خلائی سفر کے حوالے سے 2020 کی دہائی ایک خوش آئند وقت ہو گا۔ ایلون مسک امریکی خلائی سٹیشن کیپ کینویرول سے اڑان بھرنا آسان بنا رہے ہیں۔ زمین کے گرد نچلا مدار (low earth orbit) اتنا پرکشش کبھی بھی نہ تھا لیکن ایک بار وہاں پہنچنے کے بعد ہم مزید کیا کر سکتے ہیں اور یہ کیسے ممکن ہو گا؟
ہم سب نے ٹی وی سیریز ’سٹار ٹریک‘ دیکھ رکھی ہے اور ہمیں توقع ہے کہ ایک دن سیاروں کے درمیان سفر معمول کی بات بن جائے گا۔ اگر آپ پرامید ہو کر دیکھیں تو ممکن ہے 2025 تک ہم چار لوگوں کو واپس چاند تک لے جا سکیں۔ لیکن یہی کام نیل آرم سٹرانگ اور ان کے ساتھی 60 سال پہلے 1969 میں کر چکے تھے۔ اگر ہم چار سے زیادہ لوگوں کے ساتھ اور مزید آگے جانا چاہیں تو پھر کیا ہو گا؟ اگر ہم حقیقی انسانوں کے ذریعے سیارچوں اور نظام شمسی کے سیاروں کی سیاحت کرنا چاہیں جو انہیں قابل رہائش اور زندگی کا حصہ بنانے کی کوشش کریں تو پھر؟ ہم یہ کیسے کر سکتے ہیں؟
یہ آسان نہیں ہے۔ روایتی سپیس شٹل اور انسانی گنجائش رکھنے والے نئے تیار کردہ خلائی جہاز دونوں ہمارے سروں سے اوپر محض ڈھائی سو میل میل کی بلندی پر نچلے زمینی مدار تک اڑ سکتے ہیں۔ یاد رہے کہ چاند ڈھائی لاکھ میل دور جبکہ مریخ کا فاصلہ پانچ کروڑ میل سے کسی طرح کم نہیں۔ مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ پہلے سے انسانی دسترس میں موجود خلائی سٹیشنوں کے مقابلے میں اندرونی خلا کا ماحول انتہائی خطرناک ہے۔
ممکن ہے اس کا کوئی حل ہو۔ پچھلے سو سال سے زیادہ دور اندیش خلائی سائنسدان پرواز کی باتیں کر رہے ہیں۔ نچلے زمینی مدار میں انجن چلانے اور ایندھن کی بڑی مقدار ضائع کرنے کے بجائے ہم مزید بلند پرواز خلائی جہاز تیار کریں گے اور بغیر ہوا کے موجود خلائی ماحول کا مزید سراغ لگائیں گے اس کے بعد ہم اپنے بے خوف خلابازوں کو کھلا چھوڑ دیں گے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
شمسی بادبان شمسی توانائی کی طاقت سے اپنی پرواز جاری رکھتے ہیں۔ اگر آپ مناسب شمسی توانائی جذب کر سکیں تو آپ کسی قسم کا ایندھن جلائے بغیر متاثر کن رفتار حاصل کر سکتے ہیں۔ مزید شاندار بات یہ ہے کہ آپ اسی پرواز سے جب چاہیں نظام شمسی کے باہر اور اندر جا سکتے ہیں۔
ان کے کھلنے والے حصے ہیں اور نہ انہیں تبدیل کرنا پڑتا ہے۔ شمسی بادبان کے ذریعے زمینی مدار تک پہنچنے والے لوگوں کو محض خوراک اور آکسیجن کا بندوبست درکار ہو گا۔ سر فرانسس ڈریک کے وقتوں کی طرح خلائی جہاز کو ایندھن کی ضرورت نہیں ہو گی۔
روشنی کے دباؤ کا تصور سو سال سے بھی پرانا ہے اور مایہ ناز روسی انجینیئر کونستینتین تسیولسوسکی نے کسی بھی دوسرے شخص کے شمسی بادبانی جہاز تیار کرنے سے پہلے اس کی تجویز پیش کی تھی۔ شمسی بادبان کے تصور پر تب سے بحث جاری ہے اور مستقبل بین انجینیئروں کی ہر آنے والی نسل اس کی مختلف شکلیں پیش کرتی آئی ہے۔ 1970 کی دہائی میں معروف سائنس دان کارل سیگن نے اس خیال کو معروف کرنے کی پوری کوشش کی لیکن وہ ناسا کو اس کی تیاری پر قائل نہ کر سکے۔
