یہ آٹھ اکتوبر 1997 کی بات ہے۔ بھارتی مسلمانوں کے عائلی قوانین کے ماہر اور آندھرا پردیش ہائی کورٹ (جو اب تلنگانہ ہائی کورٹ کہلاتا ہے) کے سینیئر وکیل غلام یزدانی نے حیدرآباد دکن میں شاعر مشرق علامہ محمد اقبال کی فکر و فن کی ترویج کے لیے ’محافل اقبال شناسی لیکچرز‘ کے نام سے ایک ہفتہ وار لیکچر (سیریز) کا آغاز کیا۔
اس لیکچر سیریز کے لیے انہوں نے جس جگہ کا انتخاب کیا وہ تاریخی ’مکہ مسجد‘ کے بعد حیدرآباد دکن کی دوسری بڑی مسجد ’جامع مسجد عالیہ‘ ہے، جس کی انتظامیہ کمیٹی کے وہ گذشتہ کئی دہائیوں سے صدر ہیں۔
شہر کے تجارتی مرکز عابدس کے قریب سانچہ توپ گن فاؤنڈری نامی جگہ پر واقع یہ مسجد مختلف النوع سماجی، علمی اور ادبی سرگرمیوں کی میزبانی کے لیے شہر بھر میں مشہور ہے۔
پہلے لیکچر بعنوان ’اقبال اور افکارِ اقبال‘ سے حیدرآباد کی معروف اقبال اکیڈمی کے اس وقت کے صدر محمد ظہیر الدین احمد نے خطاب کیا اور لوگوں کی ایک اچھی خاصی تعداد اس سے فیض یاب ہونے کے لیے آئی تھی۔
1997 سے اب تک کم و بیش 25 برس کا عرصہ گزر چکا ہے۔ ایڈووکیٹ غلام یزدانی کی عمر جو 1997 میں 68 سال تھی، اور آج 93 سال ہے۔ انہوں نے بھلے ہی عمر کے تقاضے کے سبب عدالت جانا چھوڑ دیا ہے لیکن وہ اپنی شروع کردہ لیکچر سیریز کو پورے جذبے کے ساتھ جاری رکھے ہوئے ہیں۔
غلام یزدانی ہر بدھ کے دن مسجد کے کانفرنس ہال میں کسی نہ کسی ماہر اقبالیات کا لیکچر منعقد کراتے ہیں اور ’مسجد عالیہ‘ میں دستیاب ریکارڈ کے مطابق اب تک منعقد ہونے والے لیکچروں کی تعداد 1065 ہے۔
اس لیکچر سیریز کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ یہ دنیا میں اردو کی کسی ادبی شخصیت کے فن یا کلام پر منعقد کی جانے والی اس نوعیت کی پہلی طویل ترین اور منظم لیکچر سیریز ہے۔
خود کو فٹ رکھنے کے لیے غلام یزدانی آج بھی پبلک گارڈن (باغ عامہ حیدرآباد) میں ہر دن علی الصبح چہل قدمی اور ورزشیں کرتے ہیں، پھر سوئمنگ کرنے جاتے ہیں۔ کبھی کبھی شوقیہ طور پر مچھلی پکڑنے بھی جاتے ہیں۔
یقین نہیں تھا سفر جاری رکھنے کا
ایڈووکیٹ غلام یزدانی نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا: ’مجھے یقین نہیں تھا کہ یہ لیکچر سیریز ایک لمبے عرصے تک جاری رہے گی۔ جب میں نے اس کا آغاز کیا تب میں پختہ عمر کا تھا۔ اس عمر کا تقاضا ہوتا ہے کہ ہم کوئی بڑا خواب نہ دیکھیں۔
’میں اپنے لیے کسی بلند ترین چوٹی کو سر کرنے جیسا ہدف مقرر کیے بغیر سفر پر چل پڑا۔ ’لوگ ساتھ آتے گئے اور کارواں بنتا گیا‘ کے مصداق لوگ اس سفر کا حصہ بنتے رہے۔ میرا خیال ہے کہ اگر مقامی لوگ ساتھ نہیں دیتے تو یہ سلسلہ کب کا رک گیا ہوتا۔‘
غلام یزدانی کہتے ہیں کہ پاکستان سمیت دنیا کے مختلف حصوں سے جو لوگ حیدرآباد دکن آئے انہوں نے مجھے بتایا کہ پاکستان میں بھی علامہ اقبال پر اس نوعیت کی لیکچر سیریز کا انعقاد نہیں ہوا ہے۔
’وہاں (پاکستان میں) تو علامہ اقبال پر بہت سے لیکچر منعقد ہوتے ہوں گے لیکن اس طرح کی طویل اور منظم لیکچر سیریز منعقد نہیں ہو پائی ہے۔ چند برس قبل پاکستان سے ایک ادیب یہاں آئے تھے۔ میں نے انہیں اس لیکچر سیریز کے ایک لیکچر میں مخاطب ہونے کی دعوت دی۔ انہوں نے بھی یہ بات کہی کہ پاکستان میں اس نوعیت کی اب تک کوئی پہل دیرپا ثابت نہیں ہو پائی ہے۔‘
