2006 میں ترانہ برک نے ’می ٹو‘ تحریک کی بنیاد رکھی تھی جو بعد میں دنیا کی بڑی یکجہتی تحریکوں میں سے ایک تحریک بن گئی۔ انہوں نے اس تحریک کی کارکردگی، مسائل اور مستقبل میں امکانات کے بارے میں بات کی
یہ دنیا بھر کے بے شمار لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر می ٹو کے الفاظ گونجنے سے عین تین سال پہلے کی بات ہے۔ اب ایک سزا یافتہ ریپسٹ فلم پروڈیوسر ہاروی وائن سٹین کو جب دی نیویارک ٹائمز اور دی نیو یارکر کی طرف سے کئی جنسی ہراسانیوں اور جنسی حملوں میں ملوث ملزم کے طور پر بے نقاب کیے جاتے ہی پوری دنیا میں شدید غصے کی لہر دوڑ گئی۔
کچھ لوگوں نے سوالات اٹھائے کہ وائن سٹین کیسے ناک کے نیچے اتنے عرصے تک یہ سب کچھ کرتے رہے۔ تاہم بہت سارے لوگوں کو حیرت نہیں ہوئی کیونکہ یہ تکلیف دہ حقیقت بہت تیزی سے سامنے آ رہی تھی۔ فلم پروڈیوسروں کے خلاف الزامات خلا میں نہیں تھے۔ یہ صرف ہالی وڈ یا امریکہ نہیں بلکہ پوری دنیا میں پھیلے ایک بڑے مسئلے کا حصہ تھے۔
حقیقت کا ادراک کرتے ہوئے اداکارہ الیسا میلانو نے جو الفاظ لکھے وہ عالمی تحریک کا آغاز بن گئے: ’اگر آپ پر جنسی حملہ ہوا ہے یا آپ کو ہراساں کیا گیا ہے تو می ٹو لکھ کر اس ٹویٹ کا جواب دیں۔‘
انہوں نے خود اپنے میسج کا جواب دیا: ’می ٹو۔‘
If you’ve been sexually harassed or assaulted write ‘me too’ as a reply to this tweet. pic.twitter.com/k2oeCiUf9n
— Alyssa Milano (@Alyssa_Milano) October 15, 2017
محض 24 گھنٹوں میں ہزاروں کی تعداد میں اس ٹویٹ کو شیئر کیا گیا اور ٹوئٹر اور فیس بک پر ’می ٹو‘ ہیش ٹیگ بن گیا جہاں اپنی جنسی ہراسانیوں اور حملوں کی کہانیاں بتانے کے لیے ہزاروں لوگ سامنے آ گئے۔
میلانو کے بقول اس وقت اسے پتہ نہیں تھا کہ ’می ٹو‘ کی ترکیب اصل میں کہاں سے آئی۔ دراصل یہ ترکیب جنسی حملے کا شکار ہونے والی ایک کارکن ترانہ برک سے شروع ہوئی جب انہوں نے ایک دہائی قبل 2006 میں جنسی تشدد کے خلاف آگاہی مہم میں بات کرتے ہوئے می ٹو کی تحریک کی بنیاد رکھی۔ جب برک نے دیکھا کہ میلانو کی ٹویٹ کے بعد #می ٹو ٹوئٹر پر گردش کر رہا ہے تو وہ حیران رہ گئیں کہ یہ ٹرینڈ کتنی تیزی سے دور تک پھیل گیا۔
کئی سالوں تک انہوں نے ان دو الفاظ کی طاقت پر گہرا یقین رکھا اور اب دنیا بھر کے ہزاروں لوگ متاثرین سے اظہار یکجہتی اور اپنی کہانیاں سنانے کے لیے اسے استعمال کر رہے تھے۔ انڈپینڈنٹ کے ساتھ گذشتہ بدھ کو ایک انٹرویو میں برک کا کہنا تھا، ’یہ ہیش ٹیگ استعمال کرتے ہوئے اتنی بڑی سطح پر لوگوں کی جرات مندانہ پیش قدمی اور جنسی تشدد کے تجربات پر بات کرنا حیران کن تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس موقعے سے پہلے بے شمار متاثرین کا پختہ یقین تھا کہ ’انہیں اپنے تجربات خود تک محدود رکھنے چاہیے کیونکہ یہی معاشرے کا چلن ہے یا شرم کا تقاضا تھا۔‘ جب لوگوں نے بولنے کی ہمت کی تو برک کو بھونچال آتا محسوس ہوا۔ برک کے خیال میں می ٹو تحریک کے بعد پچھلے تین سالوں سے بہت کچھ بدل چکا ہے۔ مثال کے طور پر ریپ اور جنسی ہراسانیوں کے جرم میں وائن سٹین 23 سال کی سزا کاٹنے کے لیے جیل میں ہیں۔
