ٹریجڈی کنگ دلیپ کمار کی پہلی فلم ’جوار بھاٹا‘ 1944اور آخری فلم ’قلعہ‘ 1998 میں ریلیز ہوئی۔ اس طرح 54 برس پر محیط کیریئر میں محض 62 فلمیں کرنے کے باوجود وہ ہندی سینما کے سب سے عمدہ اور ہمہ جہت اداکار مانے جاتے ہیں۔ اس وقت ایک عمومی خیال تھا کہ سٹار کو زیادہ سے زیادہ فلمیں کرنی چاہییں تاکہ وہ اپنی موجودگی کا مسلسل احساس دلا سکیں لیکن دلیپ کمار نے اس معاملے میں بھی الگ راستہ چنا۔
فلم میں بہترین ادکاری کی بنیاد پر انہیں آٹھ بار فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا جو ابھی تک ایک ریکارڈ ہے۔
ان کے مدمقابل مرکزی کردار میں سب سے زیادہ وجنتی مالا جلوہ گر ہوئیں۔ دونوں کی ایک ساتھ سات فلمیں ہیں۔ ان کے مدھو بالا سے پس پردہ رومانوی تعلقات اور سکرین پر کیمسٹری ہمیشہ فلم بینوں کے لیے دلچسپی کا موضوع رہی۔
بالی وڈ کے سنہرے عہد کے تینوں بڑے اداکاروں کے ساتھ کچھ موسیقاروں اور گلوکاروں کے نام منسلک ہو کر رہ گئے۔ دیوآنند کی بیشتر فلموں کی موسیقی ایس ڈی برمن اور پس پردہ آواز کشور کمار یا محمد رفیع کی ہوتی۔ شنکر جےکشن اور مکیش کے ساتھ راج کپور جڑے رہے۔ دلیپ کمار کی 14 فلموں کی موسیقی نوشاد صاحب نے ترتیب دی اور زیادہ تر محمد رفیع نے پس پردہ آواز کا جادو جگایا۔
بطور ہدایت کار بمل رائے نے جس طرح انہیں دیوداس، مدھومتی اور یہودی میں استعمال کیا، ہندی سینما کی تاریخ میں اس کی امتیازی حیثیت ہے۔
آئیے دلیپ کمار کی چند بہترین فلموں کا ذکر کرتے ہیں:
10۔ رام اور شیام (1967)
یہ دراصل دو جڑواں بھائیوں کی کہانی ہے جو بچپن میں الگ کر دیے جاتے ہیں اور دونوں کی شخصیت بالکل مختلف ہے۔ دلیپ کمار نے یہ دونوں کردار نبھائے اور زبردست کارکردگی پر انہیں فلم فیئر ایوارڈ سے نوازا گیا۔ آپ نے دلیپ کمار کے سنجیدہ اور المیہ کردار تو بہت دیکھے ہوں گے، ذرا دیکھیے کہ وہ مزاح میں کیسا جادو جگاتے ہیں۔
اس فلم سے متاثر ہو کر بعد میں ’سیتا اور گیتا،‘ ’چال باز،‘ ’کشن کنہیا‘ جیسی فلمیں بنائی گئیں لیکن اصل کا رنگ دور دور تک نظر نہیں آتا۔
9۔ لیڈر (1964)
اس فلم میں دلیپ کمار ایک اخبار کے ایڈیٹر ہیں جن پر ایک سیاستدان کے قتل کا الزام لگتا ہے۔ ساتھ ساتھ ان کی محبت بھی پروان چڑھتی ہوئی نظر آتی ہے، جس کا اظہار وہ نوشاد کی ترتیب دی ہوئی دھنوں میں کرتے ہیں۔ اس فلم کی کہانی دلیپ صاحب نے خود لکھی تھی جبکہ ہدایت کار رام مکھرجی تھے۔
اس فلم پر دلیپ کمار کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔
8۔ نیا دور (1957)
