اکتوبر 2008 میں سابق پاکستانی صدر آصف علی زرداری نے دو امریکی سینیٹروں کو پاکستان کا دوسرا بڑا سول اعزاز ہلال پاکستان دینے کا اعلان کیا۔ ان میں سے ایک اس وقت کے ڈیموکریٹک پارٹی سے تعلق رکھنے والے سینیٹر جو بائیڈن تھے اور دوسرے رپبلکن سینیٹر رچرڈ لوگر تھے۔
سوال یہ ہے کہ ان امریکی سینیٹروں کی پاکستان کے لیے کیا خدمات تھیں؟ پاکستان اور امریکہ کے تعلقات اس وقت کس کشمکش سے گزر رہے تھے؟ پاکستان کی حکومت کو امریکی سینیٹروں کو یہ اعزاز دینے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟ آئیے مستند ذرائع سے یہ جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔
اس فیچر کی تیاری میں واٹر گیٹ سکینڈل کو بے نقاب کرنے والے امریکی صحافی باب ووڈ ورڈ کی کتاب ’اوباماز وارز،‘ پاکستانی میڈیا اورعالمی خبر رساں ایجنسیوں کی رپورٹوں سے مدد لی گئی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مشرف کی ایمرجنسی اور جو بائیڈن
تین نومبر 2007 کو جب اس وقت کے فوجی صدر جنرل مشرف نے ملک میں ہنگامی صورتِ حال نافذ کر دی، تو ساتھ ہی اعلان کیا کہ ملک میں انتخابات غیر معینہ مدت تک ملتوی کر دیے گئے ہیں۔
تاہم چھ نومبر کو سینیٹر بائیڈن نے جنرل مشرف سے فون پر بات کی۔ امریکی میڈیا کے مطابق بائیڈن نے کہا کہ ’میں نے صدر مشرف کو بتایا ہے کہ دونوں ملکوں کے تعلقات کے لیے کتنا ضروری ہے کہ انتخابات منصوبے کے مطابق جنوری میں منعقد ہوں اور وہ اپنی وردی اتارنے اور پاکستان میں قانونی کی سربلندی کے لیے اپنا وعدہ پورا کریں۔‘
بائیڈن نے مزید کہا تھا کہ ’صدر مشرف سمجھتے ہیں کہ اگر پاکستان جمہوریت کی راہ پر نہ چلا تو اس سے ان اپنے ملک پر اور امریکہ کے ساتھ تعلقات پر کیا نتائج مرتب ہوں گے۔‘
لگتا ہے کہ مشرف پر اس فون کال کا واقعی اثر ہوا اور انہوں نے اس کے دو ہی دن بعد یعنی آٹھ نومبر کو اعلان کیا کہ آٹھ جنوری 2008 کو انتخابات کروائے جائیں گے۔
اس کے بعد دسمبر میں بےنظیر بھٹو قتل ہو گئیں اور انتخابات ڈیڑھ ماہ کے لیے ملتوی ہو گئے۔ جب 18 فروری 2008 کو انتخابات ہوئے تو ان میں پیپلز پارٹی نے اکثریت حاصل کر لی، اور یوسف رضا گیلانی ملک کے وزیر اعظم منتخب ہو گئے۔
انتخابات کے دوران کس امریکی شخصیت نے بطور مبصر پاکستان کا دورہ کیا تھا؟
جو بائیڈن نے۔
سینیٹر بائیڈن نے 18 فروری 2008 کے پاکستانی الیکشن میں ایک مبصر کی حیثیت سے دو اور سینیٹروں کے ساتھ پاکستان کا دورہ کیا۔ بعد ازاں ایک مشترکہ پریس کانفرنس کے دوران ان تینوں سینیٹروں نے الیکشن کو منصفانہ اورشفاف قراردیا اور پاکستان کے لیے امریکی امداد کی توسیع کی حمایت کی۔
امریکی سینیٹروں کا پاکستانی الیکشن میں مبصر کی اہمیت سے جائزہ لینے پاکستان کا دورہ کرنا ایک غیر معمولی اہمیت کی بات ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ پاکستان میں سول سپریمیسی کے قیام کے لیے کام کرنے والی قوتوں یا خود صدر زرداری نے بائیڈن کو الیکشن میں مبصر بننے کی دعوت دی ہو کہ کسی اور طاقت کو الیکشن سبوتاژ کرنے کا موقع نہ ملے۔
