(سعادت حسن منٹو کے یومِ پیدائش کے موقعے پر خصوصی تحریر)
یہ 1930 کی دہائی کے وسط کی بات ہے۔ سعادت حسن، جنہیں آج دنیا اردو ادب کے عظیم المرتبہ افسانہ اور خاکہ نگار ’منٹو‘ کے نام سے جانتی ہے، کو تپ دق کے عارضے میں مبتلا ہونے کی وجہ سے علی گڑھ مسلم یونیورسٹی سے نکالا گیا۔
علی گڑھ سے امرتسر واپس آنے کے بعد دوستوں نے سعادت حسن کو اس بیماری سے صحت یاب ہونے کے لیے کشمیر کی پہاڑیوں میں واقع صحت افزا مقام بٹوت کا سفر اختیار کرنے کا مشورہ دیا۔
بٹوت جانے کا مشورہ اس لیے کیوں کہ ان دنوں یہاں ایک سینی ٹوریم قائم تھا، جہاں شمالی ہندوستان سے تعلق رکھنے والے تپ دق کے مریضوں کو روبہ صحت ہونے کی امید کی کرن نظر آتی تھی۔
سعادت حسن نے علاج، سفر اور قیام پر آنے والے اخراجات کی تکمیل کے لیے اپنی بہن سے کچھ پیسے لے کر امرتسر سے جموں تک ٹرین اور جموں سے بٹوت تک بذریعہ گاڑی سفر کیا اور پھر تین ماہ تک یہیں ڈیرہ زن رہے۔
بٹوت میں اپنے قیام کے دوران انہیں ایک مقامی دراز قد کی انتہائی خوبصورت دوشیزہ سے عشق ہو گیا جو آلائشوں سے پاک ایک ذہنی اور روحانی لگاؤ تھا۔ وہ دوشیزہ ایک چرواہی تھیں جنہیں منٹو نے پہلی بار اپنی بھینسوں کے ساتھ دیکھا تھا۔
اگرچہ کچھ ہفتوں بعد ہی دونوں کی راہیں الگ ہوئیں لیکن اس دوشیزہ کی یادیں منٹو کے دل و دماغ میں ہمیشہ کے لیے گھر کر گئیں، جس کا ثبوت منٹو کے کئی افسانے جیسے ’بیگو،‘ ’موسم کی شرارت،‘ ’ایک خط،‘ ’لالٹین‘ اور ’مصری کی ڈلی‘ نیز معروف مصنفہ عصمت چغتائی کا خاکہ ’میرا دوست، میرا دشمن‘ فراہم کرتے ہیں۔
کشمیر کی معروف علمی و ادبی شخصیت ایاز رسول نازکی نے اپنے ایک مضمون بعنوان ’منٹو اور کشمیر‘ میں لکھا ہے: ’بٹوت کی تازہ اور خوشگوار ہواؤں کی بدولت تپ دق کے عارضے سے چھٹکارا ملا تو ملا مگر بدلے میں دل کا روگ بھی لگا بیٹھے۔ ایک مقامی دوشیزہ کے ساتھ ہونے والا یہ عشق منٹو کا اولین عشق تھا اور اس کی کسک تمام عمر اُن کے دل میں بستی رہی۔‘
یہ مضمون جموں اینڈ کشمیر اکیڈمی آف آرٹ، کلچر اینڈ لینگویجز کی جانب سے شائع کردہ جریدے ’ہمارا ادب‘ کے ’سعادت حسن منٹو نمبر‘ میں شائع ہوا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
بٹوت میں اپنے تین ماہ کے قیام کے بارے میں منٹو اپنے افسانے ’پانچ دن‘ میں رقم طراز ہیں: ’جموں توی کے راستے کشمیر جائیے تو کُد کے آگے ایک چھوٹا سا پہاڑی گاؤں بٹوت آتا ہے۔ بڑی پُرفضا جگہ ہے۔ یہاں دق کے مریضوں کے لیے ایک چھوٹا سا سینی ٹوریم ہے۔ یوں تو آج سے آٹھ نو برس پہلے بٹوت میں پورے تین مہینے گزار چکا ہوں، اور اس صحت افزا مقام سے میری جوانی کا ایک ناپختہ رومان بھی وابستہ ہے مگر اس کہانی سے میری کسی بھی کمزوری کا تعلق نہیں۔‘
