جنوبی بھارت کے شہر حیدرآباد کے مضافات میں واقع سیٹلائٹ سٹی نظام پت میں ویناپوسا نرائناما سلیبرٹی سے کم نہیں۔ ’آٹو رانی‘ کے نام سے مشہور نرائناما شہر میں آٹو رکشہ ڈرائیور کا لائسنس حاصل کرنے والی پہلی خواتین میں سے ایک تھیں۔
یہ تقریباً 15 برس پہلے کی بات ہے، اس کے باوجود ایک ایسا شہر جس میں یہ تین پیوں والی سواریاں ایک لاکھ سے زائد تعداد میں موجود ہیں وہاں ماہر عمرانیات سنہا اناوارپو کے مطابق نرائناما محض آٹھ رکشہ ڈرائیور خواتین میں سے ایک ہیں۔
اوبر اور بھارت کی اپنی اولا جیسی رائیڈنگ ایپس کے بڑھتے ہوئے رجحان نے جہاں شہر میں لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ڈرائیونگ اکانومی میں داخل ہوتے دیکھا وہیں شاید ہی کسی خاتون نے اس پیشے کو اپنایا ہو۔ انڈپینڈنٹ سے بات کرتے ہوئے نرائناما کہتی ہیں اس کے بہت سے کارن ہیں جن میں سے ایک بنیادی سبب خواتین کے لیے عوامی بیت الخلا تک رسائی کی دشواری ہے۔
40 سالہ نرائناما، جو خواتین کو ڈرائیونگ کی تربیت بھی دیتی ہیں، کے مطابق ’بہت ساری خواتین ڈرائیور بننا چاہتی ہیں تاکہ اپنے خاندان کے لیے کچھ پیسہ کما سکیں اور ان کے بچوں کو مالی مشکلات کا سامنا نہ کرنا پڑے۔ کمائی کا ایک طریقہ جسے وہ اپنانا چاہتی ہیں وہ ہے آٹو ڈرائیونگ۔
’جب پہلے ہی سماجی بدنامی اور دیگر عوامل عورت کو آگے بڑھنے سے روکتے ہیں ایسے میں اگر خواتین ڈرائیور بیت الخلا جیسی بنیادی ضرورت تک رسائی نہ کر پائیں تو یہ اور بھی مشکل ہو جاتا ہے۔‘
نریندر مودی انتظامیہ کی اہم ترین پالیسیوں میں سے ایک سب کے لیے بیت الخلا فراہم کرنے کا پالیسی تھی جس میں ان کے دعوے کے مطابق بھارت کے دیہی علاقوں میں دس کروڑ بیت الخلا تعمیر کیے گئے ہیں۔ اگرچہ حکومت نے ملک بھر کے دیہاتوں میں کھلے میں رفع حاجت سے نمٹنے میں کچھ کامیابی سمیٹی ہے لیکن نرائناما کہتی ہیں حیدرآباد جیسے بڑے شہر میں بھی محفوظ اور صاف ستھرے عوامی بیت الخلا کی دستیابی بہت کم مقامات پر ہے۔
شہروں میں لوگ متبادل سہولیات جیسا کہ مالز اور ہوٹلوں کے بیت الخلا کا استعمال کرنے کے قابل ہوتے ہیں لیکن یہ کسی بھی طرح خواتین ڈرائیوروں کے لیے آپشن نہیں۔ نرائناما کہتی ہیں ’آپ مال میں جانے کے لیے مسافروں سے انتظار کا نہیں کہہ سکتے۔ لیکن سواریوں کے لیے یہ زیادہ قابل قبول ہے کہ آپ کسی عوامی بیت الخلا کے قریب سڑک پر ہی رکیں اور سواریوں سے کہیں میں ایک منٹ بیت الخلا سے ہو کر آئی۔‘
