مسئلہ بلوچستان سے جڑے 4 دلچسپ حقائق

سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان نے وہ اہم موقع کیسے گنوایا، جب بلوچ علیحدگی پسندوں نے قومی دھارے کا حصہ بننے کے لیے ہتھیار پھینک دیے تھے؟

پاکستانی فوج کا ایک افسر 30 اگست 2006 کو صوبہ بلوچستان کے علاقے کوہلو میں منہدم ہونے والے پہاڑی ٹھکانے کو دیکھ رہا ہے، جہاں باغی قبائلی 80 سالہ سربراہ نواب اکبر بگٹی اور ان کے ساتھی مبینہ طور پر فوجی فضائی حملے کے دوران مارے گئے تھے (بنارس خان/ اے ایف پی)

سندھ تہذیب کا سر چشمہ نو ہزار سال پہلے کا مہر گڑھ ہے، جو دریائے بولان کے کنارے آباد تھا اور پاکستان اور انڈیا میں موجود تہذیبوں میں مہر گڑھ کو اولیت حاصل ہے۔

حیرت کی بات ہے کہ پاکستان بننے کے بعد سے جو بلوچ قبائل بغاوت پر اترے ہوئے ہیں، وہ بھی اسی مہر گڑھ کے ارد گرد بستے ہیں، جن میں مری اور بگٹی قبائل سر فہرست ہیں۔ حالیہ بلوچ بغاوت گذشتہ 78 سالوں میں ہونے والی پانچویں بغاوت ہے، جو 2004 سے جاری ہے اور اسے بلوچستان کی تاریخ میں سب سے طویل اور شدید نوعیت کی بغاوت قرار دیا جا سکتا ہے۔

بلوچستان کے بارے میں ایک عمومی تاثر یہ بھی ہے کہ ایک ہی خاندان کے کچھ لوگ حکومت میں ہوتے ہیں اور اسی خاندان کے کچھ لوگ فراری کیمپ چلا رہے ہوتے ہیں۔ اس تضاد کی جڑیں بلوچ قبائلی سماج اور اس کی تاریخ کے اندر موجود ہیں۔

جب خان آف قلات کے باغی بھائی کو افغانستان نے پناہ دی

برطانیہ نے تین جون کو تقسیم ہند کا فارمولا پیش کیا تو 11 جون کو ہی افغان وزیر خارجہ نے اس وقت کے صوبہ سرحد اور بلوچستان کے کچھ علاقوں پر اپنا حق جتلا دیا اور اس کے لیے برطانیہ سے باضابطہ مطالبہ بھی کر دیا۔ افغانستان کا مؤقف تھا کہ یہ علاقے تاریخی طور پر افغانستان کا حصہ تھے، جنہیں برطانیہ نے اینگلو افغان جنگوں کے دوران اپنا حصہ بنایا تھا، تاہم اس وقت برطانیہ کے ساتھ ساتھ کانگریس نے بھی افغانستان کا یہ جواز تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تھا۔

قیامِ پاکستان کے وقت افغانستان وہ واحد ملک تھا، جس نے اقوامِ متحدہ میں پاکستان کی شمولیت کے خلاف ووٹ دیا تھا۔ یہیں سے دونوں ممالک میں جو دوریاں پیدا ہوئیں، ان کا خمیازہ آج تک دونوں ممالک کے عوام بھگت رہے ہیں۔

خان آف قلات نے پاکستان کے ساتھ الحاق کی دستاویز پر دستخط کیے تو ان کے ایک بھائی شہزادہ عبدالکریم نے بھائی کے فیصلے کے خلاف بغاوت کر دی۔ وہ گورنر مکران تھے، جنہوں نے جولائی 1948 میں افغانستان جا کر پاکستان کے خلاف مسلح کارروائیاں شروع کر دیں۔

اس کے بعد سے افغان حکومتیں بلوچ اور پشتون علیحدگی پسندوں کی مدد کرتی آئی ہیں۔ یہی وہ وجہ تھی جس کی بنا پر پاکستان نے 1979 کے افغان تنازعے میں ایک فریق بن کر شمولیت اختیار کر لی اور کابل کے خلاف برسرِ پیکار افغان مجاہدین کی مدد شروع کی۔

جب روسی فوجیں افغانستان میں داخل ہوئیں تو اس وقت 40 ہزار کے قریب بلوچ باغیوں نے اپنے خاندانوں سمیت افغانستان میں نہ صرف پناہ حاصل کر رکھی تھی بلکہ انہیں پاکستان میں چھاپہ مار کارروائیوں کے لیے جدید ترین اسلحہ بھی فراہم کیا جاتا تھا۔ افغانستان کو اس کے لیے انڈیا جیسے پاکستان دشمن ممالک کی مدد بھی حاصل تھی۔