لاس اینجلس کاؤنٹی کی عدالت میں پانچ عورتوں کی طرف سے انہیں مزید 11 کیسوں کا سامنا بھی ہے۔ لیکن یہ محض ایک فلم پروڈیوسر ہی ہائی پروفائل فرد نہ تھا جسے می ٹو تحریک کے اثرات کے بعد اپنی حرکتوں کا جواب دینا پڑا باقی لوگوں میں مزاحیہ فنکار بل کوزبی، امریکی قومی جمناسٹک ٹیم کے ڈاکٹر لیرے نیسر، فرنچ فوٹوگرافر جین کلاؤد آرنول، نکسم کے کلٹ لیڈر کیتھ رینر، سمالوی اداکار الیسن مک جنہوں نے عورتوں کو نیکس وم میں بھرتی کرنے کے دوران ہراسانی کے الزامات پر اقرار جرم کیا۔
ان میں سے بہت سوں کو الزامات لگنے کے بعد نوکری سے استعفیٰ دینا پڑا یا جبری طور پر ان کی چھٹی کر دی گئی۔ وائن سٹین کی ابتدائی بے نقابی کے تقریباً ایک سال بعد نیویارک ٹائمز اور کچھ روز بعد نیویارکر کی تحقیق کے مطابق کم سے کم دو سو ہائی پروفائل مردوں نے الزامات کے بعد اپنی نوکری کھو دی جن میں سے تقریباً آدھی جگہوں پر عورتوں کو ملازمت دی گئی۔ جنسی ہراسانی اور دست درازی کے باقی ملزموں نے اچھی خاصی جانچ پڑتال بھگتی جن میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ اور ڈیموکریٹک پارٹی کے صدارتی امیدوار جو بائیڈن شامل ہیں۔
می ٹو تحریک کے توسط سے جب الزامات کا طوفان برپا تھا اس دوران میں جنسی تشدد کو منظر عام پر لانے اور متاثرین کی امداد کے لیے بہت سے اقدامات اٹھائے گئے۔ ان میں سرفہرست ’ٹائمز اپ لیگل ڈیفینس فنڈ‘ کا قیام تھا جسے دنیا بھر کی نامور شخصیات کی مدد سے جنوری 2018 میں قائم کیا گیا۔ انہوں نے لاکھوں روپے جمع کرنے میں مدد کی تاکہ جنسی ہراسانی یا دست درازی کے متعلقہ کیسوں میں انصاف کے متلاشی لوگوں کی قانونی مدد کی جائے۔
ٹائمز اپ کے نمائندے نے دی انڈپینڈنٹ کو بتایا کہ اس کے قیام کے بعد تقریباً پانچ ہزار لوگوں کی طرف سے تعاون کی درخواستیں موصول ہوئیں جن میں سے تین گنا درخواستیں کم آمدن والی خواتین کی طرف سے تھیں جبکہ 40 فیصد رنگ دار عورتوں اور 10 فیصد ان لوگوں کی جانب سے تھیں جنہیں ایل جی بی ٹی کیو پلس میں شمار کیا جاتا ہے۔
اس کے علاوہ مضبوط تنظیمیں جیسے ریپ، ابیوز اینڈ انسیسٹ نیشنل نیٹ ورک یو ایس میں دا لارجسٹ اینٹی [FA1] سیکشوئل اسالٹ آرگنائزیشن کے پروگراموں میں رسائی کرنے والوں کی کثیر تعداد دیکھنے کو ملی ہے۔ رین کے بانی اور صدر سکاٹ برک وِز نے دی انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے کہا کہ تین سال قبل می ٹو کے آغاز سے پہلے آرگنائزیشن کی خدمات حاصل کرنے والوں کی ماہانہ تعداد 15 ہزار تک تھی۔