وہ ’دوشیزہ‘ کون تھیں؟
سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں اپنی پہلی محبوبہ (کئی لوگوں کا ماننا ہے کہ یہ منٹو کا پہلا اور آخری عشق تھا) کو بیگو، وزیر بیگم اور وزیر کے ناموں سے یاد کیا ہے۔
کشمیر کے نامور ادیب و محقق ڈاکٹر لیاقت جعفری وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نے منٹو کی محبوبہ کا پتہ معلوم کرنے میں کامیابی حاصل کی ہے۔
ڈاکٹر لیاقت جعفری نے اپنے ایک تحقیقی مقالے میں لکھا ہے کہ ’منٹو اور بٹوت‘ کے تعلق یا رشتے کو کھنگالنے کے لیے میں نے دسمبر 2017 کے پہلے ہفتے میں بٹوت کا سفر کیا، جہاں کشمیر پولیس کے دو سینیئر عہدیداروں بسنت رتھ اور مشتاق احمد چوہدری، جو دونوں منٹو کے مداح ہیں، نے میری ملاقات ’بیگو‘ کے بھتیجے سعد اللہ شاہ میر سے کرائی۔
وہ لکھتے ہیں: ’سعد اللہ شاہ میر کے مطابق بیگو ابھی 14، 15 سال پہلے تک حیات تھیں، ان کا اصل نام اقبال بیگم تھا اور سعد اللہ شاہ میر کے دادا کمال میر کی بیٹی تھیں۔ بقول سعد اللہ شاہ بیگو ساڑھے چھ فٹ کی طویل قامت بلا کی خوبصورت اور تیکھے نین نقش والی خاتون تھیں۔ کچھ سال پہلے وفات کے وقت ان کی عمر 85، 90 کے بیچ میں رہی ہوگی۔ شادی کے باوجود ان کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی البتہ انہوں نے ایک بچہ گود لیا ہوا تھا۔‘
’سعد اللہ شاہ بیگو کے بارے میں خوب جانتے ہیں۔ وہ بیگو کے چھوٹے بھائی مرحوم غلام حسین میر کے بیٹے ہیں یعنی بیگو کے بھتیجے۔ بزرگوں میں سے یہی ایک شخص ہے جو منٹو پر بات کرنے کے حوالے سے سنجیدہ نظر آئے۔ سعد اللہ شاہ کو اس کہانی کی ایک آخری کڑی سمجھ لیجیے۔ وہ بہت فعال سماجی کارکن ہیں اور ان کا پیشہ ٹھیکے داری ہے۔‘
سعد اللہ شاہ نے ڈاکٹر لیاقت جعفری کو بتایا ہے: ’میں نے جب ہوش سنبھالا تو پڑھائی کے دوران منٹو کا نام سنا، گریجویشن کرنے تک منٹو کی ایک دو چیزیں بھی پڑھیں، خاص طور پر ان کا افسانہ ’کالی شلوار‘ مجھے بہت پسند ہے۔ انہی دنوں میری پھوپھی مرحومہ اقبال بیگم کو مرکز بنا کر ان کا لکھا افسانہ ’بیگو‘ بھی پڑھا تو جانا کہ یہ میری پھوپھی کا ہی افسانوی قصہ ہے۔‘
