پنجاب کا ضلع اٹک، جسے ایک برطانوی فوجی افسر فیلڈ مارشل کولن کیمبل کی نسبت سے 1908 میں کیمبل پور کا نام دیا گیا تھا، کا نام 1978 میں پرانا نام اٹک واپس کر دیا گیا۔
یہ وہی کولن کیمبل ہیں جو 1857 کی جنگ ِ آزادی کے وقت برطانوی فوج کے ہندوستان میں کمانڈر ان چیف تھے۔ کیمبل پور بھی پنجاب کے ان ضلعوں میں شامل تھا، جہاں تقسیم کے وقت ہولناک فسادات ہوئے تھے۔
دوسری جنگ عظیم میں نیدر لینڈ کی ایک یہودی لڑکی اینک فرینک کی ڈائری بہت مشہور ہوئی تھی جس نے اس وقت ہٹلر کے جرائم کو بے نقاب کیا تھا جب اس کی عمر صرف 13 سال تھی۔
پاکستان میں طالبان حملوں کے وقت ملالہ یوسفزئی کی ڈائری بھی عالمی شہرت حاصل کر چکی ہے۔ کسی بھی بڑے المیے کے تناظر میں ایسی ڈائریاں جو اس وقت کے تناظر میں عام لوگ لکھ رہے ہوتے ہیں ان کی اہمیت بعض اوقات اس تاریخ سے بھی بڑھ جاتی ہے، جو بعد میں لکھی جاتی ہے۔
تقسیم کے فسادات بھی ایسا المیہ ہیں جن پر بہت کچھ لکھا جا چکا ہے۔ حال ہی میں اٹک سے ایک سکھ لڑکی مہرو کی ڈائری سامنے آئی ہے جس میں مارچ سے اگست 1947 تک کے احوال بیان کیے گئے ہیں۔ اس ڈائری کے کچھ صفحات حال ہی میں شائع ہونے والی طاہر اسیر کی کتاب ’جب کیمبل پور جل رہا تھا‘ میں بھی شامل کیے گئے ہیں۔
78 سال بعد ڈائری کی دریافت کیسے ہوئی؟
اٹک سے تعلق رکھنے والے سرکاری آفیسر احتشام وحید شیخ جو اپنے قلمی نام ہادی صاحب کے نام سے سوشل میڈیا پر لکھتے ہیں۔ انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ ان کو تحقیقی اور علمی جستجو کے دوران معلوم ہوا کہ کس طرح تقسیم کے وقت کیمبل پور کے سٹیشن ماسٹر نے خود ٹرین چلا کر ہندو اور سکھ خاندانوں کو یہاں سے نکال کر واہگہ تک پہنچایا تھا۔
سٹیشن ماسٹر ریلوے قوانین کے تحت ٹرین نہیں چلا سکتا اس لیے اسے معطل کر دیا گیا تھا۔ اگرچہ بعد میں اسے بحال کر دیا گیا مگر صرف 39 سال کی عمر میں وہ ایک جان لیوا بیماری کا شکار ہو کر انتقال کر گئے۔
ہادی صاحب بتاتے ہیں کہ میں اس ریلوے سٹیشن ماسٹر کی کھوج لگاتے ہوئے ان کے گھر تک پہنچ گیا۔ ان کا نام شیخ محمد الہٰی تھا جو اٹک میں مکان نمبر C-124 میں رہتے تھے۔ ان کے ساتھ دوسرا گھر شیخ عبد الغنی کا تھا۔ ان دو گھروں کے علاوہ اس گلی میں سارے گھر ہندوؤں اور سکھوں کے تھے۔
ان گھروں میں مجھے بہت سے پرانے کاغذات ملے جن میں مہرو کی یہ ڈائری بھی تھی جو بہت خستہ حالت میں تھی اور بعض جگہوں پر لفظ مٹ چکے تھے۔
