چند ہفتے قبل سائنسی جریدے نیچر نے کیم ریڈیو ٹیلی سکوپ پراجیکٹ کے سائنسدانوں کی جانب سے مرتب کی گئی دو رپورٹس شائع کیں۔
کینیڈین ہائیڈروجن انٹینسٹی میپننگ ایکسپیریمنٹ (کیم) کینیڈا کے برٹش کولمبیا کے علاقے اوکینیگن میں واقع ہے اور اس کا کام ہزاروں اینٹینا جو سیاہ آسمان سے نکلنے والے سگنلز کو جمع کرتے ہیں کی مدد سے کائنات کا نقشہ تیار کرتی ہے۔ اس کے بعد دنیا کے سب سے بڑے پراسیسنگ نظام کو استعمال کرتے ہوئے کہکشاں اور اس سے بھی آگے کی تصویر تیار کی جاتی ہے۔
نو جنوری کو شائع ہونے والی ان دو رپورٹس نے ابتدا میں تو علمی حلقوں میں حیرانی پیدا کی اور ساتھ ہی اس تحقیق کو امیریکن ایسٹرونومیکل سوسائٹی کو پیش کیا گیا۔ بعد میں اسے ذرائع ابلاغ کے حوالے کیا گیا۔
اس کی وجہ یہ تھی کہ کیم کے سائندانوں نے فاسٹ ریڈیو برسٹر یا ایف آر بی دریافت کی تھیں۔ ایف آر بی عام طور پر شدید ریڈیو توانائی کی لگاتار لہریں ہوتی ہیں جو کائنات میں کوئی عجیب مظہر نہیں ہے۔
تاہم اس بار یہ کچھ لگا ہے۔ یہ سگنل ہر دو روز بعد آ رہے تھے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سائنسدان جانتے ہی نہیں کہ ان ریڈیو لہروں کی وجہ کیا ہے۔ ہم سب کے لیے تو اس کا ایک ہی مطلب ہے: خلائی مخلوق (ایلیئن)۔
اسی پیراہے میں اسے دیکھا جائے تو یہ ایف آر بی بہت دور سے آ رہی ہیں۔ ہماری کہکشاں، ملکی وے سے بھی آگے سے۔
دی ہٹچکرز گائیڈ ٹو دی گیلیکسی میں سے ڈگلس ایڈیمز کا ایک جملہ یہ بتانے کے لیے کافی ہوگا کہ یہ لہریں آخر کتنی دور سے آ رہی ہیںگ وہ کہتے ہیں: ’میرے خیال میں، آپ یہ سوچ سکتے ہیں کہ یہ بہت ہی دور ہے لیکن یہ خلا کے بہت قریب ہے۔‘
اینڈرومیڈا کہکشاں ہم سے کوئی دو عشاریہ پانچ ملین نوری سالوں کی دوری پر ہے، اور کیم کو جہاں سے یہ ایف آر بی موصول ہوئے وہ اس سے بھی ایک ہزار گنا زیادہ دوری سے آئے۔
کیم ٹیم کی رکن اور یو بی سی کی ماہرِ فلکی طبیعیات انگرڈ سٹیئرز کہتی ہیں کہ ’یہ جانتے ہوئے کہ ایسے شواہد ہیں کہ ایسی ہی مزید لہریں بھی ہو سکتی ہیں، اس کے بار بار ہونے اور تحقیق کے لیے میسر مزید ذرائع سے ہم کائنات کی ان پہلیوں کو سلجھانے کے قابل ہو سکتے ہیں۔‘
اب جب کہ سائنسدان نہیں جانتے کہ یہ ایف آر بی کہاں سے نکل رہی ہیں تو اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ یہ کام کسی دور دراز مخلوق کا ہے۔
سینیئر ماہرِ فلکیات سیتھ شوشتک سیٹی ویب سائٹ میں لکھتے ہیں: ’فلکیات کے طلبا کے درمیان یہ علمی بحث موجود ہے کہ کائناتی مظہر واحد ہے، یعنی کائنات میں یہ صرف ایک ہی ہے یا یہ بہت عام ہیں۔‘