جو بائیڈن کا فروری 2008 کا دورہ یہ واضح کرتا ہے کہ امریکہ میں پاکستان میں جمہوریت کے حوالے سے کتنی سنجیدگی پائی جاتی تھی۔
ان انتخابات میں پیپلز پارٹی 91 نشستیں حاصل کر کے اول آئی، جب کہ مسلم لیگ ن 69 نشستوں کے ساتھ دوسرے نمبر پر رہی۔ پرویز مشرف کی پروردہ پارٹی مسلم لیگ ق صرف 38 نشستیں حاصل کر سکی۔
پیپلز پارٹی نے حکومت بنا لی اور مسلم لیگ ن کے ساتھ مل کر پرویز مشرف کے مواخذے کی مہم شروع کر دی، جس سے عاجز آ کر مشرف جولائی 2008 میں مستعفی ہو گئے۔
اس کے بعد نومبر میں امریکہ میں صدارتی انتخابات ہوئے جن میں براک اوباما صدر اور جو بائیڈن نائب صدر منتخب ہو گئے۔ اوباما اور بائیڈن کو اپنے اپنے عہدوں کا حلف 20 جنوری 2009 کو اٹھانا تھا، لیکن حیرت انگیز طور پر بائیڈن اس سے 11 روز قبل نو جنوری 2009 کو ایک اور رپبلکن سینیٹر لنزی گریم کے ہمراہ پاکستان آ پہنچے۔
اس دورے میں بائیڈن آصف علی زرداری کے لیے نو منتخب صدر اوباما کا پیغام لے کر آئے تھے۔ حلف اٹھانے سے پہلے نائب صدر کا دورہ پاکستان اوباما انتظامیہ کی ترجیحات کی نشاندہی کرتا ہے۔
اسی دورے کے دوران صدر آصف علی زرداری نے جو بائیڈن کو ہلالِ پاکستان کے اعزاز سے نوازا، جو نشانِ پاکستان کے بعد پاکستان کا دوسرا اعلیٰ ترین سول اعزاز ہے۔
صدر زرداری نے پاکستان کے لیے جو بائیڈن کی خدمات کا اعتراف کیا اور امریکی سینٹ میں پاکستان کی مسلسل حمایت پر ان کا شکریہ ادا کیا۔
جب صحافیوں نے پوچھا کہ بائیڈن نے ایسا کیا کیا ہے کہ انہیں ہلالِ پاکستان سے نوازا گیا ہے تو 12 جنوری 2009 کو پاکستان کے وزیراعظم یوسف رضا گیلانی نے صحافیوں کے اس سوال کا جواب دیتے ہوئے کہا کہ جو بائیڈن نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں بہت موثر کردار ادا کیا ہے۔
گیلانی نے مزید کہا کہ بائیڈن ’پرو پاکستان‘ (پاکستان کے حمایتی ہیں) اور انہوں نے ہمارے لیے بہت کچھ کیا ہے۔ دوسری جانب بھارتی اخبار ہندوستان ٹائمز کی 12 جنوری 2009 کی اشاعت میں یوسف رضا گیلانی کے حوالے سے یہ خبر دی گئی کہ یہ بائیڈن ہی تھے جنہوں نے فوجی ڈکٹیٹر پرویز مشرف کو آرمی چیف کا عہدہ چھوڑنے پر مجبور کیا۔
یہ حقیقت واضح ہے کہ سینیٹر بائیڈن نے 2007 میں پرویز مشرف کو وردی اتارنے پر مجبور کر کے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے اہم کردار ادا کیا۔
کیری لوگر بل میں بائیڈن کا کردار
یہ وہ وقت تھا جب امریکہ ایک ساتھ عراق اور افغانستان کی جنگوں میں پھنسا ہوا تھا اور افغانستان خصوصاً اس کے لیے درد سر بنا ہوا تھا۔ بش حکومت افغانستان میں اپنی ناکامیوں کا ذمہ دار پاکستان کو قرار دے رہی تھی۔ اس کا کہنا تھا کہ افغان طالبان اور القاعدہ کے اراکین کو پاکستانی آئی ایس آئی نے پاکستانی قبائلی پٹی میں پناہ دی ہوئی ہے۔
پاکستان اور امریکہ کے آپسی تعلقات کے حوالے سے اندروں خانہ اور بھی بہت کچھ چل رہا تھا جس میں بائیڈن امریکی حکومت کی ایما پر اپنا کردار ادا کر رہے تھے۔
پاکستان کے ساتھ امریکی تعلقات میں بائیڈن کا ایک اور اہم کام کیری لوگر بل ہے۔ اس بل کی تجویز بائیڈن اور رپبلکن سینیٹر رچرڈ لوگر نے جولائی 2008 میں دی تھی، جسے Enhanced Partnership with Pakistan Act of 2009 کہا جاتا ہے۔
