دنیا کی بڑی فلمی صنعتوں میں سے ایک بالی وڈ کے اداکاروں اور فنکاروں میں واضح بے چینی محسوس کی جا سکتی ہے جس کی وجہ مذہبی شدت پسندوں کی جانب سے فلم سازوں کو اپنے مواد کے سبب معافی مانگنے پر مجبور کرنا یا دوسری صورت میں آن لائن بائیکاٹ مہم اور قید و بند جیسی انتقامی کاروائیوں کا سامنا کرنے والی حالیہ مثالیں ہیں۔
گذشتہ ہفتے آن لائن ویب سروس ایمازون پرائم ویڈیو کو ہندوؤں کی ناراضی کا سبب بننے والی فرضی ڈراما سیریز ’تنڈو‘ نشر کرنے پر غیر مشروط معافی مانگنا پڑی۔ تنڈو کا ترجمہ ’پرجوش رقص‘ کیا جا سکتا ہے جو دراصل دیوتاؤں بالخصوص ہندو خدا شیوا جنہیں نٹ راج یا رقص کا خدا بھی کہا جاتا ہے، سے منسوب مزاحیہ رقص ہے۔
بھارت میں 6.5 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کے ساتھ آن لائن شاپنگ کے کے بڑے ادارے ایمازون کے سربراہ جیف بیزوس نے 600 ملین سامعین کے ساتھ اپنے تیزی سے بڑھتے ہوئے کاروباری مراکز میں سے ایک مرکز کے مطالبے کا خیر مقدم کرتے ہوئے اپنے ایک بیان میں کہا کہ کبھی بھی ان کی ’نیت‘ انڈین عوام کی دل آزاری نہیں تھی۔
ایمازون کے مطابق ’ہم اپنے سامعین کے گوناگوں عقائد کی تعظیم کرتے ہیں۔ ہم انڈین قوانین کے دائرے میں رہتے ہوئے اپنے سامعین کے ثقافتی اور مذہبی تنوع کا خیال رکھتے ہوئے اپنے شراکت داروں کے ساتھ مل کر تفریحی مواد مہیا کرتے رہیں گے۔‘
ایمازون کی معافی ہر سال عام طور پر ایک ہزار سے زائد فلمیں بنانے والی صنعت کے تخلیق کاروں کے خدشات کی عکاسی کرتی ہے۔ جوابی کاروائی سے خوفزدہ صنعت کے اندرونی افراد آف دی ریکارڈ بات کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ممکنہ قابل اعتراض مواد حذف کرنے کے لیے سکرپٹ نہایت باریک بینی سے پڑھے جاتے ہیں اور تشدد کے خوف سے فن کار آن لائن اپنے خدشات کا اظہار کرنے سے ڈرتے ہیں۔
پوری صنعت خوف کا شکار ہے بالخصوص جب سے انڈیا کی سب سے بڑی عدالت نے تنڈو کی کاسٹ اور عملے کو عبوری ضمانت یہ کہتے ہوئے دینے سے انکار کر دیا کہ آزادی اظہار کا حق بالکل مطلق نہیں تھا۔
ملک کی اعلیٰ عدلیہ نے فلم کے اداکاروں کو ایسا کردار ادا کرنے پر ذمہ دار ٹھہراتے ہوئے ایک غیر معمولی بیان میں کہا ’سکرپٹ پڑھنے کے بعد آپ نے یہ معاہدہ کر لیا۔۔ آپ کسی ایسے کردار کو نہیں کر سکتے جو کسی طبقے کے جذبات کو ٹھیس پہنچائے۔‘
اربوں افراد پر مشتمل ایسی قوم کے مذہبی احساسات مد نظر رکھتے ہوئے جو سینیما اور مذہب دونوں سے شدید وابستگی محسوس کرتی ہے بلکہ جہاں بہت سوں کے لیے سینیما بذات خود ایک مذہب ہے وہاں تخلیقی فن کے مستقبل کے حوالے سے بالی وڈ کے تخلیق کار انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہیں۔