یہ مسئلہ محض حیدرآباد تک محدود نہیں۔ بھارت کی 2011 میں ہونے والی آخری مردم شماری کے مطابق ممبئی کے گنجان آباد شہر میں تقریباً 57 لاکھ خواتین رہتی ہیں لیکن ان کے لیے عوامی مقامات پر بیت الخلا 400 کی معمولی تعداد سے بھی کم تھے جن میں بہت سے ادائیگی کے بدلے سہولیات فراہم کرتے تھے۔ اس کے برعکس مردوں کے لیے شہر میں تقریباً سات ہزار بیت الخلا اور تین ہزار پیشاب خانے ہیں۔
Zomato اور Swiggy جیسی فوڈ ڈیلوری سروسز کے ساتھ وابستہ افراد کا بھی یہ کہنا ہے کہ مناسب پبلک ٹوائلٹ انفراسٹرکچر کا فقدان بھی خواتین کے گِگ اکانومی میں بڑے پیمانے پر حصہ لینے کی راستے میں ایک رکاوٹ ہے۔
گذشتہ برس جون تک بھارت میں زوماتو کے ڈیلیوری پارٹنرز میں سے محض 0.5 فیصد خواتین تھیں جبکہ سوِگی کے دو لاکھ 20 ہزار کارکنوں کی بڑی تعداد میں فقط ایک ہزار خواتین تھیں۔
چینئی میں زوماتو کے ساتھ کام کرنے والی ڈیلیوری ایجنٹ سرسوتی کا کہنا ہے کہ خواتین کے لیے محفوظ اور صاف ستھرے عوامی ٹوائلٹس کی عدم دستیابی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دن میں کم از کم دس گھنٹے فوڈ ڈیلوری کا کام کرنے والی سرسوتی کہتی ہیں کہ ان کا دائرہ گھر کے ارد گرد پندرہ بیس منٹ کی دوری تک محدود ہے تاکہ جب انہیں ضرورت محسوس ہو وہ باتھ روم استعمال کرنے کے لیے تھوڑی دیر گھر جا سکیں۔
ان کا کہنا ہے، ’مرد ڈرائیور اس طرح کی پابندی سے نہیں گزرتے کیوں کہ ضرورت کے وقت وہ کھلے میں کسی ویران جگہ پیشاب کر سکتے ہیں۔‘ وہ مزید کہتی ہیں، ’اگر ہر محلے میں ہمیں پانی کی اچھی سہولیات کے ساتھ محفوظ اور صاف عوامی بیت الخلا میسر ہوں تو ہمارا کام بہت آسان ہو جائے۔‘
چنئی میں زوماتو کی ایک اور کارکن ونیتھا (تبدیل شدہ نام) کہتی ہیں بیت الخلا تک رسائی نہ ہونے کا مطلب ہے انہیں اور ان کی بہت سی ساتھی خواتین کارکنان کو ماہواری کے دوران کام سے یکسر ہاتھ کھینچ لینا پڑتا ہے۔ ان کے بقول ’بہت سی خواتین ان دنوں کے لیے چھٹی لیتی ہیں جس سے بچنا ممکن ہے اگر شہر میں زیادہ صاف ستھرے ٹوائلٹس میسر ہوں۔‘
روزانہ کم از کم بارہ گھنٹے کام اور تقریباً سو کلومیٹر کا فاصلہ طے کرنے والی ونیتھا کہتی ہیں کہ وہ بھی فوڈ ڈیلوری کا کام گھر کے قریب رہ کر کرنے پہ مجبور ہیں تاکہ ضرورت پڑنے پر باتھ روم استعمال کرنے کے لیے گھر جا سکیں۔
وہ کہتی ہیں کہ بھارت کے موسم گرما کی شدید تپش میں یہ صحت کا سنگین مسئلہ بن سکتا ہے کیونکہ بہت سی خواتین ڈیلیوری ایجنٹ کام کے دوران محض اس لیے پانی پینے سے گریز کرتی ہیں تاکہ ان کے بیت الخلا جانے کا امکان کم ہو۔
