برطانوی وزیرِ اعظم بورس جانسن کی بریگزٹ ڈیل شاید ویسی شاندار نہیں تھی جیسا وہ دعویٰ کر رہے تھے، جیسا کہ شمالی آئرلینڈ کے شہریوں کے شکوک و شبہات سے بھی ظاہر ہوتا ہے۔ ایسا لگتا ہے کم از کم نصف آبادی اس بات پر برہم ہے کہ ایک سرحد جو چھ کاؤنٹیوں سے گھری ہوئی تھی اب وہ بحیرۂ آئرلینڈ کے وسط میں چلی گئی ہے۔ بورسن جانسن نے یہ وعدہ بھی کیا تھا کہ وہ غیر ضروری کاغذی کارروائی کو ردی کی ٹوکری میں ڈال سکیں گے مگر ایسا بھی نہ ہو سکا۔ جسے کبھی بلاوجہ کا خوف قرار دیا جاتا تھا، اب وہ اپنے دانت نکوسے سامنے آن کھڑا ہوا ہے۔
لیکن اس معاہدے میں جو بھی غلط یا صحیح ہوا، اس کے سیاسی فوائد یا 1998 کے گڈ فرائیڈے ایگریمنٹ پر اثرات جیسے بھی ہوں، چاہے یہ شمالی آئرلینڈ کی پیش بندی کرے یا مستقبل میں متحدہ آئرلینڈ کی، ان سب باتوں سے ہٹ کر گذشتہ دنوں شمالی آئرلینڈ کے دارالحکومت بیلفاسٹ اور دیگر جگہوں پر برپا ہونے والی شورش کی وجہ سے سرحدوں کی اہمیت اور ان کی جغرافیائی، سیاسی اور سماجی وجوہات بحث کا موضوع بنی ہیں۔ اور چاہے شمالی آئرلینڈ میں سرحد کے معاملے پر بےاطمینانی کتنی بھی کیوں نہ ہو، کم از کم جنوبی آئرلینڈ کے ساتھ اس کی سرحد بین الاقوامی قوانین کے مطابق کھنچی ہے۔
یہ ایسی صورتِ حال ہے جس کے بہت سے لوگ صرف خواب ہی دیکھ سکتے ہیں۔ اس وقت دنیا میں کتنے سرحدی تنازعے چل رہے ہیں؟ 10؟ 20؟ آپ کا اندازہ بالکل غلط ہے۔ ایک تخمینے کے مطابق دنیا میں 200 سے زائد سرحدی تنازعات چل رہے ہیں اور ان میں مزید اضافہ ہو رہا ہے جس سے شاید ان لوگوں کی تائید ہوتی ہے جن کے خیال میں دنیا کو منظم کرنے کے لیے قومی ریاست کو بنیاد بنانا معقول سیاسی بندوبست نہیں ہے۔
اچھی بات یہ ہے کہ ایسے بیشتر تنازعات گولہ بارود سے پاک ہیں۔ سرد جنگ کے زمانے کی یادگار اور ممکنہ طور پر تاریخ کی مشہور (یا بدنام) ترین سرحد دیوار برلن کا زمانہ عرصہ ہوا لد گیا لیکن اس کی جگہ دیگر تنازعات یوکرین اور روس، برونڈی اور روانڈا، چلی اور پیرو کے درمیان باہمی تعلقات غارت کر رہے ہیں۔ ان میں سے بیشتر دیوار برلن سے پہلے کے ہیں جو ابھی تک چلے آتے ہیں۔
یہاں یہ واضح کرنا بہت ضروری ہے کہ سرحد اور متنازع علاقے میں فرق ہے۔ سرحدوں کے قیام اور علاقائی تنازعات کے حل میں تعاون کرنے والی کینیڈا کی کمپنی ’بارڈر میپ کنسلٹنگ‘ کے ڈائریکٹر مارٹن پریٹ وضاحت کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’اول الذکر اپنی اصل میں قانونی اور تکنیکی معاملہ سمجھا جاتا ہے اور اس لیے نسبتاً زیادہ آسانی سے حل ہو جاتا ہے۔ متنازع علاقے جن پر اقتدار کے لیے سیاسی رسہ کشی جاری ہو وہاں اکثر و بیشتر مسلح جھڑپوں کا امکان ہوتا ہے۔‘
غزہ، کریمیا اور کشمیر ایسے ہی قومی و سیاسی درجہ حرارت کی مثالیں ہیں جو دوسری صورت میں پیدا ہوتا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
اس دائرے میں معروف تنازعات سے غیر معروف تک بہت کچھ شامل ہے۔ ہر غزہ کے لیے ایک سوینز جزیرہ ہے۔ اپنی آزاد آئینی دستاویز میں ٹوکیلو نے یہ جزیرہ شامل کیا ہوا ہے جبکہ امریکی سموا اسے اپنی ملکیت سمجھتا ہے۔ اسی طرح ہر کریمیا کے لیے ایک پگ وار ہے جو برطانیہ کے وینکوور جزیرے اور امریکہ کے درمیان 1959 میں واشنگٹن ریاست کے ساحلی علاقے سے دور ہوان آئی لینڈز کے لیے لڑی گئی تھی اور اسے یہ نام اس لیے دیا گیا کیونکہ واحد جانی نقصان صرف ایک سؤر کا ہوا تھا۔
