اسلام آباد کے کچنار پارک میں لوہے کے تاروں سے بنا ایک مجسمہ تعمیر کیا گیا ہے جس میں ایک خاتون کو لمبا لبادہ اوڑھے آئی ایٹ کے گھروں کی طرف کمان تانے ہوئے تیر پھینکنے کے انداز میں دکھایا گیا ہے۔
سوشل میڈیا پر کئی لوگوں نے حیرت کا اظہار کیا کہ یہ خاتون کون ہے اور اس کا مجسمہ اسلام آباد کے ایک مصروف پارک میں کیوں نصب کیا گیا ہے جہاں ہر شام کو سینکڑوں لوگ چربی گھلانے کی غرض سے چہل قدمی کرنے آتے ہیں اور جہاں ہر ویک اینڈ پر پانچ سات ویڈنگ فوٹو شوٹس ہو رہے ہوتے ہیں۔
ہم نے جب مجسمے کو غور سے دیکھا تو پتہ چلا کہ یہ دراصل قدیم یونانی اساطیری جنگجو عورتوں میں سے ایک کا مجسمہ ہے جنہیں ایمازون کہا جاتا تھا۔
ایمازون خواتین مردوں کے بغیر رہتی تھیں اور ان میں سے ہر ایک ماہر جنگجو ہوتی تھیں اور خاص طور انہیں تیراندازی میں کمال حاصل تھا۔ یونانی اساطیر کے مطابق انہوں نے کئی بڑی جنگوں میں حصہ لے کر مردوں کے چھکے چھڑا دیے تھے۔
تو ایک یونانی ایمازون خاتون اسلام آباد میں کیا کر رہی ہے؟
ہمیں اتفاق سے اس منصوبے سے منسلک مجسمہ ساز شاویز مل گئے جنہوں نے اس سوال کا جواب یوں دیا کہ اس مجسمے کی مدد سے ہم خواتین کی ’امپاورمنٹ‘ یعنی بااختیاری دکھانا چاہتے ہیں اور اس کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ خواتین بھی طاقتور، بہادر، خودمختار اور آزاد ہو سکتی ہیں۔
انہوں نے یہ کہا کہ ہمارے ہاں اس طرح کی کوئی علامت نہیں ہے جسے مجسمے کی شکل میں پیش کیا جا سکے۔ خواتین کی کچھ انفرادی مثالیں ضرور موجود ہیں، مثال کے طور پر بےنظیر بھٹو، ملالہ یا بلقیس ایدھی، وغیرہ۔ لیکن یہ شخصیات ہیں، علامات نہیں، اور دوسری بات یہ کہ ان پر بہت سے لوگوں کو اس پر اعتراض بھی ہو گا، اور یہ بھی کہا جائے کہ اِس کا بنایا، اُس کا کیوں نہیں بنایا۔ پھر یہ بھی ہم کسی ایک مخصوص شخصیت کا نہیں، بلکہ کسی علامات کو مجسم کرنا چاہتے ہیں۔
لیکن کیا واقعی ہمارے پاس ایسی کوئی ہاں علامت نہیں ہے؟ اور کیا علامت کا لڑاکا اور جنگجو اور خونریز ہونا ضروری ہے؟ کیا ہمارا معاشرہ پہلے ہی دہشت گردی، تشدد اور شدت پسندی کا شکار نہیں ہے کہ ہم یورپ سے ’امپورٹڈ‘ ایک تیرانداز کو اپنی خواتین کی خودمختاری کی علامت بنا کر پیش کر رہے ہیں؟
کیا ایسا نہیں ہو سکتا کہ خواتین کی مثبت تصویر دکھائی جائے جس میں امپاورمنٹ بھی موجود ہو، بہادری بھی اور خودمختاری بھی۔ کسی بھٹہ مزدور خاتون، گندم کاٹتی، کپاس چنتی عورت، گھر کی لپائی کرتی خاتونِ خانہ، اینٹیں اٹھانے والی دیہاڑی دار مزدور عورت، کسی نرس، کسی استانی کا مجسمہ بھی بنایا جا سکتا ہے۔
یہ ساری کی ساری ایسی نسوانی علامات ہیں جو معاشرے کی بہتری کے لیے دن رات سرگرداں ہیں، اور ان کا کہیں ذکر بھی نہیں آتا۔
اس سے بھی آگے بڑھ کر کسی سکول جاتی ہوئی بچی کا مجسمہ بنایا جا سکتا ہے۔ نیلی قمیص اور سفید دوپٹے میں ملبوس سکول کی طرف بھاگتی ہوئی سات آٹھ سال کی بچی سے زیادہ روشن، بہادر، مثبت اور پُراثر کیا علامت ہو سکتی ہے؟ خاص طور پر ہمارے معاشرے کے تناظر میں؟