ٹیکنالوجی کے بہت سارے ماہرین کوششیں کرتے رہے لیکن بات نہ بن سکی۔ یہاں تک کہ زہرہ تک اڑان بھرنے کے لیے 2010 میں جاپانی خلائی ایجنسی نے ’ایکاروس‘ تیار کر دکھایا جو خاصا چھوٹا اور چوکور تھا۔ حیرت انگیز طور پر یہ کامیاب رہا۔ محض 14 ضرب 14 میٹر چوکور جہاز ایکاروس 196 مربع میٹر تھا۔
اکثر لوگوں کا خیال ہے کہ شمسی بادبان صرف سورج سے دور واقع سیاروں تک بلند پرواز کر سکتا ہے۔ سائنس دانوں نے بہت پہلے سے یہ جان لیا تھا کہ جہاز کا زاویہ سورج کی طرف موڑ کر نظام شمسی تک پہنچا جا سکتا ہے۔ خیال رہے کہ جیسے ہی آپ سورج سے دور ہٹتے جاتے ہیں شمسی توانائی کی شدت تیزی سے کم ہونا شروع ہو جاتی ہے اس لیے ایکاروس کو زہرہ کی سمت اڑانے کے منصوبے نے جاپانیوں کی مشین کی کارکردگی دراصل بہتر بنائی ہے (زہرہ ہماری زمین کی نسبت سورج سے زیادہ قریب ہے)۔
بیسویں صدی کے آغاز پر سائنس دانوں کی سمجھ میں یہ بات آئی کہ روشنی بہت چھوٹے ذروں پر مشتمل بہتا دھارا ہے جنہیں فوٹان کہتے ہیں۔ یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کسی شخص نے کبھی انہیں اپنی آنکھ سے نہیں دیکھا لیکن دماغ کے استعمال سے ان کی موجودگی جانی جا سکتی ہے۔ ہر فوٹان سورج سے روشنی کی رفتار سے پھوٹتا اور معمولی رفتار سے آگے بڑھتا ہے۔ جب روشنی شیشے سے ٹکرا کر منعکس ہوتی ہے تو دراصل یہ اپنی رفتار اسے منتقل کر دیتی ہے۔ اس مرحلے میں توانائی کی پیدا ہونے والی مقدار حیران کن حد تک معمولی ہوتی ہے بلکہ اس قدر معمولی کہ ہم میں سے اکثریت نے کبھی اپنے جسم میں روشنی کا دباؤ محسوس ہی نہیں کیا اور بیسویں صدی تک کسی بھی شخص نے فوٹان کی شدت کو سہی طور پر ماپا ہی نہیں تھا۔
اس کے باوجود زمین کے گرد ساکن مدار میں گھومنے والی مصنوعی سیارے (روشنی کے اسی مسلسل دھکے کی وجہ سے) رفتہ رفتہ اپنے مدار سے بھٹک جاتے ہیں اور ان کا راستہ بار بار درست کرنا پڑتا ہے۔
یاد رہے کہ ٹیلی مواصلاتی سیارے شمسی توانائی جذب کرنے کے لیے نہیں بنائے جاتے بلکہ محض مدار میں ہونے کی وجہ سے شمسی توانائی کی شدت سے بچ نہیں سکتے۔
روشنی کا دباؤ کیونکہ انتہائی کم ہوتا ہے اس لیے ایک ہی راستہ بچتا ہے کہ ایسے وسیع و عریض شمسی بادبان تیار کیے جائیں جن محیط بہت زیادہ ہو۔ اسی کے ساتھ شاید مجھے اس بات کا ذکر بھی کر دینا چاہیے کہ اس طرح بادبان بہت وزنی ہو جائیں گے بلکہ اس قدر وزنی کہ ہمارا مجوزہ خلائی جہاز کا سارا وزن ہی بادبان پر مشتمل ہو گا۔
خوش قسمتی سے خلا بہت وسیع ہے اور اس کا ماحول زمین سے اس قدر مختلف ہے کہ یہاں ناممکن ڈھانچے وہاں با آسانی بنائے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم 800 میٹر چوڑا اور 800 میٹر لمبا بادبان بنائیں تو اسے محض پانچ نیوٹن یا آدھے کلو گرام کی توانائی درکار ہو گی۔
اتنے بڑے ڈھانچے کے لیے ایک پاؤنڈ ایندھن بہت زیادہ نہیں لگتا۔ یاد رہے کہ اگر ہم اسے بطور ایندھن استعمال کرنا چاہا تو ہمیں بیرونی ساز و سامان باندھنے کے لیے بہت سارے رسے استعمال کرنا پڑیں گے اور اس طرح بھاری بھرکم سامان اور رسے خلائی جہاز کے سفر کو مزید سست رفتار کر دیں گے۔ اس کام کے لیے ہمیں نہایت عمدہ رسے استعمال کرنا ہوں گے جن کا وزن مچھلیاں پکڑنے والی باریک اور عمدہ ترین ڈوریوں سے بھی کم ہو۔