سوگی نے اکتوبر میں اس مسئلے کو تسلیم کرتے ہوئے تھا ’ہمارے ساتھ کام کرنے والے مرد و خواتین دونوں بہت سا وقت سفر میں گزارتے ہیں اور اکثر صاف اور محفوظ عوامی ٹوائلٹس تک رسائی میں دشواری کا سامنا کرتے ہیں۔‘ کمپنی کا کہنا تھا کہ وہ اپنے شراکت دار ریستورانوں کے ساتھ مل کر اپنے ڈیلیوری ڈرائیورز کے لیے مزید بیت الخلا میسر کرنے کے لیے کام کر رہی ہے۔
لیکن ان وعدوں کے باوجود گگ اکانومی ورکرز کا کہنا ہے انہیں ریستورانوں کی جانب سے بارہا ایسی سہولیات مہیا کرنے سے انکار کیا گیا۔ ونیتھا کہتی ہیں، ’کچھ ریستوران مینیجر ہمارے ساتھ بدتمیزی سے پیش آتے ہیں۔ وہ توقع کرتے ہیں کہ ہم ادائیگی کرنے والے گاہک ہوں تو ان کے بیت الخلا استعمال کریں۔‘
ڈرائیور کہتے ہیں موجودہ سہولیات کی بہتر دیکھ بھال کے ساتھ ساتھ مزید ٹوائلٹس کی تعمیر خواتین کارکنوں کے لیے ان شعبہ جات کے دروازے کھولنے میں بہت مددگار ثابت ہو گا۔
لیکن فی الوقت چنئی میں شہر بھر کے تمام عوامی ٹوائلٹس کا نقشہ بتانے والی نئی سمارٹ فون ایپ درست سمت میں قدم کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔
گذشتہ برس یہ شہر بین الاقوامی ٹوائلٹ فیسٹیول کی میزبانی کر رہا تھا جہاں بلدیہ کارپوریشن نے ڈچ حکومت، این جی اوز اور محققین کے ساتھ مل کر ’ٹوائلٹ فیلوشپ‘ کے جزو کے طور پر Kakkoos کا اجرا کیا۔ یہ ایک ایسی ایپ ہے جو عوام سے معلومات اکٹھی کر کے چینئی کے آس پاس تقریباً 15 سو عوامی ٹوائلٹس کی لوکیشن بتاتی ہے۔
فیلوشپ کے لیے منتخب ہونے والے محققین سات روزہ تربیتی پروگرام سے گزرے جس میں بیت الخلا کے حوالے سے صنفی اور ذات پات پر مبنی امتیازی سلوک اور ہر جنس کے لیے عوامی ٹوائلٹس بنانے پر لیکچرز دئیے گئے۔
اتالیق میں شامل اربن ڈیزائنر اور فن تعمیر کی ماہر روِتی مانڈل کہتی ہیں، ’بھارتی شہروں میں بیت الخلا اپنے بنیادی ڈھانچے، تعداد، لوکیشن اور ڈیزائن کے اعتبار سے بالکل غیر معیاری ہیں۔
’اپنے دوسرے کردار اعداد و شمار کے تجزیہ کار کے طور پر جنسی بنیادوں اور تعمیراتی ماحول کے ملاپ سے پیدا ہونے والی عدم مساوات کا مشاہدہ کرتے ہوئے روتی مانڈل کہتی ہیں، ’مزید برآں شہر کے منصوبہ ساز عوامی ٹوائلٹس بناتے ہوئے عورت کے نقطہ نظر سے سوچتے ہی نہیں۔‘
ان کا کہنا تھا تمام بھارتی شہر خواتین کے لیے عوامی بیت الخلا کی فراہمی کے لیے بہت کم جگہیں وقف کرتے ہیں اور جو ہیں انہیں مردوں کے بیت الخلا کے برابر کے مربع فٹ تک رکھا ہے، اب کیونکہ خواتین کے بیت الخلا پاخانے اور پیشاب خانے کے مرکب کے بجائے محض پاخانے ہوتے ہیں اس لیے بھی وہ کم لوگوں کی ضرورت کو پورا کرتے ہیں۔