سعد اللہ شاہ کے مطابق: ’افسانہ ایک ایسی صنف ہے جس میں تخلیق کار کا تخیلاتی ذہن زیادہ کردار ادا کرتا ہے۔ ضروری نہیں ہے وہ سب حقیقت ہی ہو، فکشن ایسے لکھا جاتا ہے، ٹھیک ہے منٹو نے بیگو کو دیکھا ہو گا اسے چاہا ہو گا اس سے ملاقاتیں کی ہوں گی، بعد ازاں بٹوت سے جانے کے بعد کہانی بھی لکھ ماری، لیکن فکشن کی تخلیق کے اپنے لوازمات ہوتے ہیں، سو منٹو نے حقیقت اور افسانے کی آمیزش سے یہ قصہ گڑھا ہے۔‘
ڈاکٹر جعفری نے سعد اللہ شاہ کے حوالے سے لکھا ہے کہ تپ دق کی بیماری کے دوران منٹو لاہور اور امرتسر سے کئی برسوں میں قریب چار پانچ مرتبہ بٹوت آئے ہیں۔
’تپ دق کے مرض کا ان دنوں کوئی علاج نہ تھا، آخرش مریض فوت ہی ہو جاتا تھا۔ سو اس مرض کے مریض کو گرمی کے دنوں میں بٹوت کی طرف آنا ہی پڑتا تھا۔ شمالی ہندوستان میں اتنے بڑے پیمانے پر مریضوں کو سنبھالنے والا یہی ایک سینی ٹوریم تھا۔ زیادہ تر قریبی شہروں سیالکوٹ، امرتسر، پنجاب اور وزیر آباد سے ہی لوگ اس طرف آتے تھے۔ دق کے مریضوں کے اس علاج مرکز کے علاوہ بھی یہ علاقہ سیاحت کا ایک مشہور مقام تھا۔‘
ڈاکٹر لیاقت جعفری مزید لکھتے ہیں: ’سعد اللہ شاہ کے مطابق بٹوت سے منٹو کے تعلق کے حوالے سے کوئی بھی دستاویز ملنا مشکل ہے نہ کوئی فلم ٹی وی یا ڈاکیومنٹری کی ٹیم ہی اس طرف آئی ہے۔ آپ شاید پہلے شخص ہیں جو بیگو کے خاندان کی جڑوں کی تلاش میں اس طرف وارد ہوئے ہیں۔‘
’سعد اللہ نے یہ بھی بتایا کہ ’مرحومین (علاقے کے بزرگ) منٹو یا منٹو کی تحریروں کو پڑھنے سے باز رکھتے تھے کہ وہ ایک فحش نگار ہے، بچوں کے ذہن خراب کرتا ہے۔‘
70 سالہ سعد اللہ شاہ نے انڈپینڈنٹ اردو سے مختصر گفتگو میں کہا کہ اقبال بیگم نہ صرف انتہائی خوبصورت اور طویل القامت بلکہ وہ جنگجو اور بہادر خاتون بھی تھیں۔
’وہ میری سگی پھوپھی تھیں۔ بہادری کی وجہ سے بٹوت میں آج بھی اُن کا نام چلتا ہے۔ جب وہ بازار میں چلتی تھیں تو لوگ کانپ جاتے تھے۔ وہ بالکل ان پڑھ تھیں۔‘
منٹو کا افسانہ اور عصمت چغتائی کا خاکہ
سعادت حسن منٹو نے اپنے افسانوں میں بٹوت کی چرواہی یعنی اپنی محبوبہ کے لیے جس نام کا سب سے زیادہ استعمال کیا ہے وہ ’بیگو‘ ہے۔ اس نام یا عنوان سے لکھے جانے والے اپنے ایک افسانے (بیگو) میں انہوں نے بٹوت کی اپنی عشقیہ کہانی کے کئی دریچے کھول دیے ہیں۔
چرواہی سے پہلی ملاقات کے متعلق منٹو اپنے افسانے ’بیگو‘ میں لکھتے ہیں: ’میں نیچر کے مسرت افزا مناظر سے لطف اندوز ہوتا سڑک کے ایک موڑ پر پہنچتا ہوں ۔۔۔ دفعتاً میری نگاہیں اس سے دو چار ہوتی ہیں۔ بیگو مجھ سے بیس قدم کے فاصلے پر اپنی بھینس کے ساتھ کھڑی ہے۔۔۔ جس داستان کا انجام اس وقت آپ کے پیش نظر ہے۔ اس کا آغاز یہیں سے ہوتا ہے۔‘
