ٹوپی پہنے ہوئے کوئی شیر دیکھا ہے کبھی آپ نے؟
سوچیے کہ ایک شیر نے سر پہ کسی بھی قسم کی ٹوپی پہنی ہے یا چادر کو بل دے کر اسے لپیٹا ہوا ہے اور چمکدار پالش والے کالے بوٹ اس کے پاؤں میں ہیں، کیا وہ آپ کو عظیم لگ سکتا ہے؟
کارٹون چل رہے ہیں تو ایک شیر کچھ بھی کر سکتا ہے، کسی بھی حلیے میں دکھائی دے سکتا ہے لیکن آپ اس کے اوپر عظمت کا سٹیکر تو نہیں چپکائیں گے نا؟
تو اب ایک آدمی، جیسے باقی دوسرے ہیں، کئی ارب، ویسا ہی انسان، وہ عظیم کیسے ہو سکتا ہے؟ اور وہ اتنا عظیم ہو کہ اسے خود بھی لگنا شروع ہو جائے کہ میں کسی بہت بڑے مرتبے پہ فائز ہوں؟
سائنسی طور پہ دیکھیں تو چار پانچ دماغی کیفیات میں سے کوئی بھی وار کر سکتی ہے جیسے بائی پولر ڈس آرڈر، شیزوفرینیا، ڈلوژنل ڈس آرڈر، نارسسٹک پرسنیلٹی ڈس آرڈر یا کوئی نشہ پانی اوپر نیچے ہو گیا ہو تو سمجھ میں آتا ہے ورنہ کیسے بابا؟
آپ معتبر لگ سکتے ہیں، شریف انسانوں جیسا حلیہ بنا سکتے، ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہن کر محلے کے بچوں کو نصیحتیں کر سکتے ہیں، ثقافتی لباس پہن کے اپنے علاقے سے اپنائیت دکھا سکتے ہیں، کوٹ پتلون ڈاٹ کے کھانا کھانے بیٹھ سکتے ہیں بلکہ میری طرف سے اسی میں سو بھی جائیں لیکن غور کریں تو یہ سب چیزیں وہ ہیں جو ایک انسان اپنے اوپر چڑھاتا ہے، چلیں یہ بھی ٹھیک ہے، لیکن وہی انسان کبھی فطری ضروریات کی خاطر یہ سب کچھ اتارتا بھی تو ہو گا؟
پھسلے ہیں کبھی آپ نہاتے ہوئے؟ پیٹ دبا کے بیٹھے ہوں کبھی تقاضے کی وجہ سے اُکڑوں؟ کُلی کبھی کی ہو؟ غرارے کیے ہوں اوپر منہ کر کے؟ پانی پیتے ہوئے ٹھسکا لگا ہو؟ مرچیں کھا کے زبان باہر آ گئی ہو؟ گرم کھانے سے ہاتھ جلے ہوں؟ کسی کو گلے لگایا ہو بے ساختہ، بہت زور سے؟ گندے لطیفے پہ ہنستے ہنستے آنکھوں میں پانی آ گیا ہو؟
یہی سب کچھ عظیم انسانوں کے ساتھ بھی ہوتا ہے، وہ بھی اتنے ہی مجبور ہیں جتنے آپ لوگ ہوتے ہیں، جتنا میں ہوں، پھر ان سب چیزوں کے ساتھ وہ لوگ کیسے عظمتوں کا انبار ہضم کر جاتے ہیں اور معدہ بھی بھاری نہیں ہوتا؟
اگر آپ سمجھتے ہیں کہ آپ میں کچھ خاص ہے تو ایک لمبے آئینے کے سامنے کھڑے ہو جائیں اور اوپر سے نیچے تک صرف اپنے آپ کو دیکھیں، سوچیں کیا چیز آپ کو معتبر بنا رہی ہے، چہرے پہ کچھ خاص ہے؟ حلیہ ہے کوئی مخصوص قسم کا؟ کوئی پہناوا ایسا ہے جو آپ کو بارعب بناتا ہے؟ جو کچھ بھی ہے، وہ صرف دماغ کا کھیل ہے، جیسے ہی یہ سامنے والی چیزیں ہٹیں گی اور آپ لباس فطری میں آئیں گے، تو مولا دماغی غسل صحت نصیب کرے، آپ بھی اتنے ہی عام دکھائی دیں گے، جتنا کوئی دوسرا ہے۔ ایک دم انسان! صرف انسان!