یقیناً کینیڈا کے شہری اور امریکی طویل مدت سے مضبوط اتحادی چلے آتے ہیں اس لیے کسے لگتا ہے کہ وہ ابھی تک بیفورٹ سمندر میں باہمی سرحد کے معاملے پر جھگڑ رہے ہوں گے (ایسا لگتا ہے زیادہ بحث اس جملے پر منحصر ہوتی ہو گی کہ ’جہاں تک منجمد سمندر کا تعلق ہے،‘ جو موسمیاتی تبدیلی کی وجہ سے ماضی کی نسبت کہیں زیادہ بدلتا رہتا ہے) اور اس بات پر بحث کر رہے ہوں گے کہ مچیاس سیل لینڈ اور ریاست مین کے ساحل سے دور نارتھ راک کس کی ملکیت ہے؟
کینیڈا جیسی خوشگوار قوم زمین کے معاملے پر اپنے اتحادیوں سے بحث و تکرار کے لیے پوری طرح تیار نظر آتی ہے۔ یہ گرین لینڈ کے قریبی جزیرے ہینز آئی لینڈ کی ملکیت کا دعوی بھی کرتی ہے جہاں وقتاً فوقتاً ڈنمارک یا کینیڈا کے حکام اپنا جھنڈا لہرانے اور حریف کا اکھاڑنے کے لیے جاتے رہتے ہیں۔ کینیڈا کی ساحلی حفاظتی ٹیم کے ایک بے نام سرکاری اہلکار کے بقول ’ہم منتظر ہوتے کہ بس ذرا سا موقع ملے۔‘
اسی طرح یورپ کے پڑوسی دوست ممالک پرتگال اور سپین کے درمیان اولیوینزا شہر کا جھگڑا چل رہا ہے جو 1801 کے باداہوز معاہدے اور 1815 کی کانگریس آف ویانا کی مختلف انداز میں تعبیر کرنے سے شروع ہوا۔ اسی دوران میں سپین کا اپنے ایک اور اتحادی برطانیہ کے ساتھ بھی جبرالٹر کے معاملے پر جھگڑا چل رہا ہے لیکن ہم اس کی یا سیوطہ اور ملیلا کی بات نہیں کرتے۔ جی ہاں، ابھی تو ہرگز نہیں۔
دراصل کرہ ارض کی 195 اقوام اور ان کے متعلقہ علاقوں میں سے محض 60 (تقریباً 30 فیصد) ایسے ہیں جن کا زمین کے معاملے پر اپنے پڑوسیوں سے تنازع نہیں چل رہا۔ آپ کی معلومات کے لیے ان میں قطر، سری لنکا، سوئٹزر لینڈ (غیر متوقع طور پر) اور فیڈریٹڈ سٹیٹس آف مائیکرنیزیا کی وفاقی ریاستیں۔
لیکن سیاستدانوں، ان کے سفیروں، وکلا اور افواج کے لیے پریشانی اور عوام میں مقبولیت حاصل کرنے کا سبب ایسے تنازعات بنتے ہیں جہاں عداوت کی جڑیں تاریخ میں دور تک جاتی ہوں۔ عدم اعتماد، شکوک و شبہات، فرقہ واریت اور ریت رواج کے دعووں کا مطلب ہے ایسے خطوں میں جانی نقصان اور انسانی تکالیف میں اضافہ بعض اوقات صدیوں پر محیط چلا آتا ہے۔
ان میں سے زیادہ تر کو بالعموم ’سرد تنازعات‘ کہا جاتا ہے جہاں فوجی جھڑپیں وقتی یا مستقل طور پر رک چکی ہیں لیکن دونوں مخالفین کے درمیان کوئی امن معاہدہ پوری طرح کارگر نہیں ہو سکا۔ امکانی طور پر ان کی آپس میں لڑائی کسی بھی وقت شروع ہو سکتی ہے۔ یقیناً سب سے نمایاں سرد تنازع تو کوریا کا ہے جہاں شمالی اور جنوبی حصہ 1953 میں جنگ بندی کے بعد معاہدہ کرنے میں ناکام رہا۔ 2018 میں دونوں نے جنگ بندی پر باقاعدہ اتفاق کیا لیکن 1950 کی دہائی میں شروع ہونے والا تناؤ اور کشیدگی ابھی تک جاری ہے جہاں امریکی پشت پناہی سے اس جزیرہ نما کے جنوبی حصے میں جمہوری سرمایہ دارانہ نظام اور شمالی حصے میں مطلق العنان کِم خاندان کی یک جماعتی آمریت کے درمیان واضح دراڑ ہے۔ سابق امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی سپریم لیڈر کِم جونگ اُن سے غیر متوقع اور غیر معمولی دوستانہ کوششیں کسی بھی پیش رفت میں ناکام رہیں، نہ شمالی کوریا کے ایٹمی دعوے رک سکے۔
اگر آپ متنازع علاقوں کی ایک فہرست مرتب کرنے لگیں جہاں تباہ کن صورت حال پیدا ہو سکتی ہے تو کوریا تقریباً سرفہرست ہو گا۔ یہ روس کے کرائمیا سے الحاق اور اسرائیل کے فلسطین کی سرزمین مغربی کنارے اور غزہ پر قبضے کی طرح مکمل دستاویزی معاملات ہونے کے باجود معاصرانہ جھڑپوں میں شدت اختیار کرتے جا رہے ہیں۔
