جب مجھے ایس ایچ او کی عملی تربیت کے لیے تھانہ صدر میلسی بھیجا گیا تو سب سے پہلے میں تھانے کے ایس ایچ او کی خدمت میں حاضر ہوا۔ ایس ایچ او نے سب سے پہلا سوال یہ کیا، ’برخوردار، صحیح معنوں میں پولیس آفیسر بننے کا شوق ہے یا موتیوں والی سرکار بننے کا؟‘
یہ سوال سن کر میرے ہاتھوں سے طوطے اڑ گئے اور کچھ سمجھ میں نہیں آیا کہ ایس ایچ او سردار غلام مصطفیٰ خان پہوڑ کے اس سوال کا کیا جواب دوں۔
اس سے پہلے کہ میں آگے کا حال بتاؤں، اس سے پہلے نئے نئے پولیس افسر کی تربیت کے بارے میں ایک دو باتیں عرض کرتا چلوں۔
ایک اچھا پولیس آفیسر بننے کے لیے ضروری ہے کہ آپ کو مروجہ فوجداری قوانین، تعزیرات پاکستان (PPC، ضابطہ فوجداری(CRPC) قانونِ شہادت اور لوکل اینڈ اسپیشل لا سے مکمل آگاہی ہو۔ اسی مقصد کے لیے ہر پولیس آفیسر کو بھرتی ہونے کے فوراً بعد ایک سال کے لگ بھگ عرصے کے لیے پولیس کالج یا اکیڈمی میں جسمانی تربیت کے ساتھ ساتھ فوجداری قوانین سے روشناس کروایا جاتا ہے۔
ابتدائی تربیت کے بعد اگلا مرحلہ پولیس اسٹیشن میں عملی تربیت کا آتا ہے اس عرصے کو اگر پولیس افسر کے لیے ’میکنگ اینڈ بریکنگ‘ پیریڈ کہا جائے تو بے جا نہ ہو گا۔
ابتدائی تربیت مکمل کرنے والے تمام افسران کو تھانہ جاتی امور کی عملی تربیت کے لیے کسی نہ کسی تھانے میں بطور ٹرینی آفیسر تعینات کیا جاتا ہے۔
میری خوش قسمتی کہ جب میں نے پولیس آفیسر بننے کے بعد جب عملی تربیت کے لیے تھانے کا رخ کیا تو ایسے استاد میسر آئے جن کا نہ صرف اپنی ڈویژن میں بلکہ پوری پنجاب پولیس میں ایک معتبر نام تھا۔ پولیس پریکٹیکل ورکنگ میں سردار غلام مصطفیٰ خان پہوڑ سے زیادہ قابل، ذہین اور محنتی پولیس آفیسر میں نے اپنی پولیس سروس میں نہیں دیکھا۔
جب انہوں نے مجھ سے ’موتیوں والی سرکار‘ والا سوال کیا تو میں تھوڑی دیر گنگ رہا۔ پھر پوچھا، ’سر، میں کچھ سمجھا نہیں؟‘
استاد محترم نے بتایا، ’بہت سے لوگ حادثاتی طور پر پولیس میں بھرتی ہو جاتے ہیں۔ ہماری سوسائٹی وردی کے رعب اور دبدبے کو پسند کرتی ہے، سو حادثاتی طور پر پولیس میں بھرتی ہونے والے افسران نہ تو قوانین سے آگاہی کے خواہاں ہوتے ہیں اور نہ ہی پولیس ورکنگ سیکھنے میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ ان کا مقصد وردی پہننا اور اپنے علاقے میں وردی کی بنیاد پر دھاک بٹھانا ہوتا ہے۔‘
غلام مصطفیٰ نے اپنی بات جاری رکھتے ہوئے کہا، ’پولیس میں ایسے افسران کی کوئی عزت نہیں ہوتی بلکہ ان کا تذکرہ ’موتیوں والی سرکار‘ کہہ کر کیا جاتا ہے۔ دوسری طرف وہ پولیس افسران ہیں جو محنت اور لگن کے ساتھ پولیس ورکنگ سیکھتے ہیں۔ ان کی نہ صرف ان کے ماتحتان بلکہ افسران بھی دل سے عزت کرتے ہیں اور مشکل کیسوں میں ان سے نہ صرف رائے طلب کی جاتی ہے بلکہ ان کی رائے کو اہمیت بھی دی جاتی ہے۔‘
میں نے دست بستہ عرض کی، ’سر، مجھے صحیح معنوں میں پولیس آفیسر بننا ہے اور میں نے ایک مشن کے تحت یہ سروس جوائن کی ہے۔‘
