ٹی وی پر بچوں کے لیے ڈرامے کیوں نہیں بن رہے؟

کیسی عجیب بات ہے کہ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے اشتہارات کی اکثریت بچوں کی اشیا پر ہے، لیکن ان کے لیے ڈرامے کتنے ہیں، اس کا علم سبھی کو ہے۔

ڈراما سیریل ’عینک والا جن‘ کی مقبولیت اور شہرت تو ایسی تھی کہ اسے بلاول بھٹو، آصفہ اور بختاور بھٹو تک پسند کرتے تھے (سکرین گریب/ ایس ایم آر ڈراما اردو یوٹیوب چینل)

’آپ کے ڈراموں میں ہمارے لیے کیوں کچھ نہیں ہوتا؟‘ یہ معصومانہ سا سوال ہماری صاحب زادی نے والدہ سے دریافت کیا تو چند لمحوں کے لیے ہم واقعی گہری سوچ میں ڈوب گئے۔

ریموٹ کے ذریعے چینلز کو آگے پیچھے دوڑایا تو اُس وقت واقعی کسی چینل سے بچوں کا پروگرام آ رہا تھا اور نہ ہی کوئی پرومو نشر ہوا، یعنی ایسی کوئی تخلیق نظر نہ آئی، جو خالصتاً بچوں کو ذہن میں رکھ کر تیار کی گئی ہو ماسوائے اشتہارات کے۔

یہ ضرور ہے کہ مکمل طور پر بچوں کے ملکی اور بین الاقوامی ٹی وی چینلز کی بھرمار تھی لیکن فیملی چینلز کے دعوے داروں کے پاس بچوں کے لیے کچھ نہ تھا۔

یہ ہم جیسوں کے لیے حیران کن امر ہی ہے، جنہوں نے اپنے بچپن میں کئی ایسے ڈرامے اور پروگرام دیکھ دیکھ کر جوانی کی دہلیز پر قدم رکھا، جن میں بچوں کی شرکت اور اہمیت لازمی ہوتی۔ انکل عرفی، قباچہ، حسنات بھائی یا پھر جیدی جیسے کردار بڑوں سے زیادہ بچوں میں مقبول تھے۔

ماضی کے اوراق پلٹیں تو متعدد ایسے ڈرامے اور پروگرام سامنے آ جائیں گے، جو بچوں کی دلچسپی اور ان کی نفسیات کا احاطہ کرتے تھے۔ کھیل ہی کھیل میں بچوں کو کبھی سہیل رانا نے موسیقی کے ذریعے بہت کچھ سمجھایا، تو انکل سرگم نے پتلیوں کے تماشے سے بچوں کی تربیت اور تعلیم پر کام کیا۔

ایسے پروگراموں کی ایک لمبی فہرست ہے، جن میں ’پتلی تماشا‘، ’کلیوں کی مالا‘، ’شب بخیر دوستو‘، ’اکڑ بکڑ‘، ’سنگ سنگ چلو‘، ’سات سُروں کی دنیا‘، ’ذہانت‘، ’انکل سرگم‘، ’ہونہار‘ اور ’ا ب ج‘ نمایاں ہیں۔

ڈراموں کی بات کی جائے تو بچوں کے لیے نامی گرامی مصنفین نے ٹی وی کے لیے ڈرامے لکھے۔ اندازہ لگائیں کہ بچوں کے لیے توحسینہ معین تک نے ڈراما سیریل ’رومی‘ تحریر کیا ہے۔ پھر ’عالی پر کیا گزری‘، ’کوشش‘، ’بہادر علی‘ اور ’عینک والا جن‘ بھلا کون فراموش کر سکتا ہے۔

ڈراما سیریل ’عینک والا جن‘ کی مقبولیت اور شہرت تو ایسی تھی کہ اسے بلاول بھٹو، آصفہ اور بختاور بھٹو تک پسند کرتے تھے۔ یہ بھی اپنی جگہ حقیقت ہے کہ بچوں کے ڈراموں میں اداکاری کرنے والے کئی چائلڈ سٹارز اب جوان ہو کر مرکزی کرداروں میں جلوہ گر ہورہے ہیں۔

90 کی دہائی کے اختتام پر پاکستان میں بین الاقوامی چینلز کی نشریات دیکھنے کی آسانی ہوئی تو انڈین ٹی وی چینلز کے بچوں کے کئی پروگرام اور ڈرامے مقبولیت حاصل کر گئے۔ بچوں کو کرشما کا کرشما پسند آیا تو کبھی سوہن پری کے کمالات، سیسم سٹریٹ میں بھی ہر ایک کی دلچسپی عروج پر رہی۔

