انسان خود غرض یا بے لوث، جدید سائنس کیا کہتی ہے؟

اگر آپ کی بس نکلنے والی ہو تو آپ کسی اجنبی کا گرا ہوا سامان سمیٹنے میں اس کی مدد کریں گے؟

چار سال کی عمر سے بچوں کے دماغ میں مساوات کا تصور پکا ہو جاتا ہے (پیکسلز)

جب تک بنی نوع انسان موجود ہے اس وقت تک بقا کے لیے اپنے مفاد کو ترجیح دینا انتہائی ضروری ہے۔ لیکن خود غرضی واحد خاصیت نہیں جس نے ارتقا میں انسانوں کی مدد کی۔ مختلف افراد پر مشتمل ایسے گروہ جنہوں نے باہمی تعاون سے آشنا ہو کر ایک دوسرے کا خیال رکھا اور باہمی انصاف کا سماجی رویہ برقرار رکھا ان کی زندگی اور نسل کی نشو و نما باقی گروہوں کی نسبت زیادہ ہوئی جس کی وجہ سے انصاف کے جذبات زندگی کا جزو بن کر پھیلتے گئے۔

اس لیے آج اپنی اور دوسروں کی فکر دونوں ہمارے منصفانہ مزاج میں اپنا کردار ادا کرتی ہے۔ یہ دونوں مل کر اجنبی افراد کے درمیان تعاون کا سبب بنتے ہیں جو انسانوں میں بکثرت لیکن باقی کائنات میں بہت کم پایا جاتا ہے۔

سوچنے کی بات یہ ہے کہ فیصلہ کرتے وقت لوگ ان دونوں محرکات میں توازن کیسے برقرار رکھتے ہیں۔

شکاگو یونیورسٹی میں سوشل کاگنیٹو نیوروسائنس لیبارٹری (Social Cognitive Neuroscience Laboratory) میں ہم نے اس سوال کا جواب کھوجنے کی کوشش کی جہاں طرز عمل معاشیاتی اہداف (behavioral economics tasks) اور نیوروامیجنگ طریقہ کار(neuroimaging methods) کو بیک وقت استعمال کرتے ہوئے ہم نے مشاہدہ کیا کہ بڑوں اور بچوں کے دماغ میں کیا ہوتا ہے۔ شواہد کے مطابق لوگ دونوں یعنی اپنی اور دوسروں کی فکر کرتے ہیں اگرچہ اپنی ذات سبقت لے جاتی ہے۔

مزید پڑھ

اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)

انصاف پسندی سیکھنا

بچے اپنی بالکل ابتدائی عمر سے مساوات کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔

مثال کے طور پر اگر آپ دو بہن بھائیوں کو مختلف تعداد میں بسکٹ دیں تو جسے کم ملے وہ شدید غصے کا اظہار کرے گا۔ تین اور چھ سال کی عمر کے بچے مساوات کے معاملے میں بہت حساس ہوتے ہیں۔ وسائل کی تقسیم اسی وقت منصفانہ ہوتی ہے اگر سب کو برابر مقدار ملے۔ یہاں تک کہ چھ سالہ بچے غیر منصفانہ تقسیم کرنے کی بجائے چیزوں کو دور پھینکنے کو ترجیح دیتے ہیں۔

جیسے جیسے بچے بڑے ہوتے ہیں وہ دوسروں کے ذہن اور سماجی اخلاقیات کے متعلق سوچنے کی صلاحیت پیدا کر لیتے ہیں۔ بہت جلد وہ مساوات کا اصول سمجھنا شروع کر دیتے ہیں کہ اگر لوگوں کی ضرورت، محنت اور صلاحیت کو مد نظر رکھا جائے تو ایک ایماندارانہ تقسیم غیر مساوی ہو سکتی ہے۔ مثال کے طور پر بھائی بہن میں سے جسے زیادہ بسکٹ ملے ممکن ہے اس نے گھر کا کام کاج زیادہ کیا ہو۔ انسانوں کے مابین کم و بیش انصاف کا یہی مفہوم عالمگیر ہے اور مختلف ثقافتوں میں انہی روایات پر عمل پیرا ہوا جاتا ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ اپنے رویے کو انصاف کی اپنی سوجھ بوجھ کے مطابق ڈھالنے میں بچوں کو کئی سال لگ جاتے ہیں جیسا کہ اپنے لیے زیادہ حصہ طلب کرنے کے بجائے وسائل کی برابر تقسیم کو ترجیح دینا۔

