ڈیفنس آف ہیومن رائٹس(ڈی ایچ آر) نے جبری لاپتہ افراد سے متعلق نئے چیف جسٹس آصف سعید کھوسہ کے بیان کو خوش آئند قرار دیتے ہوئے اس امید کا اظہار کیا ہے کہ لاپتہ افراد کے مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کیا جائے گا۔
ڈی ایچ آر کی چیئرپرسن آمنہ مسعود جنجوعہ نے جسٹس کھوسہ کے اس بیان کو اہم اور خوش آئند قرار دیا ہے۔ نئے چیف جسٹس نے اپنے خطاب میں کہا تھا کہ "آیئے لاپتہ افراد یا زبردستی گم کئے جانے والے افراد سے متعلق بات کریں، ہمیں اس بات کو سمجھنے کی ضرورت ہے کہ ریاستی امور کوئی آنکھ مچولی نہیں اور ملکی سلامتی کے لیے بھی جارحانہ طریقے استعمال نہیں کئے جا سکتے ہیں۔”
آمنہ مسعود نے کہا کہ سالہا سال سے لاپتہ افراد کے ورثاء انصاف کے متلاشی ہیں۔ ”ہر بارگاہ میں انصاف کی زنجیر عدل ہلا چکے لیکن ان کی آواز صحرا کی گونج بن کر رہ گئی ہے۔ سالہا سال سے کسی کا بھائی، کسی کا شوہر اور کسی کا بیٹا لاپتہ ہے لیکن نہ جرم کا پتہ نہ کوئی اتا پتا۔ آئین کی کون سی شق اور قانون کا کون سا ضابطہ ایسی سرکشی اور بنیادی حقوق کی ایسی سنگین خلاف ورزی کی اجازت دیتا ہے؟”
انہوں نے کہا کہ تاحال پرانے لاپتہ افراد کا بھی کوئی سراغ نہیں لگایا جا سکا ہے اور آئے روز جبری گمشدگیوں کا سلسلہ جاری ہے۔ ”جعلی مقابلوں میں لاپتہ افراد کو مار کر چھپ کر دفنانے کے واقعات بھی منظرعام پر آ رہے ہیں لیکن کوئی ٹس سے مس نہیں ہو رہا ہے۔ کیا ایسی ریاست مہذب کہلا سکتی ہے جہاں سالہاسال سے لاپتہ لوگوں کا سراغ نہ لگایا جا سکے اور آئے روز لوگوں کو اٹھانے کا سلسلہ جاری رہے؟”
آمنہ مسعود نے جو خود اپنے شوہر کی گمشدگی کے بارے میں کئی برسوں سے بھاگ دوڑ کر رہی ہیں کہا کہ لاپتہ افراد کا کمیشن بھی کوئی معرکہ نہیں مار سکا بلکہ یہ کمیشن انسانی حقوق کے اس انتہائی سنگین مسئلے کو سرد خانے کی نذر کرنے کے مترادف ہے۔ ”عدلیہ بھی اپنی تمام تر آزادی اور فعالیت کے باوجود تاحال اس مسئلے کو حل کرنے میں ناکام ہے۔”
انہوں نے کہا کہ اگر کسی کا کوئی قصور ہے تو اسے عدالتوں کے روبرو پیش کیا جائے اور اب جبری گمشدگی اور زیر حراست اموات کا سلسلہ بند ہونا چاہیے۔ انہوں نے کہا کہ نئے چیف جسٹس کےبیان سے ورثاء کو حوصلہ ملا ہے اور وہ امید رکھتے ہیں کہ سپریم کورٹ اس مسئلے کو حل کرے گی، لاپتہ افراد بازیاب کروائے جائیں گے اور ورثاء کو انصاف فراہم کیا جائے گا۔ ”جبری لاپتہ افراد کا معاملہ نئے چیف جسٹس کا امتحان ہے۔”
ڈیفنس آف ہیومین رائٹس پاکستان کا کہنا ہے کہ اب تک اس نے 2500 لاپتہ افراد کے مقدمات کا اندراج کیا ہے جن میں سے 950 سے زائد اپنے گھروں کو واپس لوٹ چکے ہیں۔ اس کا کہنا ہے کہ 169 جبری گمشدہ افراد کی مختلف آرمی انٹرمنٹ سنٹروں اور جیلوں سے شناخت ہوئی۔ تاہم حکومت امشدہ افراد کی تعداد بہت کم بتاتی ہے۔