بی آر چوپڑا کی ہدایت کاری میں بننے والی یہ فلم مشین کی انسانی زندگی میں بڑھتی ہوئی مداخلت اور ایک ہی عورت سے محبت کے بعد دو دوستوں کے درمیان دشمنی کی داستان ہے۔ عامر خان کی فلم ’لگان‘ پر اس کے اثرات واضح دیکھے جا سکتے ہیں۔
’آزاد‘ اور ’دیوداس‘ کے بعد دلیپ کمار نے اس فلم میں بھی بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ جیتا اور اس طرح مسلسل تین بار یہ ایوارڈ جیتنے والے پہلے اور ابھی تک کے واحد اداکار ہیں۔
فلم میں او پی نیر کی موسیقی اور ساحر لدھیانوی کے گیتوں نے دھوم مچا دی تھی۔ فلم کا پس منظر پنجاب کا تھا اور یہ جوڑی بھی پنجابی، اس لیے پنجاب کا فوک رنگ بڑی خوبصورتی سے گیتوں کا حصہ بنا۔ اس فلم کی موسیقی پر او پی نیر کو فلم فیئر ایوارڈ ملا لیکن ساحر صاحب کے ساتھ اگلی ہی فلم ’سونے کی چڑیا‘ میں ان کی لڑائی ہوگئی اور پھر دونوں نے کبھی ایک ساتھ کام نہیں کیا۔ بہرحال ’نیا دور‘ ایک مزے دار فلم ہے جسے دیکھ لینے میں کوئی ہرج نہیں۔
7۔ کوہ نور (1960)
مسلسل المیہ کردار کرنے کے بعد دلیپ کمار کو نفسیاتی مسائل کا سامنا تھا۔ ماہرین نفسیات نے انہیں ہلکے پھلکے کردار کرنے کا مشورہ دیا لیکن ہلکے کردار کا مطلب یہ ہرگز نہیں کہ دلیپ کمار کی فنی گرفت ڈھیلی پڑی ہو۔
ایک شہزادے کے روپ میں دلیپ کمار مینا کماری کے مدمقابل جلوہ گر ہوئے اور شہزادوں کی آن بان سے محبت کرتے نظر آئے۔
فلم کی موسیقی نوشاد نے ترتیب دی جس کے ایک گیت ’مدھوبن میں رادھیکا ناچے رے‘ کی عکس بندی کے لیے دلیپ کمار نے باقاعدہ ستار سیکھا۔ اس کردار کے لیے دلیپ کمار کو بہترین اداکار کا فلم فیئر ایوارڈ بھی دیا گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
6۔ ترانہ (1951)
رومانوی سی ہلکی پھلکی کہانی، ڈی این مدھوک کے گیت اور انل بسواس کا انتہائی شاندار میوزک اس فلم کے حسن میں اضافہ ضرور کرتا ہے لیکن اصل چیز دلیپ کمار اور مدھوبالا کا چھلکتا ہوا رومانس ہے۔
یہ دونوں کی پہلی فلم تھی جس کی شوٹنگ کے دوران قربتیں بڑھنے لگیں اور بالآخر دونوں نے ایک دوسرے کے لیے دل کے دروازے کھول دیئے۔ نئی نئی محبت میں جو معصومیت اور والہانہ پن ہوتا ہے وہ اس فلم کے مناظر میں پوری طرح نمایاں ہے۔ حسن کی دیوی مدھوبالا جتنی خوبصورت اس فلم میں نظر آتی ہیں وہ شاید ہی کسی دوسری فلم میں نظر آئی ہوں۔ اس کے لیے ہم سب کیمرا مین کمار جینت کے شکر گزار رہیں گے۔
5۔ شکتی (1982)
سلیم جاوید کی لکھی اس فلم کے ہدایت کار رمیش سپی اور مرکزی کردار میں دلیپ کمار اور امیتابھ بچن ہیں۔
ڈی ایس پی اشوینی کمار(دلیپ کمار) قانون کی بالادستی پر اصرار کرتے ایک ایماندار پولیس آفیسر ہیں جبکہ وجے (امیتابھ بچن) ایک باغی بیٹا ہے جو سماجی بندھن اور قانون و انصاف جوتے کی نوک پر رکھتا ہے۔ فلم کی کہانی، مکالمے اور ہدایت کاری سبھی عمدہ ہیں لیکن اصل چیز امیتابھ بچن اور دلیپ کمار کو ایک دوسرے کے مدمقابل دیکھنا ہے۔
