زندگی کی بڑی لذتوں میں سے ایک چینی کی مٹھاس ہے۔ چینی سے محبت لوگوں کے اندر اس قدر رچ بس چکی ہے کہ خوراک تیار کرنے والی کمپنیاں تقریباً اپنی سب مصنوعات میں چینی شامل کر کے صارفین کو اپنی جانب راغب کرتی ہیں۔
کیک، بسکٹ، چاکلیٹ، جوس وغیرہ میں تو چینی کے استعمال کا سبھی کو پتہ ہے مگر کم لوگ جانتے ہوں گے کہ غذائی مصنوعات بنانے والی کمپنیاں ایسی چیزوں میں بھی چینی ڈالتی ہیں جو عام طور پر میٹھی نہیں سمجھی جاتیں۔ ان میں کیچپ، فروٹ سنیکس، ناشتے کا سیریئل اور صحت مند سمجھی جانے والی قدرتی غذائیں بھی شامل ہیں۔ حتیٰ کہ فرینچ فرائز میں بھی چینی ڈالی جاتی ہے جس کی وجہ ذائقے کے علاوہ یہ بھی ہے کہ ایسا کرنے سے فرائز میں کرکرا پن پیدا ہو جاتا ہے، مزید یہ کہ وہ آپس میں چپکتے نہیں۔
مغربی ملکوں میں سکول کے بچے کنڈرگارٹن کے ابتدائی دنوں ہی میں جان لیتے ہیں کہ میٹھے کھانے خوراک کی تکون (food pyramid) میں سب سے چھوٹے حصے کے اندر ہوتے ہیں اور بالغ افراد غیر ضروری وزن بڑھانے میں چینی کے منفی کردار سے متعلق میڈیا سے سیکھتے ہیں۔
چینی ایک ایسی چیز ہے کہ دماغ کا ایک حصہ اس کے نقصان دہ اثرات کی وجہ سے اسے حقارت سے دیکھتا ہے، لیکن دوسرا حصہ بیک وقت اس کی طرف مقناطیس کی طرح کھنچا چلا جاتا ہے۔ اس کی وجہ کیا ہے اور انسان اس اس مخمصے میں کیسے گرفتار ہوا؟
میں ایک ماہر بشریات ہوں۔ میری تحقیق کا دائرہ اس بات کے گرد گھومتا ہے کہ انسانوں میں ذائقے کا ارتقا کس طرح ہوا۔ مجھے یقین ہے کہ انسانی نسل کی ارتقائی تاریخ میں گہرائی سے جھانکنے سے اس بارے میں اہم اشارے فراہم ہو سکتے ہیں کہ میٹھے کے خلاف مزاحمت کرنا اتنا مشکل کیوں ہے۔
میٹھے کا سراغ لگانے کی صلاحیت
جب ہمارے ہمارے قدیم آبا و اجداد غاروں میں رہتے تھے اس وقت ان کے لیے سب سے مرکزی اور سب سے بنیادی چیلنج یہ تھا کہ دن بھر میں اتنی خوراک جمع کر لی جائے جس سے بھوک مٹائی جا سکے۔
بچوں کی پرورش، سر چھپانے کے لیے ٹھکانے کی تلاش، مناسب مقدار میں خوراک اکٹھی کرنے اور اس طرح کی دوسری روزمرہ سرگرمیوں کے لیے انہیں کیلوریز کی شکل میں توانائی درکار ہوتی تھی۔ جو ماہر افراد کیلوریز کی زیادہ مقدار حاصل کر لیتے وہ ان تمام سرگرمیوں میں زیادہ کامیاب ٹھہرتے۔ ایسے کامیاب افراد دوسروں کی نسبت زیادہ لمبا عرصہ جیتے تھے اور ان کے بچے بھی نسبتاً بڑی تعداد میں قبل از وقت موت کے منہ میں جانے سے بچ نکلتے تھے۔ یعنی ارتقائی نقطہ نظر سے ان کی فٹنس زیادہ بہتر تھی۔
