آج 19 اکتوبر کو دنیا بھر کی طرح پاکستان میں بھی اقوام متحدہ کا اعلان کردہ ’ورلڈ ٹوائلٹ ڈے‘ یا 'عالمی یوم بیت الخلا' منایا جارہا ہے۔ اس دن کو منانے کا مقصد حکومتوں، میڈیا اور عوام الناس میں حفظانِ صحت سے متعلق آگہی پیدا کرنا ہے۔ اس سال اس عالمی دن کا عنوان 'بیت الخلا کی افادیت' رکھا گیا ہے۔
3 اکتوبرکی رات کو پنجاب کے شہر سرگودھا میں گٹر نالے کی صفائی کے دوران دم گھٹنے سے ہلاک ہونے والوں میں سرگودھا میونسپل کارپوریشن کے ملازم اورچھ بچوں کے والد 38 سالہ ندیم مسیح بھی شامل تھے۔
ندیم مسیح کی بیوہ مریم نے بتایا کہ نالے کے اندر جاکر ان کے شوہر بھی بے ہوش ہوگئے تو ایک اور ورکر فیصل مسیح کو اندر بھیجا گیا اور بعد میں ان کے شوہر اور فیصل مسیح دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے۔ جبکہ مائیکل مسیح کو ریسکیو کرلیا گیا۔یہ واقعہ سرگودھا کے لاری اڈہ روڈ پر واقع ہسپتال سے متعصل مرکزی گٹر نالے کو کھولنے کے دوران پیش آیا۔
پاکستان میں حفظانِ صحت اور صفائی کرنے والے ’فرنٹ لائن ورکرز‘ یعنی سینٹری ورکرز کی حالت انتہائی خراب ہے۔ اس سلسلے میں سرگودھا میں ہلاک ہونے والے سینیٹری ورکر ندیم مسیح کی بیوہ مریم سے رابطہ کیا گیا تو انہوں نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے بتایا، ’گٹر نالے کے اندر انتہائی خطرناک گیس بھری ہوتی ہے اور اس کے اندر اتر کر نالا کھولنا انتہائی خطرناک کام ہوتا ہے۔ میرا شوہر ہر بار نالے میں اترنے سے پہلے دعا مانگتا تھا۔ دعا کے باوجود اس دن بچ نہ سکا اور دم گھٹنے سے فوت ہوگیا۔‘
مریم ندیم مسیح کے مطابق ان کے شوہر گذشتہ 16 سالوں سے سرگودھا میونسپل کارپوریشن کے ساتھ دہاڑی پر کام کرتے تھے اور سرگودھا میونسپل کارپوریشن کی جانب سے انہیں ریگولر نہیں کیا گیا تھا اور ان کے شوہر نے ریگولر ملازمت کے لیے سرگودھا میونسپل کارپوریشن کے خلاف عدالت میں پٹیشن بھی دائر کر رکھی تھی، مگر ان کی وفات تک انہیں ریگولر نہیں کیا جاسکا۔
واقعے کے متعلق بات کرتے ہوئے مریم ندیم مسیح نے بتایا، ’تین اکتوبر کو اتوار کا دن تھا جو کہ چھٹی ہوتی ہے اور چھٹی کے روز رات کے وقت زبردستی میرے شوہر کو بند نالا کھولنے کے لیے بلایا گیا۔ انھوں نے جب انکار کیا تو نوکری سے نکالنے کی دھمکی دی گئی۔ اس جگہ پر روشنی بھی نہیں تھی۔ سب سے پہلے ندیم مسیح نالے میں گئے تو بیہوش ہوگئے۔ جن کو نکالنے کے لیے ریسکیو ٹیم منگوانے کے بجائے سپروائیزر نے میرے شوہر کو زبردستی نالے میں اتارا۔ تو تھوڑی دیر بعد وہ بھی بیہوش ہوگئے۔‘
’فیصل کے اہل خانہ کو تو معاوضہ دیا گیا۔ مگر میرے شوہر کے ریگولر نہ ہونے کی وجہ سے ہمیں اب تک کوئی معاوضہ نہیں مل سکا ہے۔ اب میرے چھ بچوں کا کیا ہوگا؟۔‘
