کراچی جیسا شہر، جہاں پورے ملک کے لوگ آباد ہیں اور جہاں درجنوں زبانیں بولی جاتی ہیں وہاں مختلف زبانیں بولنے والے لڑکے لڑکی کا ایک دوسرے سے شادی کرنا کوئی غیر معمولی بات نہیں۔
لیکن 90 کی دہائی کے آخر میں دو مختلف پس منظر سے تعلق رکھنے والے بظاہر عام سے لڑکا لڑکی کی داستانِ محبت نے پورے کراچی کو ٹھپ کر کے رکھ دیا تھا۔
اس دوران ملک کی دو بڑی سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے مدِ مقابل آ گئیں اور پورا شہر ہل کر رہ گیا۔ مظاہرے، جلاؤ گھیراؤ، آنسو گیس، اور تشدد کے واقعات میں کئی لوگ اپنی جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
اس واقعے کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنی گئی۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے انہیں رومیو جولیٹ کا نام دیا۔ اس واقعے میں عوامی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ اخباروں نے ’کراچی کے رومیو جولیٹ‘ کی محبت بھری کہانی پر خصوصی ایڈیشن شائع کرنا شروع کر دیے اور لوگ اس واقعے کی چھوٹی سے چھوٹی تفصیل کا بے تابی سے انتظار کیا کرتے تھے۔
کیسا تھا 90 کی دہائی کا کراچی؟
آئے روز ہڑتالیں، قتل و غارت، پولیس و رینجرز کے آپریشنز سب ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھے ہیں۔ ناظم آباد کے علاقے میں خیال میڈیکل سٹور کے مالک کو دن دہاڑے گولیاں مار کے قتل کیا گیا۔ وہ میڈیکل سٹور ہمارے گھر سے بس چند فرلانگ کے فاصلے پر تھا۔
ہماری گلی کے نکڑ پر سبحان بیکری تھی۔ ایرانی نژاد بھائیوں کی اس بیکری سے ہم اکثر اپنے پاپا کے ساتھ خستہ نمکین بسکٹ خریدنے جاتے تھے، ایک دن سکول سے واپسی پر گلی میں رینجرز کا رش دیکھا تو پتہ چلا بیکری مالکان کو گولیاں مار کے قتل کر گیا ہے۔
حکیم محمد سعید جو پوری قوم کے محسن تو تھے ہی، ہم بچے جو ان کی نونہال اسمبلی میں مقررین کی حیثیت سے جاتے، ہم سے وہ بے حد شفقت سے پیش آتے تھے۔ 17 اکتوبر 1998 کو ایک روز سکول سے واپسی پراخبار والے کی صدا سنی حکیم سعید کو قتل کر دیا گیا ہے۔ اس وقت ہمارا دل بھی کیسا خون کے آنسو رویا تھا۔
لیکن اتنی ہولناک یادوں میں ایک یاد ایسی تھی جسے ہم ہی نہیں کوئی کراچی والا کبھی بھول نہیں سکے گا۔ اس کہانی کی ابتدا تو ہولناک ہی تھی لیکن اختتام ایسا کہ آپ ہیر رانجھا اور رومیو جولیٹ کی کہانی بھول جائیں گے۔
دن تو یاد نہیں، لیکن سال 1998 کا تھا۔ ایک روز ابھی ہم سکول سے واپس گھر پہنچے ہی تھے کہ سب سے بڑی بہن نے دروازے پر ہی پکڑ لیا۔ آرڈر دیا، جلدی سے جاؤ اخبار خرید لاؤ۔ ہم حیران ہوئے کیونکہ کچھ ہو جائے ہمارے گھر اخبار تو روز آتا ہی تھا وہ بھی ایک نہیں بلکہ دو دو۔ لیکن وہ مصر تھیں کہ انہیں دن میں نکلنےوالا قومی اخبار پڑھنا ہے۔
ہمارا انکار اور ان کا اصرار بڑھتا گیا۔ تنگ آ کر کہا، ’دن کے اخبار میں ایسا کیا آیا ہے جو صبح کے اخبار میں نہیں آیا؟‘