تاہم 1954 سے یوکرین میں خود مختار مملکت کے طور پر شامل کرائمیا کا معاملہ کوریا سے اس لیے مختلف ہے کہ 2014 میں اس کے روس کے ساتھ الحاق کی اکثر ممالک نے مذمت کی تھی اور اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے بھاری اکثریت سے اس قبضے کو مسترد کیا تھا۔ اس کے باوجود روس مصر رہا کہ وہ کریمیا کی آبادی کے اکثریتی گروہ روسی نسل کی حفاظت کر رہا ہے اور اس نے یوکرین کے مشرقی خطے ڈونباس کی طرف مزید پیش رفت جاری رکھی۔
2014 کے بعد پہلی بار روس کے اتنے بھاری دستے اپریل میں یوکرین کی سرحد پر تعینات ہوئے جس کے متعلق روس نے کہا، ’یہ یوکرین اور نیٹو کی بڑھتی ہوئی عسکری سرگرمیوں کا جواب ہے۔‘ ایسا لگتا ہے روس کے صدر ولادی میر پوتن کسی بھی جگہ قسمت آزمائی کے لیے پرعزم ہیں کہ دیکھتے ہیں کیا ہوتا ہے: کوریل جزیروں کا جاپان کے ساتھ جھگڑا ( جو ان جزیروں کو جنوبی علاقے کہتا ہے) اور ابخازیا، جنوبی اوستیا اور ٹرانس نیسٹریا میں اس کی مداخلت دیگر سر اٹھاتے مسائل میں سے چند مثالیں ہیں۔
دونوں کوریا اور کرائمیا جہاں براہ راست میدان جنگ بننے کی وجہ سے خصوصی اہمیت رکھتے ہیں وہاں یہ عالمی برادری کی برداشت کا بھی امتحان ہے۔ اگر کوریا یا کرائمیا میں جنگ چھڑ گئی تو چار کلومیٹر غیر عسکری علاقے سے کیا ہو گا؟
جنگ کے ان منڈلاتے خطرات کا چین بہت غور سے مشاہدہ کر رہا ہے جو خود تائیوان پر اپنی ملکیت کا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کا تفصیل سے بعد میں ذکر کرتے ہیں۔ اگر روس کی کرائمیا میں موجودگی مستقل بنیادوں پر ہوتی ہے جیسا کہ امکان ہے یا شمالی کوریا پابندیوں کے باوجود ایٹمی میزائل کے تجربات جاری رکھتا ہے تو یہ باقی دنیا کے لیے اضطراب کا باعث بنے گا۔ واشنگٹن ڈی سی میں مرکز برائے حکمت عملی اور بین الاقوامی سٹڈیز میں روس اور یورپ و ایشیا کے ڈپٹی ڈائریکٹر جیفری مینکوف کہتے ہیں، ’ان کے طرزِ عمل سے لگتا ہے جیسے عالمی سرحدوں کی پامالی شاید اتنا سنجیدہ مسئلہ نہیں جتنا ہم سمجھتے ہیں۔‘
شاید تنازعات کے حل میں ایک بڑی رکاوٹ کسی ایسے عالمی ادارے کا نہ ہونا ہے جو آزادانہ طور پر سرحدیں قائم کر سکے۔ برطانیہ کی ڈرہم یونیورسٹی کے عالمی سرحدی تحقیقاتی یونٹ (آئی بی آر یو) میں سیاسی جغرافیے کے پروفیسر فلپ سٹائن برگ کہتے ہیں، ’اگرچہ ریاستیں غیر رسمی مصالحت یا عالمی عدالت انصاف (ICJ) جیسے ثالثی کے اداروں کے ذریعے تنازعات حل کر سکتی ہیں لیکن پہلے گرہوں کو ان کے فیصلے کی پابندی پر متفق ہونا پڑے گا۔ اقوام متحدہ اپنی مرضی سے نہیں کہہ سکتا کہ گویا ہم یہاں پر سرحدی لکیر کھینچ رہے ہیں۔‘
پریٹ مزید کہتے ہیں، ’اقوام متحدہ اور افریقن یونین جیسے دیگر ادارے یا ناروے جیسی غیر جانبدارانہ شہرت کے حامل ممالک بطور فریق ثالث مصالحت کی پیشکش کرتے ہیں۔ لیکن اگر ریاستیں کسی تیسرے فریق کے ہاتھوں تنازعات کا حل نہ چاہتی ہوں تو وہ ہمیشہ عدالتوں میں جانے سے گریز کرتی ہیں۔‘
سٹائن برگ کہتے ہیں، ’جس طرح برادریاں اور افراد ایک جگہ سے دوسری جگہ منتقل ہوتے ہیں اگر نقشہ جات پر لکیریں کھینچ کر دو مختلف علاقے مختلف آبادیوں میں تقسیم کر بھی دئیے جائیں تو پھر بھی پیچیدگیوں کم نہیں ہوتیں۔ 1940 کی دہائی کے اواخر میں انڈیا اور فلسطین کی تقسیم، یوگوسلاویہ کی علیحدگی، آئرلینڈ کے جزائر کی تقسیم، جہاں بھی ایسی کوششیں کی گئیں اس کے نتائج ظاہر ہوئے۔‘
کوریا اور 1967 میں اسرائیل کی فلسطینی علاقوں مغربی کنارے اور غزہ پر قبضے، جو پہلے 1948 سے بالترتیب اردن اور مصر کے مقبوضہ علاقے تھے، سے ظاہر ہوتا ہے کہ ایسے تنازعات کے فوری حل نہ ہونے کے برابر ہیں۔ حالیہ مہینے میں اسرائیل فلسطین تنازع شدت اختیار کر گیا جہاں مصر کی مداخلت سے 21 مئی کو جنگ بندی سے قبل تقریباً 250 افراد زندگی کی بازی ہار چکے تھے۔