’مثال کے طور پر بعض اس بات پر بحث کرتے ہیں کہ زمین منفرد ہو سکتی ہے۔ شاید ہماری کائنات میں ماحول دوست ایک ہی دنیا ہے، اور ہم اس پر رہتے ہیں۔ لیکن سب سے زیادہ سنا جانے والا خیال یہ ہے کہ ملکی وے میں موجود کھربوں سیاروں میں لاکھوں ایسے ہو سکتے ہیں جہاں زندگی ہو۔‘
وہ مزید لکھتے ہیں کہ ’جب چند سال قبل بہت ہی کم تعداد میں ایف آر بی کے بارے میں معلوم تھا تو یہ واضح نہیں تھا کہ یہ غیر معمولی ہیں یا نہیں۔ اب جب کہ 60 سے زائد دریافت کیے جا چکے ہیں، تو محقق یہ کہہ سکتے ہیں کہ ممکنہ طور پر ہر روز ایسی ہزاروں لہریں آتی جاتی ہوں۔‘
کیم کی جانب سے دریافت کی جانے والی ان ایف آر بی کے بارے میں سیتھ شوشتک کہتے ہیں کہ ’ان کے بار بار ہونے سے ان ریڈیو لہروں کی وجہ کے بارے میں آپ کو پتہ چلتا ہے۔ لازمی طور پر آپ یہ امید نہیں کر سکتے کہ ٹکرانے والی بلیک ہولز یا نیوٹران ستارے واپس اپنی جگہوں پر جاتے ہیں اور پھر کچھ دنوں کے بعد ٹکراتے ہیں۔ جو چیز بھی اس سلسلہ وار لہروں کی وجہ ہے وہ ضرور ایک جاری رہنے والی مظہر ہے۔‘
’اس کے علاوہ یہ مظہر بہت ہی توانائی والا ہے۔ یہ ریڈیو لہریں لاکھوں نوری سالوں کی دوری سے آتی ہیں۔‘
’واضح طور پر کہکشاں میں کچھ ہے جو اتنی توانائی جمع کرتا ہے کہ یہاں زمین پر پکڑے جانے والے سگنلز بنا سکے، اور اسی توانائی کے ساتھ یپہ سگنل ہر چند روز بعد آتے ہیں۔‘
ایف ار بی کی دریافت شاید اتنی دلچسپی پیدا نہ کر سکی جتنی یہ اہم ہیںت لیکن اس خبر کے ساتھ ایک اور اعلان سامنے آیا جو ’اومواموا‘ سے متعلق تھا۔
اومواموا ہوائین زبان کا لفظ ہے جس کا مطلب پیغام رساں ہے، لیکن اس کے گرد زبردست سائنس فکشن دائرہ بنا ہوا ہے۔
اس سائنس فکشن کا خیال یہ ہے کہ ایک بڑی خاموش شے، خلائی مخلوق سے جڑی کوئی انجان چیز ہمارے آسمان یا زمین پر نمودار ہوئی۔ یہی خلا میں زندگی کی خاموش دلیل ہے۔
اومواموا ایک سیارچہ تھا یا اسی جیسی کوئی چیز۔ ایک پتھر جو کلومیٹر طویل ہے اور اس کا رنگ سرخ ہے۔ یہ پہلی بار تھی کہ کوئی ایسی چیز ہمارے نظام شمسی کے باہر سے آئی اور اسے قریب سے گزرتے ہوئے دیکھا گیا۔
اس حوالے سے انٹرنیٹ پر تو بہت سے نظریات موجود تھے ہی کہ اس کا تعلق ضرور خلائی مخلوق سے ہے، لیکن انھیں زیادہ سنجیدہ نہیں لیا جاتا تھا۔ پھر گذشتہ سال اکتوبر میں ہارورڈ یونیورسٹی کے فلکیات کے شعبے کے ہیڈ ایوی لویب نے باقاعدہ طور پر کہا کہ اصل میں یہ خلائی مخلوق ہو سکتی ہے۔
ایوی لویب نے جرمن نیوز میگزین دیر سپیگل کو بتایا کہ ’ہو سکتا ہے کہ خلائی مخلوق کی جانب سے جان بوجھ کر زمین کی طرف بھیجا گیا ایک مکمل آپریشنل مشن ہو۔‘
