پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) کے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی جانب سے پہلے میو اور اب جناح ہسپتال کے میڈیکل سپرٹنڈنٹ (ایم ایس) کو مبینہ بد انتظامی پر عہدوں سے ہٹانے کا مقصد ہسپتالوں کی نجکاری کی راہ ہموار کرنا ہے۔
وزیراعلیٰ پنجاب کے ترجمان کے مطابق وزیراعلیٰ مریم نواز نے پیر (24 مارچ) کو اچانک جناح ہسپتال کا دورہ کیا تو مریضوں اور ان کے اہل خانہ کی جانب سے انتظامیہ کے خلاف شکایات کے انبار لگ گئے جبکہ میڈیکل سٹور میں ادویات موجود ہونے کے باوجود مریضوں کو نہیں مل رہی تھیں، جس پر وزیراعلیٰ نے بد انتظامی کے باعث ہسپتال کے پرنسپل اور ایم ایس کو عہدہ چھوڑنے کی ہدایات کیں۔
جناح ہسپتال کے ہٹائے گئے ایم ایس کاشف جہانگیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ وہ دستیاب وسائل اور موجودہ نظام کے مطابق اپنے عہدے پر کام کر رہے تھے، لیکن وزیراعلیٰ پنجاب نے اچانک دورہ کر کے مسائل کی ذمہ داری ان پر ڈال دی اور عہدے سے ہٹا دیا۔
انہوں نے کہا کہ وہ عارضی طور پر یہاں تعینات تھے۔ بقول کاشف جہانگیر: ’جن مسائل کو وجہ بنایا گیا، اس کا ذمہ دار میں نہیں ہوں کیونکہ جو بھی اس عہدے پر آئے گا، اس نے وسائل کے مطابق ہی کام کرنا ہے۔‘
اس سے قبل وزیراعلیٰ مریم نواز نے رواں ماہ چھ مارچ کو میو ہسپتال کے دورے کے موقعے پر مسائل کی نشاندہی پر ایم ایس ڈاکٹر فیصل مسعود کو بھی عہدے سے ہٹانے کے احکامات جاری کیے تھے اور بعد میں ڈاکٹر فیصل مسعود کی جانب سے پہلے ہی دیا گیا تحریری استعفیٰ سامنے آگیا تھا۔
بڑے ہسپتالوں میں بد انتظامی عہدیداروں کی معطلی سے ٹھیک ہوسکتی ہے؟
وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز نے بدانتظامی پر ہسپتال عہدیداروں کی معطلی کے حوالے سے کہا کہ ’کسی بھی ادارے میں خرابی کے ذمہ داروں کو کوئی رعایت نہیں دی جاسکتی۔ عوام کو درپیش مسائل حل کرنے میں جو بھی غیر سنجیدہ ہوگا، اسے عہدے پر رہنے کا حق نہیں ہے۔ عوامی خدمت سب سے بڑھ کر ہے، اس پر کوئی سمجھوتہ نہیں کیا جاسکتا۔‘
مریم نواز کے ان اقدامات کو پاکستان میڈیکل ایسوسی ایشن (پی ایم اے) لاہور کے صدر شاہد ملک ’سیاسی پوائنٹ سکورنگ‘ قرار دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ ان کا مقصد ’صرف داد وصول کرنا ہے، نظام ٹھیک کرنا نہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں شاہد ملک نے کہا: ’وزیراعلیٰ پنجاب اگر مسائل حل کرنے میں اتنی سنجیدہ ہیں تو اصل ذمہ دار تو صوبائی وزیر صحت اور سیکرٹری محکمہ صحت ہیں، جو نظام ٹھیک نہیں کرتے بلکہ ایسے وقت میں ملبہ پرنسپل یا ایم ایس پر ڈال کر خود بری ذمہ ہو جاتے ہیں۔ اس طرح عہدیداروں کی تذلیل کرنے سے کیا بہتری آسکتی ہے؟‘
ڈاکٹر شاہد ملک کے مطابق: ’سیاسی جماعتیں حکومت میں آکر اداروں میں بھی سیاسی پوائنٹ سکورنگ کرتی ہیں، مقصد صرف لوگوں سے داد وصول کرنا ہوتا ہے، نظام ٹھیک کرنا نہیں۔ پہلے شہباز شریف نے بطور وزیراعلیٰ 2015 میں محکمہ صحت کو دو حصوں میں تقسیم کر کے دو وزیر اور دو سیکرٹری بنا دیے۔ کیا اس سے نظام بہتر ہوا؟ اب مریم نواز بھی اچانک دورے کر کے افسران کی معطلی سے کام چلانا چاہتی ہیں۔‘