غلام یزدانی نے بتایا کہ ’اقبال شناسی لیکچر‘ ہر بدھ کو نماز عصر کے بعد شروع ہو کر مغرب کی اذان تک جاری رہتا ہے۔ یہ وقت اس لیے کیوں کہ یہ کالج یا یونیورسٹی جانے والے طلبہ اور ملازمین کو سوٹ کرتا ہے۔ تجارت پیشہ افراد بھی اس کا حصہ بنتے ہیں۔‘
مقامی ہائی کورٹ میں 60 سال تک وکالت کرنے والے ایڈووکیٹ یزدانی کہتے ہیں کہ انہیں اب لگتا ہے کہ یہ لیکچر سیریز ان کی رحلت کے بعد بھی جاری رہے گی۔
’اس سے استفادہ حاصل کرنے والے صرف یہاں کے مقامی لوگ نہیں بلکہ دوسرے ممالک یا اسی ملک کی دوسری ریاستوں سے یہاں آنے والے افراد بھی ہوتے ہیں۔ بعض اہم شخصیات بھی اس کا حصہ بنتی رہتی ہیں۔ آج بھی لوگ بڑے شوق سے یہ لیکچر سننے آتے ہیں، لیکن میں یہ اعتراف کرنا چاہوں گا کہ نوجوانوں کی دلچسپی کم ہو رہی ہے جو ایک اچھی بات نہیں ہے۔‘
ڈاکٹر محمد ناظم علی اپنی کتاب ’ادبی تبصرے‘ میں اس لیکچر سیریز کے متعلق لکھتے ہیں: ’جامع مسجد عالیہ میں اقبال پر ہفتہ واری لیکچرز و خطابات ماہرین اور دانشوروں کے ہوتے ہیں۔ غلام یزدانی ہر مقرر کو اپنے عنوان ان کی مرضی سے طے کرنے کی آزادی دیتے ہیں تاکہ خطاب کھل کر ہو۔ جو موضوع اپنی مرضی سے ہوتا ہے وہ کافی موثر اور عمدہ ہوتا ہے۔‘
بچپن میں کلامِ اقبال نے حوصلہ دیا
غلام یزدانی کہتے ہیں کہ علامہ اقبال اور کلامِ اقبال میں ان کی دلچسپی بچپن میں اس وقت پیدا ہوئی جب والد کا سایہ ان کے سر سے اٹھ گیا۔
’میری عمر دس سال تھی جب میرے والد کا انتقال ہو گیا۔ میرے دو چھوٹے بھائی اور ایک چھوٹی بہن تھی۔ والد کے کھونے کے بعد جن مراحل سے میں گزرا ان میں مجھے علامہ اقبال کے کلام نے ہی حوصلہ دیا اور اس میں میری دلچسپی بڑھتی گئی۔
’میں علامہ اقبال کے کلام خاص طور پر شکوہ، جواب شکوہ سے بے حد متاثر ہو گیا۔ پھر جب یہاں اقبال ڈے منایا جاتا تھا تو میں اس میں پابندی سے شرکت کرتا تھا۔ یہ لیکچر سیریز ان ہی اثرات کا نتیجہ ہے جو میں نے کم عمری میں قبول کیے تھے۔
’میں اپنے ساتھیوں کے ساتھ مل کر اب تک تلنگانہ، آندھرا پردیش، کرناٹک اور مہاراشٹر میں شکوہ، جواب شکوہ اور بانگ درا کے ہزاروں نسخے مفت تقسیم کرا چکا ہوں۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ایڈووکیٹ یزدانی، جو انجمن ترقی اردو آندھرا پردیش کے صدر بھی ہیں، کا کہنا ہے کہ اس لیکچر سیریز کے بعض لیکچرز کو ’مسجد عالیہ‘ کی بجائے دوسری جگہوں پر بھی منعقد کیا گیا ہے۔
’اس سیریز کا ایک ہزارواں لیکچر نو اکتوبر 2019 کو بعنوان ’اقبال کی فلاسفی میں عالمِ نو کے معمار‘ بمقام اردو حال حمایت نگر میں منعقد ہوا جس کو پروفیسر خواجہ ناصر الدین نے مخاطب کیا۔ اسی موقع پر سبھی ایک ہزار لیکچرز کی فہرست پر مبنی ایک کتابچہ بھی جاری کیا گیا۔‘
’محافل اقبال شناسی‘ کے پبلسٹی انچارج طاہر علی نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ آج تک منعقد ہونے والے سبھی لیکچروں کی نہ صرف ہمارے پاس مکمل تفصیلات موجود ہیں بلکہ ان لیکچرز کو ویڈیو یا آڈیو کی شکل میں محفوظ بھی کیا گیا ہے۔
