یہ 26 جولائی 1944 کا واقعہ ہے۔ قائداعظم سری نگر کا دورہ مکمل کرنے کے بعد مری کے راستے راولپنڈی آ رہے ہیں، حسبِ معمول فاطمہ جناح ان کے ہمراہ ہیں۔
وہ مل پور (موجودہ قائداعظم یونیورسٹی کے ساتھ ملحقہ گاؤں) میں رکتے ہیں اور راولپنڈی سے جانے والے استقبالی جلوس سے خطاب کرتے ہیں تو وہیں اعلان فرما دیتے ہیں کہ پاکستان کا بننے والا دارالحکومت اس سبزہ زار میں ہو گا جو مارگلہ کی پہاڑیوں سے پنڈی شہر تک پھیلا ہوا ہے۔ (بحوالہ اسلام آباد منزلِ مراد، صفحہ 60،مصنف مولانا اسماعیل ذبیح بیان از پروفیسر کرم حیدری)۔
اور پھر 24 مئی 1960 کے لمحات جاوداں ہیں۔ ایک چمکتی دوپہر صدر ایوب اور اس کی کابینہ کا اجلاس شکرپڑیاں کے مقام پر ہو رہا ہے جہاں پر پاکستان کے نئے دارالحکومت کے قیام کی منظوری دی جانی ہے۔ جنگل میں منگل کا سماں ہے۔ اعلیٰ فوجی قیادت بھی شریک ہے جسے نامور یونانی ماہر تعمیرات اور اسلام آباد کے آرکیٹیکٹ ڈاکٹر سی اے ڈاکسیڈز بریفنگ دے رہے ہیں۔
کابینہ کی منظوری کے بعد تالیاں بجتی ہیں۔ صدر ایوب کو مبارکبادوں کا سلسلہ شروع ہوتا ہے۔ اسی اجلاس سے چند سو قدم کے فاصلے پر آج شکر پڑیاں گاؤں کے لوگ بھی بہت خوش ہیں کہ پاکستان کا نیا دارالحکومت ان کے پاس بننے جا رہا ہے۔ شکرپڑیاں میں آج کی شام بہت مختلف ہے۔ ہر شام کی طرح گاؤں کا تکیہ آج بھی آباد ہے۔ یہاں داستان گو محمد میرا اور فضل الہیٰ درزی بھی موجود ہیں مگر ان سے کوئی کہانیوں کی فرمائش نہیں کر رہا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
قریب ہی بھاری بھرکم پتھر بھی پڑا ہے جسے شاید معلوم ہے کہ آج اس کے ساتھ زور آمائی کرنے کوئی جوان اپنے پٹھے آزمائے نہیں آئے گا۔ اس کی ایک ہی وجہ ہے کہ سب لوگ آج ایک انجانی خوشی محسوس کر رہے ہیں۔ مستقبل کے خواب اپنی اپنی بساط کے مطابق سجائے جا رہے ہیں۔ جب یہ ویرانہ ایک جدید شہر کا روپ دھارے گا تو نجانے کیا کیا روپ نظر آئیں گے۔ زندگی کن کن رنگوں سے لبریز ہو گی۔ تکیے پر دیکھے جانے والے خواب ایک طرف ہیں مگر دوسری جانب قریب کی حویلی میں راجہ اللہ داد خان انجانے خوف میں مبتلا ہے۔ پہاڑ جیسے عزم رکھنے والے کے اندر ٹوٹ پھوٹ شروع ہو چکی ہے۔ لوگ راجہ صاحب کو مبارکبادیں دے رہے ہیں مگر راجہ صاحب کو چپ سی لگ گئی ہے۔
اور پھر ایک دن ایک پٹواری اپنے چند افسروں کے ساتھ راجہ صاحب کی حویلی آتا ہے کہ راجہ صاحب حکومت کا حکم ہے آپ کو اپنا گاؤں خالی کرنا پڑے گا۔ راجہ صاحب کی زندگی سیاست میں گزری ہے انہیں معلوم ہے کہ اب کچھ نہیں ہو سکتا۔
