چین کی ایک کمپنی کو اس وقت سرکاری حکام کی سرزنش کا سامنا کرنا پڑا جب اس نے اپنے ملازمین کو نوٹس جاری کیا جس میں غیر شادی شدہ ملازمین کو ستمبر کے آخر تک شادی کرنے یا ممکنہ طور پر ملازمت سے برطرف ہونے کی وارننگ دی گئی تھی۔
مشرقی چین کے صوبے شین ڈونگ میں قائم شن تیان کیمیکل گروپ کی جانب سے گذشتہ ہفتے جاری نوٹس میں مزید کہا گیا کہ کمپنی ’محنت، نیکی، وفاداری، والدین کی فرمانبرداری اور انصاف‘ جیسے اقدار پر یقین رکھتی ہے۔
گلوبل ٹائمز کے مطابق نوٹس میں ملازمین کو اپنی زندگی میں ان اصولوں کو اپنانے کی تلقین کرتے ہوئے کہا گیا کہ شادی اور بچوں کو اپنانے سے ہی اس راستے پر گامزن ہوا جا سکتا ہے۔
ساؤتھ چائنا مارننگ پوسٹ میں شائع اس نوٹس کے مطابق: ’حکومت کی شادیوں کی شرح میں اضافے کی اپیل پر عمل نہ کرنا غداری، والدین کی بات نہ سننا نافرمانی، سنگل رہنا نیکی کے خلاف اور اپنے ساتھی ملازمین کی توقعات پر پورا نہ اترنا ناانصافی ہے۔‘
اس نوٹس میں تمام غیر شادی شدہ اور طلاق یافتہ ملازمین، جن کی عمر 28 سے 58 سال کے درمیان تھی، کو ہدایت دی گئی کہ وہ 30 ستمبر 2025 تک ’شادی کریں اور اپنا گھر بسائیں۔‘
جو ملازمین مارچ کے آخر تک ایسا کرنے میں ناکام رہے انہیں ایک معذرت نامہ لکھنا لازمی ہو گا۔
جون کے آخر میں کمپنی غیر شادی شدہ ملازمین کا جائزہ لے گی اور جو لوگ ستمبر کے آخر تک سنگل رہیں گے انہیں نوکری سے نکال دیا جائے گا۔
مقامی میڈیا نے رپورٹ کیا کہ پریس کو بتایا گیا کہ یہ فیصلہ کمپنی کی سینیئر مینجمنٹ نے داخلی طور پر لیا تھا تاہم گلوبل ٹائمز کے مطابق کمپنی کے ترجمان نے بعد میں وضاحت کی کہ اس پالیسی کا مقصد بڑی عمر کے غیر شادی شدہ ملازمین کو شادی کے لیے آمادہ کرنا تھا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مقامی انسانی وسائل اور سماجی تحفظ کے بیورو نے مبینہ طور پر 13 فروری کو کمپنی کے حکام سے ملاقات کی اور نشاندہی کی کہ اس نوٹس میں ملک کے کچھ لیبر قوانین کی خلاف ورزی کی گئی ہے جس کے بعد کمپنی نے اگلے ہی دن اپنا نوٹس واپس لے لیا۔
چین کی شرح پیدائش 1980 کی دہائی کے آخر سے مسلسل کم ہو رہی ہے جب اس نے تیزی سے بڑھتی ہوئی آبادی کو کنٹرول کرنے کے لیے ایک بچے کی سخت ’ون چائلڈ پالیسی‘ متعارف کرائی تھی۔ 2024 میں کل آبادی میں مسلسل تیسرے سال کمی ہوئی۔
یہ اب بھی دنیا کا سب سے زیادہ آبادی والا ملک تھا جب تک کہ انڈیا نے اپریل 2023 میں سبقت نہ لے لی۔
نیشنل بیورو آف اسٹیٹسٹکس(این بی ایس) نے کہا کہ 2024 میں چین کی آبادی 13 لاکھ 90 ہزار نفوس کی کمی کے بعد 1.408 ارب ہو گئی کیونکہ یہاں اموات کی تعداد پیدائش سے زیادہ رہی۔
ملک نے باضابطہ طور پر 2016 میں اپنی ’ون چائلڈ پالیسی‘ ختم کر دی لیکن اس کے نتیجے میں آبادی میں عدم توازن پیدا ہوا کیونکہ مرد بچوں کو ترجیح دینے کی ثقافتی روایت برقرار رہی۔
چین میں حکومت کی جانب سے نوجوان جوڑوں کو شادی کرنے اور بچے پیدا کرنے کی ترغیب دینے کے باوجود رجسٹرڈ شادیوں کی تعداد 2025 میں کم ہو کر محض 61 لاکھ رہ گئی جو 2021 میں 76 لاکھ 80 ہزار تھی۔
ماہرین کا ماننا ہے کہ بچوں کی پرورش اور تعلیم کے زیادہ اخراجات، ملازمت کا غیر یقینی مستقبل، معیشت کی سست رفتاری، خواتین کے خلاف صنفی امتیاز اور ان سے گھریلو ذمہ داریوں کی توقع وہ عوامل ہیں جو شرح پیدائش میں کمی کا باعث بن رہے ہیں۔
دی انڈیپنڈنٹ نے شن تیان کیمیکل گروپ سے تبصرے کے لیے رابطہ کیا ہے۔
© The Independent