جموں و کشمیر پر حکمرانی کے معاملے میں پاکستان اور انڈیا کے درمیان 1947 کی تقسیم ہند سے برابر جھگڑا چلا آ رہا ہے اور دونوں کے درمیان 725 کلومیٹر کی لائن آف کنٹرول قائم ہے۔ حالیہ برسوں میں عوامیت پسند انڈین وزیراعظم نریندر مودی نے اس تنازعے کو اپنے حق میں قوم پرستانہ جذبات کے لیے استعمال کیا ہے۔ ایٹمی ہتھیاروں سے لیس دونوں قوموں کی یقینی تباہی یا قومیت پرستی میں سے کیا چیز زیادہ اہم کردار ادا کرتی ہے یہ دیکھنا ابھی باقی ہے۔ ایک سرد تنازع جو سرد نہیں رہا۔
انڈیا کا اپنے زیادہ طاقتور اور ایٹمی طاقت پڑوسی چین سے بھی سرحدی تنازع چل رہا ہے جو کسی حد تک جموں و کشمیر لیکن زیادہ تر دوسری3,440 کلومیٹر کی مشترکہ پٹی پر ہے۔ دونوں کے درمیان سرحد غیر واضح ہے اور 1962 کی جنگ بھی مسئلہ حل نہ کر سکی جس میں انڈیا کو شکست ہوئی۔ دونوں سرحد کے آس پاس کے علاقے میں تعمیرات کرتے رہتے ہیں اور دونوں ایک دوسرے پر حق تلفی کے الزامات لگاتے ہیں (نیپال کو دونوں ملکوں کی جانب سے جھڑپوں کے سبب ایسے ہی مسائل کا سامنا ہے، ایک ایسی صورتحال جسے نیپال کے وزیر خارجہ پردیپ گیاوالی بیان کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’پریشان کن، اکتا دینے والی، توجہ طلب، مہنگی اور بے سود‘)۔
گذشتہ چند برسوں میں دونوں جانب ہلاکتوں کا سبب اسلحہ نہیں بلکہ ڈنڈوں اور لکڑیوں سے تصادم ہے۔
لیکن چین کی نظریں بڑے پھل تائیوان پر ہیں۔ ممکنہ طور پر اسی وجہ سے اس کی مشرقی یوکرین اور دیگر خطوں پر خصوصی توجہ ہے۔ 1949 میں جب ماؤزے تنگ کی قیادت میں کیمونسٹوں نے چیانگ کائی شیک کی حکومت کا تختہ الٹ دیا تو وہ بھاگ کر تائیوان کے جزیرے پر آ گئے اور اعلان کر دیا کہ یہ جمہوریہ چین ہو گا۔ بیجنگ میں عوامی جمہوریہ چین نے ہمیشہ جزیرے پر اپنی حکومت کا دعویٰ کیا (اسی طرح تائیوان کی حکومت نے چین پر اپنی حکومت کا دعویٰ کیا)۔
تائیوان کو بہت کم دیگر ممالک نے آزاد ریاست تسلیم کیا اور اس کی بڑی وجہ یہی ہے کہ جو ایسا کرے چین اس کے ساتھ سفارتی تعلقات قائم کرنے سے انکار کر دیتا ہے۔ تائیوان کی کم و بیش غیر سرکاری خودمختار ریاستی حیثیت کی بدولت چین اس جزیرے کو دوبارہ اپنا حصہ بنانے میں کس حد تک جا سکتا ہے یہ ابھی تک مبہم ہے۔ عالمی برادری نے چند پابندیوں کے سوا کسی طرح کی مداخلت نہیں کی جو ایک رائے کے مطابق کرائمیا کے معاملے میں شدید تھیں تاکہ ممکنہ طور پر بیجنگ کی حوصلہ افزائی کی جائے۔ جبکہ دونوں چینی حکومتوں کا دعویٰ ہے کہ وہ مکاؤ اور ہانگ کانگ کے جائز حکمران ہیں اور دونوں چین کے جنوبی سمندر پر ملکیت کا یکساں دعوی کرتی ہیں۔
1949 میں نقشے پر سمندر کے بڑے حصے کو واضح کرنے کے لیے نو نقطوں پر مشتمل ایک سطر کھینچی گئی تھی جسے دونوں حکومتیں اپنے مطالبے کی بنیاد بناتی ہیں۔
بحیرہ شرقی چین میں جاپان کے زیر انتظام سینکاکو جزیرے (جو چینی زبان میں دیاویو Diaoyu جزائر کے نام سے معروف ہے) کے معاملے پر بیجنگ، تائیوان اور جاپان کے ساتھ تنازعے میں پھنسا ہوا ہے۔ یہ جزیرہ ویسے تو غیر آباد ہے لیکن چین کے سمندری پانی، ایئر سپیس اور معدنیاتی ذخائر میں قابل ذکر اضافہ کرے گا۔ چین کے دیگر بہت سے تنازعات میں سے ایک بھوٹان کے ساتھ غیر متفقہ سرحدی پٹی ہے۔ جیسے جیسے چین کا اثر و رسوخ بڑھا ہے، ایسا لگتا ہے اس کے علاقائی تنازعات میں بھی اضافہ ہوا ہے۔