ان کاغذات کی فراہمی اور ہندوستان میں مہرو کی فیملی سے رابطے میں مجھے شیخ عبد الغنی کے بیٹے میجر نسیم صدیقی نے بہت مدد کی جن کا ڈیڑھ سال پہلے 96 سال کی عمر میں انتقال ہوا۔ شیخ عبد الغنی اور مہرو کے خاندان کے درمیان تقسیم کے بعد بھی روابط رہے اور وہ ایک دوسرے کو مسلسل خطوط لکھتے رہے۔ اٹک کے سکھ اور ہندو اپنی جانیں بچانے پر سٹیشن ماسٹر شیخ محمد الہیٰ کے بہت مشکور تھے جنہوں نے اپنی جان پر کھیل کر ان کی جان بچائی تھی۔
مہرو کون تھی اور اس نے کیا لکھا؟
مہرو ضلع کیمبل پور کی تحصیل حضرو سے تعلق رکھتی تھی وہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی جب ان کا خاندان 17 مارچ 1946 کو حضرو سے اٹک منتقل ہو گیا تھا جس کی وجہ انہوں نے یہ لکھی ہے کہ ان کے والد کا خیال تھا کہ بڑے شہر میں کاروبار کے زیادہ مواقع ہوتے ہیں اور وہاں پڑھائی بھی اچھی ہوتی ہے۔
آگے چل کر وہ چار اپریل 1946 کی ڈائری میں لکھتی ہیں کہ ’ہماری گلی میں ہمارے گھر کے بالکل سامنے مسلمانوں کے دو جڑواں گھر ہیں۔ ایک کا نمبر سی 124 اور دوسرے کا سی 125 ہے۔ سی 125 کی دو مسلمان لڑکیوں کنیز فاطمہ اور شمیم سے میری اور میرے بھائی جگجیت کی کنیز فاطمہ کے بڑے بھائی نسیم سے دوستی ہو گئی ہے۔
’ہم سہیلیاں پیدل ہی چل کر بلاک ڈی سے ہوتے ہوئے سکول جایا کرتی ہیں۔ حضرو میں بھی میری زیادہ تر سہیلیاں مسلمان تھیں اور مجھے ابھی بھی ان جیسی ہی چادر لینے کی عادت ہو گئی ہے۔ ان دو گھروں کے علاوہ ہماری گلی میں سب ہندو یا ہمارے سکھ دھرم کے لوگ رہتے ہیں۔
’بڑی بہن کا نام پریت کور ہے لیکن پتہ نہیں ابا نے میرا نام مہرو کیوں رکھا۔ ابا بتایا کرتے تھے کہ اماں اور دادی نے ان سے مہرو نام رکھنے پر بڑی لڑائی کی کہ بھلا یہ کیسا مسلمانوں اور ہندوؤں جیسا نام ہے، لیکن ابا ڈٹ گئے۔ ابا چچا تولہ رام کے ساتھ مل کر کام کرتے ہیں۔ گھر میں واہ گرو جی کی جے سے بہت خوشحالی ہے ۔ نویں جماعت کی پڑھائی بہت زیادہ ہو گئی ہے۔ ہماری گلی میں ہندوؤں کا بہت گزر ہے کیونکہ وہ ہماری گلی سے گزر کر ہی مندر کی طرف جاتے ہیں۔‘
31 دسمبر 1946 کو مہرو لکھتی ہے کہ ’آج سال کا آخری دن ہے۔ اس سال کا سب سے بڑا واقعہ 16 اگست 1946 کو ہوا جب مسلمانوں کے لیڈر محمد علی جناح کی اپیل پر ہندوستان میں ڈائریکٹ ایکشن ڈے (یومِ راست اقدام) منایا جا رہا تھا تو بنگال کے دارالحکومت کلکتہ اور گرد و نواح میں خوفناک فساد پھوٹ پڑا۔ ہندوؤں اور مسلمانوں نے جس کا جہاں بس چلا ایک دوسرے کو جی بھر کے لوٹا اور قتل عام کیا۔ اس خونی ہفتے کے دوران کلکتہ سمیت بنگال اور بہار میں لگ بھگ 3000 لوگ جان سے گئے۔ واہ گرو کا کرم کہ پنجاب اور ہمارا کیمبل پور بہت شانتی والی جگہ ہے۔‘