اس زمانے کی بےحد مشکل روزمرہ زندگی کا سفر کامیابی سے طے کرنے اور آگے بڑھنے میں ایک عنصر یہ بھی تھا کہ کوئی انسان خوراک کا سراغ لگانے میں کتنا تیز ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر کوئی انسان میٹھی چیزوں کا سراغ لگانے میں دوسرے انسانوں سے زیادہ تیز ہے تو اس کی یہ صلاحیت اسے قبیلے کے دوسرے افراد پر برتری عطا کر سکتی تھی۔
قدرتی اشیا میں مٹھاس اس بات کی علامت ہے کہ ان میں شوگرز موجود ہیں جو کیلوریز یعنی توانائی کا بہترین ذریعہ ہیں۔ یاد رہے کہ شوگرز ایک کیمیائی گروپ کا نام ہے جس میں گھریلو چینی (جسے سوکروز کہتے ہیں) کے علاوہ گلوکوز، فرکٹوز اور دوسرے کیمیکل شامل ہیں۔ سو جو انسان میٹھی اشیا کا پتہ چلا لیتا تھا اسے فوری توانائی فراہم کرنے والے پودوں اور پھلوں جیسے غذائی اجزا تک رسائی مل جاتی تھی۔
اس صلاحیت نے انہیں خوراک جمع کرنے، اسے صاف کرنے اور پھر کھانے کے پرمشقت عمل سے پہلے چکھ کر اس بات کا اندازہ لگانے کا موقع فراہم کیا کہ اس میں کس قدر کیلوریز ہوں گی۔ چکھ کر مٹھاس کا پتہ لگا پانے سے ابتدائی انسان کم محنت سے کافی مقدار میں کیلوریز جمع کرنے کے قابل ہوئے۔ جو چیز بھی سامنے آئے اسے اٹھا کر ذخیرہ کرنے کے بجائے انہوں نے مخصوص طرز کی خوراک پر نظر رکھی اور اپنے ارتقائی سفر کو بہتر بنایا۔
مٹھاس کا ادراک ہمارے جینز میں شامل ہے
مٹھاس کا پتہ لگانے کی صلاحیت کس قدر اہم ہے، اس کا جواب حیاتیات کی بنیادی ترین سطح یعنی جین سے معلوم ہوتا ہے۔ انسانوں میں مٹھاس کا ادراک کرنے کی صلاحیت اتفاقی نہیں بلکہ یہ جسم کے جینیاتی بلیو پرنٹس پر نقش ہے۔ آئیے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ یہ حس کیسے کام کرتی ہے۔
مٹھاس کا احساس زبان کی سطح کے بالکل ہی ساتھ نیچے خلیوں کے مخصوص جھرمٹ سے شروع ہوتا ہے۔ ان خلیوں کے بعد منہ کے اندر چھوٹے سوراخ ہوتے ہیں جنہیںtaste pores کہتے ہیں۔
ذائقے کے مخصوص مقام پر مختلف خلیے مزید چھوٹی اکائیوں میں تقسیم ہوتے ہیں جن میں سے ہر ایک اپنے مخصوص ذائقے پر ہی ردعمل ظاہر کرتا ہے: ترش، نمکین، لذیذ، کڑوا یا میٹھا۔ یہ ذیلی اقسام ان کے ذائقے کی خصوصیات کے مطابق ریسیپٹر پروٹینreceptor proteins) ) پیدا کرتی ہیں جو غذا منہ میں آتے ہی کھانے کی کیمیائی ساخت کو محسوس کر لیتی ہیں۔
ایک ذیلی قسم تلخ ریسیپٹر پروٹین تیار کرتی ہے جو زہریلے مواد کا ادراک کرتی ہے۔ عام لوگ میٹھا، کڑوا، نمکین اور کھٹا جیسے ذائقوں سے واقف ہیں، لیکن حال ہی میں ایک پانچواں ذائقہ بھی دریافت ہوا ہے جسے امامی umami کہا جاتا ہے۔ یہ تمام ذائقے منہ کے اندر موجود ذائقے کی پروٹین محسوس کرتی ہیں اور ان کا پتہ چلا کر اعصاب کی مدد سے دماغ کو سگنل بھیج دیتی ہیں جس سے دماغ اس ذائقے کا احساس دلاتا ہے۔ جب آپ کھائے گئے کھانے میں مٹھاس محسوس کرتے ہیں وہ دراصل یہی اعصابی پیغام ہی ہوتا ہے جو آپ کے منہ میں موجود پروٹین نے دماغ کو بھیجا ہوتا ہے۔
اب یہ ذائقوں کے سگنل بھیجنے والی پروٹین کہاں سے آتی ہیں؟ ان پروٹینز کے بنانے کا کوڈ جین کے اندر موجود ہوتا ہے، اور جین ہی جسم کو بتاتا ہے کہ فلاں پروٹین تیار کی جائے۔ دو جین ایسے ہیں جن میں میٹھے ذائقے والی ریسپٹیر پروٹین کا کوڈ ہوتا ہے۔ ان کے نام ہیں ’تاثیر 2‘ اور ’تاثیر 3۔‘ اگر آپ یہ نام سن کر حیران ہو گئے ہوں تو گھبرائیے نہیں، ہم نے آپ کی آسانی کے لیے سمجھنے کی خاطر TAS1R2 اور TAS1R3 کو تاثیر 2 اور تاثیر 3 کا نام دے دیا ہے۔
کیا یہ دو جین صرف انسانوں میں ہوتے ہیں؟ اس کا جواب ہے، نہیں۔
جانوروں کے ڈی این اے کے مشاہدے سے پتہ چلتا ہے کہ ریڑھ کی ہڈی والے بیشتر جانوروں میں یہ جینز پائے جاتے ہیں، جیسے بندر، گائے، چوہے، کتے، چمگادڑ، چھپکلی، پانڈا، مچھلی اور بے شمار دیگر جانوروں میں بھی موجود ہیں۔ یہ دونوں جینز کا ارتقا کروڑوں برس کے دوران ہوا ہے اور جب سے بنی نوع انسان وجود میں آئی ہے، یہ جینز پہلے ہی سے موجود تھے جو انسان کو ورثے میں ملے۔
طویل مدت سے جینیاتی ماہرین اس حقیقت سے آگاہ ہیں کہ اہم افعال کے حامل جینز فطری انتخاب کے ذریعے برقرار رہتے ہیں جبکہ وہ جینز جو ارتقائی عمل میں کوئی اہم کردار ادا نہیں کر رہے ہوتے وہ وقت کے ساتھ ساتھ زوال پذیر ہو جاتے ہیں اور بعض اوقات انواع کے ارتقا کے ساتھ مکمل طور پر معدوم ہو جاتے ہیں۔
سائنس دان اسے ارتقائی جینیات کے نظریے ’استعمال کرو، یا کھو دو‘ یعنیuse it or lose it کے آئینے میں دیکھتے ہیں۔ تاثیر 1 اور تاثیر 2 جینز کی بہت سی انواع کے اندر موجودگی ان فوائد پر مہر تصدیق ثبت کرتی ہے جو مٹھاس کے ذائقے نے کئی زمانوں سے فراہم کیے۔ یعنی یہ جین فائدہ مند تھے تبھی کروڑوں برس سے استعمال ہو رہے ہیں۔ اگر ان کا فائدہ نہ ہوتا تو دسیوں کروڑ برس کے ارتقائی سفر میں یہ کب کے معدوم ہو چکے ہوتے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
’استعمال کرو یا کھو دو‘ کا نظریہ اس قابل ذکر ارتقائی عمل کی بھی وضاحت پیش کرتا ہے کہ جانوروں کی وہ انواع جو اپنی مخصوص خوراک میں میٹھے کا استعمال نہیں کرتیں وہ اس کا ادراک کرنے کی صلاحیت کھو چکی ہیں۔ مثال کے طور پر بہت سے گوشت خور جو مٹھاس کے فہم و ادراک سے بہت کم فائدہ اٹھاتے ہیں ان میں فقط TAS1R2 کے کچھ بچے کھچے آثار موجود ہیں۔
میٹھے کی طرف لپکنا
جسم کا حسیاتی نظام روشنی سے لے کر گرمی اور کسی چیز کی بو تک ماحول کے بے شمار پہلوؤں کا ادراک کرتا ہے، لیکن ہم ان سب کی طرف یوں نہیں لپکتے جیسے مٹھاس کی طرف لپکتے ہیں۔
