انڈونیشیا کے شہر یوگیاکارتا میں ایک مدرسہ قوت سماعت سے محروم 115 بچے اور بچیوں کو قرآن حفظ کرا رہا ہے۔
مدرسے کے بانی ابو کہفی ہیں جن کی عمر 48 سال ہے۔
انہوں نے اس کام کا آغاز 2009 میں کیا جب انہیں علم ہوا کہ سماعت سے محروم کچھ افراد ایسے بھی ہیں جنہیں اپنے خالق اور مذہب کے بارے میں کوئی معلومات نہیں۔
یہ معلوم پڑنے کے بعد ابو کہفی اس جستجو میں پڑ گئے کہ کس طرح سماعت سے محروم افراد تک مذہبی تعلیمات پہنچائی جائیں۔
انہوں نے اپنے گھر میں ایک قرآن گروپ بنا کر سماعت سے محروم بچوں کو قرآن پڑھانے کا آغاز کیا۔
خبر رساں ادارے اے ایف پی سے گفتگو میں ابو کہفی کا کہنا تھا: ’اس کا آغاز 13 سال پہلے ہوا جب مجھے علم ہوا کہ کچھ بہرے افراد کو اپنے خدا اور مذہب کے بارے میں علم ہی نہیں۔ میں نے گھر میں ایک قرآن گروپ کا آغاز کیا اور اب 13 سال بعد میں اس قابل ہوا ہوں کہ ان بچوں کے لیے یہ مدرسہ بنا سکوں۔‘
انڈونیشیا مسلم آبادی والا دنیا کا سب سے بڑا ملک ہے۔ یہاں کی وزارت مذہبی امور کے مطابق ملک بھر کے 27 ہزار مدارس میں 40 لاکھ کے قریب طلبہ مذہبی تعلیم حاصل کر رہے ہیں۔
مزید پڑھ
اس سیکشن میں متعلقہ حوالہ پوائنٹس شامل ہیں (Related Nodes field)
مدارس انڈونیشیا کے معاشرے میں کلیدی حیثیت رکھتے ہیں۔ تاہم ملک بھر میں ایسے چند ہی ادارے ہیں جو سماعت سے محروم بچوں کو دینی تعلیم دیتے ہوں۔
ابو کہفی کے مدرسے میں طلبہ آلتی پالتی مارے اپنے ہاتھ کے اشاروں سے قرآن پڑھتے ہیں۔
اس دوران صرف ان کے ہونٹوں کی جنبش سے معمولی سی آواز نکلتی ہے۔
جب ابو کہفی کسی طالب علم کو کلاس کے سامنے سبق دہرانے کے لیے بلاتے ہیں تو وہ اشاروں کی زبان میں اسے سرانجام دیتا ہے۔
کامیابی سے سبق سنانے کے بعد طلبہ ہتھیلیاں اٹھا کر اسے بچے کو داد دیتے ہیں۔
یہ ماحول اور نظارے قوت سماعت سے محروم بچوں کے لیے قابل فخر ہیں جو اب سے پہلے مذہب کے بارے میں جانتے تھے نہ ہی قرآن پڑھ سکتے تھے۔
ابو کہفی کہتے ہیں: ’یہ کام انتہائی مشکل ہے۔‘
ابو کہفی کے مدرسے میں زیر تعلیم قوت سماعت سے محروم بچوں میں سے ایک محمد رافع ہیں۔
انہوں نے اے ایف پی کو اشاروں کی زبان میں بتایا: ’میں رافع ہوں۔ میرا تعلق تانگیرنگ سے ہے۔ میں نے اس مدرسے میں پڑھنے کا ارادہ اس لیے کیا کیونکہ میں پورا قرآن حفظ کرنا چاہتا تھا۔ میں بچوں کو قرآن پڑھانا چاہتا ہوں۔‘
محمد رافع کے اشاروں کو الفاظ میں ترجمہ کرنے کی ذمہ داری ابو کہفی نے انجام دی۔
لیلیٰ ضیا الحق کی عمر 20 سال ہے اور وہ بھی اس مدرسے میں زیر تعلیم ہیں۔ اس سکول میں پڑھنا ان کے اور ان کے والدین کے لیے ایک خوشی کی بات ہے۔
لیلیٰ نے اے ایف پی کو بتایا: ’میں نے اس مدرسے میں قرآن حفظ کرنے کا فیصلہ اس لیے کیا تاکہ اگلے جہان میں جنت میں جا سکوں اور اپنے والدین کو بھی ساتھ لے جاؤں۔‘
یہاں پر بچے اسلامی قانون، حساب، سائنس اور دیگر زبانوں پر عبور بھی سیکھتے ہیں تاکہ وہ مزید تعلیم حاصل کر سکیں۔
زین العارفین کا 11 سالہ بیٹا اس مدرسے میں زیر تعلیم ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ’میرے بچے میں خود اعتمادی کی کمی تھی۔ انہیں پتہ تھا کہ وہ مختلف ہیں۔ جب سے وہ یہاں آئے ہیں تب سے وہ لوگوں سے شرماتے نہیں۔‘
زین نے کہا: ’میرے بیٹے نے مجھے بتایا کہ اسے اللہ نے ایسا بنایا ہے اور انہوں نے خود کو اسی حالت میں قبول کر لیا ہے۔‘
زیر تعلیم بچوں میں خود اعتمادی پیدا کرنا یقیناً اس مدرسے کا بڑا کام ہے۔