یہ وہ دور ہے جب امیتابھ بچن کا طوطی بول رہا تھا اور دلیپ کمار پانچ سال کے وقفے کے بعد دوبارہ میدان میں اترے ہی تھے۔ میڈیا نے فلم ریلیز ہونے سے پہلے طوفان برپا کر رکھا تھا۔ بلاشبہ دونوں اداکاروں نے بہترین کارکردگی کا مظاہرہ کیا۔ اس سال فلم فیئر کے لیے امیتابھ بچن تین بار نامزد ہوئے لیکن دلیپ صاحب ایوارڈ اڑا لے گئے۔
4۔ مدھومتی (1958)
دیوداس کے بعد بمل رائے کی دلیپ کمار کے ساتھ یہ دوسری فلم تھی جس کا موضوع آواگون کا نظریہ ہے۔ دلیپ کمار نے دہرا کردار نہایت مہارت سے نبھایا اور فلم میں دلچسپی کا عنصر برقرار رکھتے ہو خوف اور پراسراریت کی فضا قائم کرنے میں کامیاب رہے۔
ابتدائی طور پر فلم کی موسیقی کے لیے بمل رائے نے کلکتہ سے منوہری سنگھ کو بمبئی بلا بھیجا۔ بعد میں وہ ایس ڈی برمن کے پاس گئے اور انہیں فلم کی لوکیشن سے آگاہ کرتے ہوئے موسیقی ترتیب دینے کی دعوت دی۔ ایس ڈی برمن نے بڑے بینر کی فلم دیکھ کر ہلہ بولنے کی بجائے انہیں تجویز دی کہ آسام کی فوک موسیقی سلل چوہدری سے بہتر کوئی نہیں جانتا، وہ زیادہ مناسب رہیں گے۔ اس طرح سلل چوہدری نے تاریخ رقم کی۔
بالی وڈ کی تاریخ میں جب بھی بہترین موسیقی کا ذکر ہو گا ’مدھومتی‘ سرفہرت فلموں میں شامل ہوگی۔ شیلندر نے ایسی بے ساختگی سے گیت لکھے کہ سنتے ہوئے گمان ہوتا ہے جیسے یہ زمانوں سے چلتے آئے فوک گیت ہی ہوں۔
3۔ مغل اعظم (1960)
ہندوستانی سینما کی بہترین فلموں کی چاہے جتنی بھی مختصر فہرست مرتب کی جائے ’مغل اعظم‘ ہر حال میں شامل ہوگی۔ فلم دیکھتے ہوئے جہاں ایک طرف مغل دربار کی شان و شوکت کا نقشہ آنکھوں میں تیرنے لگتا ہے، وہیں محبت کی عظیم المیہ داستان سے دل کٹنے لگتا ہے۔ فلم میں پرتھوی راج کپور اور مدھوبالا کے کردار حاوی نظر آتے ہیں لیکن شہزادہ سلیم کے روپ میں دلیپ کمار بھی اپنی ہنرمندی کا بھرپور مظاہرہ کرتے ہیں۔ پرتھوی راج کپور کی گونج دار آواز کے سامنے دلیپ کمار کا مدہم لہجہ مزید بھلا معلوم ہوتا ہے۔ دلیپ کمار اور مدھوبالا کے رومانوی مناظر اس دیومالائی داستان کو جو پاکیزہ حسن عطا کرتے ہیں، اس کی دوسری مثال نہیں۔
فلم کے مکالمے، نوشاد کی موسیقی، استاد بڑے غلام علی خاں کے دو گیت اور سب سے بڑھ کر کریم الدین آصف کی ہدایت کاری، سب کچھ لاجواب ہے بھائی۔
2۔ گنگا جمنا (1961)
