پہلی بار جب طالبان آئے تو انہوں نے روٹی طلب کی۔ اگلی مرتبہ جب آئے تو دودھ کا مطالبہ کیا۔ اس کے بعد جنگجو طالبان مزید آگے بڑھتے ہوئے افغانستان کے گاؤں ڈنڈے غوری میں رہائش پذیر محمد اللہ قندہاری کے خاندان سے ان کے 13 سالہ بیٹے عبیداللہ کو مانگ لیا۔ وہ اسے اپنے جنگجو گروہ میں ایک سپاہی کے طور پر شامل کرنا چاہتے تھے۔
اس کے بعد استنبول میں کپڑے سی کر خاندان کا پیٹ پالنے والے قندہاری اور ان کے اہل خانہ کے درمیان تکلیف دہ پیغامات کا ایک سلسلہ شروع ہو گیا۔ دیہی آبادی پر مشتمل صوبے بغلان میں موبائل سروس بے قاعدہ ہے اور بجلی بھی کبھی کبھی آتی ہے۔ ہنگامی طور پر کیے جانے والے میسجز کا سلسلہ بار بار منقطع ہو جاتا تھا، لیکن بات واضح تھی۔ طالبان کی خاطر دیگر بہت سے نوجوان افغانیوں کی طرح خود کو زبردستی جنگ میں جھونکنے اور مرنے سے پہلے عبید اللہ کو روپوش ہو کر یہاں سے نکلنا اور اپنے والد کے پاس ترکی پہنچنا تھا۔
قندہاری نے کئی ماہ کی مشقت سے اپنے خاندان کے لیے جو کچھ ڈالر بچا رکھے تھے، اس مقصد کے لیے ان میں سے کچھ سمگلروں کو دے دیے۔ دبلے پتلے شرمیلے لڑکے عبید اللہ نے بھیگتی آنکھوں سے اپنی ماں اور بہنوں کو خیر آباد کہا اور طویل سفر پر روانہ ہو گئے۔ یہی کام گذشتہ چند دہائیوں میں جنگ اور مصائب میں گھرے ملک کو چھوڑنے کے لیے لاکھوں افغانی کرتے چلے آئے ہیں۔
استنبول کی ایک ٹریول ایجنسی جو شمالی صوبے بغلان سے تعلق رکھنے والے افغانیوں کے لیے اجتماعی ملاقات کا مرکز بھی ہے، اس میں بیٹھے ہوئے قندہاری کہتے ہیں ’یہ بہت خطرناک سفر ہے۔ چند دن پہلے ہی انہوں نے میرے گھر کے قریب ایک گھر اس لیے تباہ کر دیا کہ وہ ان کا مطالبہ پورا نہیں کر سکے تھے۔ ہمارے پاس کوئی راستہ نہ تھا۔ وہ میرے بیٹے کو لے جانا چاہتے تھے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
٭٭٭٭
افغانستان میں دو دہائیوں تک قیام کرنے کے بعد امریکہ اور عالمی اتحادی افواج نکل رہی ہیں اور اس کے دستے 11 ستمبر کی مقررہ تاریخ سے پہلے پہلے جلد از جلد اپنے ملکوں کو واپس جانا چاہتے ہیں۔ اس اقدام کو بہت سے افغان خوش آئند قرار دے رہے ہیں جو بیرونی فوجیوں کے ملک سے نکلنے کے شدید خواہش مند تھے۔ لیکن طالبان کے موجودہ اثر و رسوخ والے علاقوں کے علاوہ مستقبل میں طالبان کا دیگر علاقوں پر ممکنہ قبضہ بھی شدید بے چینی کا باعث بن گیا ہے اور بہت سے لوگوں کو ملک چھوڑنے یا ایسا سوچنے پر مجبور کر رہا ہے۔
عالمی عسکری دستوں کے بہت جلد انخلا سے شہ پا کر طالبان نے سرکاری فوجیوں پر حملے اور اپنے زیر انتظام خطوں میں اپنا مخصوص شدت پسندانہ اسلام ابھی سے نافذ کر نا شروع کر دیا ہے جو مزید لوگوں کو ملک چھوڑنے پر اکسا رہا ہے۔