یہ بات معلوم کرنے کے لیے کہ بچوں کے نشوونما پاتے دماغ انصاف کو سمجھنے کے لیے کیسے ان کی رہنمائی کرتے ہیں ہم نے چار سے آٹھ سال تک کے بچوں کو اپنی تجربہ گاہ میں بلایا۔ ہم نے انہیں چار ٹافیاں دیں کہ دیگر دو افراد میں تقسیم کر دیں۔ ایک بار وہ فیصلہ کر چکے کہ کتنی (اگر دینی بھی ہیں تو) دوسروں کو دینی ہیں تو اس کے بعد ہم نے نان انویسیو الیکٹران انسیفیلوگرافی (noninvasive electroencephalography) کی مدد سے ان کی دماغی سرگرمی اس دوران ماپی جب وہ ایک بڑے شخص کو دو افراد کے درمیان دس مختلف چیزیں جیسے ٹافیاں، سکے یا سٹکرز بانٹتے ہوئے دیکھ رہے تھے۔ یہ تقسیم منصفانہ (5:5)، ذرا سی غیر منصفانہ (7:3) یا بالکل ہی غیر منصفانہ (10:0) ہو سکتی تھی۔

سب سے پہلے تمام بچوں کی دماغی سرگرمی نے اسی پر غور کیا کہ آیا وہ چیزوں کی کسی حد تک یا مکمل غیر منصفانہ تقسیم کا مشاہدہ کر رہے تھے۔ 400 ملی سیکنڈ کے بعد جس بچے نے کسی حد تک غیر منصفانہ تقسیم 7:3 دیکھی تھی اس کی دماغی سرگرمی تبدیل ہو کر اس بچے کے ذہنی ردعمل جیسی ہو گئی جس نے مکمل منصفانہ تقسیم 5:5 دیکھی تھی۔

ہماری تاویل کے مطابق بچوں کے دماغ نے چند سیکنڈوں میں سوچا کہ ایک شخص نے کس لیے منصفانہ تقسیم نہیں کی اور پھر خود ہی اس نتیجے پر پہنچے کہ ممکن ہے یہ بالکل منصفانہ تقسیم ہو۔

مزید برآں ایسے بچے جن کی دماغی سرگرمی منصفانہ اور غیر منصفانہ تقسیم کے مشاہدے کے دوران باقیوں سے بہت مختلف تھی، ممکنہ طور پر یہ وہی بچے تھے جنہوں نے بڑوں کی اس تقسیم سے قبل اپنی ٹافیاں بانٹتے ہوئے استحقاق اور ضرورت کو مدنظر رکھا تھا۔

سو ای ای جی ریکارڈنگ کے مطابق محض چار سالہ بچے بھی مکمل مساوی تقسیم کی توقع رکھتے ہیں جو ان کی مساوات کے لیے فطری رجحان کی دلیل ہے۔ بالخصوص پانچ سال سے زیادہ عمر کے بچے جب کسی شخص کو غیر منصفانہ تقسیم کرتے دیکھتے ہیں تو وہ سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ ایسا کیوں ہے۔

پہلے میں پھر آپ

روز مرہ زندگی میں آپ کو ایسے فیصلے کرنا پڑتے ہیں جو نہ صرف آپ پر بلکہ آپ کے اردگرد بہت سے دیگر افراد پر بھی اثر انداز ہوتے ہیں۔ کسی اجنبی کے بکھرے ہوئے تھیلے کو سنبھالنے میں تعاون کرتے ہوئے کیا آپ اپنی بس چھوڑ دیتے ہیں؟ کیا آپ کیک کا بڑا ٹکڑا اپنے لیے اور چھوٹا اپنے ساتھ کام کرنے والے اس شخص کے لیے رکھ دیتے ہیں جو کچھ دیر بعد پہنچے گا؟

زیادہ عام فہم انداز میں لوگ اپنے مفاد اور دوسروں سے انصاف برتنے میں کیسے توازن قائم کرتے ہیں جبکہ دونوں محرکات کا آپس میں ٹکراؤ ہو؟

اس سوال کے جواب کے لیے ہم نے امیدواروں کو ایک معاشی گیم کھیلنے کی دعوت دی جس کے تحت ہر بار ایک نامعلوم تجویز کنندہ اپنے، امیدوار اور ایک دوسرے کھلاڑی میں 12 امریکی ڈالر تقسیم کرتا ہے۔

 امیدوار اس تقسیم کو قبول کرنے، تینوں کھلاڑیوں کو رقم دینے یا اس تقسیم کو رد کرنے یعنی سب کو محروم کرنے کا فیصلہ کرے گا۔ جب امیدواروں نے فیصلے کیے اس وقت ہم نے ای ای جی اور ایف ایم آر آئی کی مدد سے ان کی اعصابی سرگرمی ماپ لی۔ ایف ایم آر آئی خون کی گردش سے دماغ کے متحرک حصے منکشف کرتا ہے۔

