یہ 1988 کے سنہرے سجیلے دنوں کی دلستاں یادوں کی بازآفرینی ہے۔ شاید ہمارے ’محبوب‘ جنرل کے ’بلیک اینڈ وائٹ‘ دور حکومت کی آخری ساعتیں چل رہی تھیں جب راوی چین ہی چین لکھتا تھا۔ اداسی اور خموشی میں ملبوس ایک سہہ پہر ابا جی لکڑی کے ڈبے کا چار فٹ طویل بلیک اینڈ وائٹ ٹی وی لے کر جب گھر آئے تھے تو ہمارا گھر اوچ شریف کی پوری شمس کالونی میں وہ واحد ’خوش قسمت‘ گھر قرار پایا جو ٹی وی جیسی ’نعمت‘ سے ’بہرہ ور‘ ہوا۔
گرمیوں میں اس دیو ہیکل ٹی وی کو کمرے سے نکال کر صحن میں رکھنا ایک عذاب عظیم سمجھا جاتا تھا، سو ہر شام اسے اٹھانے کے لیے بہن بھائیوں میں سے دو افراد کی باریاں مقرر ہوتی تھیں۔ ایک ہی چینل پی ٹی وی ہوتا تھا۔ اس دوران سرشام ہی صحن میں چھڑکاؤ کر کے چارپائیوں کے آگے بچوں کے بیٹھنے کے لیے چٹائیاں بچھا دی جاتی تھیں۔
صبح سات بجے پی ٹی وی کی نشریات کا باقاعدہ آغاز ہوتا تھا تو اس وقت ہم سکول جانے کی تیاریوں میں مصروف ہوتے۔ چاچا مستنصر حسین تارڑ صبح کی نشریات میں ہر صبح نئے پیغام اور آہنگ کے ساتھ پی ٹی وی پر جلوہ گر ہوتے۔ ان کی دانشورانہ باتیں تو ہمارے پلے کیا پڑنا تھیں البتہ کارٹون کے ہم شدت سے منتظر رہتے۔
صبح سات بجے شروع ہونے والی نشریات کا صبح سوا آٹھ بجے اختتام ہو جاتا۔ پھر سہ پہر سوا چار بجے معمول کی نشریات کا آغاز ہوتا۔ شام پانچ بجے تک بچوں کے پروگرام، آٹھ بجے ڈرامہ، نو بجے خبرنامہ اور شب 11 بج کر 18 منٹ پر پی ٹی وی پر آخری پروگرام ’فرمان الٰہی‘ کے نام سے نشر ہوتا اس کے بعد ٹھیک ساڑھے 11 بجے نشریات انجام کو پہنچتیں۔
پی ٹی وی کا ڈراما تفریح طبع کے ساتھ ساتھ معاشرتی تربیت کے حوالے سے ایک بہترین اتالیق، مبلغ اور مصلح کا انداز اپنائے ہوئے تھا۔ ’وارث،‘ ’تنہائیاں،‘ ’جانگلوس،‘ ’عروسہ،‘ ’اندھیرا اجالا،‘ ’دھواں،‘ ’آہٹ،‘ ’عینک والا جن‘ اور ’گیسٹ ہاؤس‘ جیسے ڈراموں کو دیکھنے کے لیے محلے کی عورتیں اور بچے ہمارے گھر براجمان ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پی ٹی وی پر ہر جمعرات کو طارق عزیز کا ’نیلام گھر‘ پروگرام نشر ہوتا تھا اور پھر رات گئے ایک اردو فلم بھی ضرور لگتی تھی۔ جمعتہ المبارک کو ہفتہ وار سرکاری تعطیل ہوتی تھی۔ اس دور میں پاکستانی ٹیلی ویژن ڈرامے نے اپنے ناظرین کو سحر میں لے رکھا تھا۔ تب ہماری فیچر فلمیں بھی تہذیبی زندگی اور بڑی حد تک عمومی شائستگی کا مظہر ہوا کرتی تھیں
پی ٹی وی کی نشریات کو ’مکھیوں‘ سے صاف رکھنے کے لیے کمرے کی کھڑکی سے بندھے انٹینے کا ڈنڈا پھیرنے میں بھی عجیب چارم نظر آتا تھا۔ نشریات صاف نظر آنے کی تگ و دو میں انٹینے کی مخصوص تار پر سگریٹ کی ڈبی سے نکلنے والی کناری اوڑھ کر اسے گھمایا جاتا۔ 14 اگست کو یوم آزادی کی خوشی میں اسی انٹینے کے بانس پر انٹینا تھوڑا نیچے ایڈجسٹ کر کے اوپر سبز ہلالی پرچم لگا دیا جاتا تو فخر سے اپنے دوستوں کو گھر بلا کر وہ انٹینا دکھاتے رہتے۔
