راج کپور کی فلم ’برسات‘ بالی وڈ کی تاریخ میں سنگ میل ثابت ہوئی۔ اس فلم سے لتا، شنکر جےکشن اور راج کپور کا ستارہ چمکا جو تقریباً اگلے 20 سال بالی وڈ میں جگمگاتا رہا۔ دھیرے دھیرے راج کپور اور شنکر جےکشن کی لو مدھم ہوتی چلی گئی۔ یہ الگ بات کہ لتا کی تابناکی کبھی نہ دھندلا سکی۔
موسیقاروں میں اس وقت انل بسواس، نوشاد اور سی رام چندر کا طوطی بول رہا تھا۔ نوشاد کی فلم بیجوباورا سے محمد رفیع نے لتا کے ساتھ پہلی پوزیشن سنبھال لی۔ دھیمے سروں میں ایس ڈی برمن کی آمد کے ساتھ دیو آنند کا چہرہ بھی نمایاں ہونے لگا۔ دلیپ کمار پہلے ہی فلم بینوں کے دل میں سما چکے تھے۔ اوپی نیّر بھی اسی دوران لاہور سے پنجابی ردھم سمیت بمبئی آن وارد ہوئے۔
50 کی دہائی میں بالی وڈ فلم انڈسٹری نے ان تمام لوگوں کا عروج دیکھا۔ 60 کی دہائی کے ابتدائی سال بھی ان کی گونج پوری طرح باقی رہی لیکن کب تک؟ اب وقت ہوا چاہتا تھا کہ بساط پہ نئے چہرے اپنی جلوہ گری دکھائیں۔ محبوب خان اور بمل رائے جیسے فلم ساز گزر گئے۔ اے آر کار دار بھی اپنا اچھا وقت گزار چکے۔ دلیپ کمار اور نوشاد کے ساتھ شنکر جےکشن اور راج کپور کا جادو بھی ماند پڑنے لگا۔ انل بسواس اور سی رام چندر اب کھیل کا حصہ نہ تھے، محض تماشائی تھے۔ اوپی نیّر کی ضد نے انہیں بھی کنارے لگا دیا۔
شنکر جےکشن کی کاپی لکشمی کانت پیارے لال کی صورت میں اپنے قدم مضبوط کرنے لگی۔ ایس ڈی برمن کے سائے میں ان کا بیٹا آر ڈی المعروف پنچم پوری تیاری کے ساتھ میدان میں قدم رکھ چکا تھا۔ ہدایت کار، موسیقار، شاعر اور لکھاری فلم کی روح ہوتے ہیں لیکن عوام تک ان کی رسائی اداکاروں کے وسیلے سے ہوتی ہے۔ نئے لوگ اظہار بھی نیا چاہتے تھے۔ ان سب کی مشکل اس وقت آسان ہوئی جب راجیش کھنّہ کا سورج طلوع ہوا۔ پرانے ستارے پہلے ہی مدھم ہوچکے تھے۔ جیسے ہی راجیش کھنّہ کی آرادھنا افق پہ پھیلی ان سب کا چراغ گل ہو گیا۔ نئی لہر میں اگر کوئی ڈٹ کر کھڑا تھا تو وہ تھی لتا کی آواز، ایس ڈی برمن کا سنگیت اور دیوآنند کا چہرہ۔
جب آرادھنا کے ساتھ کشور راتوں رات شہرت کی بلندی پر پہنچے تو بالی وڈ کی چولیں ہل کے رہ گئیں۔ محمد رفیع اور کشور کمار کے درمیان تب سے آج تک موازانہ ہوتا آیا لیکن ہم کون جو بتا سکیں کہ بہتر گلوکار کون تھا۔ ہم اس بات کی کھوج لگاتے ہیں کہ وہ کون سے عوامل تھے جن کی وجہ سے رفیع صاحب کی جگہ کشور نے سنبھال لی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
رفیع صاحب کی آواز میں سب سے بڑی خوبی ان کی کوملتا اور نزاکت ہے۔ ایس ڈی برمن اور دیو آنند کی فلم ’گائیڈ‘ کا کوئی بھی گیت اٹھا کے دیکھ لیجیے، یہ خاصیت پوری طرح موجود ہے۔
اس کے دو سال بعد ریلیز ہونے والی فلم ’جیول تھیف‘ کے موسیقار بھی ایس ڈی برمن تھے اور سکرین پہ چہرہ بھی دیو آنند کا تھا۔ اس فلم میں رفیع کا واحد گیت لتا کے ساتھ دوگانے کی صورت میں موجود ہے، ’دل پکارے آ رے آ رے‘ سنتے ہوئے گمان گزرتا ہے جیسے یہ رفیع کی آواز ہے ہی نہیں۔ حالانکہ اس سے پہلے رفیع لتا کے اکثر دوگانے سنتے ہوئے گمان گزرتا ہے جیسے رفیع لتا سے ایک قدم آگے ہے۔ بعض لوگ اس سلسلے میں انفیکشن کا ذکر بھی کرتے ہیں۔ وجہ جو بھی رہی ہو رفیع صاحب کے گلے سے وہ مٹھاس کبھی ویسی نہ بہتی سنائی دی۔