اب ان کی آنکھوں میں سچ مچ آنسو تھے۔ بولیں، ’ابھی اخبار والا آواز لگاتا ہوا گیا ہے کنور احسن کو کسی نے گولی مار دی۔‘
کنور صاحب کے حدود اربعہ سے تو ہم واقف نہیں تھے لیکن بڑی بہن کے آنسو اور 10 روپے کی رشوت کے عوض انہیں اخبار لا کر دیا اور یہیں سے کنور اور رفعت کی کہانی میں ہمیں بھی دلچسپی پیدا ہو گئی۔
سخت گیر پختون گھرانے کی بیٹی 18 سالہ رفعت آفریدی اور مہاجر خاندان کے 30 سالہ کنور احسن کی لازوال محبت 1998 میں کراچی میں شدید سیاسی منافرت اور ہنگاموں کی وجہ بنی تھی۔
1985 میں بشریٰ زیدی کیس کے بعد مہاجروں کی نمائندہ جماعت ایم کیو ایم اورپختونوں کی بات کرنے والی اے این پی کے درمیان نفرتوں کی دیوار پہلے ہی موجود تھی۔ ایسے میں احسن اور رفعت کا معاملہ لسانی سے زیادہ سلگتا ہوا سیاسی ایشو بن گیا۔
ایک طرف ایم کیو ایم کے رکن قومی اسمبلی کنور خالد یونس کنور احسن کے سگے ماموں زاد بھائی تھے، تو آفریدی قبیلے کو عوامی نیشنل پارٹی کے مقامی رہنماؤں کی کھلی حمایت حاصل تھی۔ بشریٰ زیدی کیس کی طرح احسن اور رفعت کا کیس کراچی میں ایک بار پھرمہاجر پختون ہنگاموں کی چنگاری بن گیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رفعت اور احسن کون تھے؟
نارتھ ناظم آباد کا علاقہ حسین ڈی سلوا کالونی ہے جو کسی زمانےمیں بڑاخوبصورت علاقہ ہوتا تھا جہاں عموماً پڑھی لکھی مہاجر آبادی رہائش پذیر تھی۔ لیکن 80 کی دہائی سے کراچی کا رخ کرنے والی پختون آبادی نے اسی پہاڑی علاقے میں کچی آبادیاں بسانی شروع کر دیں۔ رفعت آفریدی کا تعلق بھی ایک ایسے ہی قبائلی خاندان سے تھا جس نے کراچی ہجرت کی اور حسین ڈی سلوا کالونی کی کچی آبادی میں رہائش اختیار کی۔
خاندان کی مالی حیثیت مستحکم تھی۔ یہاں قریب ہی بڑے سے گھر میں کنور احسن کا گھرانہ بھی رہائش پذیر تھا۔ دونوں خاندان کئی دہائیوں سے ایک دوسرے کو جانتے تھے، اور ان کا آپس میں میل جول بھی تھا۔ کنور کے والدین فوت ہو چکے تھے۔ وہ اپنے گھر میں سب سے چھوٹے تھے۔ ان کے تمام بہن بھائی شادی شدہ تھے اور چند ایک بیرون ملک رہائش پذیر تھے۔
خود احسن لمبے عرصے تک اپنی بہن کے پاس امریکہ میں مقیم رہے لیکن اچانک کراچی واپس آ گئے۔ یہ واپسی رفعت کی خاطر تھی۔ رفعت اور احسن کے درمیان کب پیار کی پینگیں بڑھیں کسی کو کانوں کان خبر نہیں ہوئی۔
احسن اور رفعت کی لو سٹوری
جس زمانے میں احسن امریکہ میں مقیم تھے تو اپنی ساری کمائی رفعت کو ٹیلی فون کرنے میں خرچ کر دیتے تھے۔ رفعت کے بقول، ’روزانہ ٹیلی فون پر بات چیت کےدوران کبھی احسن ناراض ہو جاتے تو میں فون کا ریسیور نیچے رکھ کر سو جاتی تھی۔ صبح ہوتی تو وہ سب کچھ بھول چکا ہوتا تھا۔‘
رفعت کے لیے مہنگے مہنگے تحفے لینا احسن کا محبوب مشغلہ تھا۔ انہوں نے اپنی بہن کے ذریعے رفعت کو ہیرے کی انگوٹھی بھجوائی تھی۔
احسن کے گھر والے اس کی پسند سے بخوبی آگاہ تھے، لیکن وہ آفریدی قبیلے کی دشمنیوں کو بھی جانتے تھے۔ احسن کی ضد پر گھر والے رفعت کا رشتہ لینے گئے تو معاملہ بگڑ گیا۔ رفعت کے گھروالوں نے بےعزت کرکے انہیں گھر سے نکال دیا۔