17 اگست 1988 کو طیارے کے حادثے میں صدر جنرل محمد ضیا الحق کی ناگہانی وفات تو ابھی کل ہی کی بات لگتی ہے۔ پی ٹی وی کی خصوصی نشریات کے ذریعے پاکستان کے آنجہانی مرد آہن کی باقیات کی تلاش کے مناظر دیکھ کر ہمارے گھر کے بڑے کمرے کے ننگے فرش پر بیٹھی درجنوں محلہ دار خواتین، بڑی بوڑھیاں اور میری امی کی ہچکیاں بندھ گئی تھیں۔ یہ وہ زمانہ اور دن تھے جب ابھی معاشرتی اقدار کی اس قدر ٹوٹ پھوٹ نہ ہوئی تھی۔ گھروں کے ماحول میں یکجائی تھی اور سب اہل خانہ باہم مل کر ٹیلی ویژن کی نشریات سے فیض یاب ہوا کرتے تھے۔
آج کارپوریٹ میڈیا کی چیختی چنگھاڑتی سرخیوں اور زہر اگلتے لہجوں کے درمیان پگڑی اچھال سوشل میڈیا کی چوسنی منہ میں لے کر پیدا ہونے والی ڈیجیٹل نسل اس ظرف، اس اعتدال، اس ذوق، اس نوسٹیلجیا اور اس ہنر سے محروم ہے جو اس دور میں پی ٹی وی کی بے مثل نشریات کا احاطہ کر سکے، تاہم سینکڑوں، ہزاروں کی تعداد میں کئی ایسے نوسٹیلجیا کے باذوق ’مریض‘ بھی ہیں جو انٹرنیٹ پر پی ٹی وی کے ماضی سے متعلق مواد تلاش کرتے اور دیکھتے ہیں۔
گذشتہ کچھ عرصہ سے یوٹیوب پر موجود کچھ چینلوں نے پی ٹی وی کے کلاسیک ڈرامے مکمل اقساط اور مختصر کلپس کی صورت میں اپ لوڈ کرنے کا سلسلہ شروع کر رکھا ہے، جن کو بہت شوق سے دیکھا جاتا ہے۔ یوٹیوب کی یہ ویڈیوز ان پرانے زمانے کی سی ڈیز اور ڈی وی ڈیز کی مرہونِ منت ہیں جو لوگوں کے گھروں اور دکانوں میں محفوظ رہیں۔
بنیادی طور پر تو ہم پاکستان میں دوبارہ سے صرف ایک چینل دیکھنے کے خواہش مند طبقے میں شامل ہیں اور وہ چینل پی ٹی وی ہے جو صرف ایک ٹیلی ویژن چینل نہیں تھا بلکہ پاکستانی قوم کی یکجہتی کی بھی ایک علامت تھا۔ ہمارا بس چلے تو ہم پاکستان کے تمام نجی چینلوں کو بند کر کے صرف پی ٹی وی کو باقی رکھیں۔ یہ یقیناً موجودہ وقت میں دیوانے کا ایک خواب ہی ہو سکتا ہے جو ناممکن دکھائی دیتا ہے۔
ایک دوسری اور بڑی حد تک ممکن صورت یہ ہے کہ ’پی ٹی وی کلاسیک‘ کے نام سے ایک مخصوص اور الگ چینل بنایا جائے جس پر پی ٹی وی کے ماضی کے مواد کو دوبارہ سے نشر کیا جائے اور پی ٹی وی کے پرانے انداز اور روایات کے مطابق نیا مواد تخلیق کیا جائے۔ اس چینل پر پی ٹی وی کے پرانے چہروں کو واپس لے آیا جائے جو اب بھی ہمارے درمیان موجود ہیں۔ یہ صورت کسی طور بھی ناممکن دکھائی نہیں دیتی۔ خاص طور پر اس وقت جبکہ یہ اندازہ بھی موجود ہو کہ ایسا کوئی بھی چینل ملک میں موجود دیگر تمام چینلوں سے زیادہ دیکھا جا سکتا ہے مگر ضرورت اور کامیابی کی تمام تر توقعات کے باوجود پی ٹی وی انتظامیہ نے کبھی بھی اس سمت میں کوئی قدم نہ اٹھایا۔
تیسرا اور شاید سب سے آسان راستہ یہ ہے کہ پی ٹی وی کے پرانے مواد کے لیے ایک آفیشل یوٹیوب چینل بنا کر اسے ایک ٹیلی ویژن چینل کے نعم البدل کے طور پر پیش کیا اور چلایا جائے۔ پی ٹی وی اپنے تمام کاپی رائٹس کے ساتھ ماضی کے یادگار مواد کو ایسے چینل پر خود پیش کرے اور اس کے ساتھ ساتھ اس چینل کے ذریعے پرانے ڈراموں، اداکاروں، گلوکاروں اور فنون لطیفہ سے وابستہ دیگر لوگوں کو سامنے لا کر ان کی یادیں تازہ کرے۔
ایسا کوئی بھی یوٹیوب چینل نہ صرف یوٹیوب پر پاکستان کے حوالے سے سب سے مقبول چینل شمار ہو گا بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ادارے کے لیے مالی منفعت کا ذریعہ بھی بن سکتا ہے۔