محمد رفیع روزے کی حالت میں گیت ریکارڈ کرنے پہنچے۔ ریہرسل ہوئی، گیت ریکارڈ ہوا اور موسیقار جوڑی کلیان جی آنند جی نے ’اوکے‘ کر دیا۔
رفیع تیز تیز قدموں سے ریکارڈنگ سٹوڈیو سے باہر نکلے کہ افطاری کا وقت قریب تھا اور انہیں گھر جانے کی جلدی تھی۔ جوں ہی وہ اپنی گاڑی میں بیٹھے، ایک شخص نے آ کر ان کا راستہ روک دیا۔
یہ بات ہے 1973 کی جب بالی وڈ میں نیا عہد بنانے والی فلم ’زنجیر‘ کے گیت کی ریکارڈنگ ہو رہی تھی۔ یوں تو فلم میں پانچ گیت شامل تھے لیکن ان میں سے کوئی بھی براہ راست مرکزی کردار انسپیکٹر وجے کھنہ (امیتابھ بچن) پر نہیں فلمایا گیا تھا۔
وجے کے ’اینگری ینگ مین‘ امیج کی شدت برقرار رکھنے کے لیے گیتوں کے بول فلم کے باقی کردار پردے پر گنگنا رہے تھے۔ ایسا ہی ایک دوگانا کریکٹر ایکٹر گلشن باورا اور شیلا پر فلمایا جانا تھا، ’دیوانے ہیں دیوانوں کو نہ گھر چاہیے۔‘
رفیع صاحب ویسے تو اس وقت ہزاروں گیت گا چکے تھے لیکن روزے کی حالت میں پہلے ریہرسل اور پھر فائنل ٹیک اوکے ہونے تک ان کا گلا اور ہمت دونوں جواب دے چکے تھے۔ ابھی رفیع گاڑی میں بیٹھ کر ڈرائیور کو گھر جانے کی ہدایت دینے والے تھے کہ وہ شخص دروازے کے پاس پہنچ گیا۔
دراصل ہوا یہ تھا کہ موسیقاروں نے تو اوکے کر دیا تھا مگر لتا منگیشکر اس سے مطمئن نہیں تھیں اور وہ چاہتی تھیں کہ ایک اور ریکارڈنگ کر لی جائے۔
رفیع ویسے تو سمندر کی طرح شانت طبیعت کے مالک تھے، لیکن وہ افطاری اپنے بیوی بچوں کے ساتھ کرنا چاہتے تھے۔ انہوں نے کہا، ’جب اوکے ہو گیا تو اب دوبارہ کیوں؟‘ مجھ میں ہمت نہیں،‘ اور گاڑی کا دروازہ بند کر لیا۔
رفیع کا راستہ کاٹنے والے نے کہا، ’رفیع صاحب آپ جانتے ہیں سکرین پر یہ گیت کون گا رہا ہے؟‘
رفیع صاحب نے جھنجھلا کر کہا، ’کیا دلیپ کمار گا رہا ہے؟‘
اس سے پہلے کہ محمد رفیع مزید کچھ بولتے، اس شخص نے اپنی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا ’بھاء جی، یہ جو آپ کا خادم ہے نا، سکرین پر یہ گا رہا ہے۔ کیا آپ ایک ری ٹیک نہیں دے سکتے؟‘
رفیع صاحب کے لہجے میں فوراً اپنائیت آ گئی، ’ارے تو نے مجھے پہلے کیوں نہیں بتایا کہ تو گا رہا ہے؟‘
وہ گاڑی سے اترے، ریکارڈنگ روم پہنچے اور ایک کے بجائے دو ری ٹیکس دیے۔ کلیان جی آنند جی اور لتا کے لیے نہ ماننے والے رفیع صاحب کے تیور سے لگتا تھا اس روز دلیپ کمار ہوتے تب بھی رعایت مشکل تھی لیکن بھاء جی کے رشتے نے چمتکار دیکھایا۔
یہ بھاء جی کون تھے؟ آج ہم آپ کو ان کی کہانی سنا رہے ہیں۔
گلش باورا کا نام ممکن ہے زیادہ مانوس نہ ہو لیکن ان کے قلم سے نکلے ہوئے کئی گیت ہمارے جمالیاتی احساس کا حصہ ہیں۔ ’میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے،‘ ’یاری ہے ایمان ہے میرا یار میری زندگی،‘ ’پیار ہمیں کس موڑ پہ لے آیا،‘ ’وعدہ کر لے ساجنا‘ اور ’قسمیں وعدے نبھائیں گے ہم‘ جیسے لافانی گیتوں کے خالق تھے گلشن باورا۔
1955 میں ریلوے گودام پر ایک معمولی کلرک بن کر بمبئی میں وارد ہونے والے گلشن کمار مہتا کو گلشن باورا بننے کے لیے کچھ زیادہ سنگھرش سے نہیں گزرنا پڑا۔ اسی لیے تو اپنے ایک انٹرویو میں وہ کہتے ہیں کہ ’جو شخص چھ دن بمبئی میں گزار لے ساتویں دن اسے یہ شہر اپنا لیتا ہے۔‘
یقیناً یہ بات انہوں نے محاورتاً کہی ہو گی ورنہ تین سال تو انہیں بھی سٹوڈیوز کے چکر کاٹنا پڑے۔
شیخوپورہ میں نوشاد کی تاریخ ساز فلم ’رتن‘ کا ’ساون کے بادلو، ان سے یہ جا کہو‘ سنتے ہوئے سونے والا یہ بچہ لڑکپن سے ہی فلم لائن کا حصہ بننے کا خواب دیکھنے لگا۔ 1947 کے اندوہناک واقعات میں ماں باپ سے محروم ہونے والا یہ بچہ دلی اپنے بھائی کے ساتھ بڑی بہن کے گھر دلی چلا گیا۔ وہاں میٹرک پاس کی اور معمولی سی ملازمت بھی مل گئی۔ بمبئی میں آتے ہی اضافی وقت فلم نگری کی خاک چھانتے ہوئے کٹنے لگا۔ اس وقت موسیقار بھائیوں کی ایک نئی جوڑی کلیان جی آنند جی کے نام سے جگہ بنانے کی کوشش کر رہی تھی۔ گلشن کمار ان کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے لگے۔ اسی جوڑی نے 23 اگست 1958 کو چندرسینا کے لیے گلشن جی کا لکھا ہوا پہلا گیت لتا کی آواز میں ریکارڈ کیا، ’میں کیا جانوں کاہے لاگے یہ ساون متوالا رے۔‘
ان کا نام کیسے تبدیل ہوا یہ ایک دلچسپ قصہ ہے۔ ڈسٹری بیوٹر شانتی بھائی پٹیل فلم سٹہ بازار کی موسیقی سننے آئے اور دو گیتوں کی بہت تعریف کر کے پوچھا کہ یہ کس نے لکھے ہیں؟
وہاں گلشن کمار مہتا بھی موجود تھے جنہوں نے دلی سٹائل کے شوخ رنگوں والے کھلے ڈلے کپڑے پہن رکھے تھے۔ پٹیل بھائی دیکھتے ہی بولے، ’یہ کیا لکھے گا یہ تو شکل سے ہی باورا لگتا ہے۔‘
کافی ردوقدح کے بعد انہوں نے نہ صرف یہ حقیقت تسلیم کی بلکہ فلم کے بینر پر یہی نام ’گلشن باورا‘ بھی چھپوا دیا۔ اب گلشن باورا کو تھوڑا بہت لکھنے کا کام ملنے لگا اور ساتھ ساتھ یہ مختلف چھوٹے موٹے کرداروں میں فلم کے پردے پر بھی نمودار ہوتے رہے۔
ریلوے میں کلرکی کے دوران گندم کے سیزن میں گودام بھر جاتے۔ گلشن جی کو ایسا لگتا جیسے ہر طرف سونا بکھرا ہو۔ اس منظر سے متاثر ہو کر انہوں چند بول اپنی ڈائری میں لکھ لیے۔ بہت بعد میں جب منوج کمار نے ’اپکار‘ شروع کی تو یہ ان سے ملے اور اپنی ڈائری دکھائی۔ اس طرح ایک شاہکار گیت نے جنم لیا، ’میرے دیش کی دھرتی سونا اگلے اگلے ہیرے موتی۔‘
کسانوں کی مٹی سے محبت اور ملک کے لیے خدمات کو اس گیت سے بہتر خراج تحسین پیش نہیں کیا جا سکتا۔ گاؤں کی جاگتی ہوئی صبح جس طرح اس گیت میں انگڑائی لیتی ہے اس کا جواب نہیں۔ اس کے موسیقار بھی کلیاں جی آنند جی تھے۔
اگرچہ گلشن باورا کے کیریئر میں اس جوڑی کا بہت ہاتھ ہے لیکن ان کا سب سے خوبصورت کام پنچم یعنی آر ڈی برمن کے ساتھ ہے۔
وہی پنچم جو ابتدا میں گلشن باورا کے ساتھ کام کرنے کے لیے ہرگز راضی نہ تھے۔ رندھیر کپور کو مرکزی کردار میں لے کر پرکاش مہرا ’خلیفہ‘ (1976) بنا رہے تھے اور انہیں ایک ایسے نغمہ نگار کی ضرورت تھی جس کے ساتھ ان کا تال میل بہت زبردست ہو۔
مشکل سے انہوں نے پنچم کو اس شرط پر راضی کیا کہ آپ ایک گیت لکھوا کر دیکھ لیں اگر پسند نہ آیا تو آپ کی مرضی کا شاعر سائن کر لیا جائے گا۔ میوزک سِٹنگ ہوئی اور پنچم نے چار مختلف دھنیں سنائیں جو ایک سے بڑھ کر ایک خوبصورت تھیں۔
پرکاش مہرا اور رندھیر کپور متذبذب ہو گئے۔ تب گلش باورا نے کہا جو سب سے پہلے سنی وہ زیادہ خوبصورت ہے اور فوراً اس کا مکھڑا بھی سنا دیا، وہ گیت تھا ’دیکھ کر تجھ کو دل نے کہا۔‘
پنچم نے مکھڑا فائنل کیا اور بولے کل آ کر مجھ سے انترے کا میٹر لے جانا۔ گلشن جی اگلے دن گئے اور ان کے بقول پنچم نے انترے کا میٹر دیا جو ’تین کلو میٹر‘ لمبا تھا۔ یہ اس امتحان میں بھی سرخرو رہے اور دھیرے دھیرے دونوں کی دوستی ہو گئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
پنچم اور گلشن کے گھر نزدیک تھے۔ کئی بار پنچم ان کی اہلیہ انجو کے ہاتھ کا بنا سرسوں کا ساگ کھانے آ جایا کرتے تھے۔ گلشن باورا نے پنچم کو یاد کرتے ہوئے ایک دلچسپ واقعہ ریڈیو پروگرام میں سنایا تھا۔
ایک روز گلشن جی گیت کے دھن لے کر آئے تو انہیں پسند نہیں آئی۔ انہوں نے پنچم کو فون کیا اور کہا، ’یہ کیسی دھن پکڑا دی چیکا چیکا چیکا چیکا۔ کوئی نرم سی دھن ہو جس میں رومانس لکھتے ہوئے اچھا بھی لگے۔‘
پنچم نے کہا، ’میں تمہارے گھر آنے لگا ہوں۔‘ گلشن جی کے بقول، ’جیسے ہی پنچم انٹر ہوئے وہ گا رہے تھے، ’سرسوں کا ساگ پکانا انجو، مکئی کی روٹی کھلانا انجو، پہلے تو میرا پیگ بنا تو، ٹیون یہی ہے اب سمجھ گیا تو۔‘ اسی دھن پر گلشن جی نے بول لکھے اور وہ تھے، ’قسمیں وعدے نبھائیں گے ہم۔‘ ایک انتہائی خوبصورت گیت۔
پنچم اور گلشن باورا کے بہترین گیتوں میں ’پیار ہمیں کس موڑ پہ لے آیا،‘ ’نشا جان جاں او میری جان جاں،‘ ’تو تو ہے وہی، تیرے بنا میں کچھ بھی نہیں ہوں،‘ ’سمندر میں نہا کر اور بھی نمکین ہو گئی ہو‘ اور ’دل مچل رہا ہے‘ جیسے کئی گیت شامل ہیں۔
پانچ دہائیوں تک فلم انڈسری میں رہنے کے باوجود گلشن باورا نے محض تین سو کے قریب گیت لکھے۔ ان کے گیت سنتے ہوۓ بہت کم ایسا ہوتا ہے کہ لفظوں کی خوبصورتی دل موہ لے۔ ایک نہایت روایتی قسم کے شاعر ہونے کے باوجود وہ اچھے موسیقاروں کے سہارے امر ہو گئے۔
’یاری ہے ایمان میرا‘ اور ’میرے دیش کی دھرتی‘ پر فلم فیئر ایوارڈ جیتنے والے گلشن باورا سات اگست 2009 کو آنجہانی ہو گئے۔