ضروری نہیں کہ سبھی تنازعات عصر حاضر کے پیدا کردہ ہوں۔ کچھ ماضی میں خصوصی سیاسی اہمیت کے حامل تھے جو کم از کم آج ویسے خطرناک نہیں رہے۔ قبرص 1974 سے منقسم چلا آتا ہے جب جولائی میں یونانی قوم پرست باغیوں نے اس جزیرے کو یونان کے ساتھ ملحق کرنے کی کوشش کی تھی ۔
قبرص میں رہنے والی ترک اقلیت کی حفاظت کے نام پر ترکی کی فوج شمالی ساحل کی طرف سے داخل ہوئی اور اگست تک جزیرے کے ایک تہائی حصے پر قبضہ جما لیا۔ اقوام متحدہ کے مصالحت کاروں نے جنگ بندی کرواتے ہوئے اس مقام پر پیش قدمی روک دی جسے امن معاہدہ کروانے والوں کی زیر نگرانی گرین لائن کا نام دیا گیا۔ یونانی اور ترکی آبادیاں الگ الگ جنوب و شمال میں تقسیم کر دی گئیں اور آج یہ جزیرہ یونانیوں کے جنوبی اور ترکوں کے مشرقی حصے میں موثر طریقے سے تقسیم شدہ ہے۔
یہ سب کچھ اتنی تیزی سے ہوا کہ گرین لائن دارالحکومت نکوسیا کے درمیان سے گزرتی ہے (دیوار برلن کے بعد یورپ کا آخری منقسم دارالحکومت)۔ سبھی گلیاں آدھے حصوں میں تقسیم کر دی گئی تھیں اور کئی سال تک ہوٹل کی خالی میزیں اور الٹی کرسیاں بے سدھ پڑی رہیں جہاں انہیں بفر زون میں چھوڑا گیا تھا۔
شمالی قبرص کو اقوام متحدہ نے تسلیم نہیں کیا (صرف ترکی نے کیا) جس کا مطلب ہے اگر آپ وہاں چھٹیوں میں جانا چاہیں تو پہلے ترکی کا جہاز پکڑنا پڑے گا۔ لیکن ترکی کے صدر طیب اردوغان کی جارحانہ خارجہ پالیسی کے باوجود بظاہر وہاں دوبارہ پرتشدد کارروائیوں کا امکان نہیں۔ اپریل کے مہینے میں اگرچہ جنیوا میں اس پر بحث مباحثے کے کئی دور چلے لیکن یہ سرد ترین تنازعات میں سے ایک ہے۔
اگرچہ اتنا سرد نہیں جتنا انٹارکٹیکا کا معاملہ ہے۔ سادہ لفظوں میں معاملہ یہ ہے کہ چلی، نیوزی لینڈ، برطانیہ، فرانس، ناروے، ارجنٹائن اور آسٹریلیا اس براعظم کے مختلف حصوں پر اپنا دعویٰ رکھتے تھے لیکن 1961 کے انٹارکٹیکا معاہدے پر دستخط کرنے کے بعد وہ دستبردار ہو چکے ہیں جس کے مطابق پوری انسانیت کے مفاد کو مدنظر رکھتے ہوئے انٹارکٹیکا ہمیشہ پرامن مقاصد کے لیے استعمال ہونا چاہیے اور عالمی تنازعے کی چیز یا جگہ نہیں بننا چاہیے۔
کوئی بھی ملک جس نے اس معاہدے پر دستخط نہیں کیے وہ نظریاتی طور پر دعویٰ کر سکتا ہے کہ یہ خالی زمین ہے (یا ’یہ زمین کسی کی ملکیت نہیں‘) جس کا مطلب ہوا روس اور امریکہ مستقبل میں اس پر اپنے دعوے کا حق محفوظ رکھتے ہیں۔ بالخصوص اگر یہ براعظم معدنیات سے لبریز ہوا تو ہمارے خوش فہم خیالات خطرے سے دوچار ہوں گے جن کا بھرپور امتحان لیا جائے گا۔
یہ بنیادی ترین وجہ ہے۔ سٹائن برگ کہتے ہیں، ’آج کل زیادہ تر تنازعات اس وقت جنم لیتے ہیں جب زمین کا سیاسی، معاشی، ثقافتی یا عسکری اعتبار سے کم اہم ٹکڑا اچانک بہت زیادہ اہمیت اختیار کر لیتا ہے۔ سمندر اس کی بہترین مثال ہے۔ ذخائر کی تلاش کے بڑھتے ہوئے امکانات نے 1982 میں اقوام متحدہ کو سمندری قوانین (UN Convention on the Law of the Sea) وضع کرنے پر مجبور کیا۔ آج ریاستیں ان حصوں کو نشان زد اور واضح کرنے کی کوشش کر رہی ہیں اور انہیں تقسیم کرنے یا بانٹنے پر بات چیت کر رہی ہیں۔‘
امریکہ انٹارکٹیکا کے دعوے داروں میں سے ایک ہے اور ماضی میں دنیا کی سب سے بڑی سامراجی طاقت رہنے والے ملک کا علاقائی تنازعات سے پاک نہ ہونا حیرت انگیز نہیں۔ ایک لمبی فہرست ہے جس میں فاک لینڈ جزائر (جنہیں ارجنٹائن مالویناس Malvinas کہتا ہے) اور جنوبی جارجیا شامل ہیں جن پر 1982 کی جنگ میں شکست کے باوجود ارجنٹائن اپنے مطالبات سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹا۔