رشتے سے انکار پر احسن کے بہن بھائیوں نے بھی اس کو رفعت سے شادی سے منع کر دیا کیونکہ وہ احسن کی جان کو خطرے میں ڈالنا نہیں چاہتے تھے۔
احسن کے پاس اتنے پیسے بھی نہیں تھے کہ وہ اپنی مرضی سے نکاح کے انتظامات کر سکتے تھے لیکن رفعت اور احسن کے دل ایک ساتھ دھڑک رہے تھے۔ انہوں نے طے کر لیا تھا چاہے قیامت آ جائے اپنی محبت سے پیچھے نہیں ہٹیں گے۔
رفعت کے لیے اپنے ہی گھر میں رہنا مشکل ہو گیا۔ باپ بھائی اور بھابھیوں نے مارپیٹ شروع کر دی۔ رفعت کے بقول بھائیوں نے اس کے چہرے کو داغدار کرنے کی کوشش کی اور اس کے چہرے پرکوئی دوا پھینک دی۔
جب حالات برداشت سے باہر ہوئے تو رفعت کے اصرار پر احسن ایک بار پھر اس کے والدین کے پاس پہنچے۔ معافی مانگتے ہوئے کہا، ’مجھے معاف کر دیں یا جان سے ماردیں۔ میں آپ سے کوئی شکوہ نہیں کروں گا۔‘
مگر حالات بہتر تو کیا ہوتے احسن کو جان سے مارنے کی دھمکیوں کے ساتھ گھر سے نکال دیا گیا۔
یہ فیصلہ کن وقت تھا۔ کنور اور رفعت نے گھر سے بھاگ کر شادی کا فیصلہ کر لیا۔ احسن کے گھر والے رفعت کو پسند کرتے تھے لیکن اس شادی کے ممکنہ نتائج سے بھی واقف تھے۔ انہوں نے شادی کے معاملے میں احسن کی کوئی مدد نہیں کی۔
رفعت کی محبت میں احسن اپنے آپ کو بالکل بدل چکے تھے۔ فلموں، گانوں اور ڈانس کے شوقین احسن نے رفعت کے کہنے پر سارے شوق ترک کر دیےاور پکے نمازی ہو گئے۔ امریکہ میں بسی بسائی زندگی چھوڑ کر رفعت کی خاطر واپس پاکستان آگئے۔
رشتے کی بات چھیڑی تو آفریدی قبیلہ ان کے خون کا پیاسا بن گیا۔ لیکن احسن ذرا نہ گھبرائے۔ یہی نہیں بلکہ رفعت کے بقول ان کے کہنے پر نسوار بھی کھانی شروع کر دی۔ اتنی قربانیوں کے بعد رفعت احسن کی سچی محبت میں گرفتار بھی نہ ہوتیں، ایسا کیسے ہو سکتا تھا۔
فرار، نکاح اور گرفتاری
دو فروری 1998 کو دونوں گھر سے فرار ہو گئے۔ ٹرین میں سیٹ نہ ملی تو انہوں نے دروازے کے پاس فرش پر چادر بچھا لی۔ ایک خدا ترس شخص نے اپنی سیٹ رفعت کو دی اور وہ خود احسن کے پاس نیچے بیٹھ گیا۔ ان کا پہلا پڑاؤ ملتان تھا، جہاں شجاع آباد میں کنور کے راجپوت قبیلے لوگ آباد تھے، ان لوگوں کے تعاون سے دونوں کا نکاح ہوا۔ وکیل اور گواہان میں کنور قبیلے کے لوگوں کے نام درج تھے۔ مہر کی رقم 500 روپے مقرر ہوئی۔
فرار کے اگلے ہی روز تین فروری کو رفعت کے گھر والوں نے نارتھ ناظم آباد تھانے میں احسن کے خلاف ساتھیوں سمیت رفعت کے اغوا کا پرچہ دائر کر دیا۔
ادھر عدالتی حکم پر پولیس پارٹی آفریدی قبیلے کے چار سرکردہ افراد کے ساتھ ملتان میں دونوں پریمیوں کی بو سونگھتی پھر رہی تھی۔ نکاح کے بعد دونوں راولپنڈی فرار ہو گئے اور مسلم ٹاؤن کے ایک گھر میں رہائش اختیار کی۔
رفعت نے پنڈی میں اوتھ کمشنر کو بیان حلفی جمع کرایا جس میں رفعت نے لکھا کہ ’والدین اس کی مرضی کے خلاف ایک بوڑھے سے اس کا رشتہ کرا رہے تھے، لیکن انہوں نے اپنی پسند سے احسن سے شادی کی ہے۔
