زمین سے قریب ترین ستارہ پراکسیما سینٹوری ہے جس کا فاصلہ تقریباً 4.2 نوری سال یا کم و بیش 400 کھرب کلومیٹر ہے۔ یہاں تک کتنی دیر میں پہنچا جا سکتا ہے؟
اس وقت انسان کا بنایا گیا تیز ترین خلائی جہاز پارکر سولر پروب ہے جس کی رفتار ساڑھے چار لاکھ کلومیٹر فی گھنٹہ ہے۔ اس رفتار سے اسلام آباد سے لندن تک 20 سیکنڈ میں پہنچا جا سکتا ہے، اور یہ جہاز دنیا کے گرد سوا پانچ منٹ میں چکر لگا سکتا ہے۔
لیکن اگر اسے زمین سے قریب ترین ستارے کی طرف روانہ کیا جائے تو وہاں تک پہنچنے میں اسے ساڑھے چھ ہزار سال سے زیادہ کا وقت لگے گا۔’
ظاہر ہے کہ یہ سفر کسی بھی لحاظ سے ممکن نہیں ہے کیوں کہ اس کے لیے انسان کی دو سو سے زیادہ نسلیں درکار ہوں گی۔ اس لیے اگر انسان کبھی سیاروں میں آسانی سے سفر کرنا چاہتا ہے تو اسے روشنی سے زیادہ رفتار کی ضرورت ہو گی۔ لیکن روشنی سے زیادہ رفتار ابھی تک محض سائنس فکشن میں ہی ممکن ہے۔
مشہور سائنس فکشن نگار آئزک ایزیموف کی سلسلہ وار کہانی ’فاؤنڈیشن‘ کے کردار نظام شمسی، سیاروں کے درمیان یا پوری کائنات میں جمپ ڈرائیوز کی مدد سے سفر کرتے ہیں۔ بچپن میں اس سلسلے کی جتنی کہانیاں میرے ہاتھ لگیں میں نے سب پڑھ ڈالیں۔
اب میں نظریاتی طبیعیات دان اور نینو ٹیکنالوجی کا طالب علم ہوں لیکن میرے لیے آج بھی یہ موضوع دلچسپی کا باعث ہے کہ ایک دن انسان خلا میں کیسے سفر کرے گا۔
’انسٹرٹیلر‘ اور ’تھور‘ جیسی مشہور فلموں میں خلا باز نما کچھ کردار نظام شمسی کے درمیان پلک جھپکنے کی دیر میں پہنچنے کے لیے فرضی طریقے استعمال کرتے ہیں۔ ایک طریقہ جو ’سٹار ٹریک‘ کے پرستاروں کے لیے مانوس ہو گا وہ ہے وارپ ڈرائیو ٹیکنالوجی۔ وارپ ڈرائیو نظریاتی طور پر اپنا جواز رکھتی ہے، البتہ اس کی عملی تشکیل ابھی بہت دور ہے۔
لیکن اب اسی سال مارچ کے مہینے میں ایسے دو مضامین نے اخبارات کی شہ سرخیوں میں جگہ پائی جن میں دعویٰ کیا گیا ہے کہ وارپ ڈرائیو کے نظریے اور عملی تشکیل میں حائل بہت سی رکاوٹوں میں سے ایک کا حل دریافت کر لیا گیا ہے۔
لیکن یہ نظریاتی سطح پر ممکن وارپ ڈرائیوز کیسے کام کرتی ہیں؟ کیا انسان بہت جلد ان پر سوار ہو کر خلا میں گھوم رہا ہو گا؟
سکڑاؤ اور پھیلاؤ
طبیعیات دانوں کی زمان و مکان کی موجودہ تفہیم البرٹ آئن سٹائن کے نظریہ اضافت کی پیدا کردہ ہے۔ نظریہ اضافت کے مطابق زمان اور مکان (ٹائم اور سپیس) باہم جڑے ہیں اور کوئی بھی چیز روشنی کی رفتار سے تیز سفر نہیں کر سکتی۔