مریم ندیم مسیح کے مطابق، ’گٹر نالوں میں زہریلی گیسوں کے علاوہ ٹوٹے ہوئے شیشے اور دیگر نوکیلی چیزیں ہوتی ہیں، جن سے میرے شوہر سمیت دیگر سینیٹری ورکرز زخمی ہوجاتے ہیں، مگر اس کے باجود اتنا خطرناک کام کرنے والے ورکرز کو حفاظتی لباس، آکسیجن سلینڈرز یا دیگر سہولیات نہیں دی جاتیں۔ ان کو زبردستی نالے کے اندر اتاراجاتا ہے۔‘
دونوں ورکرز کی ہلاکت کے بعد لواحقین کی جانب سے 12 گھنٹے سے زائد وقت تک لاش رکھ کر احتجاج کیا گیا۔ جس کے بعد ضلعی انتظامیہ کی جانب سے انصاف کی یقین دہانی کرانے کے بعد احتجاج ختم کیا گیا تھا۔
ورکرز کو حفاظتی سامان دیا تھا: ضلعی حکومت
دوسری جانب چیف آفیسر سرگودھا میونسپل کارپوریشن خالقداد گاڑا نے مریم ندیم مسیح کے الزامات کو مسترد کرتے ہوئے کہا اس واقعے کے بعد کمشنر سرگودھا کی سرپرستی میں اعلیٰ افسران پر مشتمل ایک انکوائری کمیٹی بنائی گئی، جس نے دس دن تک تحقیق کرنے کے بعد اپنی رپورٹ پیش کی۔
رپورٹ میں واضح طور پر کہا گیا ہے کہ ’ان سینیٹری ورکر کو ماسک، رسی سمیت مطلوبہ سامان مہیا کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ ضلعی حکومت کی جانب سے مقرر کردہ ایس او پیز پر بھی عمل کیا گیا تھا۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ سینیٹری ورکرز کو رات کے اوقات میں نالے کی صفائی کے لیے کیوں بلایا گیا، تو خالقداد گاڑا نے بتایا، ’ضلعی حکومت کی جانب سے یہ اصول طے کیا گیا کہ نالوں کی صفائی اور ان میں پھنسے کچرے کو صرف رات کے اوقات ہی صاف کیا جاسکتا ہے کیوں کہ رات کے وقت نکاسی آب کا بہاؤ کم ہوتا ہے تو صرف اس وقت ہی صفائی ممکن ہے۔‘
جب ان سے پوچھا گیا کہ جب پہلا ورکر نالے میں بے ہوش ہوگیا تو ریسکیو کو بلانے کے بجائے دیگر دو ورکرز کو کیوں نالے میں اترنے کے لیے کہا گیا، تو ان کا جواب تھا: ’اس وقت ریسکیو کو بلانے کا وقت ہی نہیں تھا۔ اس لیے ہم نے دیگر دو ورکرز کو اندر جانے کو کہا مگر اندر گیس ہونے کی وجہ سے یہ واقعہ پیش آگیا۔‘
ایک سوال کے جواب میں خالقداد گاڑا نے کہا کہ فوت ہونے والے ورکرز میں فیصل مسیح کے لواحقین کو محکمے کی جانب سے ساڑھے 18 لاکھ روپے ادا کیے گئے ہیں۔ ’مگر ابھی تک کیس چل رہا ہے، جیسے ہی فیصلہ آتا تو باقی رقم بھی دی جائے گی۔‘
سرگودھا میونسپل کارپوریشن کے ٹوٹل سینیٹری ورکرز سے متعلق پوچھے گئے سوال کے جواب میں خالقداد گاڑا نے بتایا: ’سرگودھا میونسپل کارپوریشن میں اس وقت 420 سینیٹری ورکرز ہیں جن میں سے صرف 100 ریگولر ہیں اور باقی عارضی ملازم ہیں۔ 2016 کے بعد کوئی بھی سینیٹری ورکر بغیر ریگولر کیے نہیں لگائے گئے۔ یہ عارضی ملازم سب 2016 سے پہلے کے ہیں۔ یہ حکومت کی پالیسی ہے۔ اس میں ہم کیا کہہ سکتے ہیں۔‘