ایک اور علامت پولیو ورکر خاتون کی ہو سکتی ہے۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق اب تک درجنوں پولیو ورکر جنونی دہشت گردوں کے ہاتھوں قتل ہو چکی ہیں لیکن وہ پھر بھی جان ہتھیلی پر رکھے قوم کا مستقبل محفوظ بنانے کے لیے پورے ملک کی گلی گلی محلے محلے جا کر کام کر رہی ہیں۔ انہیں کیوں بہادری کی علامت نہیں بنایا جا سکتا؟
لیکن صرف اس ایک مجسمے کا مسئلہ نہیں ہے، ایسا لگتا ہے کہ ملک بھر میں صرف جنگ و جدل اور تیر و تبر ہی ہماری نمائندہ علامات رہ گئی ہیں۔ مختلف شہروں میں آپ کو گھوڑوں پر سوار شمشیر زن یلغار کرتے ہوئے دکھائی دیں گے، کسی چوک پر غوری یا شاہین میزائل نصب ہو گا، کہیں کوئی ٹینک یا جنگی طیارہ دہشت بکھیر رہا ہو گا۔ اور تو اور، کئی شہروں میں فائبر گلاس کے بنے ہوئے چاغی پہاڑ کے ماڈل نصب کیے گئے تھے، جو یاد دلاتے تھے کہ ہمارا وجود صرف ایک بٹن دبانے پر منحصر ہے۔
ایمازون جنگجو کون تھیں؟
تیربکف ایمازون عورت کا اساطیری کردار ہم تک سب سے پہلے یونانی شاعر ہومر کی وساطت سے پہنچا ہے، اور ظاہر ہے کہ ہومر کے دوسرے موضوعات کی طرح یہ تصور بھی اس دور کے یونانی معاشرے کی مجموعی ذہنی لینڈسکیپ کا حصہ رہا ہو گا۔ ہومر نے جنگجو ایمازون خواتین کے لشکر کو ٹرائے والوں کی طرف سے لڑتا ہوا دکھایا ہے، اور ’ایلیئڈ‘ کے مطابق ان کی ملکہ یونانی ہیرو اکیلیز کے ہاتھوں ماری جاتی ہے، اور جب اس کے سر سے آہنی ہتھیار خود ہٹا تو اس کا حسن دیکھ کر اکیلیز اس کے بعد از موت عشق میں مبتلا ہو گیا۔
اسی طرح ایک اور اساطیری یونانی ہیرو ہرکیولیز کا بھی ایمازون سے واسطہ پڑا ہے۔ ہرکیولیز کی 12 مہمات میں سے ایک مہم یہ ہوتی ہے کہ اسے ’ہپولائٹ‘ نامی ایمازون کی ملکہ کا طلائی کمربند چرانا ہوتا ہے۔ چونکہ سپر ہیرو ہے، اس لیے کہنے کی ضرورت نہیں کہ وہ اس مہم میں کامیاب ہوتا ہے یا نہیں۔
لفظ ایمازون کا ایک اشتقاق ’اے +مازدوس‘ ہے، جہاں اے کا مطلب بغیر اور ’مازدوس‘ کا مطلب چھاتی ہے۔ روایت ہے کہ ایمازون، جو تیراندازی کے لیے شہرت رکھتی تھیں، اپنی چھاتیاں کٹوا دیتی تھیں تاکہ انہیں کمان سے نشانہ لینے میں آسانی ہو۔
البتہ دلچسپ بات یہ ہے کہ اس زمانے میں ایمازون کی جتنی بھی تصویریں ملتی ہیں وہ سالم حالت میں ہی ہیں۔ خود کچنار پارک میں جو مجسمہ نصب ہے اس میں بھی ایسی کوئی چیز نظر نہیں آتی۔
ہومر کے بعد کئی یونانی اساطیر میں بھی ایمازون کا ذکر ملتا ہے۔ یونانی ’بابائے تاریخ‘ ہیروڈوٹس لکھتا ہے کہ ایمازون دریائے تھرموڈون کے کنارے آباد ایک شہر میں رہتی ہیں اور وہاں سے ان کے دستے دور دور تک مار کرتے ہیں۔ یہ علاقہ آج کے شمالی ترکی میں شامل ہے۔
ایک اور روایت کے مطابق ایران پر چڑھائی کے دوران سکندر کا آمنا سامنا بحیرۂ کیسپیئن کے ساحل پر ایمازون کی ملکہ تھیلسٹرس سے ہوا جو اس سے شادی کر کے سکندر کی مانند جری بچوں کو جنم دینا چاہتی تھی۔
سکندر نے شروع میں بہت ٹال مٹول کی مگر میدانِ جنگ میں ناقابلِ شکست فاتح بےشک رہا ہو لیکن تھیلیسٹرس سے ہار گیا اور اس نے نہ صرف خود بلکہ اپنے تین سو فوجیوں کمانڈروں کی شادیاں ایمازون خواتین سے کروائیں۔ تاہم یہ روایت ایسی ہے کہ جسے آج کی زبان میں ’فیک نیوز‘ کہا جاتا ہے اور سکندر کے مستند مورخ ایسے کسی واقعے سے انکار کرتے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن مستند مورخین کی کون سنتا ہے؟ یہ مِتھ یورپی شعور کا حصہ بن گیا اور اس پر نظمیں، ڈرامے، ناول لکھے گئے۔ حتیٰ کہ جب ہسپانوی مہم جو جنوبی امریکہ میں سونے چاندی کی تلاش میں سرگرداں ہوئے تو افواہ ملی کہ شاید ایمازون کا کوئی قبیلہ گھنے جنگلوں میں آباد ہے۔ اسی وجہ سے انہوں نے نہ صرف اس جنگل بلکہ اس میں بہنے والے عظیم دریا کو بھی ایمازون کا نام دے دیا۔
اگر ایمازون صرف عورتوں پر مشتمل ہیں تو ان کی نسل کیسے آگے بڑھتی ہے؟
بقول ہیروڈوٹس ہوتا یوں ہے کہ ہر سال منتخب ایمازون خواتین ایک رات کے لیے ایک قریبی قبیلے میں منقعد ہونے والے میلے میں شرکت کرتی ہیں۔ اس کے نتیجے میں جو لڑکے پیدا ہوتے ہیں انہیں ان کے والد کے پاس بھیج دیا جاتا ہے جب کہ لڑکیوں کی بطور ایمازون تربیت ہوتی ہے۔
البتہ ایک اور روایت کے مطابق ایمازون دوسرے علاقوں پر حملے کر کے غلام پکڑ کر لاتی تھیں، ان سے تعلق کے بعد جو لڑکے پیدا ہوتے تھے انہیں مار ڈالتی تھیں اور لڑکیوں کی پرورش کیا کرتی تھیں۔
کیا واقعی ایمازون کا وجود تھا؟
لیکن کیا ایمازون صرف صنمیات اور دیومالا سے تعلق رکھتی ہیں یا ان کی حقیقت میں بھی کوئی وجود رہا ہے؟
1990 کی دہائی میں جنوبی روس میں ماہرینِ آثارِ قدیمہ نے قزاقستان کی سرحد کے قریب 150 سے زیادہ 2000 سال پرانی ایسی قبریں دریافت کیں جن میں بظاہر ایمازون کی طرح کی جنگجو عورتیں دفن تھیں۔
ان عورتوں کو ان کے ہتھیاروں کے ساتھ دفنایا گیا تھا۔ ایک عورت کی ٹانگیں مسلسل گھڑسواری کی وجہ سے مخصوص انداز میں ٹیڑھی ہو گئی تھیں اور اس کی قبر میں جو ترکش ملا اس میں کانسی کی نوک والے 40 تیر ملے۔
کچھ عورتوں کے ڈھانچوں سے پتہ چلتا ہے کہ وہ خنجر یا تیر کے زخموں کی وجہ سے ہلاک ہوئی تھیں۔ ایک اور دلچسپ بات یہ ہے کہ ان خواتین کا اوسط قد پانچ فٹ چھ انچ تھا، جو اپنے زمانے کے لحاظ سے بہت زیادہ ہے۔
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ شاید ایمازون کی روایت میں کچھ نہ کچھ حقیقت کی رمق بھی شامل ہے۔ عین ممکن ہے یونانیوں کا واسطہ ایسی ہی خواتین سے پڑا ہو اور انہوں نے اسی کو بنیاد بنا کر پورا متھ تشکیل کر ڈالا۔
حقیقت جو بھی ہو، یہ بات طے ہے کہ ایمازون کی روایت یورپ سے ہو کر دنیا بھر میں پھیل گئی۔ مصوروں نے انہیں رنگوں میں قید کیا، مصنفوں نے ناول، نظمیں اور ڈرامے لکھے اور فلم سازوں نے فلمیں بنائیں۔
اب یہی روایت چلتے چلتے اسلام آباد تک بھی پہنچ گئی ہے۔