وہ مزید کہتے ہیں کہ ’اگر یہ مخلوق پرامن ہے تو ہم ان سے بہت کچھ سیکھ سکتے ہیں۔‘
عام طور پر سائنسدان خلائی مخلوق کی موجودگی کے بارے میں تھوڑے محتاط ہیں بلکہ وہ اب اس مقام پر پہنچ چکے ہیں کہ یہ مخلوق اپنی سپیس شپ کو ایک سیارچے کا روپ دے کر کہکشاں میں چکر بھی لگا سکتے ہیں۔
سیتھ شوشتک لکھتے ہیں: ’بار بار نئے آسمانی مظہر کا ذمہ دار خلائی مخلوق کو سمجھا جاتا ہے۔ نصف صدی قبل سویت سائنسدانوں کو شبہہ ہوا کہ کوآثر اصل میں کسی دور دراز مخلوق کی جانب براڈکاسٹ کی جانب اشارہ کرتا ہے۔‘
’لیکن آپ آرام سے کہہ سکتے ہیں کے ایف آر بی کی وجہ خلائی مخلوق نہیں ہے۔ کیوں؟ یہ لہریں پورے آسمان پر دیکھی گئی ہیں اس لیے۔ اسی طرح کے سگنلز ایسی کہکشاؤں سے آ رہے ہیں جو ایک دوسرے سے اربوں نوری سال کے دوری پر ہیں۔ تو خلائی مخلوق ایک جیسے سگنل بھیجنے کے لیے اتنی زیادہ کائناتوں کو کس طرح سے ترتیب دے رہے ہیں؟ بگ بینگ کے بعد سے ایسے کام کے لیے تعاون کا مشکل سے ہی وقت ہے۔‘
گذشتہ ماہ دی نیو یارکر جریدے نے لیوب کا انٹرویو کیا۔ ان کے بارے میں خیال کیا جا رہا تھا کہ وہ اپنے اکتوبر کے بیان سے کچھ حد تک پیچھے ہٹیں گے، لیکن وہ ذرا بھی نہیں ہٹے۔
اس کے بجائے وہ مزید آگے بڑھ گئے اور کہا کہ اومواموا شمسی بادبان ہے، جس کے بارے میں آپ یہ امید نہیں رکھ سکتے کہ کسی مردہ شے سے صرف خلا میں گھومتے ہوئے ہی اسے دیکھ لیا جائے۔
لوئب نے نیو یارکر کو بتایا: ’جو واحد چیز میرے دماغ میں آئی وہ یہ تھی کہ شاید سورج کی روشنی جب اس پر پڑتی ہے تو وہ اسے مزید آگے دھکیلتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ہوا بادابان کو آگے لے جاتی ہے۔‘
’تو ہم نے دیکھا اور یہ معلوم ہوا کہ اس طرح کے کام کے لیے آپ کو کسی شے کی موٹائی ملی میٹر سے کم چاہیے ہوتی ہے۔ اگر اس کے لیے ایک ملی میٹر سے بھی کم کی موٹائی چاہیے، اگر اسے سورج کی روشنی سے دھکیلا جاتا ہے تو شاید یہ بہت شمسی بادبان ہے، اور میرے خیال میں کوئی ایسا قدرتی عمل نہیں ہے جو شمسی بادبان بنائے۔ لہذا بہت حد تک ممکن ہے کہ اسے مصنوعی طریقے سے بنایا گیا ہو، کسی ٹیکنالوجیکل تہذیب نے۔‘
لوئب نے نیو یارکر کو بتایا: ’جو واحد چیز میرے دماغ میں آئی وہ یہ تھی کہ شاید سورج کی روشنی جب اس پر پڑتی ہے تو وہ اسے مزید آگے دھکیلتی ہے۔ یہ بالکل ایسا ہے جیسے ہوا بادابان کو آگے لے جاتی ہے۔‘
’تو ہم نے دیکھا اور یہ معلوم ہوا کہ اس طرح کے کام کے لیے آپ کو کسی شے کی موٹائی ملی میٹر سے کم چاہیے ہوتی ہے۔ اگر اس کے لیے ایک ملی میٹر سے بھی کم کی موٹائی چاہیے، اگر اسے سورج کی روشنی سے دھکیلا جاتا ہے تو شاید یہ بہت شمسی بادبان ہے، اور میرے خیال میں کوئی ایسا قدرتی عمل نہیں ہے جو شمسی بادبان بنائے۔ لہذا بہت حد تک ممکن ہے کہ اسے مصنوعی طریقے سے بنایا گیا ہو، کسی ٹیکنالوجیکل تہذیب نے۔‘
