عید الفطر سے قبل لاہور پولیس نے مختلف بازاروں میں جرائم کی روک تھام کے لیے سائیکل سوار خواتین پولیس سکواڈ تعینات کر دیا ہے۔
انڈپینڈنٹ اردو نے لاہور کی لبرٹی مارکیٹ کا دورہ کیا تو دیکھا کہ سر پر کالے سکارف باندھے ڈالفن پولیس یونیفارم پہنے خواتین پولیس اہلکار اپنی کالی سائیکلوں سمیت وہاں موجود تھیں۔
ان کے ساتھ مرد پولیس اہلکار بھی تھے اور وہ بھی سائیکلوں پر ہیلمٹ پہنے لبرٹی مارکیٹ میں گشت کر رہے تھے۔
’ویمن بائی سائیکل سکواڈ‘ کی ایک اہلکار کائنات شوکت نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ’ہمیں خاص طور پر خواتین کی حفاظت کے لیے تعینات کیا گیا ہے کیونکہ اکثر خواتین کو بازاروں میں ہلڑ بازی یا چھیڑ خانی کی شکایات ہوتی ہیں اور خواتین خود کو محفوظ محسوس نہیں کرتیں اسی لیے ہم یہاں موجود ہیں اور ہماری موجودگی سے خواتین خود کو محفوظ محسوس کرتی ہیں اور اپنی شکایت آسانی سے ہمیں بتا سکتی ہیں۔‘
ایک اور خاتون اہلکار مقدس کوثر نے بتایا: ’ہماری ڈیوٹی بازار کے اندر ہوتی ہے اور خواتین کو کوئی تنگ نہ کرے اس کا خیال رکھنا، کوئی بچی کہیں ادھر ادھر ہو جائے اس کو ڈھونڈنا وغیرہ ہماری ڈیوٹی میں شامل ہے۔‘
انہوں نےبتایا: ’ہم مارکیٹ میں سائیکل پر گشت کرتی ہیں، زیادہ رش عصر کی نماز کے بعد شروع ہو جاتا ہے لیکن افطاری کے بعد بڑھ جاتا ہے اس دوران ہمارا کام مسلسل گشت کرنا ہے اور ہمارے ساتھ ہمارے مرد ساتھی بھی شامل ہوتے ہیں اور ہم دونوں طرفین ڈیوٹی کرتے ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ڈپٹی انسپیکٹر جنرل (ڈی آئی جی) آپریشن ونگ لاہور فیصل کامران نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے بتایا: ’عید کے دنوں میں جرائم میں اضافے کا امکان ہوتا ہے اس کے لیے ہم نے 16 بڑے اور 65 چھوٹے شاپنگ سینٹرز کی شناخت کی ہے جو عید کے دنوں میں جرائم کے حوالے سے ہاٹ سپاٹس ہو سکتے ہیں۔‘
ان کا کہنا تھا کہ بڑے شاپنگ سینٹرز یا ایسے مقامات جہاں عوام آتی ہے، فیملیز آتی ہیں اور یہ جرائم پیشہ افراد کے لیے کشش کا باعث ہوتی ہیں۔
انہوں نے بتایا: ’پاش ایریاز کے شاپنگ سینٹر اور رش والے بازار جن لبرٹی مارکیٹ، اچھرہ، انارکلی اور ڈفینس رایا بھی شامل ہے ان کی سیف سٹی کے کیمروں، چھپے ہوئے کیمروں، سے مانیٹرنگ کی جا رہی ہے اس کے علاوہ ہم نیٹ ورک ایسا بناتے ہیں جس میں ہماری کیمروں والی گاڑیاں ایسے پوائنٹس پر کھڑی ہوتی ہیں جہاں سے کسی جرائم پیشہ شخص کے لیے واردات کر کے باہر نکلنا ناممکن ہو جاتا ہے۔‘
ڈی آئی جی آپریشن ونگ لاہور کا کہنا تھا کہ 'ہمیں چیلنج یہ ہوتا ہے کہ شاپنگ سینٹرز میں فیملیز آتی ہیں، بچیاں آتی ہیں اور چھوٹے بچے ہوتے ہیں جن کا رش میں گم جانے کا امکان ہوتا ہے، کہیں ہراسمنٹ نہ ہو، جہاں بہت سے لڑکے لڑکیاں موجود ہوں وہاں ہلڑ بازی کا بھی امکان ہوتا ہے، ایسا کچھ نہ ہو اس لیے ہم نے لیڈیز پولیس کو خصوصی طور پر تعینات کیا ہے۔‘
فیصل کامران نے بتایا کہ بازاروں میں ڈیوٹی پر موجود ایک سکواڈ کی ٹیم میں دو مرد اور دو خواتین شامل کی گئیں ہیں اور مارکیٹ کے سائز کے مطابق سکواڈ لگایا جاتا ہے جیسے لبرٹی میں ٹیمیں تعینات کی گئی ہیں ایک ٹیم ایک طرف دوسری ٹیم دوسری طرف ٹوٹل آٹھ مرد و خواتین پولیس اہلکار تعینات کیے گئے ہیں جنہیں سائیکلیں دی گئیں ہیں اور وہ انہی پر بازار میں پٹرولنگ کرتے ہیں۔
لاہور پولیس کے ایک ترجمان نے بتایا کہ لاہور بھر میں بازاروں سمیت دیگر حساس مقامات پر عید سے پہلے سکیورٹی کو یقینی بنانے کے لیے چار ہزار کے قریب پولیس اہلکار سکیورٹی ڈیوٹی پر مختلف سکواڈز کی شکل میں تعینات کیے گئے ہیں جن میں سادہ کپڑوں میں ملبوث اہلکار، اور دیگر پٹرولنگ ٹیمز کے سکواڈز بھی شامل ہیں۔
لبڑٹی میں شاپنگ کی غرض سے آنے والی کراچی کی ڈاکٹر مریم نے کہا: ’ہم لبرٹی شاپنگ کرنے آئے تھے اور ہم اکیلی خواتین ہی آئیں تھیں اور ہم خود کو محفوظ محسوس کر رہے ہیں۔‘
ڈاکٹر مریم نے اس حوالے سے پولیس کا شکریہ بھی ادا کیا اور کہا کہ پولیس نے خواتین سکواڈ کو تعینات کر کے ایک اچھا اقدام کیا ہے۔
ڈاکٹر مریم نے تو خود کو محفوظ محسوس کیا لیکن لبرٹی کے ایک دکاندار کو کچھ شکایت تھی۔
نعیم اختر لبرٹی میں ایک دکان کے مالک ہیں ان کا خیال ہے: ’پولیس سکواڈ کے ہونے سے سکیورٹی میں کوئی خاطر خواہ فائدہ نہیں ہوا کیونکہ ان کی موجودگی میں مانگنے والے لبرٹی سے ختم نہیں ہوئے وہ وہیں کے وہیں مارکیٹ میں موجود ہیں جن کی وجہ سے سکیورٹی خدشات ہو سکتے ہیں۔‘