پھر پاکستان میں نجی ٹی وی چینلز کی برسات ہوئی تو ابتدا میں ہر چینل نے بچوں کو خصوصی اہمیت دی۔ کئی پروگرامز پیش ہوئے لیکن ان میں سب سے زیادہ ’دیکھو سنو سمجھو‘ اور پھر ’بچے من کے سچے‘ نے شہرت حاصل کی۔ اسی طرح ’حمزہ نامہ‘ کے ذریعے ایک کم سن اور باعلم شخص کی معلوماتی اور مفید گفتگو قابل ذکر رہی۔ بلکہ اس پروگرام کی پیش کش میں اس بات کا خاص خیال رکھا گیا کہ چھوٹے بچوں کے ذہنوں میں کس نوعیت کے سوال گردش کرتے ہیں اور ان کا کس طرح تسلی بخش جواب دیا جا سکتا ہے۔

پھر دھیرے دھیرے ٹی وی چینلز نے بچوں کا مواد کم کرنا شروع کردیا۔ ساس، بہو، محبوبہ، بے وفا شوہر یا پھر رقیب غالب آتے گئے۔ کئی ڈراموں میں بچوں کا موضوع تو تھا لیکن کبھی کوئی باپ تو کبھی والدہ ان کے حصول کے لیے قانونی جنگ لڑ رہی ہوتی۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

کبھی ’سنگل مدر‘ کی جدوجہد تو کبھی ’بیوہ‘ کی الم ناک کہانیوں میں بچوں کا کردار اور ان کی حقیقی نفسیات گم ہو کر رہ گئی، لیکن یہ ڈرامے ایسے تھے جن میں بچوں کی اپنی دلچسپی نہ ہونے کے برابر تھی۔ بلکہ یہ کہا جائے تو بے جا نہ ہوگا کہ یہ ایسی تخلیقات نہیں تھیں کہ بچے سب کام کاج چھوڑ کر انہیں دیکھنے کے لیے والدین سے ضد کریں۔

ڈراما صنعت سے جڑے بیشتر افراد کہتے ہیں کہ بچوں کے پروگراموں کے ذریعے آمدنی کا حصول مشکل ہوتا ہے۔ شکوہ یہ بھی کیا جاتا ہے کہ لکھنے والوں کو خود یہ معلوم نہیں کہ کون سا مواد بچوں کے لیے بہتر رہے گا اور کون سا بڑوں کے لیے۔

عالم یہ ہے کہ بچوں کے لیے وہ مکالمات ادا کروائے جاتے ہیں جو عموماً حقیقی زندگی میں ان سے توقع نہیں کر سکتے۔ ہم ٹی وی کی سینیئر پروڈیوسر حرا انور کہتی ہیں کہ ’جس طرح سے پروگرامنگ ہوتی ہے اس میں ٹارگٹڈ ناظرین 19 سے 45 سال کی خواتین ہیں۔ بچوں کو ٹارگٹ نہیں کیا جاتا جبکہ پرائم ٹائم شام 7 بجے سے 9 بجے تک ہوتا ہے، تو اس دورانیے میں سماجی موضوعات کے ساتھ بچوں کی کہانیاں بھی آجاتی ہیں، جو بچے بڑے ہوتے ہیں ان کی زندگی کو بھی بیان کردیا جاتا ہے۔ جیسے ماضی میں پی ٹی وی کے دور میں بچوں کے لیے الگ مخصوص پروگرام ہوتے تھے وہ فی الحال نہیں ہوتے۔ وجہ ایک یہ بھی ہے کہ ٹارگٹڈ ناظرین اب تبدیل ہوچکے ہیں۔‘

گرین انٹرنٹمنٹ ٹی وی کی کانٹینٹ ہیڈ علینہ محسن فاروقی کے مطابق بچوں کے مواد پر ڈرامے یا پروگرام نہ بنانے کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بہت سارے بچوں کی تفریح کا انداز تبدیل ہوچکا ہے۔

بقول علینہ: ’پہلے جب بچوں کا مواد پیش کیا جاتا تھا تو والدین خود بچوں کو تاکید کرتے تھے کہ وہ ٹی وی دیکھیں۔ اب صورت حال یہ بھی ہے کہ بچوں کی طرزِ زندگی تبدیل ہو چکی ہے۔ ان پر ایک سے زیادہ ذمے داریاں ہیں۔ پہلے طے شدہ وقت ہوتا تھا کہ بچے ٹی وی دیکھیں گے۔ اب تو کسی بھی وقت کچھ بھی اپنی پسند کا دیکھا جاسکتا ہے۔

’بہرحال بچوں کو ٹی وی کے سامنے بٹھانا اور خصوصی طور پر کچھ دکھانا ایک بہت بڑا چیلنج بن گیا ہے۔ ایک شکوہ یہ بھی ہے کہ اب بچوں کے لیے لکھنے والے بھی نہیں رہے۔ گرین انٹرٹینمنٹ ٹی وی کی کوشش ہے کہ مستقبل میں بچوں کے لیے ایسے پروگرام پیش کیے جائیں، جو ان کی تعلیم و تربیت میں مثالی کردار ادا کریں۔‘

مختلف ٹی وی چینلز اور پروڈکشن ہاؤسز میں کانٹینٹ ڈپارٹمنٹ میں کام کرنے والے مصنف منصور احمد خان، جن کے مشہور ڈراموں میں ’ببن خالہ کی بیٹیاں‘ اور ’بے بی باجی‘ شامل ہیں، کا کہنا ہے کہ چینلز پر تمام پروگرامنگ کو ٹی آر پی کے نقطہ نظر سے دیکھا جاتا ہے۔

بقول منصور احمد خان: ’خیال یہی ہوتا ہے کہ بچوں کے پروگرام پیش کیے تو ریٹنگ نہیں آئے گی بلکہ ناظرین کسی اور دوسرے چینل کا رخ کرلیں گے، اسی بنا پر کوئی بھی چینل اپنے ناظرین کو کھونے کا رسک نہیں لیتا۔‘

’دہلیز‘، ’دل برباد‘، ’محبت ریزہ ریزہ‘، ’وفا بے مول‘ اور ’فطرت‘ جیسے ڈرامے تحریر کرنے والی نزہت سمن اس موضوع پر کہتی ہیں کہ ’اس وقت بچوں کی ترجیحات تبدیل ہوچکی ہیں۔ ان کے ہاتھوں میں موبائل اور ٹیب آچکے ہیں۔ انگلی کے ایک ٹچ سے کبھی بھی اپنی مرضی کے گیمز کھیل سکتے ہیں، پروگرام دیکھ سکتے ہیں، تو پھر وہ کیوں مخصوص وقت پر کسی چینل کے پروگرام کا انتظار کریں گے۔‘

بقول نزہت: ’اس وقت کوئی بھی چینل بچوں کے پروگرام پیش کرکے رسک نہیں لینا چاہتا کیونکہ تمام تر چینلز کمرشل ہیں، جو وقت فروخت کرکے آمدن کا حصول آسان بناتے ہیں۔ مقابلے کی دوڑ میں بزنس بہت اہمیت اختیار کر گیا ہے۔ موبائل کے استعمال سے بچے اپنی پسند کا مواد تو دیکھ رہے ہیں، لیکن والدین اس بات سے لاعلم ہیں کہ وہ کیا دیکھ رہے ہیں۔‘

اس حقیقت سے انکار نہیں کہ اس وقت بچوں کے اپنے پاس تفریح کا ایک وسیع خزانہ ہے۔ اگر وہ ٹی وی چینلز سے لطف اندوز نہ ہونا چاہیں تو یوٹیوب پر بے شمار ایسے پلیٹ فارمز ہیں، جہاں بچوں کی دلچسپی کا تمام تر سامان مل جاتا ہے۔

کیسی عجیب بات ہے کہ ٹی وی چینلز پر نشر ہونے والے اشتہارات کی اکثریت بچوں کی اشیا پر ہے، لیکن ان کے لیے ڈرامے کتنے ہیں، اس کا علم سبھی کو ہے۔ ان دنوں جیو ٹی وی سے ’گڈی‘ ایک ایسا ڈراما سیریل ہے، جو کہا جاسکتا ہے کہ بچوں کے گرد گھومتا ہے، لیکن ذرا نوٹ فرمائیں کہ اس کے نشر کرنے کا وقت رات 10 بجے ہے، یعنی وہ وقت جب بیشتر بچے خواب خرگوش کے مزے لوٹ رہے ہوتے ہیں۔

کسی نے کیا خوب کہا ہے کہ بچوں کے لیے لکھنے کے لیے خود بچہ بننا پڑتا ہے۔ اس کا احساس اس ڈراما سیریل ’گڈی‘ کو دیکھنے کے بعد شدت سے ہوتا ہے کیونکہ اس کی کم سن اور کم عمر بچی یعنی گڈی کے اس مکالمے کا آپ مطالعہ کریں، جس میں وہ اپنے ہم عمر کزن حمزہ سے ساحل پر کھڑے ہو کر کہتی ہے کہ ’مجھے یہ سمندر اپنی جانب بلاتا ہوا محسوس ہو رہا ہے، مجھے ایسا لگ رہا ہے کہ یہ سمندر مجھے بول رہا کہ آؤ گڈی سب کچھ بھلا کر مجھ میں سما جاؤ اور میں تمہیں سمیٹ لوں گا۔‘

اب یہ فیصلہ آپ خود کریں کہ کیا یہ واقعی بچوں کا ڈراما ہے؟

نوٹ: یہ تحریر کالم نگار کی ذاتی آرا پر مبنی ہے جس سے انڈپینڈنٹ اردو کا متفق ہونا ضروری نہیں ہے۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی ٹی وی