یہاں ہارورڈ کے ایک معتبر سائنسدان کہتے ہیں کہ وہ خلائی مخلوق پر یقین رکھتے ہیں: ’میں کسی ٹیکنالوجیکل تہذیب کے ممکنات کو قیاس نہیں سمجھتا، جس کی دو وجوہات ہیں۔ پہلی کہ ہم موجود ہیں۔ اور دوسری یہ کہ ہماری کہکشاں میں زمین کی طرح کم از کم ایک چوتھائی سیارے موجود ہیں، جن کی صورتحال بالکل زمین جیسی ہی ہیں۔ اگر آپ سو بار سوچیں، اور کہکشاں میں دسیوں ارب ستارے موجود ہیں تو ممکن ہے کہ ہم اکیلے نہیں۔‘
یہ وہ چیزیں ایسی ہیں جس کے بارے میں کئی سالوں سے بات ہو رہی ہے لیکن اگر ایک معتبر شخص کو آپ یہ کہتے سنتے ہیں تو وہ اس خیال کو مزید اہم بنا دیتا ہے کہ خلائی مخلوق پر یقین صرف ٹن فوائل بریگیڈ (ایسے افراد کا گروہ جن کے خیال میں نہ صرف خلائی مخلوق موجود ہے بلکہ وہ ہمارے ذہنوں کو بھی پڑھ سکتے ہیں) تک محدود نہیں۔
سوشل میڈیا پر جب یہ سوال پوچھا گیا کہ کیا واقعی خلائی مخلوق موجود ہے تو کوئی بھی ایسا شخص نہ ملا جو خلائی مخلوق کے وجود پر یقین نہ رکھتا ہو۔
ایک صارف نے کہا: ’خلائی مخلوق کے ہونے پر یقین نا کرنا، زمین چپٹی ہے، ویکسین سے خوش خیالی ہو سکتی ہے اور دنیا سات دنوں میں بنی پر یقین کرنے کے برابر ہے۔ کوئی بھی باشعور انسان یہ نہیں سمجھتا کہ وہ اس کائنات میں تہنا ہے۔‘
ڈیوڈ ڈربی کہتے ہیں: ’میری پیشنگوئی یہ ہے کہ جہاں کہیں آپ کو پانی ملے وہاں زندگی ملے گی۔ زمین ہی کو دیکھ لیں، ماحول جیسا بھی ہو۔ ہم انتہائی چھوٹی ایک خلیے والی زندگی ہی دریافت کر سکتے ہیں کیونکہ ہماری کائنات میں اسی قسم کی زندگی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ بین النجوم سفر کے وقت کا مطلب ہے کہ کوئی کہکشانی سلطنت ممکنہ طور پر پوشیدہ ہی رہے گی کیونکہ ہماری ٹیکنالوجی ہمیں وہاں نہیں لے جا سکتی۔ اگر ان (خلائی مخلوق) کے پاس ٹیکنالوجی یا رغبت تھی تو بہت پہلے ہمارے سیارے پر آ سکتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ ان کے نہ آنے کا ممکنہ مطلب یہ ہے کہ بین النجوم سفر ایک تکنیکی مسلہ ہے جس کا کوئی حل نہیں۔ ایک چیز جو یقینی ہے وہ یہ کہ ’سچ کھلا ہے۔‘
کیا ہم انتہائی چھوٹی یا کہکشانی سلطنت کو 2019 میں دریافت کر پائیں گے؟ حالیہ شواہد کی روشنی میں ایسا لگتا ہے کہ اگر ہم ان سے کوئی رابطہ کرنے والے ہیں تو پھر اسی سال یا آئندہ سال یا پھر اس سے بھی اگلے سال ممکن لگتا ہے۔ آسمان پر نظریں جمائے رکھیں۔۔۔