19 فروری 1971 کو کراچی کے آٹھ سینیما گھروں میں پشتو زبان کی فلم ’کلہ خزاں کلہ بہار‘ (کبھی خزاں کبھی بہار) کی نمائش کا آغاز ہوا تو اس کی نمائش کے خلاف شدید ہنگامہ اٹھ کھڑا ہوا۔
فلم بینوں نے بعض سینیماؤں پر لگی ہوئی تصویروں کو اکھاڑ کر پھینک دیا اور پتھراؤ کیا جس سے سینیما گھروں کے شیشے بھی ٹوٹ گئے۔ احتجاج کرنے والوں کا کہنا تھا کہ اس فلم میں عورت کے ہاتھوں مرد کی تذلیل کروائی گئی ہے جو پشتو تہذیب کی توہین ہے اور اسے پشتو بولنے والے کبھی برداشت نہیں کر سکتے۔
سینیما گھروں پر احتجاج کرنے کے بعد ان فلم بینوں نے اخبارات کے دفاتر پر بھی مظاہرہ کیا اور مطالبہ کیا کہ اس فلم کی نمائش فوری طور پر بند کی جائے۔ چنانچہ فلم بینوں کے اس احتجاج کے بعد فلم کلہ خزاں کلہ بہار کی نمائش روک دی گئی۔ یہ پاکستان میں اپنی نوعیت کا پہلا واقعہ تھا۔ فلم کلہ خزاں کلہ بہار کے فلم ساز امیر سرحدی اور گلزار احمد، ہدایت کار جمیل اختر اور موسیقار دل فراز مشتاق تھے اور اس میں امان، نگینہ خانم، ہمایوں قریشی، نورین، نذر، چھاتہ خان اور صمد خان نے اداکاری کے جوہر دکھائے تھے۔
پشتو زبان کی پہلی فلم کون سی ہے؟
’کلہ خزاں کلہ بہار‘ پاکستان میں بننے والی پشتو زبان کی پہلی فلم ہوسکتی تھی، کیوں کہ اس کی فلم بندی خاصا پہلے شروع ہوچکی تھی مگر ہوا یوں کہ اس فلم کی تکمیل سے چند ماہ پیشتر26 جون 1970 کو پشتو زبان کی ایک اور فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ نمائش کے لیے پیش ہو گئی اور یوں پاکستان میں پشتو کی اولین فلم کا اعزاز ’یوسف خان شیر بانو‘ کے حصے میں آ گیا۔
’یوسف خان شیر بانو‘ پاکستان میں بننے والی پشتو زبان کی پہلی فلم تھی مگر اس کی نمائش سے کوئی 29 برس پہلے 1941 میں بمبئی میں ایک اور پشتو فلم ’لیلیٰ مجنوں‘ نمائش پذیر ہوچکی تھی۔ ’لیلیٰ مجنوں‘ کے فلم ساز، ہدایت کار، کہانی نگار اور شاعر بابا امیر حمزہ شنواری تھے جبکہ اس فلم کی موسیقی رفیق غزنوی نے ترتیب دی تھی۔ وہی اس فلم کے ہیرو تھے جبکہ ہیروئن کا کردار حبیب جان کابلی نے نبھایا تھا۔
1963 میں پشتو زبان میں ایک دستاویزی ’فلم پلوشہ‘ بنائی گئی جسے پشتو زبان کے معروف شاعر اور ادیب سید رسول رسا نے حکومت سرحد کے تعاون سے بنایا تھا۔ اس فلم میں چوں کہ اس وقت کے فوجی حکمران فیلڈ مارشل ایوب خان کی حکومت کے کارناموں کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا گیا تھا اس لیے اس فلم کو حکومت کی جانب سے بہت زیادہ پذیرائی ملی۔ اس فلم میں مرکزی کردار گل محمدخان نے ادا کیا تھا جبکہ ہیروئن پشتو اور اردو زبان کی معروف افسانہ نگار زیتون بانو تھیں۔
قیام پاکستان کے بعد پاکستان میں ریلیز ہونے والی پشتو کی پہلی فلم یوسف خان شیربانو کے فلم ساز سید نذیر حسین، مدد علی مدن اور شفیع قاضی، ہدایت کار اور مکالمہ نگار عزیز تبسم، مصنف اور نغمہ نگار علی حیدر جوشی، موسیقار لال محمد اقبال اور عکاس مدن علی مدن تھے۔ فلم میں مرکزی کردار بدرمنیر اور یاسمین خان نے ادا کیے تھے جب کہ دیگر اداکاروں میں ترنم، ماہ پارہ، ساقی، شہباز درانی، سیٹھی، شیریں تاج، نعمت سرحدی، راجہ مثل خان اور نگینہ خانم شامل تھے۔
’یوسف خان شیر بانو‘ نے کراچی میں سلور جوبلی اور پشاور میں گولڈن جوبلی کرنے کا اعزاز حاصل کیا اور اس فلم کی کامیابی سے پاکستان میں پشتو فلموں کا دروازہ کھل گیا۔
’یوسف خان شیر بانو‘ اور ’کلہ خزاں کلہ بہار‘ دونوں فلمیں کراچی میں تیار ہوئی تھیں۔ اس کے کچھ عرصے بعدلاہور میں بھی پشتو فلمیں بننے کا آغاز ہو گیا۔ لاہور میں بننے والی پہلی پشتو فلم ’درہ خیبر‘ تھی۔ اس کے ہدایت کار ممتاز علی خان تھے، اس فلم میں مرکزی کردار آصف خان اور ثریا خان نے ادا کیے تھے جبکہ دیگر اداکاروں میں رب نواز خان، مہ جبینہ اور عمر دراز شامل تھے۔ درہ خیبر، یوسف خان شیربانو اور کلہ خزاں کلہ بہار کے درمیان نمائش پزیر ہوئی تھی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
1971 سے 1980 کے دوران پشتو زبان میں متعدد معیاری اور خوب صورت فلمیں تخلیق کی گئیں جن میں ’درہ خیبر،‘ ’بہادر خان،‘ ’آدم خان درخانی،‘ ’عجب خان آفریدی،‘ ’جوارگر،‘ ’مہلمہ،‘ ’علاقہ غیر،‘ ’ٹوپک زما قانون،‘ ’اوربل،‘ ’دہقان،‘ ’ارمان،‘ ’باز او شہباز،‘ ’پختون طورہ،‘ ’دیدن،‘ ’زما بدل زرتاجا،‘ ’رحم داد خان‘ اور کئی دیگر فلمیں شامل ہیں۔ اس دور کی فلموں کو بے حد پسند کیا گیا اور یہ فلمیں بلیک اینڈ وہائٹ ہونے کے باوجود کئی کئی ہفتے زیر نمائش رہیں۔ ان فلموں نے نہ صرف خیبرپختونخوا بلکہ بلوچستان اور کراچی میں بھی بہت اچھا بزنس کیا۔
ان فلموں کی ایک نمایاں بات ان کی بےحد دلکش موسیقی تھی، جن میں ہدایت اللہ، خیال محمد، گلنار بیگم کے گیت آج بھی شوق سے سنے جاتے ہیں۔
1980 کی دہائی میں پشتو فلموں میں گلیمر کا رجحان بڑھ گیا اور فلم سازوں نے کہانی کے بجائے ہیروئنوں کا سہارا لے کر فلمیں کامیاب کروانے کی کوشش کی جس سے ان فلموں کی افادیت اور مقصدیت میں کمی واقع ہوئی تاہم اس زمانے میں کچھ فلم سازوں نے متعدد اچھی فلمیں تخلیق کیں جن میں ’انگار،‘ ’انصاف،‘ ’اقرار،‘ ’آواز،‘ ’اصلی مجرم،‘ ’بدنام،‘ ’بدعملہ،‘ ’بے قصور،‘ ’پیسہ پختون شان،‘ ’توبہ،‘ ’جرم او سزا،‘ ’جہاد،‘ ’خبرہ عزت دہ،‘ ’داغ،‘ ’فکاری،‘ ’سوگند،‘ ’قانون،‘ ’قربانی،‘ ’قلنگ،‘ ’نیکی بدی‘ اور ’یاسمین‘ کے نام سرفہرست تھے۔
پشتون ثقافت کی دھجیاں
1990 کی دہائی اور اس کے بعد پشتو فلم سازوں نے پشتون ثقافت کی غیرت و شجاعت کو فراموش کرتے ہوئے خالص کاروباری انداز میں ایسی فلمیں بنائیں کہ اچھے فلم ساز میدان چھوڑ گئے۔ اس دور کی فلموں میں عریانی اور فحاشی کا غلبہ شروع ہو گیا۔ فلم سازوں نے عورتوں کو نیم عریاں انداز میں پیش کرنا شروع کیا۔ زیادہ سے زیادہ پیسے کمانے کے چکر میں کبھی چست لباس کا سہارا لیا گیا، کبھی جسم کے خدوخال کو نمایاں کیا گیا، کبھی ذومعنی مکالموں اور گانوں پر زور رہا اور کبھی فحش مناظر فلم بند کیے گئے۔
اس کے علاوہ اس دور میں بننے والی پشتو فلموں میں تشدد کے مناظر کو بھی فروغ دیا گیا جس نے معاشرے کو بھی تشدد کی طرف راغب کیا۔ کچھ سینیما گھروں میں فلموں کے درمیان فحش ویڈیوز چلائی جانے لگی اور مخنث افراد کے براہ راست رقص بھی پیش کیے جانے لگے۔ یہ صورت حال پشتون کلچر کی عکاس نہیں تھی اور پشتو فلموں کے لیے سم قاتل ثابت ہوئی۔
مرکزی فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین پرنس عباس خان نے اپنی ایک تحریر میں اعتراف کیا کہ ’پشتو فلمیں جوکہ اپنے ابتدائی ایام میں نہایت معیاری رہیں اب اس نہج پر تیار ہو رہی ہیں کہ عریانی، قتل و غارت اور تشدد کے علاوہ ان میں اور کچھ دیکھنے کو نہیں ملتا۔ یہ روش نہ صرف ان فلموں کی باکس آفس ناکامی کا موجب ہے بلکہ اس سے حقیقی پشتون ثقافت کی نفی بھی ہوتی ہے۔‘
حیرت یہ ہے کہ فلم سنسر بورڈ کے چیئرمین کے اس تبصرے کے باوجود سنسر بورڈ بھی ان چیزوں کو نظرانداز کرتا رہا۔
پشتون روایات، ادب اور ثقافت، غیرت، بہادری، حیا، جرأت، دین داری اور حب الوطنی کے عناصر کا مجموعہ ہیں۔ مگر پردۂ سیمیں پر انہیں نظر انداز کر کے کچھ اور ہی دکھایا جانے لگا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ سنجیدہ حلقوں نے پشتو فلموں میں دلچسپی لینا چھوڑ دیا اور پشتو سینیما پر تیسرے درجے کے تماش بینوں کا قبضہ ہو گیا۔
عوام تو عوام اچھے فن کار بھی پشتو فلموں میں کام کرنے سے گھبرانے لگے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اس دور میں بھی چند اچھی فلمیں ضرور بنائی گئیں جن کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے۔ ان فلموں میں ’آدم خور،‘ ’اور سمندر،‘ ’اووم آسمان،‘ ’او کلاشنکوف،‘ ’آزادی،‘ ’بلا،‘ ’پختو لیونائے،‘ ’پختو بہ زہ گٹم،‘ ’دروغ رشتیا،‘ ’درشن‘ اور ’رواج‘ وغیرہ شامل ہیں۔
پشتو فلموں کی چند مشہور شخصیات
عزیز تبسم
’یوسف خان شیر بانو‘ کے ہدایت کار عزیز تبسم نے اپنے کیریئر کا آغاز مشہور ہدایت کار پرویز ملک کے اسسٹنٹ کے طور پر کیا تھا۔ ’یوسف خان شیر بانو‘ کامیاب ہوئی تو انہوں نے اپنے آپ کو پشتو فلموں کے لیے مخصوص کر لیا۔ انہوں نے 20 سال سے زیادہ پشتو سینیما کی خدمت کی اور اسے اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے میں بہت اہم کردار ادا کیا۔
عزیز تبسم کا اصل نام عبدالعزیز خان تھا۔ انہوں نے مجموعی طور پر 28 فلمیں بنائیں جن میں 23 فلمیں پشتو میں، چار اردو میں اور ایک (’جنگجو گوریلے‘) اردو اور پنجابی کی ڈبل ورژن فلم تھی۔ ان کی آخری پشتو فلم ’خطرناک‘ تھی جو 1992 میں نمائش پذیر ہوئی۔ 1993 میں وہ امریکہ منتقل ہوگئے جہاں انہوں نے انگریزی زبان میں کئی اینیمیٹڈ فلموں کی ہدایات دیں۔
بدر منیر
’یوسف خان شیر بانو‘ سے بدر منیر جیسے ہیرو اور یاسمین جیسی ہیروئن سامنے آئیں۔ بدر منیر1943 میں شاہ گرام مدین، سوات میں پیدا ہوئے تھے۔ 1960 کی دہائی میں وہ کراچی آ گئے اور یہاں محنت مزدوری کر کے گزربسر کرنے لگے۔ وہ وحید مراد کے دفتر میں ٹی بوائے کا کام کرتے تھے پھر انہوں نے فلمی سٹوڈیوز میں دیگر چھوٹے موٹے کام کرنا شروع کیے اور اسی دوران کئی فلموں میں ایکسٹرا کا کردار بھی ادا کیا۔ 1970 میں انہیں پشتو زبان کی پہلی فلم ’یوسف خان شیر بانو‘ میں ہیرو کا کردار ادا کرنے کا موقع ملا۔ اس فلم نے بدر منیر کو راتوں رات سٹار بنا دیا اور پھر انہوں نے پلٹ کر پیچھے نہیں دیکھا۔
بدر منیر نے مجموعی طور پر 551 فلموں میں کام کیا جن میں 418 فلمیں پشتو میں، 88 فلمیں اردو میں، 33 فلمیں پنجابی میں، 11 فلمیں سندھی میں اور ایک فلم ہندکو میں بنائی گئی تھی۔ بدر منیر نے 160 فلموں میں مرکزی کردار ادا کیا۔ ان کی مشہور فلموں میں ’دلہن ایک رات کی،‘ ’جہاں برف گرتی ہے،‘ ’اوربل،‘ ’دو چور،‘ ’ٹوپک زما قانون،‘ ’دل والے،‘ ’دیدن،‘ ’جان کی بازی،‘ ’مجاہد،‘ ’لیونئی‘ اور ’ملتان خان‘ شامل ہیں۔ انہوں نے ایک فلم ’عجب خان‘ کی ہدایت بھی دیں۔ 14 اگست 2008 کو حکومت پاکستان نے انہیں صدارتی اعزاز برائے حسن کارکردگی عطا کیا۔
یاسمین خان
پشتو زبان کی پہلی فلم یوسف خان شیر بانو کی ہیروئن ہونے کا اعزاز یاسمین خان کو حاصل تھا۔ انہوں نے اپنے فلمی کیریئر میں 150 سے زیادہ پشتو، اردو اور پنجابی فلموں میں کام کیا۔ ان کی آخری فلم ’دلربا ڈاکو‘ تھی جو 31 مارچ 1995 کو نمائش پذیر ہوئی۔ یاسمین خان کی نو فلموں نے بہترین پشتو فلم ہونے کا اعزاز حاصل کیا جو ایک ریکارڈ ہے۔ 15 اپریل 1999 کو وہ نامعلوم قاتل کی گولیوں کا نشانہ بن گئیں۔ یاسمین خان اپنی شادیوں کی وجہ سے بھی مشہور ہوئیں۔ ان کی پہلی شادی اداکار ساقی سے، دوسری شادی خرم باری سے اور تیسری شادی عارف اللہ سے ہوئی تھی۔
بدر منیر اور یاسمین خان کے علاوہ پشتو فلموں تاریخ میں جن فن کاروں نے نمایاں کردار ادا کیا ان میں آصف خان، نعمت سرحدی، جمیل بابر، عنایت خان، بیدار بخش، شاہدخان، ساقی، عجب گل، ہمایوں قریشی، راجہ مصر خان، امان، عمر دراز خلیل، طارق شاہ، ثریا خان، نگینہ خانم، مسرت شاہین، سنینا، شہناز، سنیتا خان اور صبا شاہین کے نام سرفہرست ہیں جبکہ پشتو فلموں کے معروف ہدایت کاروں میں ممتاز علی خان، عنایت اللہ خان، مقصود خان، صنوبر خان، ناصر رضا خان، نسیم خان اور سعید علی خان کے نام شامل ہیں۔
اب تک پشتو زبان میں 800 سے زیادہ فلمیں بن چکی ہیں۔ اردو اور پنجابی فلموں کے بعد یہ پاکستان کی تیسری بڑی فلمی صنعت ہے اور اس کا یہ سفر ابھی جاری ہے۔