ادھر کراچی میں واقعے نے آگ لگا دی تھی۔ پرتشدد واقعات میں دو شہری جان سے ہاتھ دھو بیٹھے تھے۔ بالآخر پولیس پارٹی نے احسن کو راولپنڈی میں وکیل کے دفتر سے گرفتار کر لیا۔ رفعت کو بھی گرفتار کر کے کراچی لایا گیا۔
جس وقت احسن سی آئی اے سینٹر میں بند تھے، ایک پولیس افسر نے کہا، ’اگر لڑکی نے تمہارے خلاف بیان دیا تو تمہاری زندگی عذاب بن جائے گی۔‘
احسن نے جواب دیا، ’جاؤ، اسے لے آؤ میں دعوے سے کہتا ہوں وہ یہی کہے گی میں احسن کی بیوی ہوں۔ جو میں کہہ رہا ہوں وہ بھی یہی کہے گی۔‘
احسن کا یقین سچ ثابت ہوا۔ رفعت نے عدالت کے روبرو احسن کے حق میں بیان دیا۔ یوں دونوں کی رہائی کا پروانہ ابھی جاری بھی نہ ہوا تھا کہ رفعت کے گھروالوں نے ایک نیا شوشہ چھوڑ دیا۔ وہ رفعت کے مبینہ شوہر کو سامنے لے آئے۔
نیازبت خان نامی شخص کا دعویٰ تھا کہ رفعت اس کی منکوحہ ہے اور نکاح پر نکاح کر کے احسن اور رفعت نے غیر قانونی اور غیر شرعی کام کیا ہے۔ عدالت میں نیازبت اور رفعت کا نکاح نامہ بھی پیش کر دیا گیا۔
رفعت اور احسن کی مشکلات میں اضافہ ہو گیا۔ مزید کئی پیشیوں پر ثابت ہو گیا کہ رفعت کے گھر والوں نے صرف دشمنی میں رفعت کا جھوٹا نکاح نامہ پیش کیا تھا۔ آفریدی گھرانے کو اپنی شکست سامنے نظر آنے لگی، تو انہوں نے اس بار رفعت اور احسن کو ٹھکانے لگانے کی ٹھانی۔
عدالت کے اندر قاتلانہ حملہ
مارچ کے پہلے ہفتے میں جوڈیشیل مجسٹریٹ، سٹی کورٹ میں کیس کی سماعت تھی۔ قتل کی دھمکیوں کے باوجود کنور احسن کے لیے حفاظتی انتطامات میں غفلت برتی گئی۔ احسن کے ہاتھوں میں ہتھکڑیاں بندھی تھیں اورصرف دو اہلکار اس کے ساتھ تھے۔
دوسری منزل پر رفعت کا مبینہ شوہر، باپ اور بھائی احسن پر قاتلانہ حملہ کرنے کے لیے پستولیں تھامے کھڑے تھے۔ جیسے ہی پولیس اہلکاراحسن کو لے کر وہاں پہنچے تو اس پر گولیاں برسادی گئیں۔ سینے پر گولیاں لگتے ہی احسن نیچے گر پڑے۔
اخباری رپورٹوں کے مطابق حملہ ہوتے ہی دونوں اہلکار احسن کو چھوڑکر قریبی کمروں میں چھپ گئے۔ اپنی دانست میں احسن کا کام تمام کرتے ہی حملہ آور جیسے ہی باہر بھاگے تو کمروں میں چھپ جانے والے پولیس اہلکار باہر نکل آئے۔ بجائے شدید زخمی احسن کو فوری طور پر اسپتال پہچانے کے اہلکاروں نے شدید ہوائی فائرنگ اور آنسو گیس شیلنگ شروع کر دی۔ احاطہ عدالت میدان جنگ بن گیا۔
پولیس نے حملے کے الزام میں رفعت کے والد، بھائی اور مبینہ شوہر کو گرفتار کر لیا۔ یہ کارروائی نصف گھنٹہ جاری رہی۔ سٹی کورٹ کے بالکل ساتھ سول اسپتال تھا، اس کے باوجود احسن کو 35 منٹ بعد کہیں جا کر ہسپتال پہنچایا جا سکا۔ فوری آپریشن کے بعد سینے، پیٹ اور ٹانگوں سے گولیاں نکال دی گئیں۔ احسن پر قریب سے گولیاں برسائی گئیں تھیں، لیکن جسے اللہ رکھے اسے کون چکھے، وہ بچ گئے۔ ڈاکٹروں نے احسن کی نئی زندگی کو ایک معجزہ قرار دیا۔