نظریہ اضافت یہ بھی واضح کرتا ہے کہ مادہ اور توانائی کیسے زمان و مکان تبدیل کر دیتے ہیں یعنی بھاری اشیا جیسے سیارے اور بلیک ہولز زمان و مکان اپنے مطابق ڈھال لیتے ہیں۔ یہی تبدیلی آپ کو کشش ثقل کی صورت میں محسوس ہوتی ہے۔
ابتدائی سائنس فکشن نگاروں کیمپبیل اور ایزیموف نے رفتار میں کمی کا سبب اسی تبدیلی کو بتایا تھا۔
خلائی جہاز نے جو فاصلہ طے کرنا ہے اگر وہ اسے کم کر سکے اور اس عمل کے دوران اپنے عقب میں زمان و مکان پھیلا سکے تو پھر کیا ہو گا؟ سٹار ٹریک نے اسی خیال کو وارپ ڈرائیو کا نام دے دیا۔
میکسیکو کے نظریاتی طبیعیات دان میگل الکیوبیرے نے 1994 میں ثابت کیا کہ نظریہ اضافت میں رہتے ہوئے یہ ممکن ہے کہ خلائی جہاز مجوزہ فاصلے کو دباؤ کے ذریعے کم کر سکے اور اس عمل کے دوران اپنے پیچھے زمان و مکان کا دائرہ وسیع کر سکے۔
اس کا مطلب کیا ہے؟ فرض کیجیے ایک میدان میں سو فٹ طویل دری بچھی ہوئی ہے۔ آپ اگر ایک سیکنڈ فی فٹ کی رفتار سے چلیں تو دری کے ایک سرے سے دوسرے سرے تک سو سیکنڈ میں پہنچیں گے۔
لیکن اگر آپ دری کو اپنی طرف زور سے کھینچ کر اپنے پاس لے آئیں تو اب آپ اس کے ایک سرے سے دوسرے تک صرف ایک سیکنڈ میں پہنچ جائیں گے۔
یہ نظریہ اضافت کے قوانین سے متصادم نہیں ہے کیونکہ آپ کی رفتار روشنی سے زیادہ نہیں ہوئی۔ الکیوبیرے نے ثابت کیا کہ سٹار ٹریک میں دکھائی گئی وارپ ڈرائیو نظریاتی طور پر ممکن ہے۔
اب ہم پراکسیما سینٹوری پر آتے ہیں، ٹھیک ہے؟ بدقسمتی سے زمان و مکان کو دباؤ سے کم کرنے کے الکیوبیری نظریے میں ایک مسئلہ ہے: اس کے لیے منفی توانائی (نیگٹیو انرجی) یا منفی کمیت (نیگٹیو ماس) درکار ہے۔
منفی توانائی کا مسئلہ
الکیوبیرے کی تجویز کردہ وارپ ڈرائیو خلائی جہاز کے ارد گرد ہموار زمان و مکان کا ایک بلبلہ تخلیق کرے گی اور فاصلہ کم کرنے کے لیے زمان و مکاں بلبلے کے گرد ڈھل جائے گا۔ اس کی مثال وہی عمل ہے جو آپ نے دری کھینچ کر اسے قریب کر لیا تھا، فرق اب اتنا ہے کہ اس صورت میں مکان یعنی سپیس سکڑ جائے گی۔
وارپ ڈرائیو کو اس عمل کے لیے منفی مادہ یعنی مادے کی غیر عملی شکل یا منفی توانائی کا کثیف دائرہ درکار ہو گا۔ طبیعیات دانوں نے کبھی منفی کمیت دریافت نہیں کی اس لیے منفی توانائی واحد راستہ باقی بچتا ہے۔
