پچھلا ایک ہفتہ انسان کے ارتقا کے سلسلے میں بہت ہنگامہ خیز رہا ہے کہ ایک ہی ہفتے کے دوران قدیم انسان کی دو ایسی نسلوں کے آثار دریافت ہوئے جن سے سائنس پہلے واقف نہیں تھی۔
سب سے پہلی دریافت چین میں سامنے آئی جسے ’ڈریگن مین‘ کا خطاب دیا گیا ہے۔
25 جون کو سائنسی رسالے ’دی انوویشن‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں چین کی ہیبے جیو یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے خبر دی کہ انہوں نے ایک انسانی کھوپڑی دریافت کی ہے جو اب تک معلوم انسانوں کی کسی بھی نسل سے تعلق نہیں رکھتی۔
انہوں نے اسے قدیم انسان کی ایک نئی قسم ہومو لونگی کا نام دیا ہے، اور کہا ہے کہ یہ ممکنہ طور پر موجودہ انسان ہومو سیپیئنز کی سب سے قریبی رشتے دار ہو سکتی ہے۔
ہیبے جیو یونیورسٹی میں پیلیونٹالوجی کے پروفیسر چیانگ جی نے لکھا کہ یہ ’دنیا میں کسی انسانی کھوپڑی کا سب سے مکمل فاسل ہے، جس میں کئی ایسی تفصیلات شامل ہیں جو انسان کی ہومو نسل کے ارتقا کو سمجھنے کے لیے بےحد ضروری ہیں۔‘
اس کھوپڑی کا سائز جدید انسان کے برابر ہے، البتہ آنکھوں کے ساکٹ، ابرو کے پیچھے والی ہڈی اور بڑے دانتوں کے لحاظ سے جدید انسان سے مختلف ہے۔ اس کے دور کا تخمینہ ایک لاکھ 46 ہزار سال قبل لگایا گیا ہے۔
یہ کھوپڑی دراصل 1930 کی دہائی میں دریافت ہوئی تھی مگر اب تک گودام میں پڑی تھی اور اس پر تحقیق نہیں کی گئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
یہی نہیں، بلکہ اسی ہفتے ایک اور انسانی نسل دریافت ہوئی، اور اس بار یہ تحقیق اسرائیل سے سامنے آئی۔
تل ابیب یونیورسٹی اور ہیبرو یونیورسٹی کے سائنس دانوں نے ایک انسانی نسل کی ہڈیاں دریافت کیں جو ایک لاکھ 20 ہزار سال سے لے کر ایک لاکھ 40 ہزار سال پرانی ہیں۔
جریدے ’سائنس‘ میں شائع ہونے والی تحقیق میں سائنس دانوں نے لکھا کہ اس نسل کے کچھ خدوخال جدید انسان ہومو سیپیئنز کی طرح ہیں جب کہ کچھ چیزیں نی اینڈرتھال سے ملتی ہیں، خاص طور پر دانت اور جبڑے۔
البتہ بعض اعتبار سے یہ جدید انسان سے بالکل مختلف ہے، مثال کے طور پر اس کی ٹھوڑی بالکل سپاٹ ہے، اور دانت بہت بڑے ہیں۔
پروفیسر اسرائیل ہرشکووچ نے لکھا: ’ہومو نوع کی نئی قسم کی دریافت زبردست سائنسی اہمیت کی حامل ہے۔ اس سے ہمیں پہلے دریافت ہونے والے فاسلز کا تعین کرنے میں آسانی ہو گی، اور یہ انسانی ارتقا کے معمے کی ایک اور کڑی ہے۔‘
ان دونوں نئی نسلوں کے آثار ایشیا سے ملے ہیں، لیکن جہاں تک جدید انسان یعنی ہومو سیپیئنز کا تعلق ہے تو اس کا آغاز افریقہ سے ہوا ہے اور اس کی عمر کا جدید ترین تخمینہ تین لاکھ سال ہے۔
آج سے لاکھوں برس قبل انسان سے بالکل ملتی جلتی کئی نسلیں ایک ساتھ زمین پر رہتی تھیں، لیکن وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ باقی نسلیں معدوم ہو گئیں اور صرف جدید انسان باقی بچا۔
سائنس دانوں کے مطابق آج سے صرف 30 ہزار سال قبل تک انسان کی کم از کم چار نسلیں ایک ساتھ موجود تھیں، جن میں جدید انسان ہومو سیپیئنز کے علاوہ نی اینڈرتھال، ہومو فلوریسی اینسس (H. floresiensis) اور ڈینی سوون شامل ہیں۔
یہ نسلیں بےشک دنیا سے غائب ہو گئی ہیں لیکن انسان کے ڈی این اے کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ افریقہ سے باہر رہنے والے تمام انسانوں کے اندر نی اینڈرتھال اور فلوریسی اینسس کے جین موجود ہیں۔ ایشیائی اور یورپی باشندوں میں 20 فیصد کے لگ بھگ ڈی این اے نی اینڈرتھال سے آیا ہے، جب کہ بعض انسانی آبادیوں کے ڈی این اے کا چھ فیصد تک جینیاتی مواد ڈینی سوون کی دین ہے۔
اس سے پتہ چلتا ہے کہ قدیم زمانے میں جدید انسان کا ان قدیم نسلوں سے اختلاط ہوتا رہا ہے جس سے بچے پیدا ہوئے جن کے جین آج بھی دنیا کی بیشتر آبادی کے اندر موجود ہیں۔
اب دو نئی نسلوں کی دریافت سے انسان کی نسلوں کی گنتی میں اضافہ ہو گیا ہے اور انسانی ارتقا کا منظرنامہ مزید پیچیدہ اور مالامال ہو گیا ہے۔