حسینہ نے ایک ادا سے کہا کہ ’دنیا میں ایک سے ایک کلاکار موجود ہے، ہم مشہور پاپ سنگر حسن جہانگیر کو بلائیں گے۔ ‘
یہ کسی نجی محفل کا ذکر نہیں بلکہ 1990 میں ریلیز ہونے والی بالی وڈ فلم ’سولہ سترہ‘ کا ایک منظر تھا، جس میں اس ڈائیلاگ کے بعد بڑے پردے پر منظر بدلتا ہے اور پھر ہاتھ میں گٹار تھامے حسن جہانگیر کسی راک سٹار کے روپ میں جلوہ گر ہوکر گنگناتے ہیں ’اپن کا تو دل ہے آوارہ۔ ‘
اس ایک گیت کا فلم بین ڈیڑھ گھنٹے سے انتظار کر رہے تھے کیونکہ فلم کے قد آور پوسٹرز اور تشہیری مہم پر واضح طور پر لکھا تھا کہ موسیقار ندیم شروان کے ترتیب دیے ہوئے گیتوں میں سے ایک گانا پاکستانی گلوکار حسن جہانگیر کی آواز میں بھی ہے، جسے وہ خود پیش کریں گے۔ یہ وہ دور تھا، جب ندیم شروان پر مقبولیت اور شہرت کا در نہیں کھلا تھا۔ ظاہری سی بات ہے کہ پاکستانی گلوکار حسن جہانگیر کی غیر معمولی کامیابی کے ذریعے وہ بلند مقام بنانے کی جدوجہد میں تھے۔
حسن جہانگیر کی بالی وڈ میں اس قدر پذیرائی اور چاہت کے پس پردہ دلچسپ داستان ہے کیونکہ ان کے گیت ’ہوا ہوا‘ نے پاکستان میں ہی نہیں، سرحد کے اس پار بھی ہر کسی کو دیوانہ بنادیا تھا۔ گانا کیا تھا، یہ سمجھیں ہر کسی کے لبوں اور ذہنوں پر یہی گونج رہا تھا۔
1987 میں ریلیز ہونے والے آڈیو کیسٹ کے اس گیت نے اس وقت شہرت کمائی جب یہ ٹی وی پر بھی نشر نہیں ہوا تھا۔ عام طور پر اس دور میں وہی گانے یا گلوکار شہرت کی کامیابی کے مسافر بنتے جو چھوٹی سکرین پر آتے لیکن یہ گلوکار حسن جہانگیر کا کمال تھا کہ انہوں نے ٹی وی کا سہارا لیے بغیر خود کو ایسا بے مثال بنایا کہ ان کے نام کا ڈنکا ہر سو بجنے لگا۔
اس البم کی پاکستان اور بھارت میں لگ بھگ کروڑوں کاپیاں ہاتھوں ہاتھ فروخت ہوئیں۔ واقعی یہ کامیابی اس اعتبار سے بڑی اہمیت رکھتی تھی کیونکہ دور حاضر کی طرح اس زمانے میں سوشل میڈیا یا تشہیر کا کوئی ذریعہ تھا ہی نہیں۔ اکلوتا پی ٹی وی ہوتا، جس پر آنے والے گلوکار ہی راتوں رات مقبولیت کی چوٹی پر پہنچ پاتے۔
جب پی ٹی وی پر ’ہوا ہوا‘ کے بول تبدیل ہوئے
حسن جہانگیر کے اس گانے کی شہرت جب چاروں طرف پھیلی، تو فلمی جرائد اور اخبارات میں ان کے انٹرویوز شائع ہونے لگے۔ سرکاری ٹی وی پی ٹی وی کو بھی 1987 میں ہی خیال آیا کہ حسن جہانگیر کو کسی پروگرام میں مہمان بنا کر پیش کیا جائے۔
جنرل ضیا الحق کا دور تھا اور پی ٹی وی سخت ثقافتی سنسر شپ سے گزر رہا تھا۔ گیت پر تو کوئی اعتراض نہیں تھا لیکن اس کے ایک بول ’یار ملا دے، دل دار ملا دے‘ پر اعتراض ہو گیا اور اسے پی ٹی وی کراچی مرکز کے سکرپٹ ڈپارٹمنٹ کے ہیڈ مدبر رضوی نے بدل کر ’وعدہ کیا تھا، ایک بار ملا دے‘ کروا دیا۔
حسن جہانگیر گلوکاری کی طرح گیٹ اپ سے بھی مشہور
ماضی میں بالخصوص 70 اور80 کی دہائی میں گلوکار جب بھی نغمہ سرائی کرتے تو بہت ہوتا تو ان کے ہاتھوں میں گٹار ہوتا یا پھر سامنے ہارمونیم، لیکن درحقیقت حسن جہانگیر نے اس تاثر کو بدل کر رکھ دیا۔ رنگ برنگا لیکن جدید فیشن کے تقاضوں سے ہم آہنگ سراپا ہوتا، ہاتھوں میں کبھی گٹار تو کبھی مائیک، آنکھوں پر گاگلز، گلے میں مفلر، کسی راک سٹار کی طرح لمبی گھنی زلفیں، جنہیں وہ دوران گلوکاری ایک ادا سے پیچھے ہٹاتے رہتے۔
یہی نہیں وہ روایتی گلوکار کی طرح ایک ہی مقام پر ساکت ہو کر پورا کا پورا گیت نہیں گاتے بلکہ مہمانوں کے درمیان پہنچ کر جھوم جھوم کر بھی اس سلسلے کو جاری رکھتے۔ ٹی وی ناظرین کے لیے حسن جہانگیر کا یہ اندازچونکا گیا، وہیں وہ دیگر گلوکاروں کے مقابلے میں مزید ممتاز بن گئے۔ حسن جہانگیر کو کئی چاہنے والوں نے پاکستانی مائیکل جیکسن تک قرار دے دیا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ حسن جہانگیر کے پسندیدہ گلوکار بھی مائیکل جیکسن ہی تھے۔
