ہوسکتا ہے کہ بھارت میں خواتین کے کنواری ہونے کی تصدیق کے لیے دوانگلیوں والے ٹیسٹ پر پابندی لگا دی گئی ہو لیکن تین برس گزر جانے کے باوجود ڈاکٹرآج بھی سرکاری سطح پر متعارف کروائی گئی ریپ ٹیسٹ کٹ استعمال کرنے کی بجائے ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کو اس توہین آمیز اور ناگوار طریقہ کار سے گزار رہے ہیں۔
اس عمل کی وجہ پہلے سے تکلیف میں مبتلا خواتین ایک بار پھر ذہنی اذیت کا نشانہ بنتی ہیں۔
23 سالہ یشوی(فرضی نام) کہتی ہیں کہ وہ آٹھ ماہ سے زیادہ عرصے سے انصاف لینے کی کوشش کر رہی ہیں۔ انہیں بھارتی شہر بھوپال میں ان کے ساتھ کام کرنے والے شخص نے ریپ کا نشانہ بنایا تھا۔
حملہ آور کی شناخت کے باوجود انہیں اب تک گرفتار نہیں کیا گیا کیونکہ پولیس صرف گواہ کی شہادتوں اوردو انگلیوں کے بدنام فیصلہ کن ٹیسٹ پر انحصار کر رہی ہے۔
یشوی نے کہا، ’اگر ریپ ٹیسٹ کٹس دستیاب تھیں تو ان کے کیس میں اتنا وقت نہیں لگنا چاہیے تھا۔ میں انصاف کے حصول کے لیے زور لگا رہی ہوں کیوں کہ میں نہیں چاہتی کہ دوسری خواتین کو اس عمل سے گزرنا پڑے، جس سے مجھے گزرنا پڑا۔‘
انسانی حقوق کی عالمی تنظیم ہیومن رائٹس واچ نے دو انگلیوں والے ٹیسٹ کو ناگوار، توہین آمیز اور غیرانسانی قرار دیا ہے۔ اس ٹیسٹ میں ڈاکٹر اس امر کے تعین کے لیے کہ کسی خاتون نے سیکس کیا ہے یا نہیں اس کے مخصوص مقام میں انگلیاں ڈال کر اس کے ڈھیلے پن کا جائزہ لیتے ہیں۔ حکومت نے اس غیرمؤثر ٹیسٹ پر 2016 میں پابندی لگا دی تھی لیکن ایسا دکھائی دیتا ہے یہ اب تک کیا جا رہا ہے۔
جون 2018 میں خواتین اور بچوں سے متعلقہ امور کی بھارتی وزیر مانیکا گاندھی نے اعلان کیا تھا کہ ایس اے ایف ای کٹس (جنسی حملے کی فرانزک شہادت) ملک بھر کے ہسپتالوں کو فراہم کی جائیں گی۔
ریپ کے الزام کی صورت میں ان کٹس کی مدد سے فوری طبی معائنہ کرکے فرانزک شواہد اکٹھے کیے جائیں گے۔ ہر کٹ میں روئی، ٹیسٹ ٹیوبز اور شواہد کو محفوظ بنانے کے لیے کیمیکل، بال، پیشاب اور تھوک کے نمونوں کے لیے بوتلیں موجود ہیں۔ اس کٹ کے بغیر ریپ کیسز میں کوئی نتیجہ نہیں نکل پاتا۔
ایشانی (فرضی نام) کہتی ہیں، ’جس علاقے سے میرا تعلق ہے وہاں مردوں کا یہ سوچنا معمول کی بات ہے کہ وہ ریپ کرنے کے بعد بچ نکلیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انہیں علم ہے کہ دو انگلیوں والے ٹیسٹ کے ذریعے کوئی شہادت اکٹھی نہیں کی جا سکتی۔‘
ایشانی کو ان کے چچا نے پانچ ماہ تک ریپ کا نشانہ بنایا جس کے بعد وہ بچ نکلنے اور واقعے کو رپورٹ کرنے میں کامیاب ہو گئیں۔ وہ جون 2019 میں ٹیسٹ کے لیے بھارتی ریاست مدھیہ پردیش کے ہسپتال گئیں لیکن وہاں بھی ڈاکٹر نے دو انگلیوں والا طریقہ استعمال کیا۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