احسن نے بتایا، ’جب گولیاں لگیں تو پولیس والے نے مجھے کلمہ پڑھنے کو کہا۔ مجھے لگ رہا تھا کہ اب میں نہیں بچوں گا۔ اس کے بعد مجھے بس اتنا یاد ہے کہ ایک پولیس والا مجھے ہتھکڑیوں سمیت گھسیٹ رہا تھا۔ اور کرسی پر بیٹھے میرے سسر میری حالت پر قہقہے لگا رہے تھے۔ میں جانتا تھا یہ اپنی ضد کی خاطر اپنی بیٹی کو بھی مروا سکتے ہیں۔ لیکن اللہ کے فضل سے یہ ہمارا کچھ نہیں بگاڑ سکے۔‘
محبوب شوہر پر سنگدلانہ حملے نے رفعت کو حواس باختہ کر دیا۔ رفعت کا کہنا تھا، ’احسن نے میرے لیے اپنی جان خطرے میں ڈالی۔ میری رگوں میں بھی پٹھان خون دوڑ رہا ہے، اگر وہ لوگ مارنے سے نہیں ڈرتے تو میں بھی مرنے سے نہیں ڈرتی نہ کچھ کر گزرنے سے اب مجھے موت کا خوف نہیں۔ میں صرف کنور کی ہوں۔ اس نے مجھے بیوی بنا کر عزت و احترام دیا۔‘
احسن پر قاتلانہ حملے نے پورے شہر کو ہلا کر رکھ دیا۔ واقعے کی گونج عالمی میڈیا میں بھی سنی گئی۔ غیر ملکی ذرائع ابلاغ نے انہیں رومیو جولیٹ کا نام دیا۔ اس واقعے میں عوامی دلچسپی کا عالم یہ تھا کہ اخباروں نے ’کراچی کے رومیو جولیٹ‘ کی محبت بھری کہانی پر خصوصی ایڈیشنز شائع کیے۔
احسن کی صحت یابی کے لیے شہر کے گھر گھر میں دعائیں کی گئیں۔ قاتلانہ حملوں کا خطرہ ابھی ٹلا نہیں تھا۔ رفعت کے گھروالے اب بھی چین سے نہیں بیٹھے تھے اس لیے چند ماہ کی کوششوں کے بعد انہیں ایک یورپی ملک میں پناہ مل گئی اور محبت کرنے والا یہ جوڑا چین کی زندگی گزارنے کے لیے دور دیس جا بسا۔
احسن اور رفعت کی محبت کیا آج بھی قائم ہے؟
احسن کے خاندان کے ایک فرد نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کر کے ان کی موجودہ زندگی کے بارے میں بتایا۔ تاہم ان کی درخواست پر نام ظاہر نہیں کیا جا رہا کیوں کہ ان کا کہنا تھا کہ پورے خاندان نے اس واقعے کے بعد سماج سے لے کر ملازمت تک بہت پریشانیاں جھیلی ہیں۔ ان ہی نے احسن اور فرحت کی تصاویر بھی فراہم کیں۔
تاہم احسن اور فرحت کی شناخت ظاہر ہو جانے کے خدشے کے پیشِ نظر نئی تصویریں نہیں دیں۔
خاندان کے فرد کے مطابق دنیا سے جنگ کر کے جان کی بازی لگا کر عشق کرنے والے احسن اور رفعت آج ایک خوشگوار زندگی بسر کر رہے ہیں۔ چھ بیٹوں اور چار بیٹیوں کے والدین احسن اور رفعت ایک دوسرے کے ساتھ بہت خوش ہیں۔ 10 بچوں میں سے سب سے بڑی بیٹی سال 2000 میں پیدا ہوئی جواب یونیورسٹی کی طالبہ ہے۔ دیگر تمام بچے سکول میں زیر تعلیم ہیں۔ سب سے چھوٹا بچہ ابھی بہت چھوٹا ہے۔
احسن نے دنیا سے لڑ کر اپنی محبت تو حاصل کر لی، لیکن اس کی بھاری قیمت ادا کی ہے۔ قاتلانہ حملے میں ان کی ٹانگ پر گولیاں کچھ ایسے زاویے سے لگیں تھیں کہ وہ آج بھی لنگڑا کر چلنے پر مجبور ہیں۔ متاثرہ ٹانگ کو وہ آج 23 سال بعد بھی اوپر اٹھا سکتے ہیں نہ ہی اس پر بوجھ ڈال سکتے ہیں۔ وہ آج بھی چلنے کے لیے خصوصی جوتوں کا استعمال کرتے ہیں۔
یہی نہیں، نسل در نسل دشمنی کا عہد انہیں آج بھی اپنے خاندان کی حفاظت کے لیے پس پردہ رہنے پر مجبور کیے ہوئے ہے۔