دلیپ کمار، شمی کپور، راجندر کمار اور بھارت بھوشن کی آواز کم و بیش ہمیشہ رفیع صاحب رہے۔ ان سب کا دور ختم ہو چکا تھا۔ پھر موسیقاروں کی وہ کھیپ بھی اپنی اننگز کھیل چکی تھی جن کی پہلی ترجیح رفیع تھے۔ ان میں نمایاں ترین نوشاد، شنکر جےکشن اوپی نیّر، روشن اور روی تھے۔
’آرادھنا‘ کے بعد اگلے تین سال اگر کسی کا سکہ چلتا رہا تو وہ راجیش کھنّہ تھا۔ راجیش کھنہ بہت واضح انداز میں کہہ چکا تھا کہ میری آواز کشور ہی ہو گا۔ جیسے ہی راجیش کھنّہ کی لہر ماند پڑی رفیع صاحب کو دوبارہ کام ملنے لگا اور انہوں نے اپنی موجودگی پوری طرح جتائی بھی۔
نئے لوگوں میں اصیل موسیقار ایک ہی تھا اور وہ تھا آر ڈی برمن۔ پنچم کی موسیقی میں ندرت اور تجربہ سب سے زیادہ اہمیت رکھتے ہیں۔ اس لیے پنچم اور کشور کی زہنی ہم آہنگی اور تال میل ایسی تھی کہ پنچم کے 80 فیصد گیت کشور کی طرف جاتے رہے۔
اگر اس بات کو مان بھی لیا جائے کہ ایس ڈی برمن بیمار پڑ گئے اس لیے پنچم نے بطور پلے بیک سنگر کشور کو استعمال کیا تو کوئی بہت زیادہ فرق نہیں پڑتا۔ کشور کا سمے تھا اور اسے روکنا ممکن ہی نہ تھا۔ اگر یہ ’آرادھنا‘ میں نہ ہوا ہوتا تو ’کٹی پتنگ‘ کے ذریعے ہوجاتا۔
اس میں کوئی دوسری رائے نہیں کہ کشور نے رفیع کو ناک آؤٹ کر دیا لیکن رفیع کی عظمت یہ ہے کہ رفیع ڈٹ کے کھڑا رہا، رِنگ چھوڑ کر بھاگا نہیں۔ رفیع نے کم بیک کیا اور بہت سے خوبصورت گیت گائے۔ جب پنچم نے ’شان‘ فلم کا گیت ’یما یما یما یماں یہ خوبصورت سماں‘ رفیع کو سنایا تو رفیع نے کہا کیا یہ میں گاؤں گا؟ یہ تو کسی طرح میری ٹائپ کا گیت نہیں۔ لیکن رفیع نے گا کر دکھایا۔
اُوشا کھنّہ کی موسیقی میں رفیع صاحب کی واپسی ’تیری گلیوں میں نہ رکھیں گے قدم آج کے بعد‘ سے ہوئی۔ مدن موہن کی فلم ’لیلی مجنوں‘ میں بھرپور گیت گانے کے بعد آر ڈی برمن کی فلم ’ہم کسی سے کم نہیں‘ اہم ترین فلم تھی۔
11 سال پہلے شمی کپور کی فلم ’تیسری منزل‘ میں رفیع صاحب کی آواز سے اڑان بھرنے والے پنچم کے لیے رفیع اب محض ایک واجبی ضرورت تھے۔ کشور اور پنچم کے درمیان سے ’ہم کسی سے کم نہیں‘ کے گیت ’کیا ہوا تیرا وعدہ‘ پر رفیع کو جب نو سال بعد بہترین گلوکار کا فلم فئیر ایوارڈ ملا تو رفیع کا اعتماد کس بلندی کو چھو رہا ہو گا۔
اسی گیت سے رفیع صاحب پہلی بار نیشنل فلم فئیر ایوارڈ بھی جیتنے میں بھی کامیاب ہوئے۔ تیری بندیا رے، درد دل، چاند میرا دل چاندنی ہو تم، تو اس طرح سے میری زندگی میں شامل ہے، برباد محبت کی دعا ساتھ لیے جا، جیسے گیت 70 کی دہائی میں بہت مقبول ہوئے لیکن اپنے دل پہ ہاتھ رکھ کے بتائیے ان میں سے کوئی ایک بھی گیت کشور کے ’میرے نیناں ساون بھادوں،‘ ’چنگاری کوئی بھڑکے،‘ ’زندگی کا سفر ہے یہ کیسا سفر،‘ ’یہ شام مستانی،‘ ’چلا جاتا ہوں کسی کی دھن میں،‘ ’زندگی اک سفر ہے سہانا‘ کے قریب آتا ہے؟
کشور کو ایک لمحے کے لیے بھول جائیے کیا 70 کی دہائی میں گائے ہوئے گیت خود رفیع صاحب کے بہترین گیتوں کی فہرست میں جگہ بناتے ہیں؟ ہرگز نہیں۔
یہ رفیع صاحب نہیں کشور کا سمے تھا۔ جی ہاں وہی کشور جسے کوئی موسیقار اپنے میوزک روم میں قدم نہ رکھنے دیتا تھا۔ جسے اس وقت کے نمبر ون موسیقار نوشاد نے 25 سال میں کبھی اس قابل ہی نہ سمجھا کہ ایک بار آزما کے ہی دیکھ لیتے۔ جب کشور کشور بن چکا تو نوشاد میاں نے آشا کے ساتھ ایک گیت گانے کے لیے کشور کو بلایا۔ 1974 میں جب ’سنہرا سنسار‘ نامی یہ فلم ریلیز ہوئی تو اس میں یہ دوگانا شامل ہی نہ تھا۔ لیکن اب کیا فرق پڑنا تھا؟ یہ نوشاد اور رفیع کا نہیں پنچم اور کشور کا عہد تھا۔