مانڈل کا کہنا ہے کہ ’اس کی وجہ فیصلہ سازی (کے عمل) میں نمائندگی نہ ہونا ہے جو زیادہ تر مرد کرتے ہیں جنہیں خواتین اور ٹرانس لوگوں کی ضروریات کا ادارک ہی نہیں ہوتا۔‘
وہ کہتی ہیں ’خواتین کے لیے شروع سے ہی ٹوائلٹس کی تعداد مردوں کی نسبت کم رکھی جاتی ہے اور اس کا سبب یہ بے بنیاد استدلال ہے کہ عوامی مقامات پر خواتین کی تعداد کم ہوتی ہے۔‘ حالانکہ دوسری طرف مثلاً دارالحکومت دہلی ایسی حد بندیاں کر رہا ہے جن کے مطابق خواتین اور مردوں کو عوامی مقامات پر سہولیات کی تقسیم ففٹی ففٹی ملے۔
دہلی میں مقیم فن تعمیر کی ماہر کا کہنا ہے عوامی بیت الخلا کے محفوظ جگہ ہونے کے بارے میں رائے آہستہ آہستہ بدل رہی ہے۔ عوامی بیت الخلا کے نئے ڈیزائن بہتر روشنی اور سڑک کی طرف واضح نظر آنے والا داخلی دروازہ رکھتے ہیں جسے اہم حفاظتی بندوبست کے طور پر دیکھا جا رہا ہے۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
لیکن مانڈل کا کہنا ہے کہ ’جب بھی کوئی سرکاری ادارہ بیت الخلا جیسے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر کرنے جا رہا ہو‘ تو اس دوران اگر فیصلہ سازی کے عمل میں خواتین کے ساتھ ساتھ دیگر صنفی اور ذات پات کی بنا پر اقلیتیوں میں شمار ہوتے طبقات کی نمائندگی میں اضافہ کیا جائے تو پھر عوامی بیت الخلا تک مساوی رسائی کا راستہ ہموار ہو گا۔
ایک غیر جانبدار تھینک ٹینک Vidhi Centre فار لیگل پالیسی میں شہری ترقی اور میونسپل گورننس پر تحقیق کرنے والی سنہا وساکھا کہتی ہیں کہ محض ’روزانہ چوبیس گھنٹے مفت میں‘ ہر کسی کے لیے باتھ رومز کی دستیابی ممکن بنا کر شہروں کو زیادہ صاف بنایا جا سکتا ہے۔
فیمنسٹ سٹی پوڈ کاسٹ کی میزبان وساکھا کہتی ہیں عوامی ٹوائلٹس کو رات کے وقت کھلا اور روشن رکھنا اور مفت میں سہولت دینا خواتین کو نہ صرف دن کے وقت بلکہ رات کو بھی باہر آ کر شہروں میں کام کاج کرنے کی ترغیب دے گا۔
اگرچہ عوامی بیت الخلا لوگوں کو کھلے میں رفع حاجت سے روکنے کے لیے تعمیر کیے جاتے ہیں لیکن ان کے بقول مرد اب بھی کھلے میں پیشاب کرنے کو ایک آپشن کے طور پر دیکھتے ہیں جن کی راہ میں کوئی سماجی رکاوٹ حائل نہیں۔
وہ کہتی ہیں ’یوزر چارج سے متاثر نہ ہونے والے مرد حضرات ہی وہ مخلوق ہے جو حفاظتی انتظامات یا سماجی تاثر کی پرواہ کیے بغیر کھلے عام رفع حاجت کر لیتے ہیں لیکن پھر بھی لوگوں کا ایسا گروہ جو یہ نہیں کر سکتا اور ادائیگی پر مجبور کیا جاتا ہے اس کی بڑی تعداد خواتین پر مشتمل ہو گی جو وقار اور حفاظت کے بغیر عوامی بیت الخلا استعمال نہیں کر سکتیں۔‘