اسی طرح برطانیہ کی جنوبی کنارے پر موجود بیرونی سرزمین جبرالٹر پر سپین اپنا دعویٰ کرتا ہے۔ اس کا برطانیہ سے جھگڑا تاریخی طور پر قدیم ترین علاقائی تنازع ہے جو اس وقت شروع ہوا جب 1713 میں سپین کی تخت نشینی کی جنگ کو انجام تک پہنچانے والے اتریخت معاہدے کے تحت جبرالٹر ہمیشہ کے لیے برطانیہ کے حوالے کر دیا گیا تھا۔
سپین کا دعوی اس لیے کسی حد تک وقعت کھو دیتا ہے کہ مراکش کے ساحل پر واقع اس کے اپنے خود مختار شہروں سیوطہ اینڈ ملیلا پر رباط اپنی ملکیت کا دعوی کرتا ہے۔ شمالی آئرلینڈ اور سکاٹ لینڈ کو ابھی ہم تاریخ کی کتابوں کے لیے رہنے دیتے ہیں، ایک مسئلہ بحر اوقیانوس میں واقع پتھریلے ٹکڑے راکال کا بھی ہے جس پر آئس لینڈ، ڈینمارک (جزائر فیرو کے حوالے سے) اور آئرلینڈ کا بھی دعویٰ ہے، چاگوس جزائر یا برطانوی انڈین سمندری سرزمین جس پر موریشس اور سیشلز کا دعویٰ ہے اور قبرص میں برطانیہ کی عسکری چھاؤنی کا بھی ایک معاملہ بھی ہے۔
کرہ ارض پر یہ فہرست پھیلتی ہی چلی جاتی ہے۔ سابقہ سوویت یونین کی آزاد ریاستیں نقطہ اشتعال کی معروف وجوہات ہیں۔ محض اس ایک مہینے میں کرغزستان اور تاجکستان کے درمیان سرحد پر لڑائی میں کم سے کم 30 افراد مارے گئے۔ اس کے علاوہ آرمینیا، آذربائجان، مغربی صحارا، عراق، گوئٹے مالا (جو نصف بیلیز پر دعویٰ کرتا ہے) کوسوو، کردوں کے آزادی کے دعوے ہیں، کیا ان سب کی کوئی حیثیت ہے؟
جی ہاں، بالکل ہے۔ مقامی سطح پر وہ اپنی آبادیوں کے لیے عدم تحفظ کا باعث اور جب تنازع باہر پھیلے تو دنیا کے لیے پریشانی کا باعث بن سکتے ہیں۔ صاف ظاہر ہے عسکری پیش رفت ارادتاً یا غیر ارادی طور پر عام شہریوں کی ہلاکتوں کا موجب بنتی ہے، جب آئرش رپبلکن آرمی جیسی تنظیمیں لندن یا جرمنی کے خلاف بمباری کی مہمیں چلاتی ہیں اور نیدرلینڈز یا چیچنیا کے علیحدگی پسند ماسکو میں کسی تھیئٹر یا بیسلان میں کسی سکول پر حملہ کرتے ہیں تو ان کا جھگڑا ایسے معصوم افراد کو بھی متاثر کر سکتا ہے جنہیں تنازع کے بارے میں کچھ زیادہ پتہ بھی نہیں ہوتا۔
بین الاقوامی سرحدوں کی تعداد 325 ہے جو ڈھائی لاکھ کلومیٹر پر پھیلی ہوئی ہیں۔ ان کی تقسیم زیادہ تر رنگ، نسل، ثقافت، مذہب اور زبان کی بنیاد پر ہے لیکن تنازعات، جنگ، سیاست یا فتح ایسی سرحدیں قائم کر سکتی ہیں جن کی کوئی ترتیب ہی نہیں ہوتی۔ سٹائن برگ کہتے ہیں، ’سرحدیں بغیر کسی وجہ کے ویسے ہی نہیں بن جاتیں۔‘
ظاہر ہے پانی، ماہی گیری، قابل کاشت زمین اور معدنیاتی ذخائر تک رسائی کا مطلب آبادیوں اور علاقوں کا ہمیشہ بدلتے رہنا ہے۔ موسمیاتی تبدیلی، قحط اور ماحولیاتی تباہی بھی اس کی وجہ بن سکتی ہے لیکن مستقبل میں کسی زمین پر دعووں کی بڑی وجہ قومیت، نسلی یا تاریخی بنیادوں کی طرح ذخائر پر مبنی ہو گی۔
ان میں سے کسی ایک یا سبھی وجوہات کی بنا پر 2019 میں علاقائی تنازعات میں شدید اضافہ دیکھنے کو ملا اور تقریباً ساڑھے چار کروڑ لوگوں نے نقل مکانی کی ہے جس کے نتیجے میں پناہ گزین اور اسائلم کے خواہشمندوں کی تعداد تین کروڑ تک جا پہنچی۔ سیاسی اور قومی خواہشات کی قیمت بھوک، بیماری، سوداگری، دہشت گردی، سمگلنگ اور غربت کی صورت میں چکانی پڑتی ہے جبکہ حفاظتی بندوست اور سیکورٹی سروسز ان کی بے ہنگم ہجرت کا باعث بنتی ہیں۔ پرائمو لیوی کہتے ہیں ’جنگوں کی بنیادی وجوہات سرحدیں ہیں۔‘