وہ اپنے گاؤں کے غریب لوگوں کا مقدمہ لڑتے ہیں کہ انہیں دوسرے اضلاع میں جاگیریں نہ دیں وہ وہاں رہ نہیں سکیں گے، انہیں یہیں پر ملازمتیں دیں، پلاٹ دیں، مگر سرکار بہرحال سرکار ہوتی ہے سنتی وہ سب کی ہے مگر کرتی اپنی ہی ہے۔
پھر ایک دن وہ جاں گسل لمحہ بھی آ جاتا ہے جب سرکاری مشینری گاؤں خالی کرانے آ جاتی ہے۔ راجہ صاحب پر ایک ایک قدم پتھر کی سل ہے کیونکہ وہ صدیوں کا بوجھ لے کر چل رہے ہیں، وہ عظیم مجاہد راجہ نوشہری خان کے پوتے تھے جنہوں نے 18 سال سکھوں کے خلاف چھاپہ مار کارروائیاں جاری رکھی تھیں مگر آخر خالصہ فوج کے جابر ترین کمانڈر ہری سنگھ نلوہ نے ان کی کھال اتروا کر اس میں بھوسہ بھر دیا تھا۔
راجہ اللہ داد کے والد راجہ علی مدد خان انگریز دور میں پہلے ہندوستانی تھے جنہیں افغان وار میں انڈین آرڈر آف میرٹ اور ڈبل ملٹری کراس دیا گیا تھا جو اس وقت وکٹوریہ کراس کے برابر تھا کیونکہ ملٹری کراس بعد میں پہلی عالمی جنگ میں متعارف ہوا تھا۔ وہ خود ڈپٹی کمشنر رہ چکے تھے ان کی بھائی بھی اسی عہدے پر تھے جبکہ دوسرا ذیلدار تھا۔ صدیوں کی روایات کی حامل وہ آج اپنے اجداد کی زمین کو الوداع کہہ رہے تھے۔ یہ کرب انہیں جلد ہی ہسپتال پہنچا دیتا ہے جہاں وہ چھ ماہ تک اپنے دل سے جنگ لڑتے ہیں۔
یہ داستان سناتے ہوئے ان کے بیٹے راجہ طارق سلطان آبدیدہ ہو جاتے ہیں۔ کہتے ہیں، ’میرے والد صاحب تو گاؤں کے بڑے تھے ہمارا ملازم کریم بھی جب ہسپتال میں آخری سانسیں لے رہا تھا تو میرا ہاتھ پکڑ کر کہتا تھا مجھے ایک بار شکر پڑیاں لے چلو میں وہیں مرنا چاہتا ہوں۔‘
شکرپڑیاں بھی ان 85 دیہات میں شامل تھا جو اسلام آباد کی تعمیر سے متاثر ہوئے۔ جن میں تقریباً 50 ہزار افراد آباد تھے۔ یہاں دو سو سے زائد گھر تھے جو بالکل اس جگہ پر تھے جہاں آج لوک ورثہ موجود ہے۔ لوک ورثہ کے پیچھے پہاڑی پر اس گاؤں کے آثار آج بھی جنگل میں بکھرے پڑے ہیں۔ 85 دیہات کی 45 ہزار ایکٹر زمین جب سی ڈی اے نے حاصل کی تو متاثرین میں اس وقت 16 کروڑ روپے تقسیم کیے گئے جبکہ انہیں ملتان، ساہیوال، وہاڑی، جھنگ اور سندھ کے گدو بیراج میں کاشت کے لیے 90 ہزار ایکڑ زمین بھی الاٹ کی گئی جس کے لیے 36 ہزار پرمٹ جاری کیے گئے۔