میرے پر اعتماد لہجے کو دیکھ کر استاد محترم نے خوشی کا اظہار کیا اور مجھے وہ ضروری قواعد و ضوابط سمجھائے جن سے روگردانی کا تصور ان کے پاس زانوئے تلمذ تہہ کرنے والے کسی صورت نہیں کر سکتے۔
پہلا حکم یہ ملا کہ اپنا ساز و سامان تھانے کے ایک کمرے میں منتقل کر دیا جائے اور رہائش تھانے کے اندر رکھی جائے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دوسرا حکم یہ تھا کہ ٹھیک نو بجے صبح، باوردی، ہمراہ تفتیشی بیگ، ایس ایچ او کے دفتر میں استاد محترم کے ساتھ والی نشست پر موجودگی کو یقینی بنایا جائے۔
میں نے استاد کی باتوں پر من و عن عمل کیا۔ اگر انہیں سیشن کورٹ یا ڈی پی او آفس نہ جانا ہوتا تو وہ ٹھیک ساڑھے نو بجے تھانہ کے اندر اپنے آفس میں موجود ہوتے۔
معمول یہ تھا کہ استاد محترم اپنے بیگ میں سے زیر تفتیش مقدمات کی امسلا جات (police files) نکالتے اور روزانہ ایک مقدمے کی ضمنیاں (Case Diaries) مجھے لکھوانا شروع کرتے۔
ہر ضمنی میں پہلا فقرہ اکثر اس طرح لکھوایا جاتا: ’من انسپکٹر سردار غلام مصطفیٰ خان پہوڑ دائیں ہاتھ کی انگلی میں درد کی وجہ سے خود لکھنے سے قاصر ہوں، لہٰذا انسپکٹر پروبیشنر /صغیر وٹو کو زبانی بول کر لکھوا رہا ہوں۔‘
اس طرح ہینڈ رائٹنگ کا جو فرق ہوتا، وہ بھی کور ہو جاتا۔
اس طرح وقت گزرتا گیا۔ میں نے کارروائی کے مقدمات (برآمدگی منشیات 3/4۔4/1979 و ناجائز اسلحہ 13/20/1965 سے لے کر قتل 302 تعزیرات پاکستان کے مقدمات تک کے تمام تفتیشی امور اور ضمنیات لکھنا سیکھ لیں۔
استاد محترم کی شفقت کی بدولت میں ہر طرح کے مقدمات میں ایف آئی آر سے لے کر چالان مرتب کرنے تک کئی مشقیں مکمل کر چکا تھا۔
اس جفاکشی اور محنت کا ایک نتیجہ تو یہ نکلا کہ تربیت کی تکمیل کے بعد ہونے والے پولیس پریکٹیکل ورکنگ (PPW) کے تحریری امتحان میں میں ڈھائی سو انسپکٹروں کے بیج میں اول نمبر پر آئے اور ہمیں تعریقی اسناد اور نقد انعام سے نوازا گیا۔
اور دوسرا یہ کہ افسران پولیس ورکنگ کے ساتھ میری دلچسپی اور لگاؤ کو دیکھتے ہوئے ہمیشہ عزت سے نوازتے اور مجھے اکثر بڑے تھانوں میں تعینات کیا جاتا۔
غلطیوں کی بروقت اور بارہا نشاندہی کے باعث ماتحت عملے پر بھی میرا دبدبہ برقرار رہتا۔ ہمارے ساتھی ایس ایچ اوز جب کسی کیس کے سلسلے میں مشورہ کرتے تو ہم قانون اور آئین کی روشنی میں کوشش کرتے کہ انہیں بہتر سے بہتر رہنمائی فراہم کی جائے۔
استاد محترم سردار غلام مصطفٰی خان پہوڑ اعلیٰ تعلیم یافتہ اور انتہائی قابل پولیس آفیسر تھے انہیں نہ صرف پولیس ورکنگ میں مہارت حاصل تھی بلکہ پبلک ڈیلنگ میں بھی وہ ید طولیٰ رکھتے تھے۔ اکثر بہت سنگین اور پیچیدہ معاملات کو بھی پنچایتی انداز میں یوں حل کرتے کہ برسوں کی دشمنیاں دوستیوں میں بدل جاتیں اور دونوں فریقین اپنے اپنے مقدمات سے دستبردار ہو جاتے۔
ہم نے بھی اپنی عملی زندگی میں ان کے نقش قدم پر چلتے ہوئے حتی الوسعیٰ کوشش کی کہ فریقین کو لمبی اور مہنگی مقدمہ بازی میں الجھانے کی بجائے دونوں پارٹیوں (مدعی و مدعا علہہ) کا موقف اطمینان سے سنا جائے اور صلح صفائی کے ذریعے ان کے معاملات کو سلجھانے کی کوشش کی جائے۔