ابھی تو بہت کچھ مزید سامنے آئے گا۔ سٹائن برگ کو یقین ہے کہ تنازعات کے نئے محاذ کھلیں گے۔ وہ کہتے ہیں، ’ایئر سپیس، سمندری گہرائی، زمین کی تہیں، سبھی انفرادی ریاستوں کے دائرے سے باہر ہیں لیکن چند ایک ریاستیں ایسی ہیں جو ان کا بھرپور استحصال کریں گی۔ ایسے حالات میں سرحد کا کیا مطلب ہو گا؟ ان جگہوں کو چلانے کے لیے کچھ معاہدے موجود ہیں لیکن ان میں کتنا دم ہے؟‘
زمین پر واپس آتے ہیں کیا پیوٹن کی واقعی بالٹک ریاستوں پر نظر ہے جہاں وہ روسی نسل کی حفاظت کے انہی دلائل کا سہارا لیں گے جو یوکرین میں کارگر ثابت ہوئے؟ یورپ میں نیٹو کے سپریم کمانڈر جنرل ٹاڈ وولٹرز نے خبردار کیا ہے کہ ایسٹونیا تک جہاں کہیں بھی روسی نسل موجود ہے بالخصوص سرکاری طور پر مالدووا میں شامل ٹرانس نیسٹرا کی علیحدگی پسند ریاستوں میں پوتن کو دستے بھیجنے کے لیے معمولی بہانہ درکار ہے۔ انہوں نے جو لفظ استعمال کیا وہ تھا 'تشویشناک۔'
جبکہ شام خانہ جنگی میں گھرا ہوا ہے جس نے اسے کمزور کیا ہے لیکن امریکی سفارت کار رچرڈ ہاس کے مطابق ’یہ مغربی سرحد پر واقع گولڈن ہائیٹس کی طرف دوبارہ رخ کر سکتا ہے۔‘ 1967 کی چھ روزہ جنگ میں اسرائیل نے مغربی کنارے اور غزہ کے ساتھ یہ خطہ بھی اپنے قبضے میں لے لیا تھا۔ پریٹ کہتے ہیں، ’کچھ قوموں کے لیے جگہوں کی علامتی حیثیت زیادہ اہم ہوتی ہے۔ اس کا تعین کرنا آسان نہیں لیکن جو ممالک کسی خطے کے لیے آپس میں لڑتے رہے خاص طور پر ان کے لیے زیادہ تر اسی بات کی اہمیت ہوتی ہے۔‘
اس کے علاوہ پوسٹ کولونیل براعظم افریقہ کے ممالک ہیں جنہیں مغربی طاقتوں نے بغیر کسی ظاہری ترتیب کے پوری طرح تقسیم کر دیا وہاں علاقائی تنازعات آئے دن بڑھتے رہیں گے۔ اریٹیریا، ایتھوپیا، صومالیہ، کیمرون، نائجیریا، سوڈان اور یوگینڈا سمیت کئی دیگر ممالک نے گذشتہ برسوں میں زمین کی خاطر جنگیں لڑی ہیں، اریٹیریا اور ایتھوپیا کے درمیان کولونیل عہد میں انتہائی برے طریقے سے کھینچنے گئے نقشے نے دونوں کے درمیان کئی سرحدی تنازعات پیدا کیے۔
سٹائن برگ کہتے ہیں، گذشتہ کئی تنازعات کا باعث لوگوں کا واضح نسلی گروہوں میں تقسیم نہ ہونا ہے یا اگر وہ ہیں بھی تو ان کے گرد واضح سرحدی پٹیاں موجود نہیں۔ انیسویں صدی میں مغربی طاقتوں کی افریقہ کی تقسیم جیسی بعض صورتوں میں استعمار نے اتنا سا تکلف بھی نہیں کیا کہ جو سرحدیں وہ قائم کر رہے ہیں وہ لوگوں کی ضروریات کے مطابق ہوں۔‘ تنازع تو اس کا لازمی نتیجہ تھا۔
ہم نے ابھی تک تو بحیرہ جنوبی چین کے سپرالٹی جزائر کی بات ہی شروع نہیں کی جن کی خاص بات یہ ہے کہ ان کے کچھ حصے یا تمام پر چین، تائیوان، ویت نام، برونائی، ملائیشیا اور فلپائن دعویٰ کرتے ہیں۔ سٹائن برگ کہتے ہیں، ’اس جیسے متنازع معاملات میں بھی لاقانونیت کی حکمرانی نہیں۔ دعوے دار اپنی حیثیت کو جواز فراہم کرنے کے لیے اقوام متحدہ کے سمندری قانون کا حوالہ دیتے ہیں جو دستخط کنندگان کے لیے اچھا نقطہ آغاز ہے۔‘
اقوام متحدہ کا منشور کہتا ہے کہ ’بین الاقوامی تعلقات میں علاقائی سالمیت یا کسی ریاست کی سیاسی آزادی یا کسی بھی طرح اقوام متحدہ کے مقاصد کے خلاف تمام اراکین کو طاقت کے استعمال یا دھمکی سے گریز کرنا چاہیے۔‘