دوسری جانب سابق رکن پنجاب اسمبلی اور سینیٹری ورکرز کی فلاح بہبود کے لیے کام کرنے والی تنظیم ’سوئپرز آر سپر ہیروز‘ کی بانی میری گل نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا: ’سینیٹری ورکرز کو مطلوبہ حفاظتی لباس مہیا نہیں کیا جاتا۔ جب ایک ورکر نالے میں بے ہوش ہوگیا تو ریسکیو کو بلانے کے بجائے دوسرے اور پھر تیسرے ورکر کو نالے کے اندر جانے کا کہا گیا۔ یہ ورکر صفائی کی مہارت رکھتے ہیں ریسکیو کی نہیں۔ اس کے علاوہ 20 فٹ گہرے نالے سے بھاری بھرکم بے ہوش ورکر کو باہر کھینچنے کے لیے مناسب رسی بھی نہیں دی گئی تھی اس لیے اسے باہر نکالنے میں تاخیر ہوئی۔‘
انہوں نے بتایا: ’اس واقعے کی ایف آئی آر میں پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 322 لگائی گئی۔ جو اسلامی قانون میں دیت کی رقم کی مد میں ملتی ہے۔ قانون کے تحت دیت کی رقم 42 لاکھ ہے۔ مگر صرف ایک ورکر ندیم کو محکمہ کی جانب سے ساڑھے 18 لاکھ دیے گئے۔ دیت کی رقم خاندان کو نہیں ملی اور ندیم مسیح کو ریگولر نہ ہونے کا بہانا بنا کر ان کے خاندان کو تاحال کوئی رقم نہیں دی گئی ہے۔‘
میری گل نے مزید بتایا کہ ’ریسکیو ٹیم نالوں میں گرنے والے بلیوں اور کتوں کو تو ریسکیو کرلیتے ہیں، مگر جب سینیٹری ورکرز نالے میں گرا تو ریسکیو ٹیم نے باہر نکالنے کی زحمت تک نہیں کی۔ ندیم مسیح کے چھ اور فیصل کے دو بچے ہیں۔ ان کے خاندان سے انصاف کیا جائے۔‘
اس سلسلے میں کمشنر سرگودھا ڈویژن ڈاکٹر فرح مسعود سے بات کرنے کے لیے ان کے دفتر ٹیلی فون کیا گیا تو آپریٹر ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا وہ ایک میٹینگ میں ہیں، آپ اپنا نمبر دی دیں میٹینگ ختم ہونے کے بعد وہ آپ سے رابطہ کریں گی۔ مگر اس خبر کے فائل ہونے تک ان کی جانب سے کوئی رابطہ نہیں کیا گیا۔
خاکروبوں کی دم گھٹنے سے ہلاکتیں، پہلا واقعہ نہیں
پاکستان میں خاکروبوں کی نالے کی صفائی کے دوران ہلاکتیں پہلی بار نہیں ہوئی ہیں۔ دسمبر 2015 میں جنوبی پنجاب کے ضلع مظفرگڑھ میں چار سینیٹری ورکرز نالے کی صفائی کے دوران ہلاک ہوگئے تھے۔
مظفرگڑھ میں کام کرنے والی غیر سرکاری تنظیم ’سول سوسائٹی ہیومین اینڈ انسٹیٹوشنل ڈویلپمنٹ‘ سے محمد عرفان نے انڈپینڈنٹ اردو کو بتایا، ’2015 میں مظفرگڑھ میں چار مسلمان سینیٹری ورکرز بشمول شوکت، عامر، عابد اور مرید عباس نالے میں دم گھٹنے سے ہلاک ہوگئے تھے۔ ان کے لواحقین کو تاحال ایک ایک لاکھ روپیے ملے ہیں جبکہ انہیں نوکری دینے والے وعدے پر اب تک کوئی عمل نہیں ہوسکا ہے۔‘
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
2017 میں سندھ کے ضلع عمرکوٹ میں نالے کی صفائی کے دوران چار سینیٹری ورکرز بے ہوش ہوگئے اور جب ان کو علاج کے لیے سول ہسپتال لایا گیا تو ڈاکٹروں نے مبینہ طور پر خاکروب کے جسم سے گندگی صاف کیے جانے تک اس کا علاج کرنے سے انکار کردیا تھا جس کے باعث 30 سالہ عرفان علاج نہ ہونے کے باعث فوت ہوگیا تھا۔