اقوام متحدہ کے اندارج کے مطابق دنیا بھر میں پھیلے افغان پناہ گزینوں کی تعداد پہلے ہی 25 لاکھ ہے جو (شام کے بعد) دنیا کی دوسری سب سے بڑی بے گھر قوم بن جاتی ہے۔ ان کا زیادہ رجحان پاکستان اور ایران کی طرف رہا لیکن اب بھاری اکثریت ترکی جا رہی ہے جو مغربی یورپ میں نقل مکانی کے لیے بہترین پڑاؤ ہے۔ ایک اندازے کے مطابق اس وقت ترکی میں دو لاکھ افغانی رہ رہے ہیں۔
استنبول کے وکلا کے مطابق عسکری دستوں کا مستقبل میں مکمل انخلا اور طالبان کا ملک پر ممکنہ قبضہ افغانستان سے نقل مکانی میں اضافے کا باعث بنا ہے۔ افغان پناہ گزینوں کے وکیلوں کے بقول محض استنبول میں آنے والوں کی تعداد گذشتہ چھ ماہ میں بڑھ کر دس ہزار تک پہنچ چکی ہے جو اس سے پہلے چھ مہینوں میں محض چار یا پانچ ہزار کے قریب ہوتی تھی۔
ترکی میں افغانوں کی مدد کرنے والی بہت سے خیراتی اداروں کی سرگرمیوں کو مربوط انداز میں چلانے والی سربراہی تنظیم افغان فیڈریشن آف ایسوسی ایشن کے نائب سربراہ ادریس عطار کہتے ہیں، ’مزید لوگ آ رہے ہیں، وہ مزار شریف، کابل اور ہر صوبے سے آ رہے ہیں۔ وہ جنگ کے خوف سے جذباتی طور پر بدحال اور روزگار نہ ملنے سے معاشی طور پر مفلوج ہیں۔ وہ سمگلروں کی مدد سے یہاں پہنچتے ہیں۔‘
ایسا نہیں کہ محض غریب ترین اور سب سے زیادہ بد حال لوگ ہی افغانستان چھوڑ رہے ہیں۔ ایسے افراد جن کے پاس کافی وسائل ہیں وہ بھی عسکری جنگ کے بعد پیدا ہونے والی ڈرامائی صورت حال کے خوف سے باہر جا رہے ہیں جو ممکنہ طور پر بالآخر طالبان کی ایک اور فتح پر منتج ہو گی۔ اسلامی بنیاد پرستوں پر مشتمل انتہائی قدامت پسند گروہوں کے ملغوبے کا ملک پر 1996 اور 2001 کے درمیان قبضہ رہا جس کے بارے میں بھاری اکثریت کا خیال ہے کہ وہ افغانستان کی تاریخ کا سیاہ ترین دور تھا۔
عالمی فوجی دستوں کے ملک سے نکلنے کے بعد جو صورت حال ہو گی اس کے خوف سے فردوس نوزاد کے خاندان نے افغانستان چھوڑنے پر غور شروع کر دیا ہے۔ (اتحادی سپاہیوں کے انخلا کے منصوبے کا پہلی بار اعلان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے گذشتہ سال اکتوبر میں کیا تھا اور اس کی تیاریاں ان کے جانشین جو بائیڈن کی زیر قیادت میں جاری ہیں)۔
لیکن گذشتہ برس افغانستان کے دارالحکومت کابل میں نوزاد کے آبائی گھر کے قریب کار دھماکہ آخری تنکہ ثابت ہوا۔ روانی سے انگریزی بولنے والے اور انڈیا سے کمپیوٹر سائنس کی تعلیم حاصل کرنے والے 26 سالہ نوزاد کہتے ہیں، ’یہ ہم سے انتہائی نزدیک تھا۔‘
خاندان نے جو رقم بچا کر رکھی تھی اس سے ایک اپارٹمنٹ خرید لیا جو بیک وقت رہائش بھی ہے اور سرمایہ کاری بھی۔ وہ کہتے ہیں، ’میں ایک ایک کر کے اپنے تمام بہن بھائیوں کو یہاں منتقل کر لوں گا۔‘
وہ اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہتے ہیں' ممکن ہے افغانستان کی صورت حال بہتر ہو جائے اور ممکن ہے مزید خراب ہو جائے۔ پریشانی کی بات یہ ہے کہ امریکہ نکل رہا ہے، نیٹو اپنا بوریا بستر سمیٹ رہی ہے اور حکومت دو ہفتوں میں گر پڑے گی۔ کیا واقعی ایسا ہوتا ہے یا نہیں، یہی نفسیاتی پریشانی ہے۔‘