شمسی بادبان کی سائنس کا راز مسلسل دھکیل (thrust) ہے۔ اس وقت تک جب تک سورج چمک رہا ہے بادبان ہر سال روزانہ ہر پل اپنا سفر جاری رکھے گا۔ ذرا راکٹ انجن کو چلانے کے لیے درکار توانائی کا تصور کیجیے۔ یہ بڑا اور شاندار ہے لیکن چند لمحوں بعد ختم ہو جاتا ہے۔ اگر ہم مریخ پر پہنچنے کے لیے خود چھ مہینے کا وقت متعین کریں تو شمسی بادبان کی پرواز بہت کارآمد ہے اور ممکن ہے ہمیں ایندھن کے لیے کسی جگہ رکے بغیر انتہائی تیزی سے خلا میں سفر کروا سکتی ہے۔
ہم اس ٹیکنالوجی کو مزید کتنا آتے لے جا سکتے ہیں؟
اگر آپ نے کبھی سینڈوچ کو باریک پلاسٹک کے پیپر میں لپیٹنے کی کوشش کی ہے تو آپ جانتے ہوں گے کہ باریک لفافے میں چیزوں کو سنبھالنا کتنا مشکل ہے۔ وہ بہت جلدی ایک دوسرے میں الجھ جاتے ہیں اس لیے جن انجینیئروں نے شمسی بادبانوں کے تصور کو عملی شکل میں لانے کے لیے کام کیا انہیں نے زمین پر ایسے بادبان کی تیاری، انہیں چھوٹے بنڈلوں کی صورت میں باندھنے اور پھر خلا میں اپنی پوزیشن پر کھولنے کے عمل کی دریافت میں بہت دماغی صلاحیتیں صرف کیں۔
ایکاروس کا تصور خود بخود کھلنے والے بادبان کے بجائے گیس سے بھری ایک پھولی ہوئی ٹیوب پر منحصر ہے۔ بادبان کا دوطرفہ حصہ متوقع ڈھانچوں کے مقابلے میں معمولی تھا جن کے بارے میں لوگ طویل عرصے سے باتیں کر رہے تھے لیکن جاپانی اس خیال کو عملی شکل دے کر زہرہ تک پہنچنے میں کامیاب رہے۔ اگر ہم بہت بڑا شمسی بادبان چاہتے ہیں جو مریخ کی نوآبادی تک بھاری سامان پہنچانے کے قابل ہو تو پھر ہمیں ایسے بادبان کی ضرورت ہے جو ہر کنارے سے ہزار میٹر لمبا اور ایسا مواد درکار ہے جو سو فیصد روشنی منعکس کرے اور انتہائی پتلا ہو۔
اس مقصد کے حصول کے لیے دنیا بھر میں ایسی انتہائی باریک اور پلاسٹک پر سب سے زیادہ مشہور المونیم کے ورق والا روشنی منعکس کرنے والا مواد تیار کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔ کاغذ کی انتہائی باریک چادر لیبارٹری میں کامیابی سے تیار کر لی گئی ہے۔ 1970 کی دہائی میں ناسا کا ابتدائی خیال بادبان کا مواد تہہ در تہہ قالینوں کی طرح خلائی جہاز سے جوڑنا تھا۔ ایک بار خلا میں پہنچنے کے بعد خلائی جہاز گھومنا شروع ہو جائے اور وسط میں نصب آلے کی مدد سے بادبان کھلنا شروع ہو جائیں گے۔
مسلسل چکر ان کی ساختی سالمیت برقرار رکھے گا اور ہر بادبان کی جذب کردہ سورج کی روشنی خلائی جہاز کو آگے دھکیلنے کا کام کرے گی۔
لیکن مستقبل میں ہم یقیناً اس سے بہتر کام کر سکتے ہیں۔ یہ دیکھتے ہوئے کہ ہم خلا میں اہم صنعتی مرکز قائم کرنے میں کامیاب ہو گئے ہیں نئی اور مختلف ٹیکنالوجیاں متعارف ہوں گی۔ تصور کیجیے صابن والے پانی کی بالٹی میں ڈبکی لگا کر جیسے بلبلے بناتے ہیں ہم ویسا ہی ایک بڑا دائرہ بنا سکتے ہیں۔ صابن والے پانی کی جگہ ہم دائرے کو مومی فلم سے بھرتے ہیں۔ بغیر ہوا کے خلائی ماحول میں کام کرتے ہوئے ہم المونیم کا کنستر گرم کرتے رہتے ہیں یہاں تک کہ یہ بخارات بن کر گیس میں تبدیل ہو جاتا ہے۔