اس بل میں 2010 سے 2014 تک پاکستان کی سول حکومت کو معاشی ترقی کے لیے سالانہ ڈیڑھ ارب امریکی ڈالر کی امداد کی سفارش کی گئی۔
اسے ستمبر 2009 میں امریکی سینٹ اور اکتوبر 2009 میں کانگریس میں منظور کیا گیا۔ اس وقت تک یہ تجویز اس وعدے سے مشروط تھی کہ پاکستان افغانستان کے حوالے سے امریکہ کی مدد کرے گا۔ یہ بھی یاد رہے کہ اکتوبر 2009 میں یہ بل سینیٹ میں پیش کرنے میں بائیڈن شامل نہ تھے، وہ اس وقت نائب صدر بن کر اپنی ذمہ داریاں نبھانے میں مصروف تھے۔
اس بل کی تجویز امریکی امداد کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی تھی کیونکہ اس میں امداد پاکستان کے فوجی اداروں کے بجائے سول حکومت کو دینے کی سفارش کی گئی تھی۔ اس بات پر زور دیا گیا کہ یہ بل پاکستان کے عوام سے اظہار یکجہتی کے لیے ہے لیکن اس میں ایک واضح پیغام یہ تھا کہ اب امریکی حکومت فوجی اداروں کے بجائے پاکستان کی جمہوری حکومت سے براہ راست مذاکرات کرے گی۔
ڈورن حملے: ’سول ہلاکتوں سے امریکیوں کو مسئلہ ہو گا، مجھے نہیں‘
باب ووڈ ورڈ کے مطابق امریکی انتخابات کے ٹھیک نو دن بعد 12 نومبر 2008 کو سی آئی ائے کے ڈائریکٹر مائک ہیڈن نے نیو یارک شہرمیں پاکستانی صدر زرداری اور اس وقت کے پاکستانی سفیر حسین حقانی سے پاکستانی علاقوں میں ڈرون حملوں کی اجازت کے حوالے سے بات چیت آگے بڑھانے کے لیے ملے۔
ڈرون حملے اس سے قبل بھی ہو رہے تھے مگر اس سے قبل پاکستانی فوج سے معاہدے کے مطابق امریکہ کے لیے لازم تھا کہ وہ حملے سے قبل پاکستانی حکام کو ہدف اور حملے کی ٹائمنگ سے آگاہ کرے۔ باب کے مطابق امریکی انٹیلی جنس ادارے سی آئی اے کو شک تھا کہ آئی ایس آئی میں موجود ایسے اہل کار جنھیں اب تک سی آئی اے نہیں خرید سکی ہے، القاعدہ کے لوگوں کو حملے سے قبل مطلع کر دیتے ہیں جس سے وہ بچ نکلنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں۔
یہ وہ وقت تھا جب پاکستانی میڈیا کے ساتھ ساتھ عالمی میڈیا بھی ڈرون حملوں میں سول اموات پر آواز اٹھانے لگا تھا۔ امریکی حکومت بھی سول اموات کے حوالے سے اپنی بدنامی سے پریشان تھی۔
یاد رہے کہ پاکستان امریکہ کا اتحادی تھا اور عالمی قانون کے مطابق کسی ملک کی حدود میں اس کی آبادی پر حملہ اس ملک کی خود مختاری پر حملہ تصور کیا جاتا ہے۔ ایسا امریکہ ویت نام کی جنگ میں کمبوڈیا کے ساتھ بھی کر چکا تھا۔ اس کا جواز اس وقت بھی یہی دیا گیا تھا کہ ویت نامی سپاہی کمبوڈیا کو محفوظ پناہ گاہوں کے طور پر استعمال کرتے ہیں۔ یہی جواز قبائلی علاقوں میں ڈرون حملوں کے لیے دیا گیا۔
وڈورڈ کے مطابق 2008 کے نصف اول میں بش انتظامیہ چار اور نصف آخر میں 20 ڈرون حملوں کی اجازت دے چکی تھی۔ سی آئی اے کے ریکارڈز کے مطابق ان 24 حملوں میں القاعدہ کے صرف سات سینیئر رہنما مارے گئے تھے۔
باب ووڈ ورڈ کے مطابق ہیڈن کے مطالبات کے جواب میں زرداری کا کہنا تھا:
Kill the seniors. Collateral damage worries you Americans. It does not worry me.
