ممکن ہے قارئین نے محسوس کیا ہو کہ اقتصادی امور کے ماہرین ڈوبتی معیشت کے متعلق کثرت سے بات کیا کرتے تھے۔ اس وقت ایک خشک موضوع میں چاشنی بھرنے کے لیے بالعموم یہ ڈرامائی طریقہ کار تھا۔ بار بار دہرایا جانے والا یہ لفظ 2020 میں سچ ثابت ہوا۔ یہ سال تھا ہی ایسا جب عالمی معیشت بلندی سے پستی میں آ گری۔
سماجی تباہی اور سیاسی افراتفری کے ہنگامہ خیز دور 1930 کی دہائی میں گریٹ ڈپریشن کے بعد سے کرونا وائرس کی وبا کی صورت میں پوری دنیا کی معیشت کو بدترین بحران کا سامنا کرنا پڑا۔
کرہ ارض پر بسنے والے انسانوں کی بھاری اکثریت نے پابندی یا وبا سے متاثر ہونے کے خوف کی وجہ سے کام کاج، سفر، میل ملاقات، چھٹیوں پر سیر سپاٹا اور موج مستی ترک کر دی اس لیے ایک اندازے کے مطابق عالمی جی ڈی پی گرواٹ کا شکار ہوکر 4.5 فیصد پر آگئی۔
ممکن ہے یہ بہت زیادہ نہ لگے لیکن یہ بات ذہن نشین رہے کہ یہ دوسری جنگ عظیم کے بعد سے کافی نمایاں فرق کے ساتھ اس وقت تک کے بدترین 2009 کے عالمی معاشی بحران کی گراوٹ کے مقابلے میں تقریباً 10 گنا زیادہ ہے۔
مخصوص ممالک کی کارکردگی بالخصوص برطانیہ جیسی ترقی یافتہ اقوام پر نظر دوڑانے سے مزید دھچکہ لگتا ہے۔ سال کے پہلے نصف میں برطانیہ اور سپین دونوں معیشتیں تاریخ کی بدترین گرواٹ کے ساتھ 20 فیصد تک سکڑ گئیں۔ فرانس اور اٹلی میں پیداوار 15 فیصد سے بھی زیادہ کم ہو گئی۔ امریکہ اور جاپان تقریباً 10 فیصد تک ڈوب گئے۔ پھر سے وہی بات کہ یہ ایسی معاشی گراوٹیں ہیں جن کے سامنے 2008-09 کی کساد بازاری محض معمولی جھٹکا محسوس ہوتی ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یقیناً مجموعی سرگرمی کی پیمائش کرنے والے انفرادی سطح پر پھیلے بے تحاشا انسانی معاشی مسائل کا ہی عکس دکھاتے ہیں۔ 2020 میں دس لاکھ سے زائد افراد موت کا شکار ہوئے جبکہ لاکھوں کو اپنی ملازمتوں سے ہاتھ دھونا پڑے۔ کئی سالوں کی مشقت کے بعد لوگوں کے بنائے گئے کاروبار بینک کے قرضوں کی نذر ہوگئے۔ آمدن کم ہوئی اور غربت تیزی سے بلندی پر جا پہنچی۔ مربوط عالمی معاشی سرگرمی میں اچانک کمی کا سب سے زیادہ نقصان غریب ترین افراد کو ہوا جو عالمی سیاحت کے کل ملا کر نقصان سے کم نہیں ہے۔ عالمی بینک کے اندازے کے مطابق 2020 میں ترقی پذیر ممالک میں 1.90 ڈالر یومیہ پر گزارہ کرنے والے مزید 88 سے 115 لاکھ افراد سطح غربت سے نیچے چلے گئے ۔ جسے کسی نے 'عظیم فرار ' قرار دیا ہے کہ حالیہ عشروں میں زندہ رہنے کے لیے درکار بنیادی ضروریات میں مسلسل زوال تیز تر ہو گیا اور عالمی بینک کے مطابق انتہائی شرح غربت 8.5 فیصد سے بڑھ کر 9.5 فیصد تک جا پہنچی۔