اس کے بعد ہم پینٹ گن سے گیس والا مواد موم پر چھڑکتے ہیں۔ اسے موم پر گاڑھا ہونے کے لیے کچھ دیر چھوڑ دیں اور اس کے بعد ہم ایلمونیم کی گاڑھی تہہ تیار کر چکے ہیں جو خلائی جہاز کا مستقبل مکمل طور پر تبدیل کر دے گی۔ اس کے بعد ہم اس سارے مواد کو ایک صندوق میں بند کر دیتے ہیں اور اسے نسبتاً کم درجہ حرارت پر گرم کرتے ہیں یہاں تک کہ موم بھاپ بن کر ری سائیکل ہوتی ہے اور ایلمونیم کی تہہ بناتی ہے جو جمی ہوئی اور 50 ایٹموں جتنی پتلی ہوتی ہے۔ زبردست! ہم نے انتہائی شاندار پتلا خلائی آئینہ بنا لیا ہے جس کا وزن نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس سے بھی اہم بات یہ ہے کہ اس کی سطح تقریباً مکمل طور پر منعکس کرنے والی ہے۔
ایکاروس بنانے کے لیے استعمال ہونے والا مواد کا وزن دس کلو فی مربع میٹر تھا۔ ہمارا نیا خلائی بادبان پر مربع میٹر ایک کلو گرام سے بھی کم وزن رکھتا ہے لیکن اتنی ہی طاقت رکھتا ہے۔ اگر ہم اسے کثیر تعداد میں بناتے اور پچی کاری کے لیے استعمال کرتے ہیں تو ہم حیران کن صفات والا شمسی بادبان تیار کر سکتے ہیں۔ کوئی 10 ضرب 10 کلومیٹر جیسی چیز جو چیونٹیوں جیسے روبوٹوں سے چلتی ہو گی جو انسانوں سے بھرے بڑے خلائی جہاز کو ہفتوں کے اندر مریخ بھیج اور واپس لا سکے۔
یہ کہنے کی ضرورت نہیں کہ یہ مستقبل کی چیز ہے۔ بہت ساری خلائی ایجنسیوں نے بادبانی ٹیکنالوجی پر کام کیا ہے اور ابھی کچھ عرصے کے لیے وہ زمین پر مواد کی تیاری اور خلا کی بے وزن جگہ پر اسے کھولنے کے معاملات پر توجہ مرکوز کیے ہوئے ہیں۔
عالمی خلائی سٹیشن سے جب پہلا خلائی جہاز چلنے لگتا ہے تو چند قدموں کے فاصلے پر ہی رک جاتا ہے اور اس کی کثیر وقت طلبی کوفت کا باعث ہوتی ہے۔ شمسی بادبان کی رفتار سست اور معاملہ پیچیدہ ہے جو کئی ماہ تک جاری رہتا ہے لیکن جیسے ہی وہ زمین سے اوپر اٹھتا ہے اس کی رفتار بڑھتی ہے (سات میل فی سیکنڈ) اور ڈرامائی طور پر مریخ یا باقی سیاروں کی طرف بڑھتے ہوئے کم وقت لگاتا ہے۔
یہاں تک کہ بعض سائنس دان اس معاملے میں مزید نئی چیزیں سوچ رہے ہیں۔ اگر سورج کی روشنی سے کم رفتار ایک مسئلہ ہے تو طاقتور لیزر کی مدد سے اسے بڑھا کیوں نہیں دیتے؟ اگر ہم بادبان اصل خلائی جہاز کی پچھلی طرف باندھیں تو پھر عملہ اور سامان روشنی سے محفوظ ہو گا۔
سفر کے آغاز میں رفتار بڑھانے کے لیے ہم سورج کی فطری توانائی میں اضافے کے لیے بادبان پر لیزر کی روشنی ڈال سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ بعض سائنس دانوں نے تو باقی سیاروں کی کھوج لگانے کے لیے ایسی ٹیکنالوجی کی پیشکش بھی کر دی ہے کہ ممکن ہے ہم ایسے حیران کن تیز رفتار روبوٹک جہاز تیار کر لیں جن کی رفتار لیزر کی مدد سے بڑھائی جا سکے۔
شمسی بادبانی جہاز ابھی تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکے، لیکن اب ان کا وجود بہت دور کی بات نہیں، اور مفت ایندھن کی کشش سے خود کو بچانا آسان نہیں ہو گا۔
© The Independent