گورنمنٹ میڈیکل کالج رائے پور کے شعبہ فرانزک میڈیسن کے سربراہ ڈاکٹر اولہاس گوناڈے کے مطابق ایک مسئلہ یہ ہے کہ اس وقت حکومت صرف مخصوص ہسپتالوں کو جدید کٹس فراہم کر رہی ہے۔ کئی ہسپتالوں میں یہ کٹس دستیاب نہیں۔ کٹس کی فراہمی کا انحصارقومی اور ریاستی بجٹ پر ہے۔ اس صورت حال میں صرف کٹس کی فراہمی میں صرف ان ہسپتالوں کو ترجیح دی جا رہی ہے، جہاں جدید ترین لیبارٹری موجود ہے۔
بھارت کے نیشنل کرائم ریکارڈ بیورو(این سی آربی) کے مطابق مدھیہ پردیش میں ریپ کے واقعات کی تعداد سب سے زیادہ ہے لیکن ٹیسٹ کے لیے کسٹس دستیاب نہیں۔
تشدد کا شکار خواتین کی مدد کرنے والے فلاحی ادارے جانساہاس کے پروگرام کوآرڈی نیٹر آمووینزودا نے کہا ہے، ’یہاں ہر کسی کو دو انگلیوں والے ٹیسٹ کا صرف علم ہے لیکن انہیں یہ پتہ نہیں کہ یہ غلط کام ہے۔‘
بھارتی سپریم کورٹ کے وکیل روی کانت نے، جو حملے کا نشانہ بننے والی خواتین کے ساتھ 20 سال تک کام کر چکے ہیں، کہا کہ دیہی علاقوں میں پولیس کے پاس اکثر کٹس تیار نہیں ہوتیں۔
’اس کے لیے سرمائے اور خصوصی تربیت کی ضرورت ہے۔ پولیس کو علم نہیں کہ یہ کٹس کیسے کام کرتی ہیں۔ بعض اوقات صرف اتنا کیا جاتا ہے کہ متاثرہ خواتین کو کٹس لینے کا کہہ دیا جاتا ہے۔‘
’ریپ کیس میں اس طرح کی کارروائی نہیں کی جانی چاہیے۔ ہمارے قانون نافذ کرنے والے ادروں کو خواتین پرحملے سے پیدا شدہ صورت حال سے نمٹنے کی تربیت نہیں دی گئی۔ جرم ریاست کے خلاف ہوتا ہے اس لیے ریاست کا فرض ہے کہ وہ متاثرین کی مدد کرے۔‘
پولیس کے محکمے میں ریپ کے کیسوں سے نمٹنے کے لیے قواعد و ضوابط کی بھی کمی ہے۔ صرف گوا اور دہلی پولیس کے پاس معیاری رہنما اصول موجود ہیں۔ پولیس پر بہت کم یا بالکل اعتماد نہیں کیا جاتا اور مقدمات میں سزا کی کم شرح ایسے بڑے عوامل کے طور پر دیکھے جاتے ہیں جو خواتین کو اپنے اوپر ہونے والے حملہ رپورٹ کرنے میں رکاوٹ بنتے ہیں۔
ایک قومی جائزے کے مطابق بھارت میں جنسی حملے کے 99 فیصد کیس رپورٹ نہیں کیے جاتے۔ ایشانی کے معاملے میں پولیس شکایت درج کرنے سے ہچکچا رہی تھی کیونکہ ان پر حملہ کرنے والا ایک بااثر سرکاری ملازم تھا۔ یشوی نامی خاتون کے معاملے میں تو پولیس نے یہ تجویز تک دے دی کہ وہ ملزم سے شادی کر لیں۔
فلاحی ادارے جان ساہاس سے وابستہ سماجی کارکن منجو چوہان نے کہا، ’پولیس کا مقصد ہوتا ہے کہ جس قدر ہو سکے ریپ کے کیس کم از کم ریکارڈ پر آئیں۔ ان کی پہلی کوشش ہوتی ہے کہ متاثرہ خاتون کو ڈرایا جائے۔‘
مدھیہ پردیش کے ضلع دیواس کے انسپکٹر سنیل یادوو نے پولیس کے تعاون نہ کرنے کے تمام الزامات کی تردید کی اور کہا، ’یہ درست نہیں۔ یہ میرے تھانے میں نہیں ہوتا۔‘
سماجی کارکن منجو چوہان نے وضاحت کی کہ ہسپتال کا عملہ بھی اکثر مدد نہیں کرتا اور یہ صورت حال ریپ کا شکار خواتین کے لیے انتہائی بھیانک تجربہ بن جاتی ہے۔
یشوی کو یاد ہے کہ نرس نے معائنے کے دوران انہیں کس طرح طعنے دیے کہ ’تمہارے جنسی مزے لینے کی وجہ سے ہمارا وقت مسلسل ضائع ہوتا ہے۔‘
یشوی نے کہا جبل پور کے سرکاری ہسپتال کے طبی عملے نے انہیں بہت اذیت دی۔ ڈاکٹر نے ان سے کہا کہ شہادت کے لیے بار بار عدالت جا کر وہ شدید اکتا چکے ہیں۔
© The Independent