پاکستانی ڈرامے جن پر 2020 میں پابندی لگی

’سارا دن نیوز چینلز پر قتل، ریپ اور بہت سارے واقعات کی خبریں چلتی رہتی ہیں لیکن اگر ان پر ڈراما بنا دیا جائے تو اعتراض ہو جاتا ہے۔‘

(Six Sigma Plus)

پاکستان میں ٹی وی ڈرامے کی صنعت کے لیے سال 2020 کرونا کی عالمی وبا کے باوجود بہت اچھا ثابت ہوا اور بہت سے ایسی ڈرامے مقبول ہوئے جو روایتی ساس بہو کے جھگڑوں سے کچھ مختلف تھے اور ان میں معاشرے کے دیگر پہلوؤں کو موضوع بنایا گیا تھا۔

تاہم اس لحاظ سے یہ مشکل سال بھی تھا کہ مارچ میں مکمل لاک ڈاؤن کے نفاذ کی وجہ سے کئی ڈراموں کی عکس بندی روکنا پڑی جس سے پروڈیوسروں کو نقصان پہنچا اور کئی ٹی وی ڈراموں جو اس وقت چل رہے تھے کچھ تعطل کا شکار بھی ہوئے۔ پاکستان میں ڈراموں کی دوبارہ عکاسی جون کے وسط میں شروع کی گئی اور کئی نامکمل ڈرامے اس طرح سے مکمل ہوئے۔

یہ چار ماہ ڈرامے کی صنعت سے وابستہ ان افراد کے لیے شدید پریشانی کا سبب بنے جو یومیہ اجرت پر ان ڈراموں کے سیٹ پر کام کرتے ہیں۔

لیکن سال 2020 اس لحاظ سے ضرور یاد گار رہے گا کہ پاکستان الیکٹرانک میڈیا ریگولیٹری اتھارٹی یعنی پیمرا نے اس سال اپنا کردار کچھ زیادہ ہی تندہی سے ادا کرنے کی کوشش کی اور ایک یا دو نہیں بلکہ تین ٹی وی ڈراموں کو پہلے پابندی کا شکار بنایا جبکہ دیگر کچھ ڈراموں کو اظہار وجوہ کے نوٹس جاری کیے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

میرے پاس تم ہو

رواں برس کے پہلے ماہ میں اے آر وائی ڈیجیٹل کے مقبول ترین ڈراما سیریل ’میرے پاس تم ہو‘ کے خلاف سندھ ہائی کورٹ میں ایک رٹ پٹیشن دائر کی گئی جس میں موقف اختیار کیا گیا تھا کہ مذکورہ ڈرامے میں خواتین کی تضحیک کی گئی ہے اور انہیں منفی کردار میں دکھا کر سماج میں خواتین کی غلط عکاسی کرنے کی کوشش کی گئی ہے اور نیز یہ کہ اس ڈرامے کی آخری قسط نشر ہونے سے روکی جائے۔

ڈرامے کے معروف اداکار ہمایوں سعید اور ہدایت کار ندیم بیگ اور پیمرا کو اس ضمن میں عدالت بھی طلب کیا گیا لیکن آخری قسط نشر ہونے سے روکنے کی درخواست مسترد کر دی گئی اور بعد ازاں یہ کیس بھی خارج کر دیا گیا۔

یاد رہے کہ ڈراما ’میرے پاس تم ہو‘ کی کہانی خلیل الرحمٰن قمر نے لکھی تھی جو اپنے متنازع بیانات کی وجہ سے ویسے ہی خبروں میں رہتے ہیں اور یہ ایک ایسی خاتون کی کہانی تھی جو دولت کی خاطر اپنے شوہر اور بچے کو چھوڑ کر کسی اور کے ساتھ چلی جاتی ہے۔ پیمرا کی جانب سے رواں برس 28 اگست کو ایک پریس ریلیز جاری کی گئی جس میں ’نجی چینلوں کو اپنے ڈراموں کے سکرپٹ کا دوبارہ جائزہ لے کر انہیں ’پاکستانی اقدار‘ کے مطابق بنانے کی ہدایت دی گئی تھیں۔‘

