(منٹو کی سالگرہ کے موقعے پر خصوصی تحریر)
امرتسر کی ادبی تاریخ میں ’شیراز‘ ہوٹل کو وہی مقام حاصل تھا جو لاہور میں ’پاک ٹی ہاؤس‘ کو۔ جب دیکھو ادیبوں کی منڈلی جمی ہے اور دنیا بھر کے موضوعات پر بحث ہو رہی ہے۔
’شیراز‘ کی رونقیں اس وقت عروج پہ ہوتیں جب لاہور سے اس عہد کے مقبول ترین شاعر اختر شیرانی تشریف لاتے۔ سیف الدین سیف، حاجی لق لق، خلش کاشمیری اور دیگر لوگوں کے ساتھ ایک نوجوان سعادت حسن بھی اپنے تین دیگر دوستوں حسن عباس، ابوسعید قریشی اور فوٹوگرافر عاشق کے ساتھ ان محفلوں کا حصہ تھا۔
یہ 1933 کی بات ہے جب ’شیراز‘ میں ایک نیا چہرہ غلام باری وارد ہوا جو باری علیگ کے نام سے لکھا کرتا تھا۔ وہ ’مساوات‘ کی ملازمت کے سلسلے میں لائل پور سے آئے تھے۔
یہی باری علیگ وہ شخصیت ہیں جنہوں نے اسی شیراز ہوٹل میں برپا ہونے والی محفلوں کے دوران اس وقت کے ان گھڑ نوجوان سعادت حسن کو تراشا، اور اسے وہ ادیب بنایا جسے آپ اور ہم سعادت حسن منٹو کے نام سے جانتے ہیں۔
’شیراز‘ کی محفلوں میں اب تین شخص ایسے تھے جن کی وابستگی مساوات سے تھی، حاجی لق لق، م حسن لطیفی اور باری علیگ۔ شیراز سے بننے والی جان پہچان دوستی میں بدلنے لگی اور اب منٹو اپنے دوستوں کے ہمراہ مساوات کے دفتر بھی جانے لگا۔ ابتدا میں باری صاحب منٹو کو ایک آدھ خبر ترجمے کے لیے پکڑا دیتے لیکن بہت جلد فلموں پر تبصرہ لکھوانے لگے۔
منٹو پہلے مساوات کا باقاعدہ حصہ بنے اور بعد میں کرم چند کے لاہور سے نکلنے والے اخبار ’پارس‘ میں 40 روپے ماہوار پر نوکری کر لی۔ کچھ ہی عرصے میں انہیں بیماری کے سبب کشمیر جانا پڑا جہاں سے وہ لاہور واپسی کے بجائے امرتسر چلے گئے۔ اس دوران انہوں نے کچھ تراجم اور طبع زاد چیزیں بمبئی کے رسالے ’مصور‘ میں بھیجیں جو ایک نئے سلسلے کی پہلی کڑی ثابت ہوئیں۔
بمبئی میں پہلا پڑاؤ
منٹو کی تحریروں سے متاثر ہو کر نذیر لدھیانوی نے اپنے ہفت روزہ میگزین ’مصور‘ کی ادارت کے لیے منٹو کو بمبئی بلوا بھیجا۔ یہاں بھی وہی 40 روپے تنخواہ طے ہوئی اور منٹو فلموں پر تنقیدی مضامین اور تبصرے لکھنے لگے۔ اس سے پہلے بڑے ہومیوپیتھک قسم کے تبصروں کا رواج تھا۔ منٹو نے ’بال کی کھال‘ اور ’نت نئی‘ جیسے کالموں کے سلسلے سے ایک طوفان برپا کر دیا۔
مرزا ادیب کے بقول ’مصور کی ورق گردانی کرتا تو بال کی کھال اور منٹو کا صفحہ دیکھ کر حیران ہو جاتا تھا۔ منٹو کتنا لڑاکا ہے، ہر ایک سے لڑتا پھرتا ہے۔‘
نذیر لدھیانوی بہت خوش تھے لیکن منٹو کے لیے 40 روپے میں گزر بسر مشکل ہو رہی تھی۔ منٹو نے بمبئی کے فلم سٹوڈیوز میں قسمت آزمانے کا فیصلہ کر لیا۔
سٹوڈیو میں پہلی انٹری
وی شانتا رام کی فلم کمپنی پربھات کے اشتہارات اور تبصرے بابو راؤ پٹیل کے ’فلم انڈیا‘ میں چھپتے تھے جو انگریزی زبان کا پرچہ تھا۔ وہاں سے منٹو کو انگریزی سے اردو میں ترجمے کی ایک چھوٹی سی اسائنمنٹ ملی۔ یہاں سے منٹو نے پربھات سے تعلق گانٹھ لیا اور انہیں فلم ’بن کی سندری‘ کے مکالمے لکھنے کا موقع ملا۔
