پاکستان کے معروف گلوکار و اداکار علی ظفر نے پشتو زبان کے مشہور علاقائی گیت ’لاڑ شہ پیخور تہ‘ گا کر اس گانے کو دوبارہ زندہ کیا ہے۔
اس رپورٹ کے لکھنے تک یہ گانا یوٹیوب پر دس گھنٹوں میں آٹھ لاکھ مرتبہ دیکھا جا چکا تھا۔
اس گانے میں علی ظفر کا ساتھ پشتو گلوکارہ گل پانڑہ نے بھی دیا ہے۔ گانے کا شوٹ پشاور سمیت ملک کے مختلف شہروں میں کیا گیا ہے جس میں پشاور کے تاریخی مقامات بھی دکھائے گئے ہیں۔
علی ظفر کے مطابق انہوں نے یہ گانا پشتونوں کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے گایا ہے۔
یہ گیت اب بختیار خٹک، ہمایون خان سمیت درجنوں گلوکاروں نے گایا ہے اور پشتونوں کے علاوہ بھی بہت کم ہی لوگ ایسے ہوں گے جو اس گیت سے واقف نہ ہوں۔
گانا تو درجنوں لوگوں نے گایا ہے لیکن شاید بہت کم لوگوں کو اس گیت کے پیچھے تاریخی داستان کا علم ہوگا۔
انڈپینڈنٹ اردو نے پشتو شاعری کے ماہرین اور تاریخ دانوں سے بات کی ہے تاکہ اس گیت کی تاریخ پر روشنی ڈالی جا سکے۔
اس کی تاریخی داستانوں کو بعد میں بیان کرتے ہیں لیکن سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ گیت پشتو ادب کے کس صنف سے تعلق رکھتے ہے۔
Here is it! Click on the link below for full video and enjoy on full volume!
— Ali Zafar (@AliZafarsays) September 22, 2021
Larsha Pekhawar | Ali Zafar ft. Gul Panra & Fortitude Pukhtoon Core | Pa... https://t.co/1i29f5QVS3 #PashtunCultureDay #larshapekhawar #Pashtosong pic.twitter.com/M3RsQLIMfC
پشاور کے تاریخی پشتو زبان کے میگزین ’پشتون‘ کے ایڈیٹر ساجد ٹکر نے اس بارے میں انڈپینڈںنٹ اردو کو بتایا کہ اس قسم کے گیت کو پشتو میں ’سروکی‘ کہا جاتا ہے۔
ساجد ٹکڑ کے مطابق ’سروکی‘ پشتو ادب میں اس شاعری کو کہتے ہیں جسے کسی گیت میں بار بار دہرایا جاتا ہے جس طرح علی ظفر کے گائے ہوئے گیت میں ’لاڑ شہ پیخور تہ کمیس تور‘ بار بار دہرایا جا رہا ہے۔
’پشتو ادب میں سروکی کو پشتو گانوں میں سینکڑوں مرتبہ استعمال کیا گیا ہے جس میں ایک ’لاڑ شہ پیخور تہ کمیس تور مالہ راوڑہ‘ جو بہت زیادہ گایا گیا ہے۔ اس کو پشتو ٹپہ کے ساتھ ملا کر گانے کی شکل میں گایا جاتا ہے۔‘
گیت کا تاریخی پس منظر
اب اس تاریخی گیت کی تاریخ کی طرف آتے ہے۔ اس گیت کے لکھنے کے پیچھے مختلف کہانیاں ہیں جنہیں ماہرین بھی بیان کرتے ہیں اور ان داستانیں بیان کرنے والوں کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں تاہم اس میں باجوڑ کی فرحت نامی خاتون کی کہانی مستند سمجھی جاتی ہے۔
بعض ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس شاعری کی تاریخ چار سو سال سے زائد ہے اور اس کا تعلق موجودہ قبائلی ضلع باجوڑ سے ہے، یہی وجہ ہے کہ اس میں باجوڑ کا نام بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔
جبکہ کچھ ماہرین سمجھتے ہیں کہ اس کی تاریخ کا کسی کو علم نہیں ہے کہ آخر یہ کب لکھا گیا ہے لیکن اباسین یوسفزئی اس سے اتفاق نہیں کرتے اور وہ صوابی کی کہانی کو مستند سمجھتے ہیں۔
انور نگار کا تعلق ضلع باجوڑ سے ہے اور وہ پشتو شعر و شاعری کے محقق ہیں، اور خود بھی کتابوں لکھ چکے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ یہ گیت ایک فوکلور گیت ہے اور پشتو ادب میں فوکلور گیت کی تعریف یہ ہے کہ اس کا زمانہ، اس کا خالق معلوم نہیں ہوتا۔
اسی وجہ سے نگار کے مطابق ’ہم وثوق سے نہیں کہہ سکتے کہ گیت کب اور کس نے لکھا اور اس کے حوالے سے جتنی بھی تاریخی روایات موجود ہیں ان کو نہ ہم غلط کہہ سکتے ہیں نہ ہی درست کہہ سکتے ہے کیونکہ فوکلور گیتوں کے پیچھے مختلف کہانیاں موجود ہوتی ہیں۔
نگار نے بتایا کہ سب سے پہلے ’ہم نے اس گیت کو 1930 میں لکھی گئی ’فتح جنگ‘ نامی کتاب پڑھا جس کے مصنف طالب علی محمد ہیں۔ تاہم یہ کتاب تو اب موجود نہیں لیکن اس کے حوالے افغانستان کے بعض پشتو زبان کے رسالوں میں موجود ہیں۔
انہوں مزید بتایا کہ ’اس کتاب میں یہ گیت کچھ اس طرح سے لکھا گیا: لیگم دی باجوڑ تہ کمیس تور مالہ راوڑ ہ‘[میں تمھیں باجوڑ بھیجتا ہوں تاکہ میرے لیے کالی قمیص لے کر آو]۔‘
’اس گیت کا دوسرا حوالہ پشاور یونیورسٹی کے شعبہ پشتو کی پروفیسر سلمہ شاہین کی کتاب ’عوامی سندری‘ یعنی عوامی گیت میں بھی موجود ہے جس میں یہ گیت کچھ اس طرح لکھا گیا ہے: ’لیگم دی باجوڑ تہ قمیص تور مالہ راوڑہ ۔ گلونہ دری سلور خہ سمسور مالہ راوڑہ (میرے لیے تین چار خوبصورت پھول لے کر آئیں‘۔
اب آتے ہیں اس گیت میں ’فرحت‘ نام کے استعمال کی طرف کہ اس کا کیا مطلب ہے۔
نگار کہتے ہیں کہ ریڈیو پاکستان کے سابق ڈائریکٹر اور پشتو ادب کے ماہر سرور خٹک نے اپنی کتاب ’فرحت پہ تبی تور‘ میں اس گیت کا ذکر کیا ہے اور کتاب کا ٹائٹل بھی یہی رکھا ہے۔
اس کتاب میں سرور لکھتے ہیں کہ اس کا پس منظر یہ ہے کہ ایک مرتبہ وہ باجوڑ کے ماموند تحصیل گئے تھے اور وہاں پر ایک بزرگ نے اس گیت کے حوالے سے بتایا کہ فرحت نامی ایک خاتون ماموند بدار علاقے میں رہتی تھیں۔
نگار کے مطابق ایک مرتبہ گاؤں کا ایک لڑکا کسی کام سے باجوڑ شہر جا رہا تھا تو اس لڑکی نے لڑکے کو بتایا کہ ان کے لیے کالی قمیص لے کر آئیں اور واپسی پر میری والدہ آپ کو پیسے ادا کریں گی۔
’اس کے بعد کتاب میں لکھا گیا ہے کہ اس بات کا پتہ فرحت کی بھائیوں کو چلا تو انہوں نے قریبی ایک چشمے میں فرحت کو قتل کر دیا اور قتل کے بعد اس چشمے میں پھول اگ گئے اور تب ہی یہ گیت لکھا گیا۔ ‘
نگار نے یہ بھی بتایا کہ یہ کہانی اس لیے بھی دیگر کہانیوں کے مقابلے میں مستند سمجھی جاتی ہے کیونکہ ماموند کے جس علاقے کا ذکر کتاب میں کیا گیا ہے وہ علاقہ یوں کہہ لیں کہ 18ویں صدی میں کپڑے کی ایک بڑی مارکیٹ تھی اور اس علاقے کے لوگ بھی دیگر باجوڑ کے لوگوں سے خوبصورت ہیں اور اسی مناسبت سے فرحت نے لڑکے سے کالی قمیص لانے کی فرمائش کی ہو گی۔
افغانستان کے ’پشتونخوا‘ نامی ایک میگزین میں بھی نگار کی بتائی ہوئی کہانی سے ملتی جلتی ایک تاریخ اجمل اٹک یوسفزئی نے لکھی ہے۔
اس رپورٹ میں انہوں نے لکھا ہے کہ اس وقت باجوڑ میں لغڑی نامی ایک گاؤں تھا [اسی نام سے گاؤں اب بھی باجوڑ کے تحصیل ماموند میں موجود ہے] جس میں فرحت نامی ایک خاتون رہتی تھیں اور اسی گاؤں میں ’تبی چینہ‘[ تبی چشمہ] کے نام ایک چشمہ تھا جہاں لڑکیاں پانی بھرنے جاتی تھیں۔
اٹک یوسفزئی لکھتے ہیں کہ ’ہوا کچھ یوں کہ ایک مرتبہ گاؤں کا ایک لڑکا اسی چشمے کے قریب سے گزر کر باجوڑ شہر جا رہا تھا تو چشمے میں موجود خواتین نے ان کو اپنے لیے بازار سے کچھ سامان لانے کا بتایا تو فرحت نامی لڑکی نے بھی لڑکے کو بتایا کہ ان کے لیے باجوڑ سے کالی قمیص لے کر آئیں۔‘
’یہ بات پورے علاقے میں مشہور ہوگئی اور کسی نے فرحت کے بھائی کو بتایا کہ ان کی بہن کے فلاں لڑکے سے تعلقات ہیں۔ یہ سنتے ہی بھائی نے گھر میں رکھی تلوار اٹھائی اور چشمے کی طرف چلا جہاں پر فرحت کو دیکھ کر ہی ان پر تلوار کے وار کر کے فرحت کو مار دیا۔‘
اٹک کے مطابق اس کے بعد یہ شاعری لکھی گئی۔ اس شاعری میں’ فرحت پہ تبی تور‘ کا مطلب یہ ہے کہ فرحت نامی لڑکی ’تبی‘ نامی چشمے میں ’تور‘ [ پشتو میں تور کالے رنگ کو بھی کہتے ہیں اور تور کا مطلب یہ بھی ہے کہ جب لڑکی کسی غیر مرد کے ساتھ دیکھی جائے تو کہا جاتا ہے کہ فلاں لڑکی تور ہوگئی یعنی بے عزت ہوگئی] ہوگئی ہے۔
باجوڑ کے انور نگار اس گیت کے حوالے سے کچھ دیگر تاریخی حوالے بھی دیتے ہیں۔
وہ بتاتے ہیں کہ ’فرحت‘ سرسوں کے پھول کے دانوں کو کہتے ہیں اور ’تبی‘ پشتو میں ’ فرائی پین‘ کو کہتے ہیں تو اس پرانے زمانے میں لوگ سرسوں کے پھول کے دانوں کو فرائی پین میں پکاتے تھے اور جب ان کا رنگ کالا ہو جاتا تو اس کو پھر کھایا جاتا ہے۔
عبدالولی یونیوسٹی مردان کے شعبہ پشتو کے چیئرمین ڈاکٹر محمد سہیل بھی باجوڑ کی فرحت نامی لڑکی کے ساتھ اس گیت کی مناسبت سے اتفاق کرتے ہیں۔
انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے اسی کہانی کو کچھ تبدیلی کے ساتھ بیان کی اور بتایا کہ یہ کہانی 18 ویں صدی کی آخری دہائی کی بتائی جاتی ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ پرانے زمانے میں گاؤں میں ایک لڑکا تھا جو گاؤں سے دور سامان لینے بازار جاتا تھا تو ایک دن چشمے کے قریب موجود فرحت نامی لڑکی نے بھی اس کو کالی قمیص لانے کی فرمائش کی تھی۔
’کہا جاتا ہے کہ اس کے بعد جس جگہ پر فرحت کو قتل کیا گیا وہاں پھولوں کا رنگ بھی تبدیل ہو گیا تھا اور اس کی قبر پر رکھے ہوئے ’تبی‘ [ قبر پر رکھے گئے تختے] کا رنگ کالا ہو گیا تھا۔ یوں یہ گیت لکھا گیا۔
ان کے مطابق ’بعد میں 1963 میں ملاکںڈ سے تعلق رکھنے والے سرور خٹک [جن کی کتاب کا ذکر پہلے بھی اس رپورٹ میں لکھا جا چکا ہے] نے اسی گیت کی مناسبت سے اپنا گیت لکھا اور باجوڑ کی جگہ اس میں پشاور کا نام استعمال کیا۔‘
اباسین یوسفزئی پشاور کی تاریخی اسلامیہ کالج یونیورسٹی میں شعبہ پشتو کے چیئرمین ہیں۔ انہوں نے انڈپیندنٹ اردو کو بتایا کہ یہ شاعری خیبر پختونخوا کے ضلع صوابی سے تعلق رکھنے والے شاعر عبدالغفران بیکس کی ہے اور یہ شاعری انہوں نے اس موقع پر لکھی جب وہ ایک دن گھر سے پشاور آرہے تھے تو ان کی بیٹی نے ان سے پشاور شہر سے کالی قمیص لانے کی درخواست کی تھی۔
اباسین بتاتے ہیں کہ ’اسی مناسبت سے شاعر نے اپنی بیٹی فرحت کی اس درخواست کے بعد یہ لائنز لکھیں جو بعد میں پشتو ادب میں مشہور ہوگئیں۔‘
اس شاعری میں فرحت کا نام بھی استعمال ہوا ہے جس کی ایک لائن کچھ اس طرح سے ہے ’فرحت پہ تبی تور‘[اس لائن میں اباسین تبی کی معنی ’طبعیت‘ کے لیتے ہیں جبکہ تور کا مطلب ’اباسین کے مطابق ’کالا‘ ہے۔
اباسین کا کہنا ہے کہ اس میں شاعر نے یہ کہا ہے کہ فرحت کی طبعیت کے مطابق ان کے لیے کالی قمیص پشاور سے لا کر دیں۔ اس گیت میں آگے شاعر نے ’د باجوڑ گلونہ‘ کے الفاظ بھی استعمال کیے ہیں جن کہ بارے میں اباسینکہتے ہیں کہ ہو سکتا ہے کہ اس وقت جو قمیص فرحت نے مانگی تھی اس کو ’باجوڑ گلونہ‘ کا نام لوگوں نے دیا ہو۔
اس طرح شاعری میں ’تازہ تازہ گلونہ دری سلور مالہ راوڑہ‘ [تازہ تازہ پھول تین چار میری لیے لے آؤ]‘ کا طلب اباسین کے مطابق اس میں ان کپڑوں کے اوپر بنے پھولوں کی طرف اشارہ کیا گیا ہے۔
نگار سے جب پوچھا گیا کہ صوابی کے شاعر کے حوالے سے جو بات کی جاتی ہے کہ ان کے بیٹی نے پشاور سے کالی قمیص لانے کی فرمائش کی تھی، تو ان کا کہنا تھا کہ وہ گیت بعد میں تبدیل ہو گیا ہے اور اس کو پشاور سے جوڑا گیا ہے اور فوکلور میں ایسا ہوتا ہے کہ شعرا موقع مناسبت سے اس میں تبدیلی کرتے رہتے ہیں۔
اباسین اس گیت کے باجوڑ کی فرحت نامی لڑکی سے مناسبت کے ساتھ اتفاق نہیں کرتے اور سمجھتے ہیں کہ اس کی تاریخ صوابی کی کہانی ہی ہے۔
انہوں نے بتایا کہ ’اس میں جس فرحت کا ذکر کیا گیا ہے وہ اب بھی زندہ ہے۔ میں صوابی میں ایک شخص سے ملا تھا اور ان سے پوچھنے کے بعد اس شخص نے بتایا کہ وہ ’فرحت پہ تبی تور‘ کا بیٹا ہے ۔‘
یاد رہے کہ افغانستان میں درجنوں گلوکاروں نے بھی اسی طرز کے گیت گائیں ہیں لیکن اس میں پشاور کی جگہ افغانستان کے ننگرہار صوبہ کا ذکر ہے۔
اس گیت کی پہلی لائن کچھ یوں ہے ’لاڑ شہ ننگرہار تہ قمیص تور مالہ راوڑہ‘ [ ننگر ہار جائیں اور میری لیے کالی قمیص کے لر آئیں]۔
تاہم نگار کے مطابق یہ گیت جس کا ذکر کتابوں میں موجود ہے، اس میں باجوڑ کا ذکر موجود ہے اور بعد میں گلوکاروں نے اپنی مرضی کے مطابق اس کو تریتب دیا اور گایا ہے۔
علی ظفر نے جو یہ گیت گایا ہے، اس میں صرف تین مصرعے استعمال کیے گئے ہیں جبکہ ’فرحت پہ تبی تور د باجوڑ گلونہ‘ کا مصرعہ اس میں موجود نہیں ہے۔ اسی طرح پشتو کے گلوکار ہمایون خان نے بھی یہ گیت کوک سٹوڈیو کے لیے گا چکے ہیں لیکن اس میں بھی پشاور کا ذکر تو موجود ہے لیکن باجوڑ والا مصرعہ اس میں موجود ہے۔