روس کا بلوچ باغیوں کے ذریعے گرم پانیوں تک پہنچنے کا منصوبہ

پاکستان میں بہت سے حلقے یہ سمجھتے ہیں کہ روس کی جانب سے گرم پانیوں تک رسائی کی توجیح درست نہیں۔ روس کے اپنے پاس جب اپنا وسیع علاقہ اور ساحل موجود ہیں تو وہ بلوچستان کے گرم پانیوں تک رسائی کا خواب کیوں دیکھے گا۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

یہ حلقے یہ بھی سمجھتے ہیں کہ دراصل پاکستان کی سکیورٹی اشرافیہ نے یہ منطق روس کے خلاف امریکی جنگ کا حصہ بننے کے لیے گھڑی تھی۔ گذشتہ سال معروف بلوچ باغی سردار پر ایک کتاب ’میر ہزار خان مری، مزاحمت سے مفاہمت تک‘ چھپی۔ یہ کتاب عمار مسعود اورخالد فرید نے مشترکہ طور پر لکھی ہے، جس میں بلوچستان کے مسئلے کو ایک باغی کے نقطۂ نظر سے سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔

میر ہزار خان مری کا شمار نواب خیر بخش مری اور شیر محمد مری کے ساتھ تین سب سے نمایاں بلوچ باغی سرداروں میں ہوتا تھا جو طویل عرصہ تک فراریوں کے کمانڈر انچیف بھی رہے۔ اس کتاب میں میر ہزار خان مری کے بارے میں لکھا گیا ہے کہ جب روس افغانستان میں آیا تو اس نے افغانستان میں مقیم بلوچ باغیوں کو نہ صرف جدید اسلحہ دیا بلکہ ان کے بچوں کو روس میں وظائف بھی دیے۔

روس میں پڑھنے کے دوران کئی بلوچ سرداروں کے بچوں کے ساتھ روسی خفیہ ایجنسی کی خواتین کی شادیاں بھی کروائی گئیں۔ روس نے میر ہزار خان، نواب خیر بخش مری اور شیر محمد مری، جو شیروف مری کے نام سے مشہور ہوئے تھے، کو ایک جہاز اور دو ہیلی کاپٹر بھی فراہم کر رکھے تھے اور ان کی ملاقاتیں روس کے صدر گوربا چوف سمیت روس کے اعلیٰ فوجی اور انٹیلی جنس حکام کے ساتھ تواتر سے ہوتی تھیں۔

ایک بار میر ہزار خان کو کہا گیا کہ وہ اپنے دو ہزار مسلح فراریوں کے ساتھ کوئٹہ ایئر پورٹ پر قبضہ کر لیں، جس کے بعد روسی فوجیں پاکستان میں داخل ہو کر گوادر تک قبضہ کر لیں گی۔ میر ہزار خان نے روس کی یہ تجویز جب نواب خیر بخش مری کو پیش کی تو انہوں نے یہ کہہ کر اسے رد کر دیا کہ ’اس صورت میں ہم پاکستان سے تو آزادی حاصل کر لیں گے مگر پھر روس سے آزادی کیسے حاصل کریں گے؟‘

گریٹر بلوچستان میں عراق کی دلچسپی

ایک وقت میں ایران دشمنی میں عراق بھی بلوچستان کے باغیوں کو مدد فراہم کرتا رہا ہے۔ کتاب میں میر ہزار خان کے حوالے سے بتایا گیا ہے کہ عراق نے پاکستانی بلوچستان میں باغیوں کی سرگرمیوں کو دیکھتے ہوئے انہیں ایرانی بلوچستان تک اپنی سرگرمیوں کو وسعت دینے کی پیشکش کی تھی۔ بلوچستان تاریخی طور پر تین ممالک پاکستان، ایران اور افغانستان میں منقسم ہے۔ نواب خیر بخش مری اور شیر باز مری عراق جا کر عراقی صدر سے ملے جنہوں نے پاکستان میں عراقی سفارت خانے کے ذریعے بلوچوں کو اسلحہ، دھماکہ خیز مواد اور مالی مدد فراہم کرنے کی یقین دہانی کروائی۔

پاکستان کی خفیہ ایجنسیوں کی اس ملاقات کی بھنک پڑ گئی جس کی وجہ سے عراقی سفارت خانے پر خصوصی نظر رکھی جانے لگی۔ پاکستان نے خفیہ اطلاع پر 10 فروری 1973 کو عراقی سفارت خانے پر چھاپہ مارا اور وہاں سے روسی اسلحے کی بڑی کھیپ پکڑ لی جس میں روسی ساختہ 350 سب مشین گنیں، 900 سے زیادہ میگزین، 40 ہینڈ گرینیڈ اور گولہ بارود کے علاوہ ایک لاکھ سے زیادہ راؤنڈ، طویل فاصلے تک پیغام رسانی کرنے والے وائر لیس سیٹ اور دیگر آلات شامل تھے۔

