محققین نے امکان ظاہر کیا ہے کہ شاید قدیم انسان اپنی بقا کے لیے سردیوں کا سخت موسم سو کر گزارتے ہوں جیسا کہ جدید دور کے جانور کرتے ہیں۔
شمالی سپین میں برگوس کے قریب واقع آثار قدیمہ کے مقام آتاپوریکا میں سیما ڈی لوس ہیوسوس (ہڈیوں کے گڑھے) اور تدفین کے لیے استعمال ہونے والے کمرے سے انسانی باقیات ملی ہیں جو پتھر کی شکل اختیار کر چکی تھیں۔ ان باقیات کے معائنے کے بعد سائنس دان اس نتیجے پر پہنچے ہیں۔
خوردبین اور سی ٹی سکین کے ذریعے ماہرین نے دریافت کیا کہ تقریباً چار لاکھ 30 ہزار سال قدیم ان ہڈیوں پر نقصان پہنچنے کے نشانات موجود ہیں اور ایک دوسری ہڈی کو پہنچنے والا نقصان اسی طرح کا ہے جو سردیاں سو کر گزارنے والے جانوروں میں دیکھا گیا۔
خیال کیا جاتا ہے کہ قدیم انسان اپنے جسم میں کیمیائی تبدیلیوں کے عمل کی رفتار کم کر کے شدید سردی کے موسم میں کئی ماہ تک سوتے رہنے کے قابل تھا۔ یہ وہ وقت ہوتا تھا جب کھانے پینے کی اشیا کا ملنا انتہائی دشوار تھا۔
آتاپوریکا فاؤنڈیشن کے سربراہ وان لوئس ارسویگا اور یونان میں ڈیموکرائیٹس یونیورسٹی آف تھریس سے تعلق رکھنے والے انٹونس بارٹاسائیکا نے اعتراف کیا کہ ’ممکن ہے یہ خیال کہ انسان وقت سو کر گزارنے کے لیے کیمیائی عمل سست کر لے سائنس فکشن جیسا لگے۔‘
تاہم دسمبر میں لاانتھروپالوجی نامی جریدے میں شائع ہونے والے مضمون میں ان محققین نے اشارہ کیا ہے کہ ’دودھ پلانے والے اور بندر اور لنگور جیسے جانور‘جیسا کہ درختوں پر رہنے والے جانور اور بغیر دم کے جانور’لورس‘ سردیاں سو کر گزارتے ہیں۔ ان جانوروں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ’اس قسم کی سست رفتار کیمیائی تبدیلیوں کے لیے ضروری جینیاتی بنیاد اور جسمانی ساخت بہت سے ممالیہ جانوروں میں بھی محفوظ رہ سکتی ہے جن میں انسان بھی شامل ہیں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
نورتھمبریا یونیورسٹی، نیوکاسل میں فرانزک بنیاد پرعلم البشریات کے ماہرپیٹرک رنڈولف کوئنی نے اخبار دا گارڈین سے بات چیت میں کہا: ’یہ بڑی دلچسپ دلیل ہے اور یقیناً اس پر بحث ہو گی۔ تاہم سیما سے ملنے والی ہڈیوں میں دکھائی دینے والی تبدیلیوں کے لیے دوسری وضاحتیں بھی ہیں اور اس سے پہلے ہم حقیقت پر مبنی کسی نتیجے پر پہنچیں، ان وضاحتوں پر مکمل توجہ دی جانی چاہیے۔ میرا ماننا ہے کہ ایسا ابھی تک نہیں کیا گیا۔‘
آتاپوریکا فاؤنڈیشن کی ویب سائٹ کے مطابق سیما ڈی لوس ہیوسوس کے مقام پر 1983 سے ہر سال کھدائی کی جا رہی ہے اور اب تک ساڑھے پانچ ہزار انسانی ڈھانچوں کی باقیات باہر نکالی جا چکی ہیں جن پر بحث کی ضرورت ہے۔
مانا جاتا ہے کہ یہ ہڈیاں، جو جان بوجھ کر غارکی تہہ میں پھینکی گئیں، ان سے یورپ میں قدیم انسان کی ارتقا کے بارے میں کی سراغ ملے ہیں۔
© The Independent