یہ کسی سٹوڈیو میں منٹو کی پہلی باقاعدہ ملازمت تھی جس کا ذکر کرتے ہوئے وہ لکھتے ہیں، ’اس وقت میں 40 روپے ماہوار پر ایک فلم کمپنی میں ملازم تھا اور میری زندگی بڑے ہموار طریقے سے رفتاں و خیزاں گزر رہی تھی۔ چالو فلم کے لیے چالو قسم کے مکالمے لکھے۔ بنگالی ایکٹریس سے، جو اُس زمانے میں بلبلِ بنگال کہلاتی تھی، تھوڑی دیر مذاق کیا اور دادا گورے کی، جو اس عہد کا سب سے بڑا فلم ڈائریکٹر تھا، تھوڑی سی خوشامد کی اور گھر چلے آئے۔‘
منٹو مزید لکھتے ہیں کہ ’سٹوڈیو کا مالک ہرمزجی فرام جی، جو موٹے موٹے لال گالوں والا موجی قسم کا ایرانی تھا، ایک ادھیڑ عمر کی خوجہ ایکٹریس کی محبت میں گرفتار تھا۔‘
یہ فلم تکمیل کو پہنچی تو نئے کام کی تلاش شروع ہوئی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
امپیریل فلم کمپنی
اچھی خاصی خجل خواری کے بعد منٹو کو امپریل فلم کمپنی میں کام ملا جہاں حکیم احمد شجاع کے تحریر کردہ سکرپٹ کے چند منظر نامے از سر نو لکھنا تھے۔
امپیریل میں ہی انہیں ’کسان کنیا‘ لکھنے کا موقع ملا۔ یہ پہلی فلم تھی جس کی کہانی، سکرپٹ، منظرنامہ اور مکالمے سب کچھ منٹو نے تحریر کیا۔ ہندوستان کی پہلی رنگین فلم بنانے کے چکر میں امپیریل نے باہر سے بھاری مشینری منگوا لی جس سے کمپنی مالی مشکلات کا شکار ہو گئی۔ پرویز انجم کے مطابق کسان کنیا باکس آفس پر کوئی دھماکہ تو نہ کر سکی لیکن ناکام بھی نہیں رہی۔
اس کے بعد ان کی فلم ’مجھے پاپی کہو‘ ریلیز ہوئی جو بری طرح پٹ گئی اور اپنے ساتھ امپیریل کو بھی لے ڈوبی۔ منٹو کی اگلی منزل سروج موی ٹون تھی۔
سروج موی ٹون
یہ کمپنی نانو بھائی ڈیسائی نے 1931 میں قائم کی تھی جو نقش سلیمانی، روپ بسنت، سسی پنوں، مرزا صاحباں، سوہنی مہیوال اور عدل جہانگیری جیسی مشہور فلمیں دینے کے بعد اپنی آخری سانسوں پہ تھی۔ منٹو کی فلم ’تو بڑا کہ میں‘ تابوت میں آخری کیل ثابت ہوئی اور 1938 میں اس کی ریلیز کے ساتھ ہی کمپنی کا دیوالیہ پٹ گیا۔
سیٹھ نانو بھائی ڈیسائی ویسے بیوقوف نہ تھے جیسے نام سے لگتے ہیں۔ انہوں نے ایک اور سیٹھ کو شیشے میں اتارا اور اسی چار دیواری میں ’ہندوستان سنےٹون‘ کے نام سے نئی کمپنی کھڑی کر دی۔ نئی کمپنی کے لیے منٹو سے نئی کہانی لکھوائی گئی جس کا نام تھا ’مڈ‘ یعنی کیچڑ۔ گجراتی زبان میں ’اپنی نگریا‘ کے نام سے اس فلم کی 1940 میں نمائش ہوئی جو خاصی کامیاب رہی۔
کمپنی کی طرف منٹو کے 18 سو روپے واجب الادا تھے لیکن وہ ٹال مٹول سے کام لے رہی تھی۔ منٹو نے کافی شور مچانے کے بعد بمشکل پانچ سو روپے نقد نکلوائے اور چلتے بنے۔
چند مہینے بمبئی میں چھوٹے موٹے کام کرنے کے بعد وہ 1941 کے آغاز میں ڈراما اور فیچر رائٹر کے طور پر دہلی ریڈیو سٹیشن چلے گئے جہاں تقریباً ایک برس رہے اور سو سے زائد ڈرامے لکھے۔
دہلی ریڈیو سٹیشن اور مرزا غالب فلم
دہلی میں قیام کے دوران منٹو کی مصروفیات اور نوعیت کی تھیں لیکن فلم سے ان کا تعلق کسی نہ کسی طرح برقرار رہا۔ اس کی ایک مثال کرشن چندر کے ساتھ مل کر فلم کے لیے ’بنجارہ‘ نامی کہانی تیار کرنا ہے۔ لیکن منٹو کے قلم سے مرزا غالب کی کہانی کا صفحات پر منتقل ہونا اس دور کا یادگار ترین واقعہ ہے۔