یہ جو دنیا بھر میں تقاریب ہوتی ہیں، بالخصوص ہم پاکستانی یا انڈین لوگوں کی، ان میں جس طرح کسی شخص کا سٹیج پہ آنے سے پہلے تعارف کروایا جاتا ہے، مجھے سمجھ نہیں آتی کہ مدعوعین کس طرح وہ سب کچھ ہضم کر کے گردن اکڑائے مائیک کے سامنے آ جاتے ہیں؟ کیا واقعی وہ خود کو اس تعریف کے قابل سمجھتے ہیں جس میں زمین آسمان کے قلابے ان کی خاطر ملا دیے جاتے ہیں؟
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دولت، شہرت، قابلیت، بزرگی، سیانا پن ۔۔۔ یہ سب آپ کو دوسروں سے الگ تو کر سکتے ہیں لیکن عظمت؟ عظمت کی تعریف کیا ہے آپ مجھے بتائیں؟ یعنی ایسی تعریف جو ایک لاچار ہیومن بیئنگ کو دوسرے سے ’بڑا‘ ثابت کر سکے۔
باقی سب ٹھیک ہے، دوسرے آپ کو دولت شہرت وغیرہ کی وجہ سے عظیم کہہ سکتے ہیں لیکن اس چیز کو ہضم کر کے آپ خود بھی عظیم ہی بن جائیں، مطلب آخر کیسے؟
عظیم انسان کیا دل میں بھی ہمیشہ اعلیٰ ترین خیالات رکھتا ہو گا؟ ہم عام بندوں جیسی کوئی نیچ بات، کوئی خیال کوئی دونمبری اس نے کبھی نہیں کی ہو گی؟ اگر آپ سمجھتے ہیں تو بسم اللہ، کسی کو بھی یہ تمغہ پہنا دیں ورنہ ہم لوگ تو ایسے عجیب کیریکٹر ہیں کہ لاکھوں لوگ جس جنگ میں مر گئے اسے بھی جنگ عظیم کہتے ہیں، بلکہ ’جنگ عظیم اول‘ اور ’دوسری جنگ عظیم!‘
یاد رکھیے، جنگ کو بھی عالمی کہا جا سکتا ہے، عظیم ہرگز نہیں!
ہمارے دماغ بچپن سے اس طرح کے بنائے جاتے ہیں کہ ’عظمت‘ کو ہم شدید آئیڈیلائز کرتے ہیں، اسے ناپنے کے بھی مختلف پیمانے ہمیں تھما دیے جاتے ہیں، زندگی بھر ہم وہی برتن ہاتھوں میں تھامے اپنے خلوص کے جام بھر بھر کے ’عظیم‘ انسانوں پہ لٹاتے رہتے ہیں، اور وہ لوگ اگر زندہ ہوں تو ہمیں ایسے دیکھتے ہیں جیسے کسی سیاسی جلسے میں ڈرون سے عوام کے سر دیکھ رہے ہوں ۔۔۔ اگر مر جائیں تو بھی نسل در نسل ہم انہیں مزید معتبر بناتے جاتے ہیں اور اپنی نسلیں ان پہ نچھاور کرنے کو بے تاب رہتے ہیں۔
اتنی سی زندگی ہے بابا، یہ چٹکی جتنی، انسان ہیں، انسان رہ کے گزاریں، مزے کریں، ہنسیں، کھیلیں، صحت ہے تو ناچیں گائیں، جو چیز سمجھ نہیں آتی اس کو چھیڑیں مت اور سمجھ آ گئی تو اُسے چھوڑیں مت، باقی اللہ کا نام رہ جانے والا ہے!
نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