’عشقیہ‘ اور ’پیار کے صدقے‘

اس پریس ریلیز کے بعد سے پیمرا کی جانب سے ڈراموں پر اعتراضات اور ان پر پابندی عائد کرنے کا سلسلہ تیز ہوا اور ستمبر میں اے آر وائی کے ڈراما سیریل ’عشقیہ‘ اور ہم ٹی وی کے ڈراما سیریل ’پیار کے صدقے‘ کے نشر مکرر پر پابندی عائد کر دی گئی۔ پیمرا نے اپنی پریس ریلیز میں کہا کہ عوامی کی جانب سے ان ڈراموں پر پابندی عائد کرنے کا مطالبہ تھا کیونکہ یہ ہماری معاشرتی اور مذہبی اقدار کے منافی تھے۔

پیمرا نے البتہ یہ نہیں بتایا کہ وہ 27 ہفتے تک سوتا کیوں رہا اور اب نشرِ مکرر پر پابندی عائد کرنے سے معاشرتی اقدار کیسے محفوظ رہ جائیں گی۔ ان دونوں ڈراموں پر پابندی لگانے کے فوراً بعد ہی اسی ماہ پیمرا نے اے آر وائی ہی کے ایک اور ڈرامے ’جلن‘ پر پابندی عائد کر دی، جلن کی اس وقت تک 13 قسطیں نشر ہو چکی تھیں۔

پیمرا کے جاری کردہ نوٹیفیکیشن کے مطابق ’ڈرامے میں کئی چیزیں مذہبی اور سماجی اقدار کے خلاف ہیں اور اسے اس ضمن میں کئی شکایات موصول ہوئیں۔ اے آر وائی ڈیجیٹل کو بارہا متنبہ کیا گیا  کہ وہ مذکورہ  ڈرامے کے مواد کا جائزہ لے اور اسے پاکستانی اقدار کے مطابق بنائے۔‘

پیمرا کے مطابق اس نے تمام پاکستانی ٹی وی چینلوں کو 18 اگست کو ایک مراسلہ جاری کیا تھا، جس میں ڈراموں کے مواد کو پاکستانی اقدار کے مطابق بنائے جانے سے متعلق ہدایت نامہ درج تھا۔ اتھارٹی کا کہنا تھا اے آر وائی چینل کی انتظامیہ نے کوئی خاطر خواہ کارروائی نہیں کی، جس کے بعد حتمی اقدام کے طور پر ڈرامے پر پابندی عائد کر دی گئی۔

 اگرچہ عدالت کی جانب سے اس پابندی کو بعد میں ہٹا دیا گیا لیکن اس پابندی کا پاکستانی ڈراموں کے لیے بنے کئی سوشل میڈیا گروپس میں شدید ردِ عمل آیا اور اس عمل کو پیمرا کی جانب سے ’ مورل پولیسنگ‘ یا اخلاقی پولیس گردی قرار دیا گیا۔

ڈراما سیریل ‘پیار کے صدقے’ کی کہانی ایک کم عمر و معصوم  لڑکی کی ہے جسے اس کا سسر ہراساں کرتا رہتا ہے، جبکہ ‘عشقیہ’ کا کردار اپنی محبوبہ کی شادی کہیں اور طے ہونے پر انتقاماً اس کی بہن سے شادی کر تا ہے اور ڈراما سیریل ’جلن‘ میں ایک لڑکی اپنی بہن کو طلاق دلوا کر دولت کی خاطر اس کے شوہر سے شادی کر لیتی ہے۔

فطرت

گذشتہ ہفتے جیو ٹیلی ویژن کے ڈرامے ’فطرت‘ کے بارے میں بھی پیمرا نے ایک ’مشورہ/ہدایت‘ جاری کی ہے جس میں اس کے کچھ مکالموں پر اعتراض کیا گیا ہے۔ یاد رہے کہ چند سوشل میڈیا پوسٹس پر سسر کا اپنی بہو پر نظر ڈالنا، سالی کے بہنوئی سے ’معاشقے‘ پر نکتہ چینی کی گئی تھی لیکن یہ یاد رکھنا ضروری ہے کہ تمام ڈرامے انتہائی مقبول رہے ہیں اور عوام کی ایک بڑی تعداد نے انہیں دیکھا اور سراہا ہے۔