یہ بات بہت واضح انداز میں کہنی چاہیے کہ حکومتیں اور مرکزی بینک اگر برطانیہ کی نئی فرلو سکیم کی طرز پر کارکنوں اور کمپنیوں کو غیر معمولی مقدار میں مالی سہولیات اور رعایتیں مہیا نہ کرتیں تو اس معاشی قتل عام کے نتائج کہیں زیادہ بھیانک ہوتے۔ عالمی مانیٹری فنڈ کے اندازے کے مطابق 2009 میں عالمی آمدن کا تقریباً 15 فیصد 12 کھرب ڈالر کے قریب مالی امداد مہیا کی گئی۔ مارچ کے مہینے میں کئی دوسرے اداروں سمیت فیڈرل ریزرو، یورپین سنٹرل بینک، بینک آف انگلینڈ نے مزید کھربوں ڈالرز، یورو، پاؤنڈز اور مختلف شکلوں میں بھاری رقم ڈوبتی مالیاتی منڈیوں میں لگائی۔ سادہ سی بات یہ ہے کہ اگر انہوں نے ایسا نہ کیا ہوتا تو ممکن ہے ابھی تک ہم مزید پستی کی طرف جا رہے ہوتے۔
فطری سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا 2021 معاشی بحالی کا سال ہو گا؟ کیا اس ڈوبتے لمحے سہارے کی امید ہے؟ امید کی وجوہات کا جائزہ لینا ضروری ہے۔ ایک طرح سے اس کا انحصار بحران کے غیر معمولی پن پر ہے۔
معاشی گرواٹ ، اقتصادی بحران، ناقابل گرفت افراط زر، بڑھتی شرح سود یا کسی اور معاشی معمول کے عدم توازن یا خرابی کی وجہ سے پیدا نہیں ہوئی۔ بلکہ یہ بحران مکمل طور پر اس سے ہٹ کر نئے مہلک وائرس کے سبب ہے جس کے خلاف ہمارے پاس فطری قوت مدافعت، ویکسین، علاج بلکہ یہاں تک کہ حقیقی سائنسی علم کی بنیاد تک موجود نہیں۔
اس وجہ سے بعض لوگوں کے خیال میں علمیات کی سطح پر اس کی بحالی آسان ہے۔
معمول کی کساد بازاری کے بعد اندرونی تنظیم نو اور درستی کے لیے طویل عرصہ درکار ہوتا ہے کیونکہ نظام کو مسلسل بحران کی طرف دھکیلنے والی خرابیوں کے تعین کے لیے طویل مشقت سے گزرنا پڑتا ہے۔ لیکن کیا اس بار صورت حال مختلف ہو سکتی ہے؟ عقل کہتی ہے ایک بار وائرس پر قابو پا لیا گیا تو ایسی اندرونی تنظیم نو سے گزرے بغیر یقیناً بہت تیزی سے حالات معمول پر آ جائیں گے۔ خود ساختہ ' وی شیپڈ' بحالی کا یہ قصہ تھا۔
ایسی پرامیدی مترنم آواز جیسی لگتی تھی جو ہمیں بہار میں پرسکون زندگی سے لطف اندوز کرے گا کہ اچانک کرونا کی دوسری لہر نے کئی ممالک کو آلیا اور ایسا لگنا شروع ہوا کہ معیشت کے کئی اجزا ہمیشہ کے لیے اوجھل ہو جائیں گے کیونکہ طویل عرصے کے لیے روز مرہ کی کھپت کا انداز بدل گیا۔
بحران کے آغاز میں ماہر معیشت ریکارڈو ریس نے کہا تھا کہ ایسا لگتا ہے جیسے لاک ڈاؤن معیشت کو سرد خانے میں ڈال رہا ہے۔ وہ مزید کہتے ہیں 'لیکن اگر آپ گوشت کے ایک ٹکڑے کو فریز کریں اور ایک مہینے بعد اسے باہر نکالیں تو ابھی تک اچھی حالت میں ہو گا۔ اگر آپ انگوروں کے ساتھ ایسا کریں تو وہ کھانے کے قابل نہیں ہوں گے۔' بہت سارے لوگ خوفزدہ ہیں کہ معیشت جمے ہوئے انگور کی طرح ہے اس لیے پرچون، مہمان نوازی اور آمد و رفت جیسے تباہ شدہ شعبوں میں معاشی مسائل کے سبب ملازمتوں سے برخاستگی کے ذریعے نئے معمول سے ہم آہنگ ہونے کی کوششیں شروع کر دیں۔ بعض لوگوں کی رائے میں اس ناگزیر مسئلے سے صرف نظر کے بجائے ہمیں اب بڑھتی ہوئی بے روز گاری کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔
اگرچہ نومبر میں تین مختلف کرونا وائرس ویکسینوں کے ابتدائی جائزے نے صورت حال دوبارہ تبدیل کرتے ہوئے امید پیدا کر دی کہ کئی ویسی ہی ملازمتوں کے ساتھ ہم بحران سے پہلے کی معاشی سرگرمی بحال کر سکتے ہیں۔ یہ جاننا بہت ضروری ہے کہ عالمی مانیٹری فنڈ کی اکتوبر میں مستقبل کے بارے میں 'طویل اور مشکل بحالی' کے خدشات کے مقابلے میں او ای سی ڈی کے دسمبر میں چھپنے والے جائزے کے مطابق 'بدترین بحران سے بچ نکلے ہیں' اور توقع ہے کہ 'جیسے جیسے سرگرمیاں دوبارہ شروع ہوں گی بحران سے ہونے والے مجموعی آمدنی کے نقصان کو کم کرتے ہوئے بحالی زیادہ مضبوط اور تیز تر ہو گی۔'
ایک ویکسین سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان پیشن گوئیوں کی بنیاد پر کیے گئے تخمینے نسبتاً ٹھیک تھے۔ ان دونوں کو امید ہے کہ 2021 کے اختتام تک عالمی سرگرمی کی سطح 2019 کی سطح تک پہنچ جائے گی۔ کیا یہ بحالی ظاہر کرتا ہے؟ شاید یہ کامیابی کو ماپنے کا صحیح پیمانہ نہیں ہے۔ ہمیں دراصل بحالی کو جس مقام پر تھے اس کے مقابلے میں نہیں بلکہ جہاں ہم بحران سے پہلے پہنچنے کی توقع کر رہے تھے اس کے مقابلے میں دیکھنا چاہیے۔
آئی ایم ایف کے حالیہ تخمینوں سے پتہ چلتا ہے کہ وبا سے پہلے متوقع عالمی معیشت کی سطح تک پہنچنے کے لیے آئندہ چار سالوں میں بھی دور دور تک کوئی امکان نہیں۔
اس دوران میں ہونے والی معاشی سرگرمی کو مدنظر رکھتے ہوئے آی ایم ایف اس تشویش ناک نتیجے پر پہنچا ہے کہ 2025 تک عالمی وبا سے ہونے والا نقصان 28 کھرب ڈالر تک پہنچ سکتا ہے۔ اگر اس کے مطابق دیکھا جائے تو یہ 2019 کی عالمی معیشت کا تین گنا بنتا ہے۔
یہ جاننا بھی بہت ضروری ہے کہ عالمی معیشت کو عالمی آبادی میں اضافے کا مقابلہ کرنے کے لیے ہر سال کم و بیش 1 فیصد اضافہ بھی کرنا پڑتا ہے۔ اس لیے ان اعداد و شمار سے ظاہر ہونے والے متوقع عالمی معاشی نقصان کی نسبت فی کس نقصان کہیں زیادہ ہوگا۔
بحالی کے سوال کا جائزہ لینے کا ایک دوسرا طریقہ کرہ ارض پر غریب ترین افراد کے حوالے سے دیکھنا ہے۔ انہیں اس سال شرح غربت کے 8.5 فیصد سے بڑھ کر 9.5 کی بلندی پر پہنچنے سے اس نظام میں تین سال کی گرواٹ کے برابر فوائد سے محرومی کا نقصان برداشت کرنا پڑا ۔ عالمی بینک 2021 میں شرح غربت میں بہت معمولی بہتری کی توقع کر رہا ہے۔
اگر یہ بات درست ہے تو غریبوں کی معاشی بحالی نظر نہیں آتی اور بدترین متاثر ہونے والی ریاستوں کے لیے ریلیف اور قرضہ جاتی امداد کی مزید ضرورت محسوس ہوتی ہے۔ اب ظاہر ہے یہ تخمینے بہت مایوس کن ہو سکتے ہیں۔ اگر کرونا وائرس ویکسین کی زیادہ تیزی سے عمل داری شروع ہو جاتی ہے تو کرہ ارض پر معیشت کی جلد بحالی ممکن ہوسکتی ہے۔