’وہ جوان تھی۔ اس کی جوانی پر بٹوت کی فضا پوری شدت کے ساتھ جلوہ گر تھی۔ سبز لباس میں ملبوس وہ سڑک کے درمیان مکئی کا ایک دراز قد بوٹا معلوم ہو رہی تھی۔ چہرے کے تانبے ایسے تاباں رنگ پر اس کی آنکھوں کی چمک نے ایک عجیب کیفیت پیدا کر دی تھی۔ جو چشمے کے پانی کی طرح صاف اور شفاف تھیں۔۔۔ میں اس کو کتنا عرصہ دیکھتا رہا۔ یہ مجھے معلوم نہیں۔ لیکن اتنا یاد ہے کہ میں نے دفعتاً اپنا سینہ موسیقی سے لبریز پایا اور پھر میں مسکرا دیا۔‘
’اس کی بہکی ہوئی نگاہوں کی توجہ بھینس سے ہٹ کر میرے تبسم سے ٹکرائی۔ میں گھبرا گیا۔ اس نے ایک تیز تجسس سے میری طرف دیکھا جیسے وہ کسی بھولے ہوئے خواب کو یاد کر رہی ہے۔ پھر اس نے اپنی چھڑی کو دانتوں میں دبا کر کچھ سوچا اور مسکرا دی، اس کا سینہ چشمے کے پانی کی طرح دھڑک رہا تھا۔ میرا دل بھی میرے پہلو میں انگڑائیاں لے رہا تھا۔۔۔‘
’اور یہ پہلی ملاقات کس قدر لذیذ تھی۔ اس کا ذائقہ ابھی میرے جسم کی ہر رگ میں موجود ہے ۔۔۔ وہ چلی گئی ۔۔۔ میں اس کو آنکھوں سے اوجھل ہوتے دیکھتا رہا۔ وہ اس انداز سے چل رہی تھی جیسے کچھ یاد کر رہی ہے۔ کچھ یاد کرتی ہے مگر پھر بھول جاتی ہے۔ اس نے جاتے ہوئے پانچ چھ مرتبہ میری طرف مڑ کر دیکھا۔ لیکن فوراً سر پھیر لیا۔‘
’جب وہ اپنے گھر میں داخل ہو گئی جو سڑک کے نیچے مکئی کے چھوٹے سے کھیت کے ساتھ بنا ہوا تھا، میں اپنی طرف متوجہ ہوا۔ میں اس کی محبت میں گرفتار ہو چکا تھا۔ اس احساس نے مجھے سخت متحیر کیا۔ میری عمر اس وقت اٹھارہ سال کی تھی۔‘
’کالج میں اپنے ہم جماعت طلبہ کی زبانی میں محبت کے متعلق بہت کچھ سن چکا تھا۔ عشقیہ داستانیں بھی اکثر میرے زیر مطالعہ رہی تھیں۔ مگر محبت کے حقیقی معانی میری نظروں سے پوشیدہ تھے۔ اس کے جانے کے بعد جب میں نے ایک ناقابل بیان تلخی اپنے دل کی دھڑکنوں میں حل ہوتی ہوئی محسوس کی تو میں نے خیال کہ شاید اسی کا نام محبت ہے۔۔۔ یہ محبت ہی تھی۔۔۔‘
عصمت چغتائی نے ’میرا دوست، میرا دشمن‘ کے عنوان سے منٹو کا خاکہ لکھا ہے۔ وہ منٹو سے ہونے والے ایک مکالمے کی تفصیلات بیان کرتے ہوئے لکھتی ہیں:
’منٹو نے دور ماضی کے دھند لکوں میں کچھ ٹٹول کر سوچتے ہوئے خود سے کہا "کشمیر میں ایک چرواہی تھی۔‘
عصمت کے کریدنے پر منٹو بتاتے ہیں: ’بس جب وہ مویشی ہانکنے کے لیے اپنی لکڑی اوپر اٹھاتی تھی تو اس کی سفید کہنی دکھائی دے جاتی تھی۔ میں کچھ بیمار تھا۔ روز ایک کمبل لے کر پہاڑی پر جا کر لیٹ جایا کرتا تھا اور سانس روکے اس لمحے کا انتظار کیا کرتا تھا جب وہ ہاتھ اوپر کرے تو آستین سرک جائے اور مجھے اس کی سفید کہنی دکھائی دے جائے۔‘