’2009 سے، اس لیکچر سیریز کے جو لیکچر ہوئے ہیں، وہ ہم نے یوٹیوب پر اپ لوڈ کیے ہیں۔ اس سے قبل ہم ان لیکچرز کی آڈیو ریکارڈنگ کرتے تھے۔ ’مسجد عالیہ‘ میں اقبال شناسی کے علاوہ تاریخ اسلامی اور شریعت انفارمیشن سروس نامی دو دیگر ہفتہ وار لیکچرز بھی منعقد ہوتے ہیں۔‘
اقبال اکیڈمی کا تعاون حاصل
حیدرآباد دکن میں سماجی، فلاحی اور تعلیمی خدمات انجام دینے والی معروف تنظیم ’مجلس تعمیر ملت‘ اور اقبال اکیڈمی کے صدر محمد ضیا الدین نئیر نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو میں کہا کہ ہم ایڈووکیٹ غلام یزدانی کو مکمل تعاون فراہم کر رہے ہیں۔
’اس لیکچر سیریز کے لیے مقررین کی خدمات حاصل کرنے میں اقبال اکیڈمی کا ایک بڑا کردار رہا ہے۔ میں خود کم و بیش 150 لیکچر دے چکا ہوں۔ غلام یزدانی اقبال اکیڈمی کے سابق عہدے داروں میں سے ایک ہیں۔‘
محمد ضیا الدین نئیر نے بتایا کہ لاہور کے بعد اگر علامہ اقبال پر سب سے زیادہ کتابوں کا ذخیرہ کہیں ہے تو وہ اقبال اکیڈمی حیدرآباد میں ہے۔
’ہماری لائبریری میں موجود کتابوں کی تعداد 45 ہزار ہے جس میں سے 5500 کتابیں شاعر مشرق پر لکھی گئی ہیں۔ ان میں سے کم و بیش 60 کتابیں اکیڈمی کی شائع کردہ ہیں۔ علامہ اقبال پر عربی زبان میں اب تک 30 کتابیں چھپی ہیں جو ہمارے ذخیرے کا حصہ ہیں۔‘
ضیا الدین نئیر کہتے ہیں کہ 1959 میں اقبال اکیڈمی کا قیام عمل میں آنا ایک بہادری کا کام تھا کیوں کہ سقوط حیدرآباد (حیدرآباد کو بھارت میں ضم کیے جانے) کے بعد علامہ اقبال کا ذکر کرنا ایک جرم سمجھا جاتا تھا۔
’یہاں یہ پروپیگنڈہ عام تھا کہ پاکستان کی تخلیق میں علامہ اقبال کا ہاتھ ہے۔ چوں کہ حیدرآبادی عوام کو علامہ اقبال اور ان کی شاعری سے بے انتہا قربت تھی لہٰذا ماہر اقبالیات و اقبال شناس سید خلیل اللہ حسینی نے اسی ذوق و شوق کو دیکھ کر اقبال اکیڈمی قائم کی۔‘
علامہ اقبال اور حیدرآباد
محمد ضیا الدین نیئر کا کہنا ہے کہ علامہ اقبال تین مرتبہ حیدرآباد دکن آئے اور وہ یہاں کی عثمانیہ یونیورسٹی میں کام کرنے کے خواہاں تھے۔
’انہوں نے 1910، 1931 اور پھر 1937 میں حیدرآباد کا دورہ کیا۔ یہاں کے وزیر اعظم مہاراجہ سر کشن پرشاد ان کے بہت اچھے دوست تھے۔
’ایک بار ایسا بھی ہوا کہ یہاں کے مقامی اخبارات میں خبر چھپی کہ علامہ اقبال کو حیدرآباد دکن کی عثمانیہ یونیورسٹی کا رجسٹرار یا یہاں کا چیف جسٹس بنایا جائے گا۔ لیکن جب وہ یہاں پہنچے تو کوئی ایسی بات ہی نہیں تھی۔
’نظام حیدرآباد میر عثمان علی خان یا ان کے وزرائے اعظم چاہتے تو علامہ اقبال کی خدمات حاصل کر سکتے تھے۔ کیوں نہیں کیں مجھے لگتا ہے کہ شاید اس میں سازشیں کارفرما تھیں۔ جب کہ علامہ اقبال عثمانیہ یونیورسٹی میں کام کرنے کی خواہش رکھتے تھے۔‘
ضیا الدین نئیر کہتے ہیں کہ علامہ اقبال حیدرآباد میں اتنے مقبول تھے کہ ابھی وہ زندہ ہی تھے کہ یہاں ’یوم اقبال‘ منانے کا آغاز ہوا۔
’یہ ’یوم اقبال‘ سات جنوری 1938 کو اس عمارت میں منایا گیا جو آج حیدرآباد کی جنرل اسمبلی کہلاتی ہے۔ وہ عمارت تب ٹاؤن ہال کہلاتی تھی۔ اس یوم اقبال کی صدارت بلبلِ ہند سروجنی نائیڈو نے کی تھی۔
’یہاں علامہ اقبال کی مقبولیت اس وجہ سے بھی عروج کو پہنچی تھی کیوں کہ نواب بہادر یار جنگ (مجلس اتحاد المسلمین کے بانی اور محمد علی جناح کے دست راست) ہر ایک جلسے یا تقریب میں کلام اقبال پڑھ کر سناتے تھے۔‘