ان میں جو بڑے گاؤں تھے ان میں کٹاریاں بھی شامل تھا جو موجودہ شاہراہ ِ دستور اور وزارت خارجہ کی جگہ آباد تھا۔ شکر پڑیاں لوک ورثہ کی جگہ، بیسٹ ویسٹرن ہوٹل کے عقب میں سنبل کورک، مری روڈ پر سی ڈی اے فارم ہاؤسز کی جگہ گھج ریوٹ، جی سکس میں بیچو، ای سیون میں ڈھوک جیون، ایف سکس میں بانیاں، جناح سپر میں روپڑاں، جی 10 میں ٹھٹھہ گوجراں، آئی ایٹ میں سنبل جاوہ نڑالہ اور نڑالہ کلاں، ایچ ایٹ میں جابو، زیرو پوائنٹ میں پتن، میریٹ ہوٹل کی جگہ پہالاں، ایچ ٹین میں بھیگا سیداں، کنونشن سینٹر کی جگہ بھانگڑی، آبپارہ کی جگہ باغ کلاں آباد تھے۔
اسی طرح راول ڈیم کی جگہ راول، پھگڑیل، شکراہ، کماگری، کھڑ پن اور مچھریالاں نامی گاؤں بستے تھے۔ فیصل مسجد کی جگہ ٹیمبا اور اس کے پیچھے پہاڑی پر کلنجر نام کی بستی تھی۔
شکر پڑیاں میں گکھڑوں کی بگیال شاخ کے لوگ آباد تھے جنہیں ملک بوگا کی اولاد بتایا جاتا ہے۔ گکھڑوں نے پوٹھوہار پر ساڑھے سات سو سال حکمرانی کی ہے۔ راولپنڈی کے گزٹیئر 1884 کے مطابق ضلع راولپنڈی کے 109 دیہات کے مالک گوجر اور 62 گکھڑوں کی ملکیت تھے۔
اسلام آباد کی معروف تفریح گاہ شکرپڑیاں کی وجہ تسمیہ کیا ہے؟ اس حوالے سے ایک روایت یہ بیان کی جاتی ہے کہ بابا فرید گنج شکر (1173-1265) یہاں ٹھہرے۔ ایک پٹھان تاجر گدھے پر بوری لاد کر جا رہا تھا۔ بابا فرید نے پوچھا، ’کیا لے کر جا رہے ہو؟‘
شکر کے اس تاجر نے اس خدشے سے کہ کہیں یہ بابا مجھ سے کھانے کو شکر نہ مانگ لے، جواب دیا کہ نمک ہے۔
بابا فرید نے کہا، ’اچھا، نمک ہی ہو گا۔‘
جب وہ تاجر جب اپنی دوکان پر گیا اور بوری کھولی تو دیکھا کہ اس میں شکر کی جگہ نمک ہے۔ چونکہ شکر نمک سے کہیں زیادہ مہنگی تھی، اس لیے وہ دوڑتا ہوا بابا کے پاس آیا اور کہا کہ بابا بوری میں تو شکر تھی۔
بابا نے شانِ بےنیازی سے کہا، ’اچھا، شکر ہی ہو گی۔‘
اس نے جا کر دیکھا تو واقعی شکر ہی تھی۔ اس نے ارد گرد یہ واقعہ مشہور کر دیا جس کے بعد لوگ بابا فرید کی زیارت کو آنے لگے۔ بابا فرید کے نام سے ایک بیٹھک آج بھی زیرو پوائنٹ کے بالکل ساتھ موجود ہے جس پر سبز رنگ کے جھنڈے لٹکے ہوئے ہیں۔ اس سے پہلے یہاں ایک چشمہ بھی تھا لیکن جب یہاں فلائی اوور بنایا گیا اور اس کے اوپر مشرف دور میں مانومنٹ تعمیر ہوا تو چشمے کا پانی خشک ہوگیا۔
تاریخ کی کتابوں میں آتا ہے کہ بابا فرید نے ایک بار افغانستان کا سفر کیا تھا۔ ہو سکتا ہے کہ وہ یہاں آتے جاتے رکے ہوں۔
