1890 میں انگریزوں اور افغانستان کے درمیان جنگ زوروں پر تھی۔ پنجاب کے انگریز گورنر کو پتہ چلا کہ راولپنڈی سے کچھ دور کلر سیداں میں ایک سکھ بابا جی رہتے ہیں جن کے ہزاروں معتقد ہیں۔
انگریزوں کو اس وقت ہر طرح کی مدد کی ضرورت تھی، اس لیے گورنر نے بابا جی کی حمایت حاصل کرنے کے لیے ان سے ملنے کا پروگرام بنایا، مگر ایک مسئلہ تھا۔ کلر سیداں تک کوئی سڑک نہیں جاتی تھی، ایک ٹیڑھی میڑھی سی پگڈنڈی تھی، اور بس۔ اب اس پر گورنر صاحب کیسے سفر کریں؟
یہ بات راولپنڈی کی انگریز انتظامیہ کے لیے درد سر بن گئی۔ کسی نے کہا کہ اگر بابا جی اپنے معتقدین کو حکم دیں تو یہ سڑک ایک رات میں بن جائے گی، چنانچہ بابا کی جانب سے تمام دیہات میں منادی کرائی گئی کہ کل بابا کے ہمراہ گورنر پنجاب آ رہے ہیں، لوگ اپنے اپنے علاقے کی سڑک بنا دیں۔
دیکھتے ہی دیکھتے ہزاروں لوگ کدالیں لے کر جت گئے اور ایک ہی رات میں سڑک بن گئی جو کسی انہونی سے کم نہ تھی۔
رات کے کھانے کے دوران گورنر نے بابا جی سے پوچھا، ’بابا جی اگر روس براستہ افغانستان انگریزوں پر حملہ کر دے تو آپ سرکار کی کیا مدد کریں گے؟‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بابا جی نے جواب دیا، ’پہلے دن ایک لاکھ روپیہ نقد اور دس ہزار مسلح نوجوان اور ایک مہینے بعد اس سے دگنا۔‘
گورنر نے شکریہ ادا کیا اور ساتھ ہی ہدایت کی کہ اتنے بااثر آدمی پر نظر رکھی جائے کہیں یہ بغاوت ہی نہ کر دے۔
اسلام آباد سے تقریباً 60 کلومیٹر کے فاصلے پر کلر سیداں میں ’بیدی محل‘ ہے جس کو تعمیر ہوئے 184 سال گزر چکے ہیں۔ ایک عہد اس چار منزلہ حویلی کی شان و شوکت کا گواہ ہے۔ بابا جی اسی حویلی کے مکین تھے اور اوپر جو واقعہ ہم نے آپ کو سنایا، اس کے راوی کلر سیداں کے معروف سیاسی کارکن راجہ انور ہیں۔
راجہ انور مزید بتاتے ہیں کہ کھیم سنگھ بیدی کا تعلق بابا گرونانک کے خاندان سے تھا۔ انہوں نے دو شادیاں کر رکھی تھیں، ان کی ایک بیوی کشمیر کے مہاراجہ کی بیٹی تھی جس سے ان کے چار بیٹے ہوئے، دوسری بیوی سے دو بیٹے ہوئے جو ساہیوال میں آباد ہوئے۔ کنور مہندر سنگھ بیدی اور راجندر سنگھ بیدی ساہیوال میں ہی آباد تھے۔ اس وقت مانچسٹر سے جو کپڑا اس علاقے میں لایا جاتا تھا اس کے تھانوں پر بابا کھیم سنگھ اور اس کے چاروں بیٹوں کی تصاویر کا ٹھپہ لگتا تھا جسے ان کے لاکھوں عقیدت مند خریدتے تھے۔
