سندھ ہائی کورٹ کراچی نے منگل کو لاپتہ افراد کی بازیابی کے لیے کیس کی سماعت کرتے ہوئے ریمارکس میں کہا کہ ’سیکریٹری داخلہ کا رویہ توہین عدالت کے مترادف ہے۔‘
’عدالتی حکم کے باوجود حراستی مراکز کے قیدیوں کی فہرست پیش نہیں کی گئی، کراچی سے لاپتہ ہونے والے حراستی مراکز میں ہیں یا نہیں یہ نہیں پتہ چل سکا، وزارت داخلہ اتنی بے بس ہے؟ حراستی مراکز کی معلومات نہیں لے سکی؟‘
جسٹس کے کے آغا نے ریمارکس میں مزید کہا کہ ’طاقتور وزارت جو ٹی ایل پی سے مذاکرات کر سکتی ہے مگر لسٹ نہیں دے سکتی؟ ایڈوکیٹ جنرل کی پیش کردہ فہرست کے مطابق معلومات لی جائیں، لوگوں کو ان کے بنیادی حق سے محروم کیا جا رہا ہے، ایسا نہ ہو عدالت کی برداشت بھی ختم ہو جائے۔ حراستی مراکز تو صوبائی حکومت کے ماتحت ہیں، پی ٹی آئی کی حکومت وفاق میں بھی ہے اور کے پی میں بھی۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
جسٹس کے کے آغا کے مطابق ’مراکز فوج کے ماتحت نہیں جو آپ کو اتنی مشکل ہو رہی ہے، اگر آئندہ سماعت پر سیکریٹری داخلہ وضاحت کے ساتھ پیش نہ ہوئے تو نتائج کے خود ذمہ دار ہوں گے۔‘
سماعت کے دوران ڈی جی ہیومن رائٹس سوال کیا کہ کیا ان لاپتہ افراد پر انسانی حقوق لاگو نہیں ہوتے؟ آپ تسلیم کرتے ہیں جبری گمشدگی انسانی حقوق کی خلاف ورزی ہے؟
جس کے جواب میں ڈی جی ہیومن رائٹس کمیشن نے کہا کہ ’جبری گمشدگی سے متعلق قانون سازی کی جارہی ہے، شیریں مزاری خود انسانی حقوق کی کارکن ہیں وہ ذاتی کوشش کررہی ہیں۔‘
عدالت نے عالمی قوانین کی روشنی میں جبری گمشدگیوں سے متعلق جواب طلب کرتے ہوئے کہا کہ ’پاکستان لاپتا افراد سے متعلق کتنے عالمی کنونشنز کا حصہ ہے؟‘
آئندہ سماعت پر سیکریٹری خارجہ اور سیکریٹری ہیومن رائٹس کو بھی پیش ہونے کا حکم دیا۔
عدالت نے سماعت 27 مئی تک ملتوی کر دی۔