اپنا نام ظاہر کرنے سے منع کرتے ہوئے ایک 20 سالہ افغان خاتون کہتی ہیں انہیں اپنی تین سالہ بچی کے ساتھ اس وقت ترکی بھاگنا پڑا جب ان کے خاوند ایک کار حادثے میں ہلاک ہو گئے اور طالبان سے منسلک ان کے سسرالیوں نے ان سے مطالبہ شروع کر دیا کہ وہ اپنے خاوند کے بھائی سے شادی کر لیں۔
وہ کابل میں نرسنگ سیکھ رہی تھیں اور ترکی میں اسی سلسلے کو آگے بڑھانے کے لیے پرامید ہیں۔
ترکی پہنچنے والی وہ 20 سالہ خاتون نسبتاً آسانی سے میں ویزے کے ساتھ افغان آریانا ایئر لائن کی پرواز سے استنبول پہنچیں۔ لیکن اکثر افغانیوں کی طرح عبیداللہ کو ساڑھے تین ہزار میل طویل اور پرخطر زمینی سفر کرنا پڑا۔
یہ سفر بہت عام اور سمگلروں کے لیے منافع بخش ہے۔ روزانہ ہزاروں افراد یہ سفر اختیار کرتے ہیں اور افغانیوں کو ایران یا ترکی پہنچانے والی سمگلرز کی ایک پوری مقامی صنعت فروغ پا چکی ہے، جن میں سے بعض سوشل میڈیا کے ذریعے اپنی خدمات کی تشہیر کرتے ہیں اور مہاجرین کو دس ہزار ڈالرز تک کی فیس کے بدلے جرمنی جیسے دور دراز مقام تک پہنچانے کا وعدہ کرتے ہیں۔
٭٭٭٭
بغلان سے کابل پہنچنے کے بعد عبیداللہ نے نمروز کا رخ کیا جو افغانستان کا جنوب مغربی علاقہ اور مغرب کو جانے والے مہاجرین کی روانگی کا مقام ہے۔ انہوں نے سمگلروں کو رقم دی کہ مجھے پاکستان میں کسی طرح داخل کروا دیں۔
عبید اللہ نے تقریباً ایک ہفتہ پاکستان کے پہاڑی علاقوں میں پیدل سفر کیا۔ خوراک اور صاف پانی کی قلت اور خطرناک ڈھلانوں والی پہاڑی نہایت بے ڈھب تھی۔ پاکستانی سرحدی سپاہی، پاسدارانِ انقلاب، مقامی بلوچی قبائلی افراد اور مسلح منشیات کے سمگلر ڈاکو ایران سے منسلک سرحد پر موجود ہوتے ہیں جو سبھی مہاجرین کا شکار کرنا چاہتے ہیں۔
قندہاری کے بقول ’وہ بغیر کسی ہچکچاہٹ گولی چلا دیتے ہیں۔‘
لیکن عبیداللہ خوش قسمت ثابت ہوئے اور نسبتاً محفوظ طریقے سے پہنچ گئے۔ ایران میں عبید اللہ بہت آسانی سے ان کثیر تعداد افغانیوں میں گھل مل گئے جو کئی دہائیوں سے ایران میں اپنے گھر تعمیر کر کے رہ رہے ہیں۔ ایک وسیع ملک پار کرنے میں انہیں کئی ہفتے لگے۔
سفر کے دوران انہیں پینے کے لیے پانی اور پیٹ بھرنے کے لیے درکار ضروری خوراک کے حصول میں دقت کا سامنا رہا۔ وہ کھلے آسمان تلے یا سمگلروں کی قائم کردہ عارضی بے ڈھنگی کوٹھڑیوں میں سوتے رہے۔
اپریل کے ابتدائی دنوں میں وہ ایران اور ترکی کی سرحد ارمیہ پہنچ گئے جو ان کے سفر کے خطرناک ترین حصے کا آغاز تھا۔ لاغر نوجوان اپنے قدموں پر رواں تھا جہاں بڑی عمر کے مہاجرین کی مدد سے وہ چاند کی روشنی میں پہاڑی علاقے سے گزر رہا تھا۔ سرحدی علاقہ جنگلی بھیڑیوں کے ریوڑوں اور ترکش و ایرانی سرحدی محافظوں کی آماجگاہ ہے۔
اچانک ترکی کے محافظوں نے فائر کھول دیے جن میں سے ایک گولی مبینہ طور پر افغان مہاجرین کے عبید اللہ کے گروپ کے ایک رکن کو جا لگی۔ افراتفری کے عالم میں ہر کوئی مختلف سمت کو بھاگا۔