استاد محترم صرف معاملہ فہمی اور پولیس ورکنگ میں ہی چمپیئن نہیں تھے بلکہ انتہا درجے کے دلیر بھی تھے انہوں نے کئی نامی گرامی مجرمان کو بہت دلیری کے ساتھ گرفتار کیا۔
مجھے یاد ہے ریاضا رتھ اور ظہورا رتھ نامی دو بدنام زمانہ ڈاکو، جنہوں نے ملتان پولیس کو کھلم کھلا چیلنج کر رکھا تھا، استاد محترم انہیں پولیس مقابلہ کے بعد گرفتار کر کے بکریوں کی طرح ہانک کر تھانہ لائے۔
بعد ازاں وہی ریاضا اور ظہورا رتھ وہاڑی جیل توڑ کر فرار ہوئے اور پولیس کو تین سال ناکوں چنے چبوانے کے بعد پولیس مقابلے میں جہنم واصل ہوئے۔
2002 کے وسط میں جب میری تعیناتی بطور ایس ایچ او تھانہ سٹی وہاڑی تھی اس وقت استاد محترم میرے سابقہ تھانے گگو منڈی میں بطور ایس ایچ او تعینات تھے اچانک ایک روز مجھے استاد محترم کا فون آیا۔
رسمی دعا سلام کے بعد انہوں نے مجھ سے اس دن کی مصروفیت کی بابت دریافت کیا اور مجھے اولین فرصت میں ملنے کا حکم صادر فرمایا۔
جب استاد محترم کا فون آیا اس وقت دن کے ساڑھے 11 بجے تھے۔ گگو پہنچتے ہوئے مجھے ڈیڑھ گھنٹے کا وقت درکار تھا، اس لیے میں نے ایڈیشنل ایس ایچ او کو ضروری ہدایات دے کر تھانے میں بٹھایا اور خود اللہ کو یاد کر کے گگو کے لیے روانہ ہو گیا۔
تقریباً سوا ایک بجے میں گگو تھانے میں استاد محترم کے کمرے میں موجود تھا۔ استاد محترم نے گاڑی منگوائی اور مجھے ساتھ لے کر بورےوالا ریستوران میں آ گئے۔ استاد محترم نے پرتکلف کھانا کھلایا اور اس کے بعد چائے کا آرڈر دیا۔
مجھے سمجھ نہیں آ رہی تھی کہ استاد محترم نے مجھے اچانک کیوں بلوایا ہے اور اس اچانک ملاقات کے لیے پیچھے کیا محرک ہو سکتا ہے؟ طرح طرح کے سوالات دماغ میں گردش کر رہے تھے
مگر استاد محترم بالکل اصل مدعا کی طرف نہیں آ رہے تھے جس کے باعث میری تشویش بڑھتی جا رہی تھی۔
جب ہم چائے پی چکے تو استاد محترم نے ڈرائیور کو آواز دی اور گاڑی میں سے اپنا تفتیشی بیگ منگوایا اور تفتیشی بیگ میں سے ایک 302 کے مقدمے کی کیس فائل نکالی جس کی تفتیش میں نے کی تھی۔
فورا میرے ذہن میں اس کیس سے متعلقہ سارے واقعات گھوم گئے۔
استاد محترم مسل کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ اچانک انہوں نے سبزی، ٹینڈے ٹماٹر، پیاز کی فرد مقبوضگی والا صفحہ کھول کر میرے سامنے رکھا اور مخاطب ہوئے، ’برخوردار، یہ سبزی کی فرد مقبوضگی آپ نے مرتب کی ہے؟‘
مقدمے کے حالات و واقعات کچھ اس طرح تھے کہ منیر نامی ایک شخص شہر سے سبزی لے کر سائیکل پر اپنے گاؤں 235/EB آ رہا تھا کہ اس کی تاک میں چھپے دو مخالفین نے اس پر لاٹھیوں اور ڈنڈوں سے حملہ کر دیا سر میں چوٹ لگنے کے باعث وہ موقعے پر ہی جاں بحق ہو گیا ۔ ہم نے موقعے پر پہنچ کر مقتول کی سائیکل اور سائیکل کے ہنڈل سے بندھی سبزی کو حسب ضابطہ قبضہ میں لیا اور ان کی فرد مقبوضگی مرتب کی۔
اسی روز ہم نے وقوعہ میں ملوث دونوں ملزمان کو گرفتار کر لیا اور ان سے آلات قتل لاٹھیاں بھی برآمد کر لی تھیں۔
