طالبان نے ستر سال سے زائد عمر کے ایک برطانوی جوڑے کو مبینہ طور پر تیس سال سے زائد عمر کی ماؤں کو پرورش کا ہنر سکھانے کے الزام میں گرفتار کر لیا ہے۔
اناسی سالہ پیٹر رینالڈز اور ان کی اہلیہ 75 سالہ باربی کو یکم فروری کو اس وقت گرفتار کیا گیا جب وہ بامیان میں اپنے گھر واپس آئے۔
جوڑے نے 18 سال تک افغانستان میں تربیتی منصوبے چلائے، اور ان کی بیٹی سارہ اینٹ وِسل نے سنڈے ٹائمز کو بتایا: ’وہ صرف اس ملک کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس سے وہ پیار کرتے تھے۔‘
ابھی تک یہ واضح نہیں ہے کہ جوڑے کو کیوں گرفتار کیا گیا ہے۔ ان کے منصوبوں کا ایک حصہ ماؤں اور بچوں کو تربیت دینا تھا، جس کی مقامی حکام نے اجازت دی تھی، اس کے باوجود کہ طالبان نے خواتین کو کام کرنے اور لڑکیوں کے چھٹی جماعت سے آگے تعلیم حاصل کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔
پیٹر اور باربی رینالڈز، جو افغانستان سے اس قدر محبت کرتے تھے کہ انہوں نے 1970 میں باتھ یونیورسٹی میں ملاقات کے بعد کابل میں شادی کی تھی، وہ 18 سال سے وہاں کے سکولوں میں تربیتی منصوبے چلا رہے ہیں اور 2021 میں طالبان کی اچانک اقتدار میں واپسی کے بعد وہیں رہے۔
اگست 2021 میں جب طالبان دوبارہ اقتدار میں آئے تو ان کے بہت سے ساتھی دیگر مغربی باشندوں کے ساتھ وہاں سے چلے گئے، لیکن مسٹر اور مسز رینالڈس نے رہنے کا فیصلہ کیا۔
ان کی بیٹی سارہ اینٹ وِسٹل نے، جو ڈاون ٹری، نارتھمپٹن شائر، برطانیہ میں رہتی ہیں، دی سنڈے اخبار کو بتایا: ’انہوں نے کہا کہ وہ افغانوں کو اس وقت تنہا نہیں چھوڑ سکتے جب وہ مشکل حالات کا سامنا کر رہے تھے۔‘
’انہوں نے ہمیشہ اصولوں کی پیروی کی، یہاں تک کہ جب وہ اصول بدل گئے۔‘
ان کی گرفتاری کے بعد، یہ جوڑا ٹیکسٹ میسج کے ذریعے اپنے چار بچوں سے بات چیت کرنے میں کامیاب رہا۔ ان کے خاندان کو معلوم تھا کہ انہیں وزارت داخلہ نے گرفتار کر لیا ہے اور انہیں یقین دلایا کہ وہ ’ٹھیک‘ ہیں۔
لیکن تین دن گزرنے کے بعد یہ پیغامات بند ہو گئے اور اس کے بعد سے بچوں کی کوئی خبر نہیں ملی۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
ان کی بیٹی نے دی ٹائمز کو بتایا: ’میری والدہ کی عمر 75 سال ہے اور میرے والد تقریباً 80 سال کے ہیں اور انہیں عارضہ قلب کی دوائیوں کی ضرورت ہے کیونکہ انہیں چھوٹا سا فالج بھی ہوا تھا۔ وہ صرف اس ملک کی مدد کرنے کی کوشش کر رہے تھے جس سے وہ پیار کرتے ہیں۔ یہ اتنا افسوسناک ہے کہ انہیں ماؤں اور بچوں کی پرورش کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔‘
طالبان کو خط
رپورٹ کے مطابق ان کے بچوں سارہ اور اس کے تین بھائیوں نے طالبان کو ایک خط بھیجا جس میں ان سے کہا گیا کہ وہ ان کے والدین کو رہا کریں۔
طالبان نے 2022 میں اعلان کیا کہ خواتین این جی اوز کے لیے کام نہیں کر سکتیں، اور گذشتہ دسمبر میں الجزیرہ نے رپورٹ کیا کہ حکومت نے کہا ہے کہ وہ ایسی کسی بھی این جی او کو بند کر دے گی جہاں خواتین کام کرتی ہیں۔
’ہمیں ان کی گرفتاری کی وجہ معلوم نہیں ہے۔ انہوں نے آپ پر بھروسہ کیا اور توقع کی کہ ان کے ساتھ افغان شہریوں جیسا سلوک کیا جائے گا۔‘
’ہم جانتے ہیں کہ بعض اوقات مغربی ممالک اور آپ کی حکومت کے درمیان قیدیوں کا تبادلہ فائدہ مند ثابت ہوا ہے۔ لیکن ہمارے والدین ہمیشہ افغانستان کے ساتھ وفادار رہنے کے لیے پرعزم تھے اور انھوں نے کہا کہ وہ اپنی جانیں قربان کر دیں گے، لیکن تاوان کے سودوں کا حصہ نہیں بنیں گے۔‘
دفتر خارجہ کو معلوم ہے کہ دو برطانوی شہریوں کو افغانستان میں گرفتار کیا گیا ہے، لیکن مدد کے امکانات محدود ہیں، کیونکہ برطانیہ طالبان کو تسلیم نہیں کرتا اور کابل میں اس کا سفارت خانہ نہیں ہے۔
طالبان کے سرکاری ذرائع نے بی بی سی کو بتایا ہے کہ انھوں نے بامیان صوبے میں کچھ برطانوی شہریوں کو پکڑا ہے، جن کے بارے میں خیال ہے کہ وہ ایک این جی او کے لیے کام کرتے تھے۔
طالبان کے ایک اہلکار نے دعویٰ کیا کہ ان افراد کو 20 دن قبل اس وقت گرفتار کیا گیا جب انہوں نے بامیان پولیس ہیڈ کوارٹر یا بارڈر سکیورٹی فورسز کو بتائے بغیر طیارہ استعمال کیا۔