’دا لیجنڈ آف بھگت سنگھ‘ کے ستارے اور سوشل میڈیا پر دبنگ انداز میں بولنے والے سوشانت سنگھ کہتے ہیں ’مجموعی ماحول اچھا نہیں ہے۔ اسے بہتر ہونا چاہیے تھا لیکن اب یہی ہے جیسا بھی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’جہاں تک تخلیقیت کی بات ہے تو میں اکثر ایرانی سینیما کی مثال دیتا ہوں۔ ملک میں نہایت کڑا سنسر شپ نافذ ہے لیکن اس کے باوجود (ایرانی فلم ساز) بعض نہایت عمدہ انسانی کہانیاں پیش کرنے میں کامیاب رہے ہیں۔ تخلیق ہمیشہ اظہار کا راستہ ڈھونڈ لیتی ہے۔‘
تنڈو پر سنسرشپ کو ’افسوسناک‘ قرار دیتے ہوئے وہ کہتے ہیں ’آپ قوانین کے ذریعے تخلیق کا گلہ نہیں گھونٹ سکتے۔ آپ کیا کر لیں گے؟ کیا آپ پورے ملک کا انٹرنیٹ بند کر دیں گے؟ آج کی انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا کی دنیا میں کسی بیانیے کو محض اپنے ایجنڈے کے تحت روکنا بالکل ناممکن ہے۔‘
تنڈو کے خلاف آن لائن بائیکایٹ کی مہم وسط جنوری میں اس وقت شروع ہوئی جب ایک سین میں مسلم اداکار محمد ذیشان ایوب ہندو دیوتا شیوا کا لباس پہنے ہوئے ہیں۔ سیاستدانوں، اراکین اسمبلی اور مذہبی کارکن ہندوؤں نے ڈرامے کے مواد کی بنیاد پر جواب طلبی کا مطالبہ کیا جس میں ایوب نے کالج کے ایک کھیل کے دوران رنگین جیکٹ، ٹی شرٹ، ٹراؤزر اور چہرے پر نیلا رنگ لگا کر شیوا کا جدید روپ دھارا ہوتا ہے۔
شدید ہندوؤں کو جس چیز نے زیادہ بر انگیخت کیا وہ ایک مکالمے کی چند سطریں تھیں جس میں وہ دوسرے ہر دلعزیز دیوتا لارڈ راما کے مقابلے میں سوشل میڈیا پر اپنی فالونگ بڑھانے کے مختلف طریقے بیان کرتا ہے۔
روایتی طور پر ملک بھر میں بالی وڈ کسی بھی قسم کی مذہبی تقسیم سے ماورا سمجھا جاتا رہا ہے جہاں بڑے بجٹ کی فلمیں سیکیولرزم اور اتحاد کا پرچار کرتی ہیں اور ان کے زیادہ تر اداکار مسلم ہوتے ہوئے معمول کے مطابق ہندو کردار نبھاتے ہیں۔ اگرچہ بعد میں ریاست پر تنقید کرنے کی وجہ سے تخلیقی شعبوں میں اقلیتوں کے خلاف خدشات سر اٹھانے لگے۔
مختلف ریاستوں میں مجرمانہ شکایات کے اندراج کے فوری بعد تنڈو کے ہدایت کار علی عباس ظفر، مصنف گوراو سولنکی، اداکار سیف علی خان اور ایوب سمیت سیریز کا باقی عملہ معافی مانگتا نظر آیا۔
غصے کی شدید لہر ہندو وطن پرست حکمران جماعت کے منجھے ہوئے سیاستدانوں میں بھی دیکھنے کو ملی جہاں مدھیا پردیش کے وزیر اعلیٰ شیو راج سنگھ چوہان نے ٹویٹ کرتے ہوئے کہا کہ کسی کو ہندوؤں کے جذبات سے کھیلنے کا حق حاصل نہیں ہے۔