پیمرا کی جانب سے پاکستانی ڈراموں پر پابندی عائد کرنے کے بارے میں ہم ٹی وی کی صدر سلطانہ صدیقی کا کہنا ہے کہ چند خطوط یا ای میل کی بنیاد پر پیمرا کو کسی ڈرامے پر پابندی عائد نہیں کرنی چاہیے بلکہ اس سلسلے میں ایک کمیٹی قائم کرنے کی ضرورت ہے جو اس معاملے کا جائزہ لے۔

ان کا کہنا تھا کہ سارا دن نیوز چینلز پر قتل، ریپ اور بہت کچھ واقعات سے متعلق خبریں چلتی رہتی ہیں، لیکن اگر ان پر ڈراما بنا دیا جائے تو اعتراض ہو جاتا ہے جو صرف اور صرف دوہرا معیار ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ کرونا کی عالمی وبا کے دوران ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا یا نہیں یہ کہنا اس لیے مشکل ہے کیونکہ پاکستان میں ریٹنگ کا نظام کافی فرسودہ ہے۔

2020 میں شروع ہونے والے رجحان جس میں سینیما میں ٹی وی ڈراموں کی نمائش کا اہتمام کیا جانے لگا کے بارے میں ان کا کہنا تھا کہ ایک دو ڈراموں کی حد تو ٹھیک ہے یا سنگل پلے اور لانگ پلے سینیما میں ہو سکتے ہیں لیکن بہتر ہے کہ سینیما میں فلموں کی نمائش کی جائے۔

اے آر وائی ڈیجیٹل کے سی ای او جرجیس سیجا نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ پیمرا کو ڈرامے سے منسلک معاملات کے لیے اپنا میکینزم تبدیل کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ ایک خبر جو نیوز چینل پر مستقل چلتی رہی ہو اگر اس پر ڈراما بنا دیا جائے تو اس پر اعتراض ہو جاتا ہے جو بہت ہی عجیب بات ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ پیمرا کے پاس شکایات تو آتی ہیں کیوں کہ سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع سے کچھ نہ کچھ اعتراض ضرور ہوتا ہو گا لیکن چند معمولی اعتراضات پر ڈرامے پر پابندی عائد کرنا مناسب عمل نہیں اور اس پر نظر ثانی کرنی چاہیے۔ ان کا کہنا تھا کہ پاکستانی میڈیا بہت ذمہ دار ہے اور وہ کوئی ایسا ڈراما نہیں بناتا جس معاشرے سے مطابقت نہ رکھتا ہو۔ انہوں نے مزید کہا کہ یہ اچھی بات ہے کہ عدالت کی جانب سے ایسی پابندی کو ہٹا دیا گیا کیونکہ ایسی پابندیاں تخلیقی عمل کو شدید متاثر کرتی ہیں۔

رواں سال کرونا کی عالمی وبا اور اس کے نتیجے میں لاک ڈاؤن کی وجہ سے کیا ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ ہوا ہے؟ اس سوال پر ان کا کہنا تھا کہ اس وقت لوگوں کے پاس دیکھنے کو بہت کچھ ہے اور وہی ڈرامے مقبول ہوتے ہیں جو معیاری ہوں۔ ’لاک ڈاؤن کی وجہ سے ٹی وی دیکھنے والوں کی تعداد میں اضافہ تو ہوا لیکن اس کی اصل وجہ ڈراموں کا بہتر معیار ہے۔ ڈیجیٹل پلیٹ فارمز پر بھی 10 فیصد سے زیادہ اضافہ دیکھنے میں آیا ہے، جس کی ممکنہ وجہ یہ ہوسکتی ہے کہ بہت سے افراد گھر سے کام کررہے ہیں اور ایسے میں ڈیجیٹل چینلز کا استعمال بہت بڑھ گیا ہے۔‘

غرض سال 2020 میں پاکستانی ٹیلی ویژن پر آئی ایس پی آر کے ڈرامے ’عہد وفا،‘ اور اے آر وائی کے ڈرامے رسوائی اور نند بھی عوام کی توجہ حاصل کرنے میں کامیاب رہے کہ لیکن پیمرا نے ان ڈراموں پر رنگ میں بھنگ نہیں ڈالا۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی