سکردو سے 103 کلومیٹر دور گلگت بلتستان کی ریاست خپلو بلند برفانی چوٹیوں اور راجہ کے قلعے کے حوالے سے تو جانی جاتی ہی ہے مگر پاکستان کے دوسرے خطوں میں بسنے والے لوگ یہ نہیں جانتے کہ اس وادی نے کتنے عالم، ادیب اور شاعر پیدا کیے۔
مجھے بطور سیاح تاریخی عمارتیں اور شاہی قلعے دیکھنے سے چِڑ رہی ہے، زندہ انسانوں کی زندگی اور سانس لیتے منظر میری سیاحت کا ہدف ہوتے ہیں۔ وادیِ خپلو کے قلعے میں داخل ہوتے ہوئے میں سہم سا گیا تھا۔ مجھے ایسا لگا کہ قلعے کے رہائشی کمرے اور پھر اس کے نیچے تنگ و تاریک قید خانہ اپنی دیواروں سے خوف اور نفرت اگل رہے تھے۔
راجہ کے زیر استعمال رہنے والے برتن، ورزش گاہ، کچن، مہمان خانہ، محافظوں کی قیام گاہ اور ملبوسات میرے لیے صرف عبرت کا سامان لیے ہوئے تھے۔ راجہ کے عروسی کمرے کی کھڑکی باغات کی جانب کھلتی تھی جہاں سے دریائے شیوق کے پانی کی ٹھنڈک بھری آواز محل کی خاموشی توڑتی تھی اور میرا وجود لرز سا جاتا تھا۔ میرے بچے محل کے اندرونی مناظر کی ویڈیو بنا رہے تھے مگر میں ابھی تک سہما ہوا تھا۔
میرے لیے خپلو کے راجہ دولت علی خان کے ہاتھوں 1840 میں تعمیر ہونے والا یہ محل اہم نہ تھا اور نہ ہی 2600 میٹر پر پھیلے یہ در و دیوار دلچسپی کے حامل تھے، میں خپلو کی زیارت کرنے گیا تھا تو صرف اس لیے کہ اس وادی نے عالم، ادیب اور شاعر پیدا کیے تھے۔ یہاں کے قدیم باشندے بدھ مت کے پیروکار تھے۔ 786 ہجری میں سید علی ہمدانی خپلو آئے اور یہ وادی علم و ادب کا گہوارہ بنتی چلی گئی۔ میر شمس الدین محمد عراقی یہاں وارد ہوئے تو عرفان کی بارش اس وادی کا مقدر بنی۔ میر نور بخش جیسے بلند پایہ شاعر خپلو میں پیدا ہوئے، جن کی لکھی ہوئی قرآن پاک کی تفسیر کا قلمی نسخہ کاظمیہ لائبریری تلیس میں موجود ہے۔
میر مختار بلند پایہ شاعر اور ادیب ہونے کے ساتھ ساتھ فلسفی بھی تھے، انہوں نے اسلامی فقہ پر کتاب تحریر کی اور دیوان مختاریہ کے نام سے شعری مجموعہ شائع ہوا۔ وہ ایک فنکار اور ماہر تعمیرات تھے۔ بلتستان کی عظیم الشان خانقاہیں ان کی تعمیر کردہ ہیں۔
خپلو میں کیرس کی خانقاہ ہے جہاں سنی اور شیعہ اکٹھے نماز پڑھتے ہیں۔ مسجد چقچن کی عمارت بدھ عہد اور تبتی طرز تعمیر کا اعلیٰ نمونہ ہے۔ پانچ سو سال سے قدیم اس مسجد کی پہلی منزل مٹی اور پتھر سے بنی ہے۔ اوپر والی منزل پر کھلنے والی کھڑکیاں ہیں، عبادت اور ریاضت کے لیے حجرے ہیں۔
خپلو میں تمام عمارتیں بلتی، تبتی اور لداخی طرزِ تعمیر کی حامل ہیں۔ راجہ خپلو کا انتقال 1983 میں ہوا تو یہ قلعہ مسمار ہونا شروع ہو گیا۔ آغا خان ٹرسٹ فار کلچر نے 2005 میں فنڈز جاری کیے تو اس کی تزئین و آرائش نئے سرے سے ہوئی۔2011 میں خپلو فورٹ کو ایک ہوٹل نے کرائے پر حاصل کر لیا اور محل کا ایک حصہ سیاحوں کے لیے کھول دیا۔ اس روز ہم نے دیکھا کہ خپلو قلعے کے اس ہوٹل میں غیر ملکی مہمان ٹھہرے ہوئے تھے۔
