رمضان المبارک میں معاشرہ واضح طور پر دو حصوں میں تقسیم نظر آتا ہے۔ طبقاتی فرق نے اس ماہ مبارک کو مکمل طور پر اپنے اثر میں لیا ہوا ہے۔
’رمضان کلاتھ کلیکشن مارکیٹ میں آ رہی ہیں‘، ’رمضان ٹرانسمیشن ہو رہی ہیں‘۔ ہم نے ایک روحانی مہینے کو کمرشل کر دیا ہے۔ لوگ انعامات حاصل کرنے کے لیے ان ٹرانسمیشنز میں گھنٹوں بیٹھے رہتے ہیں۔ دیکھنے والے بھی ٹی وی کے سامنے جم جاتے ہیں۔ یوں عبادت کا وقت کب نکل جاتا ہے، پتہ ہی نہیں چلتا۔
اداکار ہمیں دین پڑھاتے ہیں اور مولوی حضرات برانڈز کے جھرمٹ میں دعا کرواتے ہیں۔ یہ ریٹنگز، کمائی، مہنگائی، ذخیرہ اندوزی کا مہینہ نہیں، عبادت کر کے رحمتِ الٰہی کی خوشنودی پانے اور جہنم کی آگ سے بچنے کا سنہری موقع ہے۔
ایک طرف پاکستان کی وہ اشرافیہ ہے جو اس ملک کے سیاہ و سفید کی مالک ہے۔ وہ روز گرینڈ افطاریوں کا اہتمام کر رہے ہیں۔ کلبوں میں نائٹ کرکٹ ہو رہی ہے اور قوالی نائٹس کا اہتمام کیا جا رہا ہے۔
آئی ایم ایف کے قرضے تلے ڈوبے ملک میں جب اشرافیہ کی افطار پارٹیاں ہوتی ہیں تو یہ دیکھ کر لگتا ہی نہیں کہ ملک میں کوئی غریب ہے۔ مہنگی گاڑیاں، قیمتی لباس، برانڈڈ گھڑیاں، لاکھوں کے جوتے پہنے لوگ اور پکوانوں سے لبریز افطار بوفے ان افطار پارٹیوں کا حصہ ہوتے ہیں۔
لوگ افطاری کے وقت بھی اتنے ہشاش بشاش اور مسلسل باتیں کرنے میں مشغول ہوتے ہیں کہ انسان سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ میرا حلق اتنا خشک کیوں ہو رہا ہے؟
اسی ملک میں دوسری طرف عوام دو وقت کی روٹی کھانے سے قاصر ہیں، پر اشرافیہ کی دنیا الگ ہی ہے۔ بجائے اس کے کہ وہ اس ماہِ مبارک میں اصل روزے داروں کی مدد کریں، ان کے لیے مفت راشن کا انتظام کریں اور یہ باعزت طریقے سے ان کے گھر پہنچے، سارا وقت اپنی پارٹیوں کی ترتیب میں لگا دیتے ہیں۔ لباس کیسا ہو گا، تھیم کیا ہو گا، کون سے لوگ مدعو ہوں گے، کتنے پکوان ہوں گے، ڈیکور کون کرے گا، پھول کیسے لگیں گے، کون سا میک اپ کروا کر چہرہ زیادہ نورانی لگے گا وغیرہ وغیرہ۔
یہ سب اہم مسائل ان کو عوام کے لیے سوچنے سے کوسوں دور رکھتے ہیں۔ اگر غلطی سے کسی عوامی پیکج کا اعلان ہو جائے تو وہ دو ہزار کے لگ بھگ ہوتا ہے۔ کسی خوش نصیب غریب کو یہ مل بھی جائے تو وہ سوچ میں پڑ جاتا ہے کہ میں اتنی خطیر رقم سے کروں گا کیا۔
اگر کسی امیر کو یہ خیال آ جائے کہ اس ماہِ مبارک میں غریبوں کی مدد کرنی ہے تو پھر امداد دیتے ہوئے ان غریب لوگوں کی عزتِ نفس ضرور مجروح کرنی ہوتی ہے۔ سیلفی اور ٹک ٹاک ریکارڈ کروانے کے بعد مدد اور امداد ملے گی ورنہ نہیں۔