اسی طرح پی ایم اے پنجاب کے سابق صدر پروفیسر ڈاکٹر اشرف نظامی سمجھتے ہیں کہ نظام بہتر کیے بغیر محدود وسائل میں بہتری نہیں لائی جا سکتی۔
انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں انہوں نے کہا: ’سب کو معلوم ہے کہ ہمارے ہسپتالوں میں کس طرح کا نظام ہے۔ محدود وسائل میں کتنی بہتری لائی جاسکتی ہے۔ نگران حکومت نے بڑے ہسپتالوں کو ری ویمپ (تزئین و آرائش) کرنے کے نام پر 90 ارب روپے خرچ کر دیے لیکن آپریشن تھیٹر کی تعداد بڑھنے کی بجائے ہر ہسپتال میں کم ہو گئی۔ عمارتیں ٹھیک کرنے کے نام پر نظام میں بہتری لانے کا دعویٰ کیا گیا لیکن کوئی فرق نہیں پڑا تو ذمہ دار کون ہے؟‘
ڈاکٹر اشرف نظامی نے کہا کہ ’ہسپتالوں میں جو مفت ادویات آتی ہیں، ان کی سپلائی بھی حکومتی ٹھیکے دار ہی کرتے ہیں۔ جس طرح سپلائی آتی ہے اسی طرح مریضوں کو دی جاتی ہے۔ آبادی کے مقابلے میں سہولیات کم ہونے سے مسائل کبھی حل نہیں ہو سکتے۔ موجودہ حکومت نے پہلے بنیادی مراکز صحت کی نجکاری کا اعلان کیا، اب بڑے ہسپتالوں میں اس طرح کی کارروائیاں ڈال کر ان کی نجکاری کرنے کی تیاری کی جا رہی ہے۔‘
ہسپتالوں کے مسائل کس طرح حل ہوسکتے ہیں؟
ڈاکٹر شاہد ملک کے مطابق: ’پہلے میو ہسپتال اور اب جناح ہسپتال کے عہدیداروں کو معطل کر دیا گیا۔ اس کے بعد ہسپتالوں کو 32 کروڑ روپے کے فنڈز کیوں جاری کرنا پڑے؟ وہ اس لیے کہ حکومت کو اندازہ ہوا کہ وسائل نہ ہونے پر مریضوں کو مشکلات کا سامنا ہے۔ اگرچہ ہر حکومت اپنی طرف سے بہتری کی کوشش کرتی ہے، لیکن یہ معاملہ کسی کو ذمہ دار ٹھہرا کر عہدوں سے ہٹانے سے حل نہیں ہو سکتا۔‘
انہوں نے دعویٰ کیا کہ ’شریف میڈیکل سٹی میں بھی جا کر دیکھیں، مریضوں کو وہاں بھی شکایات ہیں۔ حالانکہ وہ تو پرائیوٹ طور پر چلایا جا رہا ہے، اسے فنڈز بھی پوری طرح ملتے ہیں۔‘
ڈاکٹر شاہد ملک نے تجویز پیش کی کہ ’حکومت کو تمام ہسپتالوں کی فہرست بنا کر آبادی کے لحاظ سے ان کی صلاحیت کا جائزہ لینا چاہیے۔ پھر انتہائی قابل متعلقہ حکام پر مشتمل ٹیم بنائی جائے، جس میں انتظامی کے ساتھ ڈاکٹروں کی نمائندگی بھی شامل ہو۔ ہر شعبے کو مدنظر رکھتے ہوئے جامع حکمت عملی بنائی جائے، جو سیاسی مفادات سے ہٹ کر ہونی چاہیے۔ ہر ہسپتال کا نظام قوائد و ضوابط کے مطابق ہونا چاہیے۔ عام سٹاف، نرسوں اور ڈاکٹروں کی تعداد اور ان کی اہلیت جانچنے کے لیے مربوط نظام ہونا چاہیے۔‘
اسی طرح پروفیسر اشرف نظامی سمجھتے ہیں کہ ’پورے محکمہ صحت کو سیکنڈری اور پرائمری کی تقسیم کے بجائے ایک کیا جائے اور اسے منظم کرنے کی حکمت عملی بنائی جائے۔ ہر نئی بننے والی حکومت نیا تجربہ کرتی ہے، ہر وزیر اپنی مرضی کے عہدیدار تعینات کرتا ہے۔ جب بھی حکومت بدلتی ہے، عہدیداروں کے تقرر و تبادلوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے، جس سے صحت کے شعبے میں مسائل بھی حل نہیں ہوتے، لہذا ایک ایسا نظام ضروری ہے جو آزادانہ کام کرے اور کسی کی مداخلت نہ ہو، تب ذمہ داروں کا تعین کرنا بھی آسان ہوگا اور نظام بھی بہتر چل سکے گا۔‘