عبید اللہ باقی لوگوں سے بچھڑ گئے اور خود کو تنہا اور گم شدہ حالت میں پایا۔ والد سے رابطے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں تھا۔ موسم بہار کا آغاز تھا، رات سرد اور بارانی تھی۔ ہر طرف بھیڑیوں کی غراہٹیں گونج رہی تھیں۔ پہاڑی راستوں میں سمگلروں کو اکثر مہاجرین کی ہڈیاں نظر آتی ہیں۔
سوئٹزر لینڈ کے مالی تعاون سے ترکی کی ایک تنظیم ’ایسوسی ایشن فار مائیگریشن ریسرچ‘ کی 2021 میں تیار کردہ رپورٹ کے مطابق ’جب سرحد پر موجود محافظ حملہ کرتے ہیں تو مہاجرین افراتفری کے عالم میں پہاڑوں میں چھپنے کے لیے دوڑ پڑتے ہیں۔ بعض اوقات وہ رات کسی چٹان کے پیچھے چھپ کر گزار دیتے ہیں یہاں تک کہ کوئی سمگلر انہیں سرحد پار کرنے کی دوسری کوشش کے لیے ڈھونڈ نکالتا ہے۔ بدقسمتی سے زیادہ تر اموات ایسی گم شدہ جگہ پر منتظر افراد کی ہوتی ہیں جو سردی سے ٹھٹھر کر مر جاتے ہیں یا جنگلی جانوروں کے حملے کا شکار ہو جاتے ہیں۔‘
اس رات سمگلروں نے قندہاری کو بری خبر سے آگاہ کیا کہ عبید اللہ گم ہو چکے ہیں۔ قندہاری کہتے ہیں، ’مجھے لگا وہ مر چکا ہے۔ میں سوچ میں پڑ گیا کہ میں اپنی بیوی کو کیسے فون کروں گا اور یہ بتاؤں گا؟‘
٭٭٭٭
دو سال قبل قندہاری نے بھی ایسا ہی پرخطر سفر طے کیا تھا۔ وہ پہلے ایران پہنچے جہاں کام کاج کرنے اور پیچھے گھر میں رقم بھیجنے کی کوشش کی۔ لیکن امریکی پابندیوں نے ایران کی معیشت کو بری طرح متاثر کیا اور ان کے لیے گزارہ کرنا مشکل ہو گیا۔ اس لیے وہ ترکی اور استنبول نکل گئے جہاں انہیں استنبول کے نواحی علاقے زيتین بورنو میں سر چھپانے کو ٹھکانہ اور اپنے ہم قوم مل گئے۔ یہ علاقہ افغانی کاروبار اور شہریوں سے اٹا پڑا ہے۔ عالمی تنظیم برائے مہاجرین کے ایک جائزے کے مطابق محض اس ایک ضلعے میں تقریباً 35 ہزار افغانی رہتے ہیں۔
افغانستان اینالسٹ نیٹ ورک کے مطابق ’استنبول کا یہ حصہ ’چھوٹا افغانستان‘ کہلایا جا سکتا ہے۔ گلیوں کے بچھے جال مرکزی بولیوارڈ 58 میں دوکانوں کے باہر ’بلخی سینٹر،‘ ’لوگری کال شاپ‘ اور ’قندوز ریستوران‘ جیسے بورڈ نظر آتے ہیں۔‘
اس کے باوجود شامی تارکینِ وطن کی طرح ان افغانی مہاجرین کو سرکاری تعاون یا ترکی میں قانونی حیثیت تک حاصل نہیں اور بلیک مارکیٹ میں انتہائی معمولی معاوضوں پر گزر بسر کرتے ہوئے وہ مسلسل خوف کے سائے میں جی رہے ہیں۔
مارچ 2020 میں جب ترکی کے صدر طیب اردوغان نے ترکی میں موجود مہاجرین کو یونان کی طرف نکلنے کی مختصر وقت کے لیے اجازت دی تو قندہاری بھی سرحد پر جا پہنچے اور ایک مہینے تک کیمپ میں ٹھہرے رہے جہاں بالآخر انہیں ترکی کو یورپی یونین سے الگ کرنے والے دریائے ماریتسا کو عبور کرنے کا راستہ مل گیا۔