اپنے لیے خریداری کرتے ہوئے اعلیٰ معیار کی چیزیں اور غربا میں تقسیم کرتے ہوئے ایسے چاول دیے جاتے ہیں کہ اس میں کنکر زیادہ اور چاول کم ہوتے ہیں۔ پاکستان کی اشرافیہ کی افطار اور سحریوں کا ماحول ہی الگ ہوتا ہے، جہاں عام گلیوں میں ڈھول والا سب کو اٹھاتا ہے یا مسجد کے لاؤڈ سپیکر پر اعلان ہوتا ہے تو پھر کوئی پھینی، کوئی دہی، کوئی سالن تو پراٹھے کے ساتھ سحری کرتا ہے۔ تو دوسری طرف ہمارے حکمرانوں کی سحریوں میں ایسی ورائٹی ہوتی ہے کہ فائیو سٹار ہوٹل پیچھے رہ جائیں۔
اگر شہرِ اقتدار کی غلام گردشوں میں ہونے والی افطاریوں کی بات کی جائے تو سامنے مارگلہ کی پہاڑیوں کا نظارہ، ہلکی آواز میں صوفیانہ کلام، باربی کیو کی بھینی بھینی خوشبو اور شام کی خنکی۔ اس دوران اگر کسی کو یاد آ جائے کہ نماز بھی پڑھنی ہے تو اس کے لیے کوئی خاص انتظام نہیں ہوتا۔
ایک تو ہمارے ملک میں وضو خانے کا رواج ہی نہیں، اس کے لیے آپ کو باتھ روم میں ہی جانا پڑتا ہے۔ اگر آرام سے وضو کرنا نصیب ہو جائے تو سو دو سو مہمانوں کے لیے پانچ چھ جائے نماز رکھ دی جاتی ہیں۔ اس طرح میزبان اپنا فرض پورا کر دیتے ہیں، نہ کوئی دعا، نہ کوئی درس، صرف باتیں اور کھا پی کر اکثر لوگ گھر لوٹ جاتے ہیں۔
ایسی تقریبات میں اکثر ان امیر شخصیات کے ڈرائیور اور گارڈ باہر بھوکے رہ جاتے ہیں۔ اگر کوئی نرم دل انسان ان تک بھی افطاری اور کھانا پہنچا دے تو مینو میں زمین آسمان کا فرق ہوتا ہے۔ امرا کے لیے بھنے ہوئے بکرے ہوتے ہیں اور غریب کو پانی جیسی پتلی دال ہی میسر آتی ہے۔
رمضان میں حکومت، ادارے، دیگر اہم شخصیات بھی اپنے خاص لوگوں کو مدعو کرتے ہیں اور ایسی تقریبات میں عام افراد کا داخلہ ممنوع ہوتا ہے۔ یہ افطاریاں بھی دیکھنے کے قابل ہوتی ہیں۔ افطاری کے پکوان، ڈنر کا وسیع مینو، میٹھے کی ورائٹی، مشروبات کی بہار دیدنی ہوتی ہے۔
ملٹی نیشنلز، بینکس، برانڈز اور دیگر بڑی کمپنیاں بھی اپنے اپنے واقف کاروں کو مدعو کرتے ہیں۔ صرف افطاری اور کھانا نہیں، ساتھ قیمتی تحائف بھی دیے جاتے ہیں۔ یہ قیمتی ساعتیں جو عبادت کے لیے بنی ہیں، لوگ انہیں ایسی پارٹیوں میں جا جا کر ضائع کر دیتے ہیں۔ ہر روز نیا سٹیٹس لگا ہوتا ہے ’سحری ود فلاں سیاسی جماعت‘ اور ’افطاری ود فلاں طاقتور ادارہ‘۔
کوئی بھی ان سے یہ سوال نہیں کرتا کہ اس افطار اور سحر کے اہتمام کے پیسے کہاں سے آئے؟ اگر تو اپنی ذاتی جیب سے خرچ کیا تو ٹھیک ہے، اگر عوام کے پیسے اور قومی خزانے سے یہ سب ہو رہا ہے تو کیا یہ جائز ہے؟
جس ملک کے عوام روٹی، کپڑا، مکان کے لیے ترس رہے ہوں وہاں کی اشرافیہ کو تیس چالیس ڈشز والی دعوتیں زیب دیتی ہیں؟ بالکل زیب نہیں دیتیں۔