منٹو مرزا غالب پر اپنے مضمون ’غالب اور چودھویں‘ میں لکھتے ہیں ’افسانہ نگار کے لیے یہ چند اشارے مرزا غالب کی رومانوی زندگی کا نقشہ تیار کرنے میں کافی مدد دے سکتے ہیں۔ رومان کی ازلی تکون تو ’ستم پیشہ ڈومنی‘ اور ’کوتوال دشمن تھا‘ کے مختصر الفاظ ہی مکمل کر دیتے ہیں۔‘
بہت بعد میں سہراب مودی نے یہ فلم بنائی جس کا سکرپٹ اور مکالمے راجندر سنگھ بیدی نے لکھے تھے۔ منٹو کی شدید خواہش تھی کہ وہ اس کی نمائش پر بمبئی جائیں لیکن ویزا نہ ملنے کے سبب ان کا یہ سپنا ادھورا رہ گیا۔
اس فلم کی ایک اور امتیازی خاصیت غلام محمد کی لاجواب موسیقی ہے۔
بمبئی واپسی اور آٹھ دن میں پاگل کا کردار
اپنے کام میں مداخلت منٹو کو کبھی گوارا نہ تھی۔ جب دہلی میں زبردستی اپنے مسودے میں تبدیلیاں ہوتی دیکھیں تو اپنا ٹائپ رائٹر بغل میں دبایا اور بمبئی چلے آئے۔
واپس آ کر وہ مصور کو ساقی کے نقوش پر ماہانہ رسالے میں تبدیل کرنے کے خواہش مند تھے لیکن یہ بیل منڈھے نہ چڑھی۔ انہوں نے سن رائز پکچرز کے ساتھ اپنی فلمی کہانی ’نوکر‘ 1250 میں بیچنے کا معاہدہ کر لیا۔ نوکر کے ہدایات کار سید شوکت حسین رضوی تھے۔
منٹو نے احمد ندیم قاسمی سے گیت لکھوائے لیکن رضوی کو پسند نہ آئے۔ بعد میں گیت ناظم پانی پتی اور منشی شمس نے لکھے جن کی دھنیں رفیق غزنوی نے ترتیب دی تھیں۔
نوکر کے بعد منٹو نے گھر کی شوبھا، چل چل رے نوجوان، بیگم اور شکاری لکھیں لیکن ان میں ایک فلم ’آٹھ دن‘ اپنی تاریخی اہمیت کی وجہ سے خصوصی ذکر کی مستحق ہے۔ اس فلم میں اوپندر ناتھ اشک، راجہ مہدی علی خاں اور منٹو نے مختلف کرداروں میں اداکاری بھی کی۔
آٹھ دن کی شوٹنگ کے دوران منٹو کے بقول ایک دن میرا جی بدن کی غلاظت سمیت عجیب و غریب حلیے میں کہیں سے آن ٹپکے۔ منٹو نے میرا جی کو دو گیت لکھنے کا موقع دیا تاکہ ان کی کچھ مالی مدد ہو سکے۔ میرا جی نے کھڑے کھڑے نہایت واہیات قسم کے غیر فلمی گیت تھما دیے جو مسترد ہو گئے۔
فلم میں منٹو کا کردار ایک پاگل فوجی کا تھا جس کے ادبی حلقوں میں فلم کی ریلیز سے پہلے خوب چرچے رہے۔ انتظار حسین کے مطابق انہوں نے یہ فلم میرٹھ میں عسکری صاحب کے ساتھ دیکھی۔ جیسے ہی منٹو پاگل فوجی کے روپ میں نمودار ہوئے انہوں نے مجھ سے کہا ’یہ اداکار کوئی اور نہیں منٹو صاحب ہیں۔‘
منٹو اس فلم کی ریلیز کے بعد کافی پرجوش تھے۔ دوستوں سے خطوط میں ذکر کرتے ہوئے وہ آئندہ کے سنہرے سپنوں کا بھی ذکر کرتے ہیں۔ لیکن اس دوران بٹوارے کی افتاد ٹوٹ پڑی اور سب کچھ تتر بتر ہو گیا۔ البتہ منٹو کی زندگی سے بمبئی کا نقش مدھم نہ ہو سکا۔
بمبئی میں دوستوں کی محفلیں اور چہل پہل تھی، بیوقوف سیٹھ اور ’ہپ ٹلا‘ لڑکیاں تھیں، سب سے بڑھ کر شراب کی فروانی ہی فراوانی تھی۔ بھانت بھانت کے لوگ اور رنگ برنگی شرابیں، منٹو کو بھلا اور کیا چاہیے تھا۔ پاکستان آنے کے بعد منٹو اس دور کو آخر تک یاد کرتے رہے۔