ترجمہ: سینیئر (رہنماؤں) کو مار ڈالو۔ کولیٹرل ڈیمج (سول اموات) امریکیوں کو پریشان کرتی ہیں، مجھے نہیں۔
ڈیموکریٹک پارٹی کے الیکشن جیتنے کے بعد اوباما کے حلف اٹھانے سے 11 دن قبل بائیڈن نے جنوری کو پاکستان کا دورہ کیا تو انہیں آصف زرداری نے اپنے ہاتھوں سے ہلال پاکستان کا میڈل پہنایا۔
یاد رہے بائیڈن کو میڈل پہنانے سے ایک ہفتہ قبل آصف زرداری نے بش دور کے اسسٹنٹ سیکریٹری آف ڈیفنس رچرڈ باؤچر کو بھی ہلال قائداعظم کے اعزاز سے نوازا تھا۔ یہ بھی یاد رہے کہ یہ میڈل رچرڈ باؤچر کے اس بیان کے ایک گھنٹے بعد پہنایا گیا جس میں انہوں نے کہا کہ پاکستان کے قبائلی علاقے میں ڈرون گرانا بند نہیں کیے جا سکتے اور یہ کہ ڈرون حملے نا گزیر ہیں۔
اس وقت تک پاکستان کے قبائلی علاقوں میں القاعدہ کے خلاف آپریشن میں سو افراد ڈرون حملوں میں مارے جا چکے تھے۔
پاکستانی حکومت مسلسل اس امر سے انکار کرتی رہی تھی کہ ڈرون حملے اس کی اجازت سے ہو رہے ہیں۔ تاہم اپوزیشن رہنما نواز شریف اور موجودہ وزیر اعظم عمران خان کا اس وقت یہ کہنا تھا کہ ڈرون حملے پاکستانی حکومت کی اجازت سے ہو رہے ہیں۔
وزیراعظم گیلانی کا یہ کہنا تھا کہ ڈرون حملوں کی اجازت نہیں دی گئی ہے اور ہم امید کرتے ہیں کہ امریکہ میں قیادت کی تبدیلی سے ان حملوں سے متعلق پالیسی میں بھی تبدیلی آئے گی۔
باب ووڈ ورڈ کے مطابق جو بائیڈن نے زرداری کو اوباما کا پیغا م پہنچایا۔ جس کا خلاصہ یہ تھا کہ پاکستانی آئی ایس آئی افغان طالبان اور القاعدہ کو قبائلی علاقوں میں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کر رہی ہے اور اس کا سلسلہ بند ہونا افغانستان میں امریکی فتح کے لیے ناگزیر ہے۔
جس کے جواب میں زرداری کا کہنا تھا کہ پاکستانی قوم امریکہ مخالف جذبات میں ڈوبی ہوئی ہے اور مجھے امریکہ کا پٹھو سمجھ کر نفرت کی نگاہ سے دیکھا جائے گا اس لیے امریکہ مجھے معاشی امدادی پیکج دے تاکہ میں پاکستانی عوام کا دل جیت سکوں۔ اس کے عوض زرداری کا کہنا تھا کہ وہ آئی ایس آئی کو ایسے عناصر کو پاک کریں گے جو افغان طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔
اس ملاقات میں بائیڈن نے زرداری سے غیر فوجی امداد کا وعدہ کیا جو اس امر سے مشروط تھا کہ زرداری اپنے حصے کا کام کریں۔
بائیڈن کا پاکستان
ان حقائق سے معلوم ہوتا ہے کہ بائیڈن کم از کم 2007 سے پاکستانی سیاست پر اثر انداز ہو رہے تھے۔ ان کا 2007 میں امریکی حکومت کی ایما پر مشرف کی وردی اتروانے میں اہم کردار تھا جس نے پاکستان میں جمہوریت کی بحالی میں اپنا کردار ادا کیا ورنہ مشرف حکومت چھوڑنے پر آمادہ نہیں تھے۔
ایسا محسوس ہوتا ہے کہ بش دور کے آخر میں ہی امریکی حکومت کا پاکستانی فوج سے اعتماد ختم ہو گیا تھا۔ انہیں یقین تھا کہ آئی ایس آئی یا کم از کم آئی ایس آئی کے کچھ عہدے دار افغان طالبان کی مدد کر رہے ہیں۔ اسی لیے کیری لوگر بل میں سول امداد کی سفارش کی گئی۔
پاکستان میں جمہوریت کی بحالی کے لیے صدر مشرف سے وردی اتروانا اور پاکستان کی معاشی ترقی کے لیے غیر فوجی امداد حکومت پاکستان کے لیے منظور کروانے کی سفارش کرنا، وہ خدمات ہیں جس پر بائیڈن کو ہلال پاکستان سے نوازا گیا۔