مہرو اس بات سے بالکل بےخبر تھی کہ جو فسادات کلکتہ میں شروع ہو چکے تھے وہ جلد کیمبل پور بھی پہنچنے والے تھے جن کے بعد انہیں اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کرنی پڑے گی اور وہ تاریخی المیہ جنم لے گا جس کے اثرات نسلوں تک رہیں گے۔
مارچ 1947 جب راولپنڈی میں آٹھ سے 10 ہزار ہندوؤں اور سکھوں کو قتل کیا گیا
مہرو لکھتی ہیں کہ ’نویں کا سالانہ امتحان قریب ہے اور ساتھ ہی پریشان کن خبریں بھی آ رہی ہیں۔ ابا آج تولہ رام چاچو کو بتا رہے تھے کہ چار مارچ 1947 کو جب پنجاب اسمبلی کے اندر پاکستان میں شمولیت کرنے یا نہ کرنے پر بحث ہو رہی تھی، اس وقت پنجاب اسمبلی کے باہر مسلم لیگی کارکن پاکستان زندہ باد کے نعرے لگا رہے تھے۔
’لیکن ہمارے سکھ لیڈر ماسٹر تارا سنگھ اسمبلی سے باہر آئے اور کرپان نکال کر نعرہ لگا دیا کہ جو پاکستان مانگے گا اسے قبرستان دیں گے۔ ابا کہتے ہیں کہ ماسٹر تارا سنگھ چنگا بھلا سمجھ دار آدمی ہے پھر بھی یہ کیسی حرکت کر گیا۔ ہم تو اکالی دل کے خلاف ہیں، یہ اکالی ویسے بھی ایک مذہبی جماعت ہے اور ہمارے مہاراجہ رنجیت سنگھ نے اچھے طریقے سے اس کی طاقت مٹا دی تھی۔ لیکن یہ ماسٹر تارا لگتا ہے کہ ہندوؤں کی دوستی اور سکھ مذہب کے نام پر پنجاب میں بنگال جیسی آگ لگانا چاہ رہا ہے۔‘
آگے چل کر 15 مارچ کو وہ لکھتی ہیں کہ ’ابا نے میرا سکول جانا بند کر دیا ہے، ہر طرف خوف کی فضا ہے۔ ساری رات گلی پر پہرہ رہتا ہے۔ اب تو صرف کنیز فاطمہ اور شمیم سے ہی سکول کی پڑھائی کا پتہ چلتا ہے۔ ابا بتا رہے تھے کہ ماسٹر تارا سنگھ کے بیان پر پہلے پانچ مارچ کو ہولی کے دن ملتان میں فسادات شروع ہوئے جو کہ بڑھتے ہوئے سات مارچ کو راولپنڈی داخل ہوئے اور فسادات کی آگ بھڑک اٹھی۔
’اس کی ابتدا ماسٹر تارا سنگھ کے گاؤں ہرنال (گوجر خان) سے ہوئی جو ضلع راولپنڈی میں مندرہ چکوال روڈ پر واقع ہے۔ مسلمان مظاہرین نے اس گاؤں میں سکھوں کے مکانات کو آگ لگا دی۔ سب سے خوفناک فسادات راولپنڈی کے نواحی گاؤں چوا خالصہ / تھوہا خالصہ میں ہوئے۔ ان فسادات میں جتھوں کی صورت میں گاؤں کو نشانہ بنایا گیا۔
’ہمارے دھرم کی 90 سکھنیوں نے کنوئیں میں کود کر اپنی عزت بچانے کے لیے جان دے دی۔ گاؤں کے تقریباً سبھی سکھ مارے گئے۔ تھوا خالصہ کی آگ نے ضلع راولپنڈی، ضلع کیمبل پوراور ضلع جہلم کے کئی دیہات کو اپنی لپیٹ میں لیا اور یہاں کے 128 دیہات ایک ہی ہفتے میں آٹھ سے دس ہزار سکھوں اور ہندوؤں کے مقتل بن گئے۔‘
مہرو لکھتی ہیں کہ ’واہ گرو کا شکر ہے کہ میرے کیمبل پور شہر، بشمول حضرو/ چھچھ میں ایسا کوئی فساد نہیں ہوا۔ لیکن ابا بتا رہا تھا کہ کیمبل پور کی باقی تحصیلوں تلہ گنگ (ڈھرنال/ دھرنالا، پنچند، ٹورواں، ڈِھبا، سُکا)، پنڈی گھیب (کھنڈا، کسراں، دومیل، مٹھیال، بسال، بھاکوٹ، میانوالہ، جنڈ) اور فتح جنگ (راجڑ، چکری، موہڑہ، تلی پنڈی، چونترہ) میں جتھوں نے حملہ کر کے سکھوں ہندوؤں کے تمام گھر و کاروبار لوٹ لیے۔ گوردوارے/مندر جلا دیے۔