یہ ناممکن نہیں کہ جیسے ہی لوگوں کی خرچ، سفر، سرمایہ کاری، موج مستی جیسی پابندی کا شکار خواہشات بے لگام ہوں 2021 میں بے مثل معاشی اٹھان دیکھنے کو ملے اور ہم نہ صرف جہاں سال کے آخر میں تھے بلکہ دراصل جہاں ہم نے پہلے سے پہنچنے کی توقع کی ہوئی تھی وہاں کھڑے نظر آئیں۔ بحران سے پہلے کی طرح اب بھی چین کی بڑھتی ہوئی معاشی رفتار کے استحکام پر سنگین تحفظات ہیں۔ بہرحال انہیں ایک طرف رکھ کر دیکھیے کہ کیا عالمی معیشت اسی طرح کا کچھ کر سکتی ہے جو دراصل معیشت کی بحالی ممکن بنائے۔ اگلے سال ملازمتوں کے لیے منتظر لاکھوں افراد اور ملازمتی منڈیوں میں لاکھوں نئے آنے والوں کے لیے ہمیں توقع کرنی چاہیے کہ یہ ممکن بنایا جائے گا۔
ڈونلڈ ٹرمپ کی طرف سے 2017 میں شروع کی گئی تجارتی جنگ میں وقتی صلح نامے اور سفارتی معمول کی بحالی سے اس خوفناک وبا سے نمٹنے کے لیے عالمی تعاون کی فضا پیدا ہو گی۔
افسوس ابھی تک معاشی ترقی کا ایسا منظر نامہ نظر نہیں آرہا۔ اگر برطانیہ کسی معاہدے کے بغیر یورپی یونین چھوڑتا ہے تو ہمیں بریگزٹ کے بعد آز ادانہ تجارت کے مشکل اور انتشار انگیز نتائج سے نبرد آزما ہونا باقی ہے۔
برطانیہ اور دنیا کی دوسری مالدار حکومتوں کو آئندہ مہینوں میں اپنی معیشت کو کھڑا کرنا اور سہی ڈگر پر ڈالنا دونوں پیچیدہ چیلنج ہوں گے ( اور دونوں کو بر وقت کرنا) تاکہ کمزور سرمایہ کاری اور کثیر بے روز گاری کی صورت میں بحران سے پیدا ہونے والے نتائج مستقل گیر نہ ہو جائیں۔ اس معاشی ہنگامہ خیز حالت سے صحیح سلامت نکلنا بعض صورتوں میں اس کے ابتدائی حملہ برداشت کرنے بھی زیادہ مشکل لگتا ہے۔ امریکی ایوان بالا میں ری پبلیکن کی اکثریت نئے صدر جو بائیڈن کی بنیادی ڈھانچے کی بحالی اور کثیر حکومتی سرمایہ کاری سے دنیا کی سب سے بڑی امریکی معیشت کو اٹھانے کی کوششیں ناکام بنانے کے لیے تیار نظر آتی ہے۔
جہاں تک ترقی پذیر عالمی ممالک کا تعلق ہے تو جس سرعت سے ویکسین تیار کرنے والوں کی پیشگی آڈر بک میں مالدار ریاستیں چھائی رہی ہیں ممکن ہے وہ سال کے آخر میں کہیں جا کر اسے حاصل کر پائیں۔ عالمی وبا کا مسئلہ جسے حالیہ دور میں دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں کے سربراہوں پر مشتمل جی20 فورم نے کھلے عام سامنے کرنے کے بجائے پہلو تہی سے کام لینے کا انتخاب کیا اس نے سب صحارا افریقہ کے ممالک کو بھی بھاری قرضوں کی مشکل صورت حال سے دوچار کر دیا۔
بالکل یہی بات ترقی یافتہ دنیا کی بہت ساری کمپنیوں کے بارے میں درست ہے۔ حکومتیں ابھی تک غیر معمولی سستے قرضے لے سکتی ہیں لیکن انہیں یہ بات یقینی بنانے کے لیے منصوبہ بندی کرنی ہو گی کہ نئے نجی سیکٹر کے قرضہ جات معیشت کی بحالی میں رکاوٹ کا سبب نہ بنیں۔ دوسرے لفظوں میں ان میں سے کوئی کام بھی آسان نہ ہو گا۔ ہم کسی نتیجے پر پہنچنے کے قریب ہیں اور ایک طویل مشقت طلب بحالی کی کوششیں کر رہے ہیں۔
© The Independent