اس فلم کی کہانی دلیپ کمار صاحب نے خود لکھی، جس کے ہدایت کار نتن بوس تھے۔ دو بھائیوں کی کہانی جس میں ایک قانون کا محافظ اور دوسرا بغاوت کرتے ہوئے ڈاکو بن جاتا ہے۔ اس فلم کی کہانی سے ایک طرف سلیم جاوید متاثر ہوئے تو دوسری طرف اینگری ینگ مین امیتابھ بچن کے کردار کی بنیاد پڑی۔ ردعمل کی یہی نفسیات تو تھی جن کا سلیم جاوید نے بروقت ادراک کیا اور امیتابھ بچن کی صورت میں پردے پر پیش کرتے ہوئے 70 کی دہائی میں کھلبلی مچا دی۔
اداکاری کا جو مرضی پیمانہ وضع کر لیجیے، دلیپ کمار کم سے کم اس فلم میں اس پر ضرور پورا اترتے ہیں۔ ایک پشاور کا پٹھان اتر پردیش کی زبان ایسی بے ساختگی سے بولتا ہے کہ پوری ثقافت اس کے وجود کا حصہ معلوم ہوتی ہے۔
اس فلم پر دلیپ صاحب کو بہترین اداکار کا فلم فیئر نہیں ملا تھا جس پر امیتابھ بچن کہا کرتے ہیں کہ ہر اداکار کی زندگی میں ایسے موقعے آتے ہیں جب اسے لگتا ہے اسے فلم فیئر ملنا چاہیے تھا لیکن نہیں ملا۔ پھر یہ سوچ کر تسلی ہوتی ہے کہ اگر ’گنگا جمنا‘ پر دلیپ کمار کو نہیں ملا تو آپ کس کھیت کی مولی ہیں۔
وجنتی مالا نے جس طرح دھنو کا کردار ادا کیا اسے نظر انداز کرنا بھی ناانصافی ہوگی۔
1۔ دیوداس (1955)
برصغیر میں اگر کسی ایک ناول کو سب سے زیادہ عکس بند کیا گیا تو وہ سرت چندر چیٹرجی کا ناول دیوداس ہے۔ 1917 میں لکھے گئے اس ناول پر ابھی تک چار مختلف زبانوں میں ایک درجن سے زائد فلمیں بن چکی ہیں۔ ناول کے پلاٹ میں بنگال کے ہدایت کار پرمتھیش باروا نے بنیادی نوعیت کی ایک آدھ تبدیلی کی جس کے بعد تقریباً ہر فلم ان کی بنگالی زبان میں بننے والی ’دیوداس‘ (1935) سے متاثر نظر آئی۔ باروا نے 1936 میں کے ایل سہگل کو مرکزی کردار میں لے کر ہندی فلم بنائی جس میں کیمرے پر بمل رائے تھے۔
فلموں میں قدم جمانے کے بعد بمل رائے نے ’دیوداس‘ بنانے کا فیصلہ کیا جس میں دلیپ کمار، سچترا سین اور وجنتی مالا مرکزی کرداروں میں شامل تھے۔
بمل رائے نے موسیقی کے لیے نوشاد سے رابطہ کیا جنہوں نے کے ایل سہگل کے گیتوں کو ہو بہو شامل کرنے کی تجویز دی۔ اگرچہ کے ایل سہگل کی فلم کو 20 برس گزر چکے تھے لیکن ان کے گیتوں کا سحر ابھی تک پوری شدت سے برقرار تھا۔ بمل رائے کو سمجھ آ گئی کہ نوشاد صاحب کی طرف سے یہ لکھنوی انداز میں معذرت کا اشارہ ہے۔ اس طرح ایس ڈی برمن موسیقار بنے اور گیت ساحر لدھیانوی نے لکھے۔
یہ ایسے ناکام عاشق کی کہانی ہے جو بغاوت نہیں کر سکتا اور احساس ندامت کے مارے خود کو تباہ کرنے لگتا ہے۔ اس کردار کو نبھاتے ہوئے دلیپ کمار فن کی جس بلندی پر نظر آئے کوئی دوسرا اداکار اس کی خاک بھی نہیں چھو سکا۔ فلم کے ایک ایک منظر میں شکستہ دلی اور مایوسی ان کی آواز اور چہرے کے تاثرات سے امڈ امڈ پڑتی ہے۔ اگر آپ جاننا چاہیں کہ دلیپ کمار کو ٹریجڈی کنگ کیوں کہا جاتا ہے تو یہ ایک فلم دیکھ لینا ہی کافی ہے۔