لیکن اس ملک میں امیروں کا احتساب نہیں ہوتا۔ اب وہ سو ڈشز والی افطار رکھیں یا پچاس، اس کا خرچہ سرکاری خزانے پر ڈالا جائے، ان کو پوچھنے والا کوئی نہیں ہے۔ روزہ ہمیں صبر، استقامت اور اپنے نفس کو قابو میں رکھنے کے لیے فرض کیا گیا تھا، لیکن لوگوں نے اس کو افطار پارٹیوں اور اپنی نمود و نمائش کے لیے استعمال کرنا شروع کر دیا ہے۔
اس مہینے میں زکوٰۃ دی جاتی ہے، صدقات و خیرات کیے جاتے ہیں، طاق راتوں کو ڈھونڈا جاتا ہے تاکہ ہم بھی رحمت اور مغفرت پا سکیں۔ لیکن لوگوں کو رمضان ٹرانسمیشنز، گیم شوز، رمضان سیلز اور پارٹیوں میں لگا دیا گیا ہے۔ ہوٹلوں نے افطار بوفے متعارف کروائے ہیں جو تین سے نو ہزار فی کس تک پہنچ چکے ہیں۔
ایک انسان بوفے میں کتنا کھا سکتا ہے؟ ایک کھجور، ایک پھل، ایک گلاس شربت، تھوڑی سی چاٹ یا پکوڑے، اور اس کے بعد بمشکل آدھی روٹی۔ کیا اتنے سے کھانے کے لیے تین ہزار نو سو ننانوے علاوہ ٹیکس نرخ مقرر کرنا درست عمل ہے؟ ہرگز نہیں۔
پر عوام کو کھانے کے پیچھے لگا رکھا ہے۔ وہ بھی جا کر تصویر کھینچ کر سٹیٹس لگا کر خوش ہو جاتے ہیں۔ کھانے سے پلیٹیں بھر کر بیٹھ جاتے ہیں، پھر کھانا کھایا نہیں جاتا تو یہ کھانا ضائع ہو جاتا ہے۔ نہ غریب کو ملتا ہے، نہ ہوٹل والے ایسا کرتے ہیں، نہ ہی کھانے والے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہ کھانا پیک کروا کر اگر راستے میں کسی غریب کو دے دیا جائے تو وہ اس سے سحری بھی کر لے گا اور افطاری بھی پیٹ بھر کر کر سکے گا، پر ایسا کم ہی لوگ سوچتے ہیں۔
معاشرہ دو انتہاؤں میں بٹ چکا ہے: ایک وہ جن کے پاس سب کچھ ہے لیکن احساس نہیں ہے، اور ایک وہ جن کے پاس کچھ بھی نہیں لیکن احساس تو ہے۔
میں یہ سوچ لیے ہوئے اسلام آباد کے ابن سینا روڈ سے گزر رہی تھی کہ ایک خاندان کو باعزت طریقے سے افطاری تقسیم کرتے ہوئے دیکھا۔ تقریباً آدھے کلومیٹر تک لوگ قطار میں کھڑے تھے، پورے نظم و ضبط کے ساتھ اپنی باری آنے کا انتظار کر رہے تھے۔
وہ خاندان کوئی سو دو سو غریبوں کی میزبانی کر رہا تھا۔ نہ کوئی سیلفی، نہ کوئی ٹک ٹاک، احترام کے ساتھ غربا میں افطاری تقسیم ہو رہی تھی۔
میں سوچ میں پڑ گئی کہ ایک طرف وہ لوگ ہیں جن کے پاس سب کچھ ہے لیکن وہ غریبوں پر خرچ نہیں کرتے، اور دوسری طرف وہ لوگ ہیں جن کے پاس دو وقت کھانے کے پیسے نہیں ہیں۔
پر ان دونوں انتہاؤں کے درمیان کچھ لوگ اعتدال پسندی سے توازن قائم کیے ہوئے ہیں، جو اپنی افطاری سے پہلے غریبوں کو افطاری بانٹ رہے ہیں تاکہ غریب روزہ دار پیٹ بھر کر افطار کر سکیں۔
یہ منظر دیکھ کر مجھے امید قائم ہوئی کہ معاشرے سے اچھائی ابھی ختم نہیں ہوئی۔ اللہ کے بہت سے نیک بندے رمضان کو ویسے ہی منا رہے ہیں جیسے اس کے تقاضے ہیں۔
نوٹ: یہ تحریر بلاگر کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