ایک اچھی خبر یہ ہے کہ حالیہ صدی میں عالمی عدالت انصاف نے سیئرا لیون اور گنی، نائجر اور بنین سمیت کئی ممالک کے درمیان تنازعات کے حل میں تعاون کرتے ہوئے ثالثی کا کردار ادا کیا۔ تمام واقعات میں فریقین نے فیصلے قبول کیے۔ اگرچہ عدالتی فیصلوں سے ہمیشہ معاملات ختم نہیں ہو جاتے۔ سعودی عرب اور یمن کا سرحدی حد بندی کا تنازع بظاہر 2000 کے جدہ معاہدے کے بعد ختم ہو گیا تھا لیکن اس کے باوجود سعودی عرب کو یمن میں مداخلت کرنا پڑی۔ یقینی طور پر کرہ ارض کو ٹکڑوں میں تقسیم کرنے کا ہمارا میلان جو بعض اوقات بالکل غیر منطقی عزائم پر استوار ہوتا ہے ایسا لگتا ہے مستقبل کو یقینی طور پر متنازع اور جارحانہ بنائے رکھے گا۔ لیکن کیا سرحدوں اور قومی ریاستوں کے بغیر کرہ ارض ایسے جھگڑوں سے نجات حاصل کر سکے گی؟
نو بارڈرز نیٹ ورک جیسی تنظیموں کا اصرار ہے کہ ایسا ہو سکتا ہے، لیکن سٹائن برگ کو تحفظات ہیں۔ ان کے بقول ’ایسا لگتا ہے اگر لوگوں کی گردش میں حائل سرحدیں ختم بھی ہو جائیں تو علاقوں کے درمیان تفریق تو قائم رہے گی۔ سو میرا نہیں خیال کہ آج جو سرحدیں قائم ہیں ان کا خاتمہ ہر چیز کو بدل کر رکھ دے گا۔ بلکہ اس سے سیاسی اقتدار ٹکڑے ٹکڑے ہو جائے گا کیونکہ بالآخر یہ سرحدیں ہی ہیں جو اقتدار کو مضبوط رکھنے، افراد اور ان کی سرگرمیوں کو زمین کے ذریعے کنٹرول کرنے میں مدد دیتی ہیں۔‘
شاید ہمیں اسی سے کام چلانا پڑے جو ہمارے پاس ہے چاہے وہ خام ہی سہی۔ سٹائن برگ پراعتماد ہیں۔ وہ کہتے ہیں، ’میرا نہیں خیال کہ کوئی تنازع ایسا بھی ہے جو حل ہو ہی نہ سکے۔ لیکن میں یہ کہنا چاہوں گا کہ زیادہ اہم نوعیت کے تنازعات حل کرنے کے لیے بین الاقوامی سرحد کی تبدیلی کے علاوہ بھی بہت کچھ درکار ہو گا۔‘
پریٹ اتفاق کرتے ہوئے کہتے ہیں، ’ماہرین قانون بندوقوں سے یقیناً بہتر ہیں۔ لیکن زمین کھو دینے سے حکومتیں بری طرح نامقبول ہو سکتی ہیں اس لیے غیر ملکی ججوں کے ہاتھوں میں اراضی دینے سے بہت سے ممالک خوفزدہ ہیں۔ جب دو مختلف انسانی گروہوں کی شناختیں ایک ہی زمین سے وابستہ ہوں تو اس زمین کی تقسیم اس طرح کرنا کہ دونوں فریق مطمئن ہوں نہایت مشکل امر ہے۔ بعض اوقات ہم اور وہ کے بیانیے اتنے گہرے ہوتے ہیں کہ تنازعے دونوں طرف ایک بڑی تعداد کی 'ضرورت' ہوتے ہیں تاکہ ان کی شناخت برقرار رہ سکے۔ لیکن پریٹ بھی یقین رکھتے ہیں کہ کوئی تنازع مکمل طور پر ناقابل حل نہیں۔ وہ اپنی بات سمیٹتے ہوئے کہتے ہیں، ’میں کبھی بھی نہیں کہوں گا یہ ناممکن ہے۔‘
انٹرنیشنل باؤنڈریز ریسرچ یونٹ حکومتوں، وزارتوں، سفارت کاروں، این جی اوز، ماہرین قانون اور دیگر کے ساتھ تنازعات کے حل کے لیے کام کرتا ہے۔ سٹائن برگ کہتے ہیں، ’ہمارا مقصد دیانت داری سے ثالث کا کردار ادا کرنا ہے۔ تنازعات کے لیے ضروری نہیں کہ درشت ہوں، وہ متوازن اور پرامن ہو سکتے ہیں۔‘
بلآخر زیادہ تر ہوتے ہیں۔ بیلجیئم اور نیدرلینڈز کے درمیان میوز دریا بہتا ہے۔ وقت کے ساتھ ساتھ دریا کا رخ تبدیل ہو گیا جس سے بیلجئیم کا ایک چھوٹا سا ٹکڑا نیدرلینڈ کی طرف چلا گیا۔ یہ معاملہ ایسے ہی لٹکا رہا یہاں تک کہ 2012 میں وہاں سر کے بغیر ایک لاش پڑی ملی۔ کونسی پولیس کو تفتیش کرنی چاہیے؟ یہاں تک کہ دوستانہ تعلقات والے پڑوسیوں کے درمیان بھی سرحد کسی مقصد کے لیے ہوتی ہے اور اس کے بعد دونوں قوموں نے 2015 میں باقاعدہ سرحد قائم کی۔
یقیناً بعض تنازعات حادثاتی ہوتے ہیں جو محض انسانی غلطی کا نتیجہ ہوتے ہیں۔ 1868 میں اوریگون اور کیلیفورنیا کے درمیان حد بندی کے ایک سروے میں امریکہ سے غلطی سرزد ہوئی جس کے نتیجے میں کیلیفورنیا کے 31 ہزار ایکڑ اوریگون میں اور اوریگون کے 20 ہزار ایکڑ کیلفورنیا میں چلے گئے۔ یہ کچھ زیادہ ہی بڑی غلطی تھی اور ممکنہ طور پر ایسی جس کا سبب وہ خود بنے۔ جو کچھ شمالی آئرلینڈ میں ہو رہا ہے اس پر غور کرتے ہوئے شاید بورس جانسن یہ ذہن میں رکھنا پسند کریں۔
© The Independent