خپلو فورٹ کی اداسی اور شام کا وقت عروج و زوال کے قصے سنا رہا تھا۔ دائروں میں گھومتے ہوئے ہم بلندی سے اتر رہے تھے اور خپلو کے میدانوں میں کرکٹ اور فٹ بال کھیلتے بچے خطے کی مالی اور سماجی آسودگی کی گواہی دیتے تھے۔
ہم صبح سکردو سے نکلے تھے تو حسین آباد کے بعد چٹیل پہاڑوں نے وسعت اختیار کرلی تھی۔ ’گول‘ کے آباد قصبے سے پہلے کوئی بڑی آبادی نہیں تھی۔ بستی گزر گئی تو دریا کے پار بلندی پر سر سبز قطعات نظر آنے لگے۔
’نارتھاں‘ کے علاقے میں پتھروں پر نقش و نگار بنے تھے جن میں قبل از تاریخ کے انسانوں کی خواہشات کا اظہار تصویروں میں دکھایا گیا تھا۔ بدھ اور پجاریوں کے بنائے ہوئے پگوڈے اور شکلیں مصوروں کا اظہاریہ تھا۔
وادی کی وسعت سکڑنے لگی اور پہاڑ قریب آتے گئے۔ ہم ایسے مقام پر آ گئے جہاں دریائے سندھ ہم سے جدا ہو رہا تھا۔ دریائے سندھ ادھر لداخ کی جانب سے آ رہا تھا اور ہم اسے عبور کرکے دریائے شیوق کے کنارے سفر کرنے لگے۔ ہم نے سندھ اور شیوق دریاؤں کو باہم ملتے دیکھا۔
شیوق کے پانی کی شدت سندھ سے بہت زیادہ تھی، لیکن تمام تر شدت کے باوجود شیوق شانت اور گمبھیر دریائے سندھ میں کھو جانے کے بعد اپنی شناخت کھو رہا تھا۔ گندم اور جو کے کھیت دنیا کا خوبصورت منظر پیش کرتے تھے۔ فصل کی کٹائی شروع تھی اور جگہ جگہ تھریشر لگے تھے۔ گائے اور یاک کے ملاپ سے پیدا ہونے والا جانور زوہ کھیتوں میں چلتا نظر آتا تھا۔
’یوگو‘ کا قصبہ پورے شمال کی واحد مثال تھا کہ سڑک کے دونوں اطراف میں سفیدے کے درخت اس ترتیب سے اگائے گئے تھے جیسے کسی مصور نے تصویر بنائی ہو۔ یوگو اور براہ کے علاقے میں پختہ گھر لوگوں کے اعلیٰ رہن سہن کو ظاہر کرتے تھے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ہم تبت اور لداخ روڈ پر سفر کر رہے تھے اور خوبانیوں کے باغات دریا کنارے ایک نہ بھولنے والا نظارہ تھے۔ زرد رنگ خوبانیاں ہمارا راستہ روک رہی تھیں۔ ایک جگہ چشمہ پھوٹتا تھا اور اسی منظر نے ہمیں روک لیا۔ دریا کی قربت اور رس بھری خوبانیوں کے باغات میں کئی گھنٹے گزرنے کا پتہ ہی نہ چلا۔
خپلو فورٹ کی طرف چڑھائی نے ہمیں دریائے شیوق سے جدا کرکے دائیں جانب اٹھنے والے راستے کی موڑ دیا۔ ہمارے اطراف میں غرناطہ کے قصر الحمرا جیسے برج تھے اور سناٹے میں خبردار کر دینے والی گونج تھی۔ خپلو فورٹ کے ارد گرد گھنے جنگلات میں دن کے وقت بھی رات کا منظر تھا۔
سکردو سے 103 کلومیٹر کا سفر ہمیں سینٹرل ایشیا کی قریبی ریاست تک لے آیا تھا جہاں سے کھرمنگ، باغیچہ، اولڈنگ، ہوشے اور فرانو کے دروازے کھلتے تھے۔ لیلی پیک، ہڈن پیک، گشہ بروم اور براڈ پیک جیسی بلند چوٹیوں کے نظارے تھے۔ بالتورو کانگری کا سفید وجود اپنی جانب کھینچتا تھا۔
ہم جب خپلو سے نکلے تو رات کا سمے تھا۔ لداخ روڈ پر واقع یہ وادی کسی بھی شہری آبادی کی طرح جدید سہولتوں سے بھرپور تھی مگر ہمیں ہر صورت سکردو پہنچنا تھا۔