بی جے پی کے حامیوں کے بڑے مرکز اتر پردیش سمیت چھ ریاستوں میں سیریز کے خلاف پولیس کو شکایات کی گئیں۔ لیکن سب سے زیادہ حیران کن اعلیٰ عدلیہ کا فیصلہ تھا جس میں سیریز بنانے والے افراد کو کسی قسم کی حفاظتی ضمانت دینے سے انکار کر دیا گیا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد اداکارہ کونکونا سین شرما نے ٹویٹ کی کہ ’سیریز میں شامل تقریباً تمام افراد نے سکرپٹ پڑھا اور معاہدے پر دستخط کیے! آئیے پوری کاسٹ اور عملے کو گرفتار کرتے ہیں؟‘
تنڈو سے وابستہ ایک اداکار نے اس مضمون کے لیے بات چیت کرنے سے انکار کر دیا لیکن فلم انڈسڑی سے منسلک ایک اور شخص کہتے ہیں کہ جو لوگ بالی وڈ ستاروں کو اپنے امریکی معاصرین کی طرح حقوق انسانی پر نہ بولنے کے سبب تنقید کا نشانہ بناتے ہیں انہیں دراصل حقیقی صورت حال کا ادراک ہی نہیں۔
جب اندرونی حالات سے واقف شخص سے انتقامی کارروائی کے خوف سے متفقہ نقطہ نظر نہ اپنانے کے متعلق پوچھا گیا تو انہیں نے کہا، ’ذرا دیکھیے تو سہی (بالی وڈ میں) لوگوں کے ساتھ کیا ہو رہا ہے۔ ان کا تعاقب کیا جا رہا ہے اور تھانے میں ان کے خلاف کئی شکایات درج کروائی جاتی ہیں جو ایک طرح سے مخصوص قسم کا معمول بن چکا ہے۔ لوگ کہتے ہیں بالی وڈ جیسی چیز کی پشت پر کوئی اجتماعی قوت موجود نہیں لیکن ہماری پشت پر پولیس کی زوردار، ٹوٹی ہوئی اور خون میں لت پت لاٹھی ہے۔‘
وہ کہتے ہیں، ’باہر بیٹھی دنیا کو اندازہ ہی نہیں لیکن اس ساری صورت حال کے سبب انڈسڑی اب بری طرح افراتفری کا شکار ہے۔ یہاں تک کہ اس پر بات کرتے ہوئے ہمیں خوف ہوتا ہے کہ دھر نہ لیے جائیں۔ اب کوئی کیا کر سکتا ہے؟‘
وہ کہتے ہیں، ’اس کے وسیع تر برے اثرات کو دیکھیے جو کسی مخصوص سین یا ٹی وی شو کو چلانے یا نہ چلانے تک محدود نہیں رہا بلکہ اس سے بڑھ کر اب ہمہ گیر خوف کی صورت میں بالی وڈ کو اپنی لپیٹ میں لے چکا ہے۔ بنیادی طور پر ہمیں کہا جا رہا ہے کہ ہم معاشرے کو ویسے پیش نہیں کر سکتے جیسا وہ ہے۔ کیونکہ معاشرہ واضح طور پر ریاست کا حصہ ہے اور آپ ریاست کے متعلق بات نہیں کر سکتے۔‘
’شیطان‘ اور ’ہیٹ سٹوری‘ جیسی فلموں کے اداکار گلشن دیویا تسلیم کرتے ہیں کہ موجودہ صورت حال اور 70 کی دہائی میں اندرا گاندھی کی ایمرجنسی کے نفاذ کے درمیان، جب بہت سے شہری حقوق معطل کر دیے گئے تھے، موازنہ کرتے ہوئے ہم اس نتیجے پر پہنچتے ہیں کہ سینما سینسرشپ کوئی نئی بات نہیں اور نہ ہی کسی ایک جماعت سے مخصوص ہے۔
اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ وہ موجودہ صورت حال سے پریشان نہیں۔
وہ سپریم کورٹ کی تنڈو سکرپٹ کے متعلق رائے اور اداکاروں کو درپیش مشکلات کے حوالے سے کہتے ہیں کہ ’میں تسلیم کرتا ہوں۔ میں خوفزدہ ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ میں کیا کرنے جا رہا ہوں۔ لیکن میں خوفزدہ ہونا نہیں چاہتا۔ بطور اداکار ہم میں سے بہت سے لوگوں کو معاہدے توڑنے کی سہولت حاصل نہیں کیونکہ ہم سب ایک مناسب زندگی گزارنے کے لیے تگ و دو کر رہے ہیں۔ میرا مطلب ہے مجھے اپنے کام سے لگاؤ ہے۔ یہ تو بالکل غیر پیشہ ورانہ رویہ ہے کہ آپ کسی منصوبے کو درمیان میں چھوڑ دیں۔
’اگر اس ساری کارروائی کا مقصد خوف و ہراس پھیلانا ہے تو میں خوفزدہ ہوں۔ مجھے نہیں پتہ کہ میرے لیے اس کی کیا حقیقی معنویت ہے بالخصوص کہ میں مستقبل کے سکرپٹ سے کیسے پیش آؤں گا، انہیں کیسے پڑھوں گا۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انڈین ٹی وی اداکار نکول مہتا کہتے ہیں اس سب کے باوجود وہ ’جمہوری صورت حال کے متعلق کافی پرامید ہیں‘ اور بصری فنون میں مختلف نقطہ نظر پیش کرنے کی بہت گنجائش ہے۔
وہ کہتے ہیں ’اپنے عہد کے متعلق اپنے کام کے توسط سے اظہار رائے کے سوا فن کیا ہے، بطور فنکار اگر مجھے محسوس ہو کہ کوئی ایسا ظلم ہو رہا ہے جسے میں اپنے فن کے ذریعے اجاگر کر سکتا ہوں تو میں ضرور کروں گا۔
’ممکن ہے ظلم کی تعریف کے معاملے پر میری اور حکومت وقت بلکہ عدلیہ تک کی رائے آپس میں مختلف ہو لیکن ہم ایک جمہوریت میں زندہ ہیں اور ہمیں آئینی بنیاد گزاروں کی جانب سے معقول اظہار رائے عطا کیا گیا ہے اس لیے میں ’حکومتی انتقامی کارروائی‘ یا ’طاقت ور عدلیہ‘ کے ڈر سے خاموش رہنے کے بجائے اِسے مکالمے کے لیے استعمال کروں گا۔ آخر اختلاف جمہوریت کا حسن ہے۔‘
دیویا کہتے ہیں کہ ’میں نے تنڈو نہیں دیکھا۔ اس لیے مجھے پس منظر معلوم نہیں۔ ( لیکن) اس واقعے نے ذاتی طور پر مجھے تکلیف پہنچائی کیونکہ ایک اداکار کو (عدالت میں پیش ہو کر) اپنا دفاع کرنا پڑا۔ میں اپنے ہم پیشہ اداکار کے لیے ہمدردی محسوس کرتا ہوں۔ مجھے ایسا لگتا ہے کہ آزادی مطلق نہیں ۔ میرا خیال ہے آزادی کے ساتھ مخصوص حد تک سماجی زمہ داری بھی وابستہ ہے۔‘
وہ کہتے ہیں ’میرا خیال ہے محمد ذیشان کو اپنے تئیں اس مشکل سے نکلنا ہو گا۔ بطور اداکار میری ہمدردی اس کے ساتھ ہے۔ لیکن مجھے کچھ سمجھ نہیں آ رہا۔ میرا مطلب ہے میں اس کی جگہ ہو سکتا تھا۔ لیکن یہ بات میں اونچی آواز میں نہیں کہہ سکتا کیونکہ میں اس خوف کو مزید گہرا نہیں کرنا چاہتا۔‘
© The Independent