بابا جی کے پوتے کنور مہندر بیدی سنگھ سحر اپنی آپ بیتی ’یادوں کا جشن‘ مطبوعہ بک کارنر جہلم کے صفحہ نمبر 67 پر لکھتے ہیں کہ ’بابا جی کے والد بابا صاحب سنگھ جی ہی وہ ہستی تھے جنہوں نے تمام سکھ معاملات میں معاہدہ امن کراتے ہوئے پگڑی رنجیت سنگھ کو دی تھی۔ ان کے بعد ان کے بیٹے بابا کھیم سنگھ بیدی بھی ایک مذہبی شخصیت کے طور پر ابھرے، جن کا احترام ہندو اور مسلمان بھی کرتے تھے۔ قبائلی علاقوں میں باباجی کے کافی مرید تھے جن کے باہمی جھگڑے بھی بابا کھیم سنگھ ہی نمٹایا کرتے تھے۔
’بابا جی ہر وقت تبلیغی دوروں پر رہتے اور ایک جم غفیر ان کے پیچھے پیچھے چلتا تھا۔ ایک بار نوشہرہ میں انگریز فوج کے کمانڈر انچیف نے سلامی لینا تھی بابا جی بھی شہر میں تھے اس لیے انہیں بھی پریڈ میں مدعو کر لیا گیا مگر ہندوستانی فوجوں نے بابا جی کی موجودگی میں کمانڈر انچیف کو سلامی دینے سے معذرت کر لی۔ قریب تھا کہ انگریز کمانڈر اسے بغاوت سمجھتے ہوئے فوجیوں کی گرفتار ی کا حکم دے دیتا مگر اس موقعے پر بابا جی نے آگے بڑھ کر معاملے کو سلجھایا۔‘
اسی کتاب میں آگے چل کر لکھا ہے کہ جب بابا جی کا انتقال 10 اپریل 1905 کو ہوا تو راوی سے لے کر قندہار اور کابل تک صف ماتم بچھ گئی اور آپ کی روح کی مکتی کے لیے سوا لاکھ اکھنڈ پاٹھ رکھوائے گئے۔
’رؤسائے پنجاب‘ از سر لیپل ایچ گرفن و کرنل میسی مطبوعہ 1940 کے صفحہ 368 پر لکھتے ہیں کہ بابا کھیم سنگھ کے والد ایک خاندانی جھگڑے میں مارے گئے۔ بعد ازاں 1857 کی جنگ آزادی میں انگریز کو مدد دینے اور گوگیرہ میں بغاوت کچلنے میں مدد پر فراہم کرنے پر بابا جی انگریز سرکار کے قریبی حلقے میں شمار کیے جانے لگے۔ انہیں 1877 میں مجسٹریٹ اور 1893 میں وائسرائے کی لیجسلیٹو کونسل کے لیے نامزد کیا گیا تھا۔
آگے چل کر مزید لکھا ہے کہ باباجی سکھوں میں ایک گرو کی حیثیت سے مقبول ہو گئے اور پشاور سے ملتان تک ان کا طوطی بولتا تھا۔ وہ تعلیم نسواں کے ایک بڑے حامی بن کر ابھرے اور اپنی جیب سے کئی سکول کھولے۔ انہوں نے منٹگمری میں نہری نظام کے بعد اس کی آباد کاری میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا۔ 1886 میں راولپنڈی کے 37 سکھوں کو یہاں 3500 ایکڑ رقبہ الاٹ کیا گیا جن کو فی کس 95 ایکڑ ملے مگر بابا کھیم سنگھ کے حصے میں 7800 ایکڑ آئے۔
انگریزوں کا خیال تھا کہ مذہبی رہنماؤں کو زمینیں الاٹ کرنے سے نہ صرف انہیں سیاسی اثر رو رسوخ حاصل ہو گا بلکہ 1857 کی جنگ آزادی میں مدد کرنے والے افراد کا حوصلہ بھی بلند ہو گا بعد ازاں کچھ روایتوں کے مطابق بابا جی کی منٹگمری میں زمین 28272 ایکڑ تھی۔ 1898 میں انہیں کے سی آئی ای کا خطاب ملا۔
