ہیں، آپ کی مرہم پٹی کر رہے ہوتے ہیں بلکہ آپ کی صحت پر نظر رکھتے ہوئے ڈاکٹروں کو اس سے آگاہ بھی کر رہے ہوتے ہیں۔
اس کے باوجود ڈاکٹر سے کہیں زیادہ مریضوں کے ساتھ وقت گزارنے والے طبی عملے کے یہ افراد زیادہ تر نظر انداز ہی رہتے ہیں اور مریضوں اور معاشرے میں بھی ان کا وہ رتبہ اور عزت نہیں ہوتی جس کے وہ مستحق ہیں۔
جدید نرسنگ کی بانی فلورنس نائٹ انگیل کے دو سوویں یوم پیدائش کے موقعے پر عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) نے سال 2020 کو نرسوں اور مڈوائف کا سال قرار دیا ہے۔ اس سلسلے میں انڈپینڈنٹ اردو کی خصوصی سیریز میں ہم نرسوں کی خدمات کو خراج تحسین پیش کریں گے۔ یہ تحریر اس کی پہلی کڑی ہے۔
پاکستان میں نرسنگ کا شبعہ
دیگر شعبوں کی طرح پاکستان میں بھی نرسنگ کا ایک ریگولیٹری ادارہ موجود ہے۔ پاکستان نرسنگ کونسل (پی این سی) 1952 میں پاکستان نرسنگ کونسل آرڈیننس کے تحت وجود میں آئی اور پھر 1973 میں ایکٹ کے ذریعے اسے مزید مستحکم کیا گیا، جس کا مقصد نرسوں کو خودمختار بنانا ہے۔
پی این سی کے دائرہ کار میں ملک بھر میں نرسنگ کا ایک جیسا نصاب بنانا، نرسوں کی رجسٹریشن کرنا، نرسنگ سکول اور کالجوں کی رجسٹریشن کرنا، صوبائی نرسنگ ایگزامینشن بورڈز کی نگرانی کرنا، تعلیم اور پریکٹس کا معیار قائم رکھنا اور نرسنگ کے حوالے سے حکومتی فیصلوں میں مشاورتی کردار ادا کرنا شامل ہے۔
بہت سے لوگ یہ نہیں جانتے ہوں گے کہ نرسنگ کے شعبے میں آنے کے لیے بھی آپ کو چار سال تک پڑھائی کرنی ہوتی ہے جس میں تھیوری کے ساتھ ساتھ ہسپتالوں میں پریکٹس بھی شامل ہوتی ہے۔
پی این سی کی رجسٹرار فوزیہ مشتاق کے مطابق کچھ سال قبل تک نرسنگ میں داخلے کے لیے سائنس میں میٹرک لازمی تھا جس کے بعد آپ چار سال کا ڈپلوما کرتے تھے، مگر اب شعبے کے معیار کو بڑھانے کے لیے داخلے کی پالیسی میں تبدیلی لائی گئی ہے۔ نرسنگ کی پڑھائی اب بیچلر ڈگری میں بدل گئی ہے اور میڈیکل اور انجینیئرنگ جیسے ڈگری پروگراموں کی طرح نرسنگ کے پروگرام میں داخلے کے لیے سائنس میں انٹر تک کی تعلیم ہونا لازمی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
فوزیہ مشتاق کے مطابق جب انہوں نے 34 سال قبل نرسنگ پڑھی تھی تب نصاب میں صرف چار مضامین ہوتے تھے، لیکن تعلیم کے معیار کو بڑھانے پر کام ہوتا گیا اور اب چار سال کے پروگرام کے دوران 24 سے زائد مضامین پڑھائے جاتے ہیں۔
اس کے علاوہ اپنے کیریئر کو آگے بڑھانے کے لیے نرسیں ماسٹرز اور پی ایچ ڈی بھی کر سکتی ہیں جس کے بعد وہ ایڈمنسٹریشن، نرسنگ سکول یا کالج کی نرنسپل اور اعلیٰ حکومتی عہدوں پر بھی فائز ہو سکتی ہیں۔
نرسوں کی دوسرے ملکوں کو روانگی اور سٹاف کی کمی
پاکستان میں نرسوں کو درپیش مسائل کے بارے میں بات کرتے ہوئے فوزیہ مشتاق نے بتایا کہ اہم مسائل میں سٹاف کی کمی، تمام صوبوں میں یونیفارم سروس سٹرکچر نہ ہونا، پالیسی میکنگ میں نرسوں کی عدم شمولیت اور لوگوں کے ذہنوں میں نرسوں کے بارے میں منفی تاثرات سب سے زیادہ پریشان کن ہیں۔