’کئی گاؤں ایسے تھے جہاں کوئی ایک مرد بھی زندہ نہیں بچا۔ راولپنڈی ڈویژن میں فوج طلب کر لی گئی۔ واہ میں بہت بڑا رفیوجی کیمپ قائم کر دیا گیا جہاں 25 ہزار سے زائد سکھوں اور ہندوؤں نے پناہ لی۔ ایسا ہی ایک اور کیمپ جہلم کے علاقے کالا میں بھی قائم کیا گیا۔ لیکن یہ سب فسادات دیہاتی علاقوں تک محدود رہے۔ شہری علاقوں میں ابھی بھی حکومت کی رِٹ قائم ہے۔‘
30 مئی 1947 کی ڈائری میں مہرو لکھتی ہیں، ’اس ماہ وائسرائے ہند لارڈ ماؤنٹ بیٹن نے راولپنڈی کے تباہ حال علاقے تھوہا خالصہ کا دورہ کیا۔ لیڈی ماؤنٹ بیٹن نے واہ میں رفیوجی کیمپ کا دورہ کر کے وہاں موجود سکھ ہندو عورتوں اور بچوں سے ملاقات کی۔ راولپنڈی ڈویژن میں اب صرف شہری علاقوں میں ہی سکھ اور ہندو رہ گئے ہیں، گاؤں تقریباً سب خالی ہو چکے ہیں۔ مئی 1947 میں لارڈ ماؤنٹ بیٹن کی زیرصدارت پنجاب کی تقسیم یا اسے متحد رکھنے پر غور کرنے کے لیے ایک کانفرنس کا اہتمام کیا گیا۔ مسلم لیگ کے وفد کی قیادت محمد علی جناح کر رہے تھے، جبکہ سکھوں کی نمائندگی کے لیے گیانی کرتار سنگھ، ماسٹر تارا سنگھ اور مہاراجہ پٹیالہ موجود تھے۔
’کانفرنس میں جناح نے ذاتی طور پر سکھ وفد کو پاکستان میں شمولیت کی صورت میں ان کی ہر شرط قبول کرنے کی یقین دہانی کرائی۔ نا صرف یہ کہ سکھ رہنماؤں کے سامنے عیسائیوں کو آزاد مصر میں حاصل خود مختاری کی مثال رکھی گئی، بلکہ مہاراجہ پٹیالہ کی قیادت میں ایک ایسی سکھ ریاست کے قیام کو قبول کرنے کا عندیہ بھی دیا گیا کہ جو پاکستان کا حصہ بننے کی صورت میں اپنی ریاستی فوج تک رکھنے کی حقدار ہوتی۔ لیکن ماسٹر تارا سنگھ کی ہٹ دھرمی اور راولپنڈی فسادات کے بعد مہاراجہ پٹیالہ کے رُخ بدلنے سے محمد علی جناح ناکام رہے۔‘
وہ دن جب کیمبل پور کا بھی بٹوارہ ہو گیا
جون کی ڈائری میں مہرو لکھتی ہیں کہ مارچ کے بعد سے پنجاب میں حالات بہتری کی طرف گامزن ہیں۔ واہ گرو کی فتح سے اس کے بعد کوئی بڑا واقعہ نہیں ہوا۔ لیکن کیمبل پور میں شدید خوف کا عالم ہے۔ کنیز فاطمہ کے بھائی نسیم بتا رہے تھے کہ مرزا گاؤں کے دو ہندو لڑکے کیلاش اور مدن آج کافی دنوں بعد کالج آئے۔ بھائی نسیم کہتے ہیں کہ میں نے ان کا حال پوچھنے کے لیے انہیں آواز دی تو وہ ڈر کے مارے بھاگنا شروع ہو گئے کہ شاید میں ان پر حملہ کرنا چاہتا ہوں۔ کیلاش کے والد کیمبل پور بار کے وکیل ہیں۔