جب پنجاب حکومت نے ’ایک استاد ایک سکول‘ سکیم شروع کی تو بابا جی نے راولپنڈی سمیت پنجاب میں 50 سے زائد سکول کھولے۔ 1893 میں جب بابا جی کی بیٹی کی شادی ہوئی تو انہوں نے تین لاکھ روپیہ خیراتی اداروں میں تقسیم کیا جس میں سے آدھی رقم راولپنڈی میں ایک ووکیشنل سکول بنانے میں صرف کی گئی جس میں فوٹو گرافی، کارپنٹری، ٹیلرنگ وغیرہ کے کورسز کروائے جاتے تھے۔
تقسیمِ ہند کے وقت بدترین فسادات کلر سیداں سے محض دس کلومیٹر کے فاصلے پر چوا خالصہ میں ہوئے جہاں سات مارچ 1947 کو چھ روز تک جاری رہنے والی لوٹ مار میں 200 سکھ قتل کر دیے گئے اور 93 سکھ عورتوں نے اپنی جان بچانے کے لیے ایک کنویں میں کود کر خودکشی کر لی۔ اس سانحے پر لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے بھی چوا خالصہ کا دورہ کیا تھا۔ بابا کھیم سنگھ بیدی کے خاندان کے اثر و رسوخ کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ کلر سیداں میں کوئی فساد نہیں ہوا اور ارد گرد کے تمام ہندو سکھ بابا کھیم سنگھ حویلی میں اکٹھے ہوئے جہاں سے انہیں ہندوستان روانہ کیا گیا۔
کلر سیداں میں بابا کھیم سنگھ کی حویلی کو ’بیدی محل‘ بھی کہا جاتا ہے۔ 17 کنال پر محیط اس محل کی تعمیر1836 میں ہوئی جس کی تعمیر میں اٹک کے ماہر کاریگروں نے حصہ لیا تھا جنہیں بابا جی کے والد کے ایک دوست مسلمان جاگیردار نواب آف کوٹ فتح خان سردار فتح خان نے بھیجا تھا۔
ایک تہہ خانے کے علاوہ چارمنزلوں پر پھیلی اس وسیع و عریض حویلی میں کم و بیش 40 کمرے ہیں۔ حویلی کی تعمیر نو 1930 میں کی گئی تھی، جبکہ حویلی سے باہر گھوڑوں کا ایک اصطبل بھی ہے۔ حویلی میں داخلے کے بعد ایک شاندار جھروکہ آج بھی اپنی عظمت رفتہ کی کہانی بیان کرتا نظر آتا ہے۔ یہ جھروکہ ایک ہال میں کھلتا ہے جہاں کبھی بیدی خاندان کےدربار لگا کرتے تھے مگر آج وہاں ویرانی بال کھولے ہوئے ہے۔
قیام پاکستان کے بعد اس حویلی میں ہائی سکول کھولا گیا تھا جہاں جنرل ٹکا خان جیسے عساکر بھی پڑھتے رہے۔ حویلی کے دو حصے ہیں ایک حصہ سماجی و سیاسی سرگرمیوں کے لیے جبکہ دوسرا رہائش کے لیے مختص تھا۔ محل کے ساتھ ایک 40 فٹ اونچا پول بھی نصب ہے جس پر پیتل کا کرپان نصب ہے۔ اس حویلی کے شاندار جھروکے، تراشیدہ ہوئے خوبصورت دروازے، منقش دیواریں جن پر سکھوں، ہندوؤں کی مقدس شخصیات کی پینٹنز بنائی گئی ہیں، آج بھی دعوت نظارہ دیتی نظر آتی ہیں۔
یہ اس بات کی گواہ بھی ہیں کہ بابا جی ایک بین المذاہب ہم آہنگی اور رواداری کا پرچار کرنے والے تھے۔ حویلی اور نئے بننے والے سکول کے درمیان ایک چبوترہ ہے جس کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ مسلمان صوفی ہوتے شاہ کی قبر ہے جس کی رکھوالی بیدی خاندان کرتا آیا ہے۔