اس کے علاوہ اسلحے کی ایک کھیپ کراچی آنے والے عراقی طیارے سے بھی برآمد ہوئی۔ عراق نے کہا کہ یہ اسلحہ ایرانی بلوچستان کے لیے لایا گیا تھا جبکہ حکومتِ پاکستان نے مؤقف اختیار کیا کہ یہ اسلحہ نیپ حکومت کے لیے تھا، جو پاکستان کے خلاف بغاوت کرنے جا رہی تھی۔ اسی کو جواز بنا کر بلوچستان میں نیپ کی حکومت ختم کر کے نیپ پر پابندی لگا دی گئی۔ پشاور میں حیات شیرپاؤ کے قتل کا الزام بھی بلوچ علیحدگی پسندوں پر لگایا گیا۔

بلوچوں کے لیے عام معافی

بےنظیر بھٹو جب پہلی بار وزیراعظم بنیں تو انہوں نے افغانستان، انڈیا اور دنیا کے دیگر ممالک میں مقیم متحارب بلوچوں کے لیے عام معافی کا اعلان کیا تاکہ واپس آ کر انہیں قومی دھارے کا حصہ بنایا جا سکے۔

میر ہزار خان کہتے ہیں کہ افغان صدر نجیب اللہ نے انہیں پاکستان واپس آنے سے روکا اور کہا کہ ان کی امداد جاری رکھی جائے گی لیکن مجھے معلوم تھا کہ روس کے جانے کے بعد نجیب حکومت بہت جلد گرنے والی ہے، اس لیے میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ انڈیا چلا گیا۔

انڈیا نے بہت کوشش کی کہ ہم مزید لڑیں مگر میں نے لڑنے سے انکار کر دیا۔ وہ کہتے ہیں کہ افغانستان میں روسی پسپائی کا گہرا اثر بلوچستان کی مزاحمت پر پڑا۔ ایک لمحے کو وہ گریٹر بلوچستان کی تشکیل کے خواب دیکھ رہے تھے اور اگلے ہی لمحے ان کے نظریات تاریخ کے کوڑے دان کی نذر ہو گئے۔ یہ تبدیلی اتنی آناً فاناً ہوئی کہ ہم اس کے لیے عملاً تیار نہیں تھے، جس کی وجہ سے پرانے ساتھیوں میں اختلافات پیدا ہو گئے۔

نواب خیر بخش مری، شیروف مری اور ہزار خان مری جیسے ساتھی جنہوں نے مرنے جینے کی قسمیں کھائی تھیں وہ ایک دوسرے کے بارے میں بدگمان ہو گئے۔ روس کی امداد پر بھروسہ کر کے پاکستان کے خلاف جنگ کرنے والوں کو ادراک ہو چکا تھا کہ اب انہیں عام معافی کی پیشکش سے فائدہ اٹھا کر اپنے وطن لوٹنا ہے اور آزادی کی بجائے حقوق کی جنگ لڑنا ہے۔

ان تلخ تر حالات کے باوجود میر ہزار خان کہتے ہیں کہ روسی فوج کے سربراہ نے ہم سے ملاقات کی اور جنگی جہازوں اور ٹینکوں کے علاوہ تمام تر اسلحہ دینے کی پیشکش کی کیونکہ انہیں معلوم تھا کہ ان کے بعد یہ اسلحہ مجاہدین کے ہاتھ لگ جائے گا، مگر جب مری بلوچوں کے قافلوں نے افغانستان سے انخلا کیا تو چمن کی سرحد پر ان سے اسلحہ ہی نہیں بلکہ ان کی عورتوں کا زیور تک لے لیا گیا۔

بلوچستان کے بارے میں یہ اہم حقائق ایک ایسے شخص کی جانب سے بیان کیے گئے ہیں جس نے تقریباً نصف صدی ریاستِ پاکستان کے خلاف جنگ لڑی۔

میر ہزار خان نے ایک عمر بلوچستان کے سنگلاخ پہاڑوں میں ہتھیار بند ہو کر گزاری۔ طویل جدوجہد کے بعد اسے سمجھ آئی کہ اسے ریاست کے اندر رہ کر اپنے حقوق کی جنگ لڑنا ہو گی۔

اس نے ہتھیار پھینک دیے اور مفاہمت کا راستہ اختیار کیا۔ میر ہزار خان 80 سال کی عمرمیں اگست 2021 میں انتقال کر گئے اور انہیں ان کے آبائی علاقے تھڈری میں سپردخاک کیا گیا۔

سوال یہ ہے کہ ریاست پاکستان نے وہ اہم موقع کیسے گنوایا جب بلوچ علیحدگی پسندوں نے قومی دھارے کا حصہ بننے کے لیے ہتھیار پھینک دیے تھے؟ یہی وہ سوال ہے جس کے اندر بلوچستان کی پانچویں بغاوت کی داستان چھپی ہوئی ہے۔

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے، انڈپینڈنٹ اردو کا اس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

whatsapp channel.jpeg

زیادہ پڑھی جانے والی بلاگ