آج تین جون کو وائسرائے ہند کی منظوری سے تقسیم ہند پلان منظور کر لیا گیا۔ اب دو علیحدہ ملکوں کا قیام یقینی ہو گیا ہے۔ لیکن ماسٹر تارا سنگھ اور نہرو اب پنجاب کے بھی بٹوارے کے پیچھے ہیں اور ان سکھ رہنماؤں نے نہرو کے بہکانے پر اپنا مکہ اور مدینہ یعنی ننکانہ صاحب، کرتارپورہ اور پنجہ صاحب حسن ابدال تک چھوڑ جانے کا فیصلہ کر لیا ہے۔ ابا اور چاچا تولہ رام کسی صورت پنجاب کا بٹوارہ نہیں چاہتے اور پاکستان کے ساتھ ہی اپنے کیمبل پوررہنا چاہتے ہیں۔
31 اگست 1947 کی ڈائری میں مہرو لکھتی ہیں کہ ’پاکستان اور انڈیا دو الگ الگ ملک بن چکے ہیں۔ راولپنڈی فسادات کے بعد برٹش سرکار نے کیمبل پور کے ہندو ڈپٹی کمشنر ایس کرشن کو ہٹا کر انگریز ٹیلر کو ڈپٹی کمشنر لگا دیا تھا جنہوں نے جولائی کی آخری تاریخ تک ذمہ داریاں ادا کیں اور یکم اگست سے مسلمان شیخ رشید کو ڈپٹی کمشنر لگا دیا گیا۔ بٹوارے کے ان کٹھن دنوں وہ ہمارے لیے ایک فرشتہ ثابت ہوئے۔
’شیخ رشید صاحب نے پہلے ہی دن، یعنی یکم اگست سے کیمبل پور کو دو حصوں میں تقسیم کر دیا۔ بلاک ڈی (جہاں ہمارا گردوارہ اور ہندوؤں کا بڑا مندر بھی تھا اور چاچا تولہ رام کا گھر بھی) کو نان مسلم ایریا ڈکلیئر کر کے شہر کے تمام سکھوں / ہندوؤں کو وہاں شفٹ کر دیا گیا۔ بلاک ڈی کو آنے جانے والے تمام راستوں پر سخت پہرے لگا دئے گئے۔ کیمبل پورکی چھاؤنی میں نان مسلم فوجی افسران کی فیملیز کے لیے الگ کیمپ لگایا گیا۔ زیادہ تر ہندوؤں سکھوں نے گھر کاروبار اونے پونے داموں بیچے یا پھر تالا لگا کر چابیاں ہمسائیوں کو دے کر ایسے ہی چلے آئے۔
’یہ ایک ماہ میرے لیے ایک عذاب سے کم نہیں تھا۔ ہر طرف دکھ اور آنسو تھے۔ میں اور مولے بھائی مندر والی گلی کے نکڑ پر آتے تو سامنے والی گلی سے کنیز فاطمہ اور شمیم بھی دوڑی آتیں۔ ان کی امی نیک بخت اور منور آپا ہمارے لیے اچھے اچھے کھانے اور میٹھی ٹکیاں بنا کے لاتیں۔ لیکن نہ وہ ہماری طرف آ سکتی تھیں اور نہ ہی ہم ان کی طرف جا سکتے تھے کیوں کہ میرے کیمبل پورکا بٹوارہ ہو چکا تھا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اٹک سے امرتسر تک آگ اور خون
یکم ستمبر 1947 کی ڈائری میں مہرو لکھتی ہیں، ’ہر دوسرے دن ڈی سی شیخ رشید صاحب کی نگرانی میں ایک قافلہ بسوں پر واہ روانہ کیا جاتا اور ہمارے بلاک ڈی کے چھوٹے سے نان مسلم کیمبل پور میں اردگرد کے علاقوں سے ہندوؤں اور سکھوں کا اشکوں بھرا ایک اور قافلہ آ جاتا۔ 17 اگست کو ریڈ کلف ایوارڈ کے بعد پورے پنجاب میں نفرت کی آگ بھڑک اٹھی ہے لیکن واہ گرو کے کرم سے کیمبل پور شہر اور حضرو میں کوئی نفرت انگیز واقعہ نہیں ہوا اور سارا علاقہ پرسکون رہا۔ آج کیمبل پور سے آخری قافلہ واہ کے لیے روانہ ہو رہا ہے جس میں میرے گھر والے بھی شامل ہیں۔