منفی توانائی پیدا کرنے کے لیے وارپ ڈرائیو مادے کی کثیر مقدار استعمال کرے گی تاکہ پارٹیکلز اور اینٹی پارٹیکلز میں عدم توازن قائم کیا جا سکے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مثال کے طور پر اگر ایک الیکٹرون اور اینٹی الیکٹرون وارپ ڈرائیو کے قریب نمودار ہوتے ہیں تو ان میں سے ایک ذرہ مادے میں پھنس جائے گا اور اس کے نتیجے میں عدم توازن پیدا ہو گا۔
یہ عدم توازن کثیف منفی توانائی کا باعث بنے گا۔ الکیوبیرے کی وارپ ڈرائیو اس منفی توانائی کو زمان و مکان کا بلبلہ بنانے کے لیے استعمال کرے گی۔
لیکن لازمی درکار منفی توانائی پیدا کرنے کے لیے وارپ ڈرائیو کو بہت زیادہ مواد چاہیے۔ الکیوبیری کے اندازے کے مطابق سو میٹر بلبلے والی وارپ ڈرائیو کو نظر آنے والی پوری کائنات کے تمام مادے کی ضرورت ہو گی۔
1999 میں طبیعیات دان کرس فان ڈین بروئک نے مشاہدہ کیا کہ بلبلے کو اندرونی طور پر وسعت دینے اور بیرونی سطح مستقلاً ایک جیسی رکھنے سے درکار توانائی کی مقدار کافی کم ہو کر محض سورج کے حجم کے برابر تک رہ جانے گی۔
یہ ایک اہم پیش رفت تھی لیکن پھر بھی عملی طور پر ایسا ہونا دور دور تک ممکن نہیں۔
سائنس فکشن جیسا مستقبل؟
دو حالیہ تحقیقی مضامین، ایک کے مصنفین الیکسی بوبرک اور جیانی مارتیر ہیں جبکہ دوسرے کے ایرک لینٹز ہیں، ایسے حل پیش کرتے ہیں جو وارپ ڈرائیو کو حقیقت کے کافی قریب کر دیتے ہیں۔
بوبرک اور جیانی مارتیر اس نتیجے پر پہنچے کہ بلبلے کے اندر زمان و مکان ایک مخصوص طریقے سے ترمیم کرنے پر منفی توانائی کی ضرورت ہی نہیں رہے گی۔ اگرچہ اس طریقے میں ایسی وارپ ڈرائیو ممکن نہیں جو روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکے۔
اپنے تئیں لینٹز نے بھی ایسی تجویز پیش کی جس میں منفی توانائی کی ضرورت نہیں ہو گی۔ انہوں نے نظریہ اضافت کی مساوات حل کرنے کے لیے جیومیٹری کے مختلف کلیے استعمال کیے اور اس طرح انہیں معلوم ہوا کہ وارپ ڈرائیو کے لیے منفی توانائی کی ضرورت نہیں ہو گی۔
لینٹز کی تجویز کے مطابق بلبلہ روشنی کی رفتار سے تیز سفر کر سکتا ہے۔
یہ وضاحت نہایت ضروری ہے کہ یہ سب خوش آئند پیش رفت ریاضیاتی نمونوں پر مشتمل ہیں۔ بطور طبیعیات دان میں ان نمونوں کو پوری طرح اسی وقت قبول کروں گا جب تجربات انہیں درست ثابت کر دیں۔ تاہم وارپ ڈرائیو عملی طور پر ممکن نظر آتی ہے۔ سائنس فکشن کے پرستار کے طور پر میں ان تمام جدت پسند نظریات کو خوش آمدید کہتا ہوں۔
سٹار ٹریک کے کیپٹن پیکارڈ کے الفاظ میں چیزیں اسی وقت تک ناممکن ہیں جب تک ممکن نہیں ہو جاتیں۔
(یہ تحریر ’دا کنورسیشن کی اجازت سے شائع کی جا رہی ہے۔ اصل مضمون کا متن یہاں دیکھا جا سکتا ہے)