’عزت، صحت اور جان کی بازی لگا کر صفائی کا کام کرنا پڑتا ہے‘
مظفرگڑھ میں گذشتہ 25 سالوں سے سینیٹری ورکرز کی حیثیت سے کام کرنے والی 50 سالہ خاتون تسلیم مائی اپنے خاندان کے 12 افراد کی واحد کفیل ہیں۔ انھوں نے سینیٹری ورکر بننے کو اس لیے ترجیح دی کہ ان کے لیے کوئی اور کام میسر نہیں تھا۔ انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے تسلیم مائی نے بتایا: ’ہمیں صفائی کا کام کرنے کے لیے اپنی عزت، صحت اور جان کی بازی لگا کر کام کرنا پڑتا ہے مگر اس کے باجود ہمیں بنیادی سہولیات تو دور کی بات عزت تک نہیں دی جاتی۔‘
’سماج کا اہم حصہ ہونے کے باجود ہمیں حفاظتی سامان نہیں دیا جاتا۔ چھٹی بھی نہیں ہے اور اور وقت کی بھی اجرت نہیں دی جاتی۔ اس کے علاوہ کرونا وبا کے باجود کوئی میڈیکل ٹیسٹ یا کسی قسم کا کا کوئی علاج تک مہیا نہیں کیا گیا۔‘
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ادارے واٹر ایڈ پاکستان کے کنٹری ڈائریکٹر عارف جبار خان نے انڈپینڈنٹ اردو سے بات کرتے ہوئے کہا کہ سینیٹری ورکرز صفائی میں اہم کردار ادا کرتے ہیں، مگراس کے باجود ان کو ان کے کام کی وجہ سے امتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
پائیدار ترقیاتی اہداف اور پاکستان کی صورتحال
اقوام متحدہ نے 2016 سے 2030 تک پائیدار ترقیاتی اہداف یا سسٹین ایبل ڈویلپمنٹ گولز کے نام سے 17 اہداف مقرر کیے ہیں۔ جن میں پہلا ہدف غربت کا خاتمہ ہے جبکہ چھٹا ہدف پینے کا صاف پانی اور نکاسی آب و صفائی کے لیے پانی کی فراہمی اور دیگر انتظامات شامل ہیں۔ اور یہ اہداف 2030 تک مکمل کرنے ہیں۔
برطانیہ سے تعلق رکھنے والے بین الاقوامی ادارے واٹر ایڈ پاکستان کے پالیسی و ایڈووکیسی کے سربراہ نیاز ندیم نے انڈپینڈنٹ اردو سے گفتگو کرتے ہوئے کہا: ’پاکستان میں اقوام متحدہ کی جانب سے پینے کے صاف پانی اور نکاسی آب و صفائی سے متعلق رکھے گئے چھٹے ہدف پر جس رفتار سے کام ہورہا ہے، اس سے نہیں لگتا کہ کہ یہ ہدف 2030 تک مکمل ہوسکے گا۔‘
پاکستان میں بیت الخلا تک رسائی کے اعداد و شمار بتاتے ہوئے نیاز ندیم نے کہا کہ ملک میں اس وقت ایک کروڑ 60 لاکھ لوگوں کو بیت الخلا تک رسائی حاصل نہیں ہے اور وہ لوگ رفع حاجت کے لیے کھیت کھلیانوں، ریلوے لائن، خالی جگہوں یا ایسی ہی کسی جگہ کا رخ کرتے ہیں۔ ایسے جگہوں پر رفع حاجت کرنے سے خواتین کو جنسی زیادتی کا خدشہ بھی رہتا ہے۔ اس کے علاوہ بڑی تعداد میں دیہات میں قائم سرکاری سکول بیت الخلا کی سہولت سے محروم ہیں۔
’پاکستان کو چھٹے ہدف کو حاصل کرنے کے لیے اپنی کوششوں اور اس پر سرمایہ کاری کو دوگنا کرنا ہوگا۔‘