ان قافلوں پر صرف ایک بار پرانے حاجی شاہ ریلوے سٹیشن کے پاس کچھ افراد کی طرف سے حملہ کرنے کی کوشش کی گئی جسے پولیس/فوج کی جانب سے گولیاں چلا کر ناکام بنا دیا گیا اور جس میں ایک مسلمان پولیس کی گولی سے ہلاک بھی ہو گیا۔ جاتے ہوئے آپا منور میرے پاس آئیں اور میرے کان میں کہا کہ ’بے فکر ہو کر جا، میں نے سٹیشن ماسٹر شیخ محمد الہٰی کو اطلاع کر دی ہے، وہ تم سب کو ہندوستان تک جانے میں خاص مدد کرے گا۔‘
ہادی صاحب بتاتے ہیں کہ اس کے بعد کے واقعات کہ مہرو کا خاندان کیسے امرتسر پہنچا، اس کا احوال انہوں نے خط و کتابت کے ذریعے شیخ عبد الغنی کو بیان کیا ہے جو مجھے ان کے بیٹے میجر (ر) نسیم صدیقی کے ذریعے معلوم ہوا ہے۔
چار اکتوبر 1947 کو مہرو اپنے خط میں لکھتی ہیں ’ہم امرتسر پہنچ چکے ہیں۔ لگتا ہے کہ ہم آگ اور خون کے سیلاب سے گزر کر یہاں تک پہنچے ہیں۔ یہاں پہنچ کر پتہ چلا کہ 22 ستمبر کو امرتسر ریلوے سٹیشن پر ایک ٹرین جس میں 4100 مسلمان سوار تھے کو ہمارے دھرم کے اکالی سکھوں اور ہندو جنونیوں نے گھیر لیا اور حملہ کر کے 3000 مسلمان ماردیے، جب کہ 1000 کو زخمی کیا۔ جب وہ ٹرین لاہور پہنچی تو اس میں صرف 100 مسلمان ایسے تھے جو زخمی نہیں تھے۔
’پتہ نہیں کتنی کنیز فاطمہ اور کتنی شمیم میری طرح زندہ سلامت اور باعصمت پاکستان پہنچی ہوں گی۔ پتہ نہیں میرا کیمبل پور کیسا ہو گا۔ پتہ نہیں کیمبل پور والے ہماری عبادت گاہوں (گردواروں / مندروں) کا خیال رکھ رہے ہوں گے یا نہیں، پتہ نہیں ہمارے کیمبل پور کے گھر میں کون شفٹ ہوا ہو گا۔
’ابا اب ہر وقت چپ چاپ بیٹھا رہتا ہے۔ نئی انجان جگہ۔ سب اپنے دھرم کے لیکن اپنے حضرو اور اپنے کیمبل پور کا سکون نہیں۔ ایک عجیب خاموشی اور افسردگی طاری رہتی ہے۔ ابا کہتا ہے کہ زندگی میں ایک بار دوبارہ اپنی جنم بھومی حضرو اور کیمبل پور ضرور جاؤں گا اور اگر میں نہ جا سکا تو مہرو تم ایک بار ضرور جانا۔ میرے بہت سے دوست مسلمان تھے۔ مسلمان تنگ نظر نہیں اور بڑا دل رکھتے ہیں۔ مجھے پورا یقین ہے کہ مسلمانوں نے مکھڈ، حضرو اور کیمبل پور کے سب گوردواروں اور مندروں کو بہت حفاظت اور احترام سے رکھا ہوا ہو گا۔‘
مہرو تقسیم کے بعد کتنے عرصے زندہ رہی، اٹک میں اپنی سہیلیوں سے وہ کتنا عرصہ رابطے میں رہی، اس کے بارے میں ہادی صاحب اپنی کھوج جاری رکھے ہوئے ہیں لیکن مہرو کی ڈائری ان خون آشام واقعات کی چشم دید گواہ ہے جو ہماری تاریخ کا سیاہ ترین باب ہے۔
ہجرت کا جو دکھ تقسیم سے شروع ہوا تھا وہ ربع صدی گزرنے کے باوجود کم نہیں ہوا۔
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں۔