ورلڈ بینک کے ترقیاتی اشاریے (ڈیولپمنٹ انڈیکیٹرز) کے مطابق پاکستان میں ہر دو ہزار کی آبادی کے لیے صرف ایک نرس یا مڈوائف موجود ہیں۔ فوزیہ مشتاق کا کہنا ہے کہ عالمی ادارہ صحت (ڈبلیو ایچ او) کے اندازے کے مطابق ملک میں ہر ہزار آبادی کے لیے چار سے پانچ نرسوں اور مڈوائفوں کی ضرورت ہے۔
تربیت یافتہ نرسوں کی کمی کا عالم یہ ہے کہ ملک کی آبادی 22 کروڑ کے قریب ہے مگر اپریل کے آخر تک پی این سی کے ساتھ رجسٹرڈ نرسوں کی تعداد محض 85 ہزار 414 تھی۔
فوزیہ مشتاق کے مطابق پاکستانیوں میں صحت کے مسائل دیکھیں تو آٹھ سے نو لاکھ مزید نرسوں کی ضرورت ہے اور یہ تعداد بڑھتی آبادی کے ساتھ بڑھے گی ہی۔
بہتر تنخواہ اور رتبے کے لیے نرسوں کا ملک چھوڑ کر جانا بھی ایک اہم مسئلہ ہے جو ملک کے لیے نقصان دہ ہے۔ فوزیہ مشتاق نے کہا: ’لوگوں کے جانے سے آپ کے ہیلتھ کیئر سسٹم پر فرق پڑتا ہے۔ آپ کے پاس اچھے لوگ نہیں ہوں گے تو منصوبہ بندی نہیں ہو گی، اچھی کیئر نہیں دے سکیں گے۔ آپ کا سسٹم بیٹھ جائے گا۔‘
کرونا کی وبا اور نرسیں
دنیا بھر میں پھیلی کرونا (کورونا) وائرس کی وبا میں جہاں فرنٹ لائن طبی عملوں کی محنت اور لگن کو سراہا جا رہا ہے، وہیں پاکستان میں نرسوں کی شکایت ہے کہ ان کے کام کو وہ پذیرائی حاصل نہیں جو ڈاکٹروں کو مل رہی ہے حالانکہ وہ مریضوں کے ساتھ سب سے زیادہ وقت گزارتے ہیں۔
فوزیہ مشتاق نے بتایا کہ ڈاکٹرں کی طرح کئی نرس بھی کرونا وائرس کے مریضوں کے علاج کے دوران خود بیماری کا شکار ہوئے ہیں لیکن ان کے بارے میں کوئی خبریں یا خراج تحسین کے مضمون شائع نہیں ہوئے۔
وہ کہتی ہیں کہ اکثر اوقات ’اپنے بچے مریض کو چھوڑ کر چلے جاتے ہیں، نرس اس مریض کو بھی سنبھالتی ہے۔ کبھی اپنے کام سے پیچھے نہیں ہٹتی۔‘
کرونا وائرس کی وبا کے دوران نرسوں کو محفوظ رکھنے کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا کہ نرسوں کے لیے ذاتی حفاظتی لباس (پی پی ای) کی فراہمی یقینی بنانے کے لیے پی این سی نے تمام صوبوں کے سیکریٹری صحت کو خط لکھے اور اب پی پی ای مہیا کیے گئے ہیں۔
انہوں نے مزید بتایا کہ پی این سی ڈبلیو ایچ او سے بھی رابطے میں ہے تاکہ نرسوں کو وینٹی لیٹرز کے استعمال کی ٹریننگ بھی دی جا سکے۔
’ذہن نہیں بدلے‘
معاشرتی رویوں پر بات کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ لوگوں کے ذہنوں میں خواتین نرسوں کے بارے میں یہ منفی تاثر ہے کہ نرسنگ میں شاید کم تعلیم یافتہ گھرانوں سے لڑکیاں آتی ہیں۔
انہوں نے کہا: ’دنیا نے اس چیز کو مان لیا ہے کہ نرسوں اور مڈوائفوں کے بغیر ہمارا گزارا نہیں ہو سکتا۔ لیکن ابھی تک ہمارے معاشرے میں یہ سوچ بدلی نہیں ہے اور نہ ہی ہم نے لوگوں کے ذہن بدلنے کے لیے کچھ کیا ہے۔‘
فوزیہ کے مطابق اس مسئلے کے حل کے لیے میڈیا بھی اہم کردار ادا کر سکتا ہے، ایسے ڈراموں اور شوز کے ذریعے جن میں نرسوں کے کام پر روشنی ڈالی جائے اور انہیں مثبت کردار میں دکھایا جائے۔
اس کے ساتھ ساتھ حکومت نرسوں کو پالیسی سازی میں شامل کرکے اور نصاب میں نرسنگ کے بارے میں معلومات شامل کر کے بھی اس پیشے کے بارے میں منفی تاثر کو بڑی حد تک ختم کرنے میں مدد کر سکتی ہے۔