ایک بہترین مثال ایک دوسرے ذائقے کڑواہٹ کی پیش کی جا سکتی ہے۔ خوراک میں پسندیدہ مادوں کا پتہ لگانے والے میٹھے ریسیپٹرز کے برعکس تلخ ریسیپٹرز ناپسندیدہ چیزوں کا پتہ لگاتے ہیں۔ یعنی کڑوا ذائقہ زہریلی چیزوں کا پتہ چلانے میں مدد دیتا ہے۔ دماغ یہ ذائقہ محسوس کر کے اس کے مطابق ردعمل دیتا ہے۔ میٹھا ذائقہ آپ کو کھاتے رہنے کا کہتا ہے جبکہ کڑوا ذائقہ تھوکنے پر مائل کرتا ہے۔ یہ دونوں عمل ارتقائی معنویت سے خالی نہیں۔
لہٰذا جب آپ کی زبان ذائقہ چکھتی ہے تو یہ فیصلہ آپ کا دماغ کرتا ہے کہ کیسا ردعمل دینا ہے۔ اگر کسی خاص طرز کا ردعمل ارتقائی عمل میں نسل در نسل سودمند ثابت ہوتا ہے تو فطری انتخاب اسے اسی طرح ہمارے وجود کا حصہ بنا دیتا ہے اور وہ جبلت بن جاتا ہے۔
کڑوے ذائقے کا بھی یہی حال ہے۔ نوزائیدہ بچوں کو یہ سکھانے کی ضرورت نہیں کہ کڑواہٹ ناپسند کرو۔ وہ اسے فطری طور پر مسترد کر دیتے ہیں۔ مٹھاس کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے۔ متعدد تجربات سے معلوم ہوا ہے کہ پیدا ہوتے ہی بچے میٹھے کی جانب راغب ہو جاتے ہیں۔ بعد میں اس طرح کے طرز عمل کسی مخصوص رخ میں موڑے جا سکتے ہیں لیکن یہ مرکزی انسانی رویے میں ہمیشہ شامل رہتے ہیں۔
نکوٹین سے بدتر؟
کوئی بھی شخص جو فیصلہ کرتا ہے کہ اسے میٹھے کا استعمال کم کرنا چاہیے وہ اسے تلاش اور استعمال کرنے کے لاکھوں برسوں پر محیط ارتقائی دباؤ کے خلاف جا رہا ہوتا ہے۔ ترقی یافتہ دنیا کے لوگ اب ایک ایسے ماحول میں رہتے ہیں جو ممکنہ طور پر کھائے جا سکنے والی مٹھاس کے مقابلے میں اس کی کہیں زیادہ مقدار تیار کرتا ہے۔ میٹھا کھانے کی ارتقائی جبلت، موجودہ دور میں اس تک رسائی اور انسانی جسم کے ردعمل کے درمیان ایک تباہ کن عدم توازن ہے۔ ایک طرح سے ہماری اپنی کامیابی ہی راستے کی دیوار بن گئی ہے۔
مٹھاس کی کشش ایسی منہ زور ہے کہ اب اسے ایک نشہ کہا جاتا ہے جس کا موازنہ نکوٹین سے کیا جاتا ہے جس پر قابو پانا ایک بہت مشکل عمل ہے۔ مجھے یقین ہے کہ مٹھاس کے نقصانات تمباکو سے بھی بدتر ہیں۔ جسمانی نقطہ نظر سے نکوٹین ہمارے جسم کے لیے ایک ناپسندیدہ اجنبی چیز ہے۔ لوگ اس کی خواہش کرتے ہیں کیونکہ یہ دماغ کا دھوکہ ہے۔ اس کے برعکس چینی کی خواہش ہمارے اندر موجود ہے اور جینیاتی طور پر سالہاسال سے ہمیں فٹنس فوائد فراہم کرنے کے سبب ہماری اندونی بنت کا حصہ ہے۔
میٹھا آپ کو دھوکہ نہیں دے رہا، بلکہ جیسے آپ کا وجود فطری انتخاب کے ذریعے مرتب کیے گئے ہیں اسی کا اظہار کر رہے ہیں۔
یہ تحریر پہلے ’دا کنورسیشن‘ پر شائع ہوئی تھی اور یہاں اس کا ترجمہ ان کی اجازت سے پیش کیا جا رہا ہے۔ اس کے مصنف سٹیون وڈنگ امریکی کی یونیورسٹی آف کیلیفورنیا اینتھروپالوجی کے اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