مگر آج کم و بیش 60 سال گزر جانے کے باوجود بابا فرید کی نسبت سے آباد شکر پڑیاں کے پرانے باسیوں کے لیے شیریں یادیں بھی کڑوی ہو چکی ہیں۔ راجہ طارق سلطان کہتے ہیں، ’ہمیں اس لیے بھی عتاب کا نشانہ بنایا گیا اور مراعات سے بھی محروم رکھا گیا کیونکہ میرے والد نے فاطمہ جناح کی پارٹی سے الیکشن لڑ کر نواب آف کالا باغ اور صدر ایوب کے پسندیدہ امیدوار غلام جیلانی کو شکست فاش دی تھی۔‘
میں جب جنگل میں شکر پڑیاں کے آثار تلاش کر رہا تھا تو میری نظر ایک شخص پر پڑی جس نے ایک لمبی سی ٹوپی پہن رکھی تھی اور جو ایک قبر پر فاتحہ پڑھ رہا تھا۔ میرے پوچھنے پر اس نے بتایا کہ میرا نام راجہ منظور حسین شکرانی ہے اور میں میر پورآزاد کشمیر سے آیا ہوں۔
ان کی کہانی بڑی دلچسپ نکلی: ’میرے دادا راجہ گگو خان برٹش آرمی میں تھے اور میر پور سے آ کر یہاں بس گئے تھے۔ ان کی شادی شکرپڑیاں کی رانی مائی ہیر سے ہوئی تھی۔ 1943 میں ان کے ہاں میرے والد صوفی شکر محمد کی پیدائش ہوئی۔ جس کے تین دن بعد میری نانی ناگہانی طور پر وفات پا گئیں۔ جاپان کے محاذ جنگ سے واپسی پر بھی میرے دادا یہیں رہے اور یہاں لنگر چلاتے تھے بعد میں انہوں نے ایک روحانی سلسلے شکرانیہ کی بنیاد رکھی۔ میرے ایک تایا بھی یہیں دفن تھے مگر اب ان کی قبر بھی فلائی اوور کی نذر ہو گئی ہے میں اب بھی یہاں جنگل میں آتا ہوں اور اپنے آبا و اجداد کی روحوں کو آواز دیتا ہوں۔‘
آج شکر پڑیاں گاؤں کے کھنڈرات پر جنگل اُگ آیا ہے۔ لوک ورثہ میں راجہ اللہ داد کی حویلی لوک ورثہ کے طور پر قائم رکھی گئی ہے۔ ان کی بارہ دری اور مہمان خانہ کا کچھ حصہ بھی لوک ورثے کا حصہ ہے۔ ان کے خاندان کی ایک اور حویلی میں ’1969‘ نام کا معروف کیفے بھی موجود ہے۔
راجہ طارق سلطان کے دوسرے بھائی راجہ چنگیز سلطان ملک کے مانے ہوئے مصور ہیں اور پاکستان نیشنل کونسل آف دی آرٹس کے ڈائریکٹر جنرل رہ چکے ہیں۔
شکرپڑیاں کی یادیں انہیں کس طرح بے چین رکھتی ہیں اس کی ایک مثال ان کی انگریزی میں ’شکرپڑیاں‘ کے نام سے کتابی صورت میں شائع ہونے والی طویل نظم ہے۔ جس کا اردو اور پوٹھوہاری ترجمہ نامور شاعر، ڈراما نگار اور افسانہ نگار شعیب خالق نے کیا ہے۔ اس نظم کی چند سطریں قارئین کی نذر:
چھوٹی سی پہاڑی اوٹ، جدھر اب اک شہر ہے
وہاں کبھی صوفی اور بزرگوں کی دانشوں کے ڈیرے تھے
تب لوگ اندھوں کے ساتھ آنکھیں بانٹ لیتے تھے
شکرپڑیاں تو زندہ رہے گی، میرے دل و دماغ میں
شکر جیسی میٹھی فضا میں آ گلے لگاؤں تجھے