’اب مسلسل ہر مہینے یہ تعداد 30 ہزار تک پہنچ جاتی ہے۔‘ برک وز کے مطابق اس پروگرام سے پچھلے تین سال میں 880,000 لوگوں نے استفادہ کیا۔ برک وز کے مطابق رین سے مستفید ہونے والوں کی تعداد میں اضافے کا سبب می ٹو تحریک کے اثرات کا نتیجہ قرار دیا جا سکتا ہے جس نے لوگوں کو جنسی ہراسانی اور دست درازی کے خلاف بولنے اور تعاون مانگنے کا حوصلہ پیدا کیا۔
میڈیا میں عورتوں کی نمائندگی کے حوالے سے معروف، ہاورڈ یونیورسٹی میں حکمت عملی، قانون اور انتظامی مواصلات کے شعبہ کی پروفیسر ڈاکٹر ٹیا سی ایم ٹری اس سے اتفاق کرتے ہوئے دی انڈپینڈنٹ کو بتاتی ہیں کہ انہیں یقین ہے می ٹو تحریک ’ثقافتی اور ساختیاتی 'دونوں سطح پر بہت بڑی تبدیلی لائی ہے۔‘
ٹائرز کہتی ہیں، ’ثقافتی نقطۂ نظر سے اس تحریک نے عورت کو موقع فراہم کیا کہ نشانہ بننے کے بعد اسے بتاتے ہوئے ڈرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔ اس نے عورت کو سکھایا کہ اگر ایسا ہو جائے تو اسے چھپانا نہیں چاہیے۔ اس نے عورت کو ہمت دی کہ ہراسانی کے خلاف انصاف کے حصول کے لیے آواز بلند کرے اور ساتھ عورت کو یہ بھی بتایا کہ ہراسانی کے خلاف وہ تنہا نہیں ہیں۔' اگرچہ وہ اس بات کا بھی اعتراف کرتی ہیں کہ یہ صرف عورتیں نہیں جو جنسی تشدد کا نشانہ بنتی ہیں۔
ٹائرز کہتی ہیں کہ ساختیاتی تبدیلیاں فوری اور دور رس نتائج کی حامل ہیں۔ ’کچھ فوری نوعیت کی تبدیلیاں استعفے تھے۔ آپ نے دیکھا کہ لوگوں کے نام لیے گئے اور خود استعفے دینے لگے یا سچے جھوٹے الزامات پر جبری برطرف کیے گئے۔ لیکن پچھلے کچھ سالوں میں آپ نے یہ بھی دیکھا کہ قانون پاس کیے گئے۔‘
امریکہ میں طویل انتظار کے بعد ریپ کٹس کی تیاری کا عمل شروع کیا گیا۔ بہت سی ریاستوں نے نئے تحفظاتی اقدامات اٹھائے جن میں سے نیشنل ویمن لا سینٹر کے مطابق کم سے کم 19 ریاستوں نے جنسی ہراسانی کے خلاف اور کام کرنے کی جگہ پر دست درازی روکنے کے لیے نئے قوانین متعارف کروائے۔
کم از کم 15 ریاستوں نے حفاظتی اقدامات یا ملازمین کو ملازمت کے لیے تصفیے کے معاہدے میں شامل غیر منکشف معاہدوں پر دستخط ضروری قرار دیے جبکہ 11 ریاستوں اور نیویارک شہر نے مخصوص ملازمین کے لیے اینٹی ہراسمنٹ ٹریننگ پر زور دیا یا اسے لازمی قرار دے دیا۔
ٹائرز اس سب کے بارے میں کہتی ہیں کہ پوری دنیا کی حکومتوں اور صنعتوں کی مجبوری بن چکی کہ وہ اپنے ممالک اور سیکٹروں میں جنسی تشدد کے مسائل پر خصوصی توجہ دیں۔ کچھ ریاستوں اور صنعتوں کے راہنماؤں نے جنسی ہراسانی اور دست درازی کے خلاف آگاہی اور خاتمے کے لیے بنیادی اقدامات متعارف کروائے جبکہ باقی اس معاملے میں کم فعال نظر آئے۔
کچھ ممالک میں می ٹو کی تکرار پچھلے کچھ سالوں میں سنائی دی جیسے مصر ان گرمیوں میں جب ایک امیر خاندان کے یونیورسٹی طالب علم کے خلاف سوشل میڈیا پر الزامات لگائے گئے تو مصر کی عورتیں اس وقت باہر آ کر اپنے تجربات شیئر کرنے لگیں اور ملزم کی گرفتاری ہوئی۔