بھارت میں ’ہوا ہوا‘
بھارت جہاں پاکستانی فلموں کے گیت اور دھنیں اڑانے کا ’تخلیقی کام‘ اب تک عام ہے۔ یہی وجہ ہے حسن جہانگیر کے اوریجنل گیت کی طرح اسی دھن پر 1989 میں فلم ’بلو بادشاہ‘ میں ’جواں جواں عشق جواں ہے‘ کو کسی اور نے نہیں بلکہ فلم کے ہیرو خود گووندا نے گایا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس تخلیق کے موسیقار جگجیت سنگھ تھے، جو خود غزل گائیکی سے شہرت کی بلندیاں طے کر چکے تھے۔
بالی وڈ موسیقاروں نے اسی پر اکتفا نہیں کیا، بلکہ اسی سال موسیقار بپی لہری نے فلم ’آگ کا گولا‘ کے لیے ’ہوا ہوا‘ کی دھن پر ’آیا آیا یار میرا آیا‘ کو الگا یاگنک کے ساتھ گنگنایا۔ یہی نہیں امیتابھ بچن کی فلم ’طوفان‘ میں انو ملک نے بھی ’ہوا ہوا‘ کی دھن پر ہاتھ صاف کرنے میں دیر نہیں لگائی۔
یوں یہ اپنی نوعیت کا منفرد گانا بن گیا جس کی نقل ایک سال میں تین مختلف فلموں میں تین مختلف موسیقاروں نے کی۔ اس کے بعد یہ سلسلہ طویل ہوتا گیا۔ تقریباً 17 مختلف زبانوں میں حسن جہانگیر کے اس شہرہ آفاق گیت کو پیش کیا جاتا رہا۔ آخری بار اس گانے کو 2017 میں مکھا سنگھ نے ’مبارکاں‘ میں ری مکس میں گا کر شہرت سمیٹی۔ صرف بھارت ہی نہیں بنگلہ دیش اور نیپال تک میں ’ہوا ہوا‘ کی دھن پر گیت بنتے رہے۔
کیا ’ہوا ہوا‘ کی دھن حسن جہانگیر کی ہی تھی؟
لیکن بھارتی فنکاروں کی جانب سے ہوا ہوا کی دھن پر ہاتھ صاف کرنے پر زیادہ گلہ نہیں کر سکتے کیوں کہ خود ان کی دھن ایک ایرانی گلوکار کورش یغمایی کے 70 کی دہائی میں چلنے والے فارسی زبان کے ایک البم ’گل ِیخ‘ کی نقل تھی۔ اس البم کا ایک گیت ’ہوار ہوار‘ خاصا مقبول ہوا، جس کی اسی دھن سے ’متاثر‘ ہو کر حسن جہانگیر نے ’ہوا ہوا‘ جیسا سپر ہٹ گانا پیش کیا جس کے بول نغمہ نگار محمد ناصر نے لکھے تھے۔
کوریش یغمایی بھی اپنے دور کے راک سٹار تصور کیے جاتے تھے اور ان کے البم ریکارڈ تعداد میں فروخت ہوتے تھے۔ ان دنوں وہ کینیڈا میں رہائش پذیر ہیں۔
’عمران خان از دا سپر مین‘
بہت کم کو معلوم ہو گا کہ حسن جہانگیر وہ پہلے گلوکار ہیں جنہوں نے موجودہ وزیراعظم عمران خان کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے 1985 میں ایک گیت بنایا تھا۔ حسن جہانگیر کے مطابق اس البم میں ایک درجن سے زائد دیگر گلوکاروں کے گیت ریکارڈ کیے گئے۔ اس زمانے میں عمران خان کرکٹ سے ریٹائر ہونے کا سوچ رہے تھے۔ ایسے میں حسن جہانگیر نے یہ ارادہ کیا کہ دنیا کے اتنے بڑے کھلاڑی کی غیر معمولی خدمات پر انہیں خراج تحسین پیش کیا جائے۔ جبھی انہوں نے ایک گیت ’عمران خان ہی از دی سپر مین‘ بنا کر اس البم میں شامل کروایا، جو اس وقت بہت زیادہ مشہور ہوا۔
اس کے کچھ برسوں بعد جب عمران خان نے کرکٹ سے ریٹائرمنٹ کا فیصلہ واپس لیا تو ایک اور گلوکار سلیم جاوید نے بھی ’ویلکم عمران خان‘ گا کر شہرت سمیٹی۔
حسن جہانگیر صرف ’ون سونگ ونڈر‘ نہیں
گلوکار حسن جہانگیر نے صرف ’ہوا ہوا‘ ہی نہیں کئی اور گانے بھی گائے۔ ان میں ’شادی نہ کرنا یارو،‘ ’آ جانا دل ہے دیوانہ،‘ ’آ جاؤ ذرا مہندی لگاؤ،‘ ’ہٹو بچو،‘ ’یہ فیشن کے نئے رنگ‘ اور ’شاوا نخرا گوری‘ کا نمایاں ہیں۔
حسن جہانگیر کا فنی سفر اب تک جاری ہے اور انہوں نے گلوکاری، لباس اور انداز سے سب کے دلوں پر آج تک راج کیا ہوا ہے۔