عصمت کے مطابق منٹو نے مزید کہا کہ ’میں نے سوائے کہنی کے اس کے جسم کا اور کوئی حصہ نہیں دیکھا۔ ڈھیلے ڈھالے کپڑے پہنے رہتی تھی۔ اس کے جسم کا کوئی خط نہیں دکھائی دیتا تھا۔ مگر اس کے جسم کی ہر جنبش پر میری آنکھیں کہنی کی جھلک دیکھنے کے لیے لپکتی تھیں۔
منٹو کا بٹوت سے والدہ کو خط
ڈاکٹر لیاقت جعفری نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا کہ منٹو اور بٹوت کے رشتے کی تحقیق کے دوران سعادت حسن منٹو کی بیٹی نصرت جلال منٹو نے انہیں ایک ایسا خط فراہم کیا جو مئی 1936 میں منٹو نے بٹوت سے امرتسر میں مقیم اپنی والدہ سردار بیگم عرف چھوٹی بیگم کو لکھا تھا۔
’یہ خط دیتے ہوئے لاہور میں مقیم نصرت منٹو نے فرط جذبات میں مجھ سے کہا تھا کہ لیاقت میاں خوش بخت ہو کہ ہمارے پاس محفوظ کشمیر کی یہ امانت میں آج تمہارے ہاتھوں، اپنے کشمیر کو واپس روانہ کر رہی ہوں۔‘
منٹو متذکرہ خط میں اپنی والدہ کو لکھتے ہیں: 'میری صحت میں کوئی خاص فرق نہیں۔ سینے میں درد رہتا ہے، بہرحال اتنا ضرور ہے کہ میری کمر کا درد اب بہت حد تک جاتا رہا ہے اور سیر کرنے کے بعد تکان محسوس نہیں ہوتی۔ میں چار پانچ میل روزانہ صبح اور شام سیر کرتا ہوں اور دن کا بیشتر حصہ پیڑوں کے سائے میں گزارتا ہوں۔ آپ کوئی فکر نہ کریں۔ انشا اللہ صحت بہت جلد ٹھیک ہو جائے گی۔
’اس ہفتے میں یہاں نئے قسم کے دو ٹیکے کرائے ہیں، باقی پانچ اور ہیں۔ جموں سے دوا کی دو شیشیاں بھی لے گیا تھا جس کا استعمال جاری ہے۔ اس ہفتے دو بار سالم چوزے بھی کھائے ہیں جو ہضم ہو گئے۔ یہاں کا پانی ہاضم ہے۔ یہ جگہ بہت اچھی ہے مگر رہائش اور کھانے کا دام بہت زیادہ ہیں۔ اس لیے کہ یہاں ہر شے باہر سے آتی ہے۔ کشمیر گورنمنٹ نے محصول اس قدر بڑھا رکھا ہے کہ لازماً ہر چیز کے دام دگنے یا ڈیوڑھے ہو جاتے ہیں۔‘
’پھسپھسا عشق‘
عصمت چغتائی منٹو کے خاکے میں لکھتی ہیں کہ جب منٹو نے مجھے اپنے عشق کی کہانی سنائی تو میں نے کہا، ’کس قدر پُھس پھسا ہے آپ کا عشق!‘ مجھے تو بڑے کسی شعلہ بداماں قسم کے عشق کی امید تھی۔‘
عصمت منٹو کے بارے میں حیرت کا اظہار کرتی ہیں: ’یہ وہی منٹو تھا، فحش نگار، گندہ ذہن، جس نے ’بُو‘ لکھی تھی، جس نے ’ٹھنڈا گوشت‘ لکھا تھا۔ (فلم) ’مرزا غالب‘ میں چودھویں بیگم مرزا غالب کی محبوبہ ہو یا نہ ہو، اس کا فیصلہ نہیں کیا جا سکتا، مگر منٹو کے خیالوں کی لڑکی ضرور ہے جسے وہ ہاتھ نہیں لگانا چاہتا، جس کی کلائی دیکھنے کے لیے وہ ساری زندگی بیٹھ سکتا ہے۔‘