معاشرتی طور پر قدامت پسند ملک جہاں جنسی بد فعلی کے الزامات لگانا نہ صرف اعلانیہ مشکل بلکہ خطرناک بھی ہو سکتے ہیں وہاں احمد باسم زکی کی گرفتاری ایک اہم موڑ ثابت ہوئی۔
ابھی تک بہت لمبا سفر باقی ہے۔ 2013 میں اقوام متحدہ کے ایک جائزے کے مطابق 99 فیصد مصری خواتین نے کسی نہ کسی شکل میں جنسی ہراسانی کا سامنا کیا ہے۔ اسی جائزے کے مطابق دنیا بھر میں 35 فیصد خواتین کو زندگی کے کسی نہ کسی موڑ پر اپنے جنسی ساتھی یا کسی اجنبی کے ہاتھوں جسمانی یا جنسی، یا دونوں طرح کے تشدد کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ تاہم کچھ ملکی جائزے 70 فیصد کے ساتھ اعداد و شمار بہت زیادہ بتاتے ہیں۔
ان حقائق سے نمٹنے کے لیے بہت سارے اقدامات کے باوجود برکی کہتی ہیں جنسی ہراسانی کے خاتمے کی منزل ابھی بہت دور ہے۔ جن سالوں سے می ٹو مہم شروع ہوئی تب سے کسی حد تک لوگوں کی جھجھک کم ہوئی ہے جس کے نتیجے میں پولیس تشدد اور نسلی امتیاز جیسے بنیادی مسائل نے مرکزی اہمیت اختیار کر لی ہے۔
تاہم برک کے مطابق یہ سمجھنا بہت اہم ہے کہ یہ مسائل کیسے ایک دوسرے کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور یہ کسی ایک مسئلے پر توجہ کا مطلب باقیوں کو نظر انداز کرنا نہیں۔ ’آج کل کے زمانے میں لوگوں کی توجہ کا دورانیہ بہت تھوڑا ہے۔ لیکن موسمیاتی تبدیلی، نسلی امتیاز (اور می ٹو تحریک) کے مسائل پر ہم نے وسیع اور اہم پیش رفت کی ہے۔‘
برک کہتی ہیں: ’معاشرتی تبدیلی کی اصل دنیا بہت وسیع اور جدوجہد طویل ہے جس میں وقت لگتا ہے، اس لیے ہم نے پچھلے تین سالوں میں جو کیا وہ حیرت انگیز ہے۔ ہم نے ثقافتی انقلاب کی ابتدا دیکھی ہے۔ اگرچہ یہ مکمل ثقافتی انقلاب نہیں لیکن ہم نے ابتدائی مراحل دیکھے جہاں اب لوگ ریپ کلچر کے بارے میں زیادہ باشعور اور زیادہ آگاہ ہیں کہ کہاں اور کیسے وہ اس کے خلاف اپنا حصہ ڈال سکتے ہیں۔‘
اس کے باوجود برک مزید کہتی ہیں ’یہ اتنا بڑا مسئلہ ہے کہ جو کچھ اسے مکمل تبدیل کرنے کو درکار ہے اس کے مقابلے میں تین سالہ کارکردگی محض ایک قطرہ ہے۔‘
تو اس کے لیے کیا کچھ درکار ہے؟ برک کے مطابق ’کچھ وقت کے دوران مختلف مداخلتی اقدامات‘ کے ذریعے مکمل ثقافتی انقلاب۔ می ٹو کے بنیاد گزاروں کے مطابق اس ثقافتی انقلاب کی ایک سادہ سی جھلک سگریٹ اور تمباکو نوشی پر بدلتے سماجی نقطہ نظر سے جانی جا سکتی ہے۔ برک وضاحت کرتے ہوئے کہتی ہیں، ’اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ ثقافت کیسے تبدیل ہوتی ہے تو ایک وقت تھا جب سگریٹ اور تمباکو نوشی امریکیوں کے خمیر میں گندھی ہوئی تھی۔