جہاں تک مجھے یاد پڑتا ہے، میں نے اس مقدمے میں ملوث دونوں ملزمان کو مع آلۂ قتل گرفتار کر کے جیل بھجوا دیا تھا، اور اب صرف اس مقدمے کا چالان مرتب کرنا باقی رہتا تھا جو میں اپنے تبادلے کی وجہ سے نہیں کر سکا تھا۔
استاد محترم مسل کی ورق گردانی میں مصروف تھے۔ اچانک انہوں نے سبزی، ٹینڈے ٹماٹر، پیاز کی فرد مقبوضگی والا صفحہ کھول کر میرے سامنے رکھا اور مخاطب ہوئے، ’برخوردار، یہ سبزی کی فرد مقبوضگی آپ نے مرتب کی ہے؟‘
میں نے کہا، ’جی سر۔‘
استاد محترم نے استفسار کیا، ’فرض کرو کہ عدالت میں قتل کے اس مقدمے کی سماعت چھ ماہ کے بعد شروع ہوتی ہے اور تمھیں آٹھ ماہ کے بعد بطور تفتیشی افسر شہادت دینے کے لیے عدالت میں طلب کیا جاتا ہے تو کیا یہ سبزی ٹینڈے ٹماٹر تم عدالت میں پیش کر سکو گے؟‘
مجھ سے کوئی جواب نہیں بن پڑا۔ بات میرے ذہن میں آئی ہی نہیں تھی۔ جب میں کافی دیر خاموش رہا تو استاد محترم نے نہایت محبت سے مجھے سمجھایا کہ ’دیکھو، تفتیش میں معمولی سے معمولی سقم کا فائدہ مجرم کو پہنچتا ہے۔ اگر کسی مقدمے میں ’گلنے سڑنے والی اشیا یعنی سبزی، فروٹ وغیرہ قبضہ میں لینا مقصود ہوں تو فوراً بذریعہ درخواست علاقہ مجسٹریٹ سے ان گلنے سڑنے والی اشیا کی تلفی کے آرڈرز کروائے جاتے ہیں تاکہ کل کلاں آپ کو پریشانی کا سامنا نہ ہو۔‘
اس کے ساتھ ہی استاد محترم نے پہلے سے لکھی ہوئی ایک درخواست بنام علاقہ مجسٹریٹ برائے تلفی سبزی وغیرہ مال مقدمہ، دستخط کے لیے میرے سامنے رکھی۔ میں نے درخواست دستخط کر کے استاد محترم کے حوالے کی جس پر انہوں نے علاقہ مجسٹریٹ سے تلفی کے آرڈرز بھی کروا لیے۔
مجھے شرمندگی محسوس ہو رہی تھی کہ میں جو اپنے تئیں بہت بڑا تفتیشی بنا پھرتا تھا، اپنی تفتیش میں کتنا بڑا سقم چھوڑ آیا تھا۔
دوسرے لمحے میں اللہ کی کرم نوازی پر سربسجود تھا کہ اس نے سردار غلام مصطفی خان پہوڑ جیسے قابل اساتذہ کی صحبت سے مجھے نوازا۔
ایک سال کے بعد جب اس قتل کے مقدمے میں ایڈیشنل اسیشن جج بورےوالا کی عدالت میں مجھے شہادت کے لیے طلب کیا گیا تو ملزمان کے وکیل نے سب سے پہلا سوال اس قبضہ میں لی گئی سبزی کے بارے میں کیا۔ میں نے عدالت کی توجہ صفحہ مسل پر موجود، سبزی فروش کے بیان اور مجسٹریٹ کی جانب سے سبزی کی تلفی کے آرڈرز کی جانب دلائی۔ تمام شہادتوں کو اس طرح قلمبند کیا گیا تھا کہ عدالت نے تمام گواہوں اور شہادتوں کو پیش نظر رکھتے ہوئے ملزمان کو سزائے موت دیے جانے کے احکامات دیے۔
استاد محترم سردار غلام مصطفی خان پہوڑ، اپنی مدت ملازمت مکمل کر کے ایس ایس پی کے عہدہ سے ریٹائر ہوئے اور آج کل وکالت کے پیشے سے منسوب ہیں۔ میں ان کی صحت اور درازیِ عمر کے لیے دعا گو ہوں
میں اس موقعے پر پولیس جوائن کرنے والے نوجوانوں کو ضرور یہ کہنا چاہوں گا کہ اگر وہ ’موتیوں والی سرکار‘ کے خطاب سے بچنا چاہتے ہیں اور صحیح معنوں میں پولیس آفیسر بن کر ملک و قوم کی خدمت کرنا چاہتے ہیں تو محنت اور لگن کے ساتھ پولیس ورکنگ سیکھیں۔