تجویز کنندہ دراصل ایک کمپیوٹر تھا جس نے پیشکش کو ایماندارانہ طریقے سے پیش کرنے میں ہمیں ڈنڈی مارنے کی اجازت دی۔ ہمیں معلوم ہوا کہ اپنے اور دوسروں کے لیے ایمانداری امیدواروں کی نظر میں بہت اہم تھی لیکن اگر انہیں خود بھی غیر منصفانہ پیشکش ہوئی تو اس صورت میں وہ دوسروں کو ملنے والی غیر منصفانہ پیشکش کو زیادہ آسانی سے ہضم کرنے کو تیار تھے۔

ہمارے خاکے نے ہمیں یہ جاننے میں بھی مدد دی کہ اپنے مفاد اور دوسروں کی فکر کے لیے کیا دماغ کا ہوبہو ایک ہی حصہ کام کرتا ہے۔ دماغی سائنس کے مشہور نظریے کے مطابق ہم باقی لوگوں کو اس لیے سمجھنے کے قابل ہوتے ہیں کیونکہ ہم دماغ کے وہی حصے اپنی تفہیم کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس کا مرکزی نکتہ یہ ہے کہ کوئی کام کرتے ہوئے دماغ اس کے مطابق مشترکہ خاکہ تیار کرتا اور ہدایات دیتا ہے۔

لیکن ہماری تحقیق کے مطابق اپنے اور دوسروں کے متعلق انصاف کا تصور کرتے ہوئے مشترکہ دماغی اجزا کے بجائے متفرق دماغی سلسلے سرگرم تھے۔

ہم نے مشین لرنگ کے استعمال سے بھی یہ جاننے کی کوشش کی کہ دماغی سگنلز کو دیکھتے ہوئے کیا ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ امیدوار نے کس قسم کی پیشکش موصول کی۔ ہم نے اعتماد کے ساتھ کئی دماغی سلسلوں میں ایک سگنل کو سمجھا جو خود سے انصاف کا استعارہ تھا اور وہ یہ تھا کہ کیا کم سے کم مجھے 12 ڈالرز کا تیسرا حصہ ملے گا؟ اور اپنے مفاد پر یہ توجہ فیصلہ سازی کے ابتدائی مراحل میں غالب رہی۔

مجموعی طور پر ان نتائج کے مطابق لوگ اپنے مفادات کو پہلی ترجیح دیتے ہیں اور بعد میں یہ دیکھتے ہیں کہ ان کا انتخاب باقی لوگوں پر کیسے اثر انداز ہو گا۔ سو جب لوگ دوسروں کا خیال رکھتے ہیں تب بھی خود غرضی کا رویہ پوری طرح موجود رہتا ہے چاہے وہ طرز عمل معاشیات کا کھیل ہی کیوں نہ ہو۔ ایک بار لوگوں کو ان کا صحیح حصہ مل جائے پھر وہ دوسروں کو بھی صحیح حصہ دینے کو تیار ہوتے ہیں۔ اگر آپ کو یقین ہو کہ گھنٹے کے بجائے دس منٹ بعد دوسری بس آ جائے گی تو اس بات کا زیادہ امکان ہے کہ آپ اجنبی شخص کا تھیلا سمیٹے میں اس کی مدد کریں گے۔

زیادہ پیچیدہ منظر نامے کا جائزہ

روز مرہ زندگی میں شاید ہی لوگ محض تجویز کنندہ کی حیثیت سے ہوں جیسا ہماری تجربہ گاہ میں تھا۔ جب کوئی شخص اہم فیصلے کرتا ہے جس میں دوسرے بھی شریک ہوں تو ہم پوری دلچسپی کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ مثال کے طور پر ٹیم اراکین میں ذمہ داریوں کا تعین یا جب کسی شخص کے پاس وسائل کی تقسیم پر اثد انداز ہونے کے ذاتی اختیارات محدود ہوں جیسے حکومتی اخراجات۔

ہمارے جائزے سے یہ بھی سامنے آیا کہ جب لوگ مفاہمت کے لیے آمادہ ہوں تو اہم بات یہ ہے کسی کو ایسا نہ لگے کہ وہ استعمال ہو گیا ہے۔ ایسا محسوس ہوتا ہے انسانی فطرت کا یہ تقاضا ہے کہ دوسروں کی ضروریات کے متعلق فکر مندی سے پہلے آپ اپنے لیے کچھ کر لیں۔

whatsapp channel.jpeg
مزید پڑھیے

زیادہ پڑھی جانے والی سائنس