’آپ مالبرو مین ہیں یا ورجینیا سلمز ویمن۔ آپ کو ٹی وی اور فلموں میں ہر شخص سگریٹ پیتا ہوا نظر آتا تھا۔ پھر تقریباً 25 سے 30 سال پہلے ہم نے یہ ناقابل یقین انقلاب برپا ہوتے دیکھا اور یہ بہت سے مداخلتی اقدامات کی بدولت ہوا۔‘ ان میں ’تحقیق اور طبی اقدامات‘ شامل تھے جنہوں نے خود پینے والے اور اس کے اٹھتے دھوئیں سے متاثر ہونے والوں سمیت دونوں کی صحت پر ممکنہ اثرات کی واضح تصویر کشی کی۔
برک کہتی ہیں، ’پھر ہم نے مزید ثقافتی مداخلت ملاحظہ کی کیونکہ ہمیں سگریٹ نوشی کے اشتہارات نظر آنا بند ہو گئے۔ اچانک مالبرو مین اور ورجینیا سلمز کے اشتہار غائب ہو گئے اور آپ فلم اور شوز میں بھی تمباکو نوشی نہیں دیکھتے، سوائے یہ کہ ماضی کے کسی وقت کی تصویر کشی مقصود ہو۔ انہوں نے کینڈی کرش سگریٹس کا بھی خاتمہ کر دیا۔ ’عین اسی وقت سگریٹ تیار کرنے والی کمپنیوں کے کام کرنے، عوام سے ربط، کہاں اور کیسے سگریٹ نوشی کی جا سکتی ہے ان سب کے متعلق قانونی دخل اندازی کی گئی۔
اگرچہ لوگوں نے سگریٹ نوشی جاری رکھی، لیکن برک کہتی ہیں، ’اس نے معاملات ڈرامائی طور پر تبدیل کر دیے۔‘ یہ ثقافتی انقلاب ان معنی میں تھا کہ جو کبھی لوگوں کا معاشرتی معمول تھا اب بالکل مختلف نظر سے دیکھا جانا لگا۔ برک کہتی ہیں معاشرے جیسے جنسی ہراسانی اور دست درازی کو دیکھتے ہیں اس میں بھی ہمیں ایسے انقلاب کی ضرورت ہے۔ ہمیں ایسے نوجوانوں کی پرورش کرنی چاہیے جو جنسی تشدد کو غلط سمجھتے ہوں، جو اسے قابل فخر نہیں بلکہ اجنبی اور قابل نفرت سمجھتے ہوں۔
اس جدوجہد کے ایک حصے کے طور پر برک می ٹو تحریک کا نیا باب شروع کرنے جا رہی ہیں۔ اس کا آغاز اس پیش رفت کی پہلی سی ای او ڈینی آئرز سے، اور ساتھ ہی ساتھ معاشرے کی شمولیت کے لیے نئے آن لائن پلیٹ فارم متعارف کروانے سے شروع کر رہی ہیں۔
آئرز کی قیادت میں می ٹو ایکٹ ٹو کی بنیاد بھی شروع کیا جا رہا ہے جو متاثرین، وکلا اور ہمدردوں کے لیے آن لائن پلیٹ فارم ہے تاکہ وہ جنسی ہراسانی کے خاتمے کے لیے اپنے تجربات کو با معنی طور پر بروئے کار لائیں۔
آئرز دی انڈپینڈنٹ کو بتاتی ہیں کہ ایکٹ ٹو مظاہروں کی جگہوں کے اعداد و شمار منظم انداز میں جمع کرنے میں لوگوں کی مدد کرے گا اور جو لوگ ایسی مہمات کے بارے میں متفکر رہتے ہیں انہیں ضروری معلومات فراہم کرے گا کہ آج کے دن یہ مہمات اور اقدامات عمل میں آئے۔ ہر عمل کا ریکارڈ ایک مستقل آرکائیو پبلک بلاک چین پر موجود ہو گا تاکہ اس کے اثرات ضائع نہ کیے جا سکیں۔
آئرز کہتی ہیں نیا پلیٹ فارم ضروری اقدامات کی ایک فہرست بھی جاری کرے گا کہ بتایا جا سکے دنیا سے جنسی تشدد کے خاتمے کے لیے لوگ کیا کر سکتے ہیں۔ وہ کہتی ہیں، ’یہ محض کھیل تماشا نہیں ہے۔ تحریکیں تبھی کامیاب ہوتی ہیں جب لوگ انہیں آگے لے جاتے ہیں اور ہم لوگوں کو بتانا چاہتے ہیں کہ جو ہوتا ہے وہ اس پر منحصر ہے کہ لوگ کیا کرتے ہیں۔‘
© The Independent