لیکن اسی دوران وہ یونان کے سرحدی محافظوں کے ہتھے چڑھ گئے جنہوں نے پٹائی کرنے کے بعد انہیں دریائی راستے واپس ترکی بھیج دیا جس کے بعد زندگی کو از سر نو ترتیب دینے کی کوشش میں انہیں کئی ماہ وہیں گزارنا پڑے۔
ترکی کی جانب سے سینکڑوں افغان ملک بدر کرتے ہوئے واپس افغانستان بھیجے گئے، جو خود جنگ، غربت اور جبر کے باعث اپنے ممالک سے بھاگنے والے شامی، افغانی، عراقی اور ایرانی شہریوں کی کثیر تعداد سے اٹا پڑا ہے۔ محض 2019 میں 40 ہزار افغان ترکی نے واپس افغانستان بھیجے۔
عطار کہتے ہیں ’افغانیوں کے لیے بہت محدود سہولیات ہیں۔ کم و پیش تمام افغانی یہاں غیر قانونی تصور کیے جاتے ہیں۔ خاندان غیر قانونی ہیں۔ بچے غیر قانونی ہیں سو وہ سکولوں میں نہیں جا سکتے۔ ان میں سے اکثریت یہاں کام نہ ملنے کے باعث بالآخر یورپ جانے کا فیصلہ کرتی ہے۔‘
اس سال رمضان کے دوران عطار کی تنظیم کچھ امدادی رقم حاصل کرنے میں کامیاب رہی اور ترکی میں 300 سے زائد افغان خاندانوں کو چاول، چینی اور خوردنی تیل مفت فراہم کیا۔ تاہم عمومی طور پر افغان ایک دوسرے کا خیال رکھتے ہیں بالخصوص وہ لوگ جو اپنے ملک میں ایک ہی خطے سے تعلق رکھتے ہوں۔
گم شدگی کے بعد اگلی صبح عبید اللہ کے لیے خوش قسمت ثابت ہوئی۔ وان کے علاقے میں پہاڑوں میں سے گزرتے ہوئے ایک اور افغان مہاجر کی اس پر نظر پڑی جسے بھیگے ہوئے ٹھٹھرتے چھوٹے بچے پر رحم آ گیا، اس نے اپنی جیکٹ انہیں اوڑھا دی اور ساتھ لے کر استنبول کے لیے روانہ ہو گیا۔
٭٭٭٭
تقریباً 20 اپریل کو قندہاری کو اپنے موبائل فون پر انجان نمبر سے ایک کال موصول ہوئی۔ زیتین بورنو سے تقریباً 60 میل دور ازمت شہر کے بس سٹاپ پر ایک ترک شہری نے عبید اللہ کو تنہا کھڑے دیکھا۔ قندہاری نے اپنے بیٹے سے بات کی اور وہیں رکنے کا کہا۔ اگلے چند گھنٹوں میں وہ وہاں پہنچ گئے۔ باپ بیٹا گلے ملتے ہی خوشی اور سکون سے بھر گئے۔ قندہاری محبت بھرے لہجے میں ان لمحات کو یاد کرتے ہیں، ’میں خوش تھا۔ میں بہت زیادہ خوش تھا کیونکہ مجھے لگا تھا وہ مر چکا ہے لیکن وہ میرے سامنے تھا۔‘
قندہاری کہتے ہیں وہ اگلے برس عبید اللہ کو سکول بھیجنے کی کوشش کریں گے لیکن اس سے پہلے بنیادی نوعیت کی ترکی زبان سکھانے کا راستہ تلاش کرنا ہے۔ اس وقت عبید اللہ ٹیکسٹائل فیکٹری میں بطور مزدور کام حاصل کرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ رات کو وہ کانپتے ہوئے اور دہشت زدہ ہو کر پچاس دنوں پر محیط خطرناک سفر کے خوابوں سے چونک کر اٹھ بیٹھتے ہیں۔
امریکی دستوں کے انخلا کی تیاری اور ممکنہ طور پر جنگ کی شدت میں اضافے کے پیشِ نظر قندہاری نے افغانستان لوٹنے کی تمام امیدیں ترک کر دی ہیں۔ ان کا اگلا ہدف اپنی بیوی، چار چھوٹے بیٹے بیٹیاں استنبول لانے ہیں جن کے بارے میں وہ فکر مند ہیں کہ اگر طالبان نے گاؤں پر مکمل قبضہ کر لیا تو وہ سکول نہیں جا سکیں گے۔
وہ کہتے ہیں یہ ’طالبان ہیں۔ طالبان! انہوں نے پورے ملک کا ستیاناس کر دیا ہے۔‘