ممبئی میں خیراتی ادارے انوبوتھی چیرٹیبل ٹرسٹ کی بانی اور سربراہ دیپا پوار کہتی ہیں ٹوائلٹس تک رسائی محض صنفی مسئلہ نہیں۔ ان کا کہنا ہے خانہ بدوش پس منظر سے تعلق رکھنے والے تاریخی طور پر مظلوم لوگ جو شہر میں کام کے لیے آتے ہیں اور ان کے پاس گھر یا بیت الخلا کی موجودگی کا امکان بہت کم ہوتا ہے وہی لوگ شہر کے عوامی بیت الخلا کی فیس سے سب سے زیادہ متاثر ہونے والوں میں شامل ہیں۔
ان خانہ بدوش برادریوں پر کیے جانے والے ظلم و جبر کو بھارت کے نوآبادیاتی برطانوی حکمرانوں نے 1871 میں فوجداری قبائل ایکٹ کے ساتھ باقاعدہ قانونی شکل دی تھی جسے بھارتی حکومت نے آزادی کے بعد ختم کرتے ہوئے ان قبائل کو ’جرائم پیشہ قبائل کی فہرست سے خارج‘ کر دیا لیکن اس کے باوجود وہ تب سے معاشرتی حقارت اور امتیازی سلوک کا سامنا کرتے چلے آ رہے ہیں۔
پوار کے بقول، ’ان کے کسی قصور کے بغیر انہیں مسلسل مجرم قرار دیا جاتا ہے، ان پر الزام لگایا جاتا ہے، انہیں گرفتار کیا جاتا ہے اور بدسلوکی کی جاتی ہے۔ وہ محض جینے کی کوشش کر رہے ہیں۔‘
وہ کہتی ہیں ’صفائی کے بنیادی ڈھانچے کو دیکھتے ہوئے ہمیں اس تمام پس منظر کو نگاہ میں رکھنا ہو گا کیونکہ عوامی بیت الخلا ان کے قریب یا ان کے لیے نہیں بنائے گئے ہوتے اس لیے جب انہیں فطری حاجت پوری کرنے کی ضرورت ہوتی ہے تب انہیں وہاں پہنچنے تک بہت سی رکاوٹوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ درحقیقت یہ گروہ ایک مخصوص علاقے میں نہیں رہتے۔‘
وہ مزید گویا بتاتی ہیں ’ویسے بھی باہر کھلے میں رہ رہے ہوتے ہیں، ان کے لیے یا ان کی ضرورت مدنظر رکھتے ہوئے بالکل بھی ٹوائلٹس تعمیر نہیں کیے جاتے۔ لہذا ہم سوال اٹھاتے ہیں کہ اگر اتنی بڑی آبادی کے لیے محفوظ، نزدیک، باوقار، حفظانِ صحت اور ضروری سہولیات کے حامل بیت الخلا تک رسائی مشکل ہے تو کیا بھارت واقعی کھلے میں رفع حاجت سے پاک ملک ہے؟‘
وساکھا ان کی بات سے اتفاق کرتی ہیں۔ شہری ترقی کی فیمنسٹ محقق پوچھتی ہیں ’آپ کو عوامی بیت الخلا کے لیے صارف سے فیس کیوں لینی چاہیے؟ اگر شہر کو ریونیو کی ضرورت ہے تو ہم شہر بھر میں کار پارکنگ کی فیس کیوں نہیں لیتے، اس کی وجہ یہ ہے کہ وہ مراعات یافتہ طبقے کی ضرورت ہیں لیکن بیت الخلا نہیں ہیں۔
’جب ملک کی نصف آبادی کے باہر نکلنے کے لیے یہ انتہائی ضروری چیز ہے تو پھر ہم خواتین کے لیے عوامی بیت الخلا کی تعمیرات کو ثانوی اہمیت کیوں دیتے ہیں۔‘
© The Independent