نیٹ فلکس کی منی سیریز ’ایڈولیسنس‘ (Adolescence) جوانی کی دہلیز پر قدم رکھتے ایک نوجوان کی زندگی کی بےرحمی کی حد تک حقیقت پسندانہ اور دہلا دینے والی تصویر پیش کرتی ہے۔
اس سیریز نے نہ صرف نوجوانوں کے والدین کو دہلا دیا ہے بلکہ دنیا بھر میں اس پر بحث اور گفتگو کا سلسلہ شروع ہو گیا ہے۔
اس شو کو پہلے چار دنوں میں دو کروڑ 43 لاکھ لوگوں نے دیکھا، جب کہ یہ 71 ملکوں میں نیٹ فلیکس کی ریٹنگ میں پہلے نمبر پر جا رہا ہے۔
شو کی بازگشت برطانوی سیاسی حلقوں میں بھی سنائی دے رہی ہے۔ وزیرِ اعظم کیئر سٹارمر نے کہا کہ انہوں نے اپنے بچوں، جن کی عمریں 14 اور 16 سال ہیں، کے ساتھ مل کر اسے دیکھا۔ انہوں نے کہا کہ لڑکیوں کے خلاف تشدد ’نفرت انگیز ہے، اور ہمیں اس پر قابو پانا ہو گا۔‘
حکمران جماعت لیبر سے تعلق رکھنے والی رکن پارلیمان انیلیز مڈگلی نے کہا کہ اس سیریز کو پارلیمان میں دکھایا جانا چاہیے جب کہ سٹارمر نے بھی اس کی تائید کی ہے۔
یہ سیریز والدین کو بھی اپنے گریبان میں جھانکنے پر مجبور کرتی ہے کہ وہ سوچیں ان کے نوجوان بچے بچیاں کیا کر رہے ہیں اور سوشل میڈیا پر کس قسم کی زندگیاں گزار رہے ہیں۔
اس بات کو یوں سمجھیے کہ میرے دادا (1910 کی دہائی) اور میرے والد کے بچپن (1940 کی دہائی) میں انیس بیس کا فرق رہا ہو گا اور دادا والد صاحب کو بڑی آسانی سے کسی بات میں ٹوک دیتے ہوں گے کہ ’مجھ پر بھی یہ دور گزرا ہے، مجھے مت بتاؤ!‘ میرے والد صاحب اور میرے بچپن (1970 کی دہائی) میں پندرہ اور بیس کا فرق آ چکا تھا۔ لیکن میرے بچوں کے بچپن اتنے مختلف ہو گئے ہیں کہ انہیں سمجھنا میری نسل کی بات نہیں رہی۔ ہمارے دور میں انسٹا گرام، ٹک ٹاک، اور ٹیلی گرام ایک طرف رہے، کمپیوٹر تک نہیں تھا۔ اب ہم لاکھ یہ اپلیکشنز سیکھ لیں، مگر جیسے بڑی عمر میں نئی زبان سیکھنا مشکل ہوتا ہے، اور سیکھ بھی لیں تو لہجے پر عبور نہیں آ سکتا، اسی طرح پکی عمر میں نئے دور کے تقاضوں سے ہم آہنگ ہونا اتنا ہی مشکل بلکہ ناممکن ہے۔
ایڈولیسنس نے دنیا بھر میں ایک بحث چھیڑ دی ہے کہ سمارٹ فون بچوں اور نوجوانوں پر مضر نفسیاتی اثرات ڈال رہے ہیں۔ اس نے جو مختلف بحثیں چھیڑی ہیں ان میں سے ایک کا تعلق بلی انگ (bullying) سے ہے۔
سکولوں میں بلی انگ یا بچوں کو تنگ کرنا اور دھونس جمانا تو پرانی بات ہے، مگر اب سوشل دنیا میں اس بلی انگ کے انداز بدل گئے ہیں اور اب یہ گھروں کے اندر بھی بچوں کا پیچھا کر رہی ہے کیوں کہ بچے ہر وقت اپنے سوشل میڈیا اکاؤنٹس پر مگن رہتے ہیں۔
یہی وجہ ہے کہ آسٹریلیا، فرانس، فن لینڈ اور ڈنمارک جیسے ملک سکولوں میں موبائل فون کے استعمال پر پابندی لگا رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈولیسنس کے تمام اداکاروں کی اداکاری انتہائی شاندار ہے۔ خاص طور پر جیمی ملر کا کردار ادا کرنے والے اوون کوپر اور اس کے والد کا کردار نبھانے والے سٹیون گریم نے اپنے کرداروں میں جان ڈال دی ہے۔ گریم اس سیریز کے شریک خالق اور مصنف بھی ہیں۔
ایڈولیسنس کی سب سے نمایاں خصوصیت اس کی منفرد فلم بندی ہے۔ ہدایت کار نے کہانی سنانے کے لیے ایک عجیب و غریب اور انتہائی مشکل طریقہ استعمال کیا کہ ہر قسط صرف ایک ہی شاٹ میں فلمائی گئی ہے۔
ہر قسط تقریباً ایک گھنٹے پر محیط ہے اور اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ اس کے لیے کتنی محنت کی گئی ہو گی اور کتنی بار ہر شاٹ کی ریہرسل کی گئی ہو گی۔
مشکل کا اندازہ اس سے لگائیے کہ عام طور پر فلموں کے شاٹ اوسطاً صرف چار پانچ سیکنڈ دورانیے کے ہوتے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ عملے کو صرف چار پانچ سیکنڈ کی تیاری کرنا ہوتی ہے۔
اس کے مقابلے پر ایڈولیسنس کے ایک گھنٹے پر محیط دورانیے میں مکالمے یاد رکھنا، کیمرے کی پوزیشن، اور دوسرے عملے کی کوریاگرافی بےحد مشکل ہوتی ہے اور ایڈولیسنس میں یہ کام